محسن وقار علی
محفلین
برطانیہ کی امیگرنٹ کمیونٹیز کے انڈر کارپٹ مسائل میں ایک انتہائی اہم اور دلخراش مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے بعض ولایتی بابو گوری میموں سے جی بھر جانے کے بعد تبدیلی کے لئے اپنے آبائی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور سادہ لوح لڑکیوں کے والدین کو لال رنگ کے پاسپورٹ کی چکا چوند سے اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں اور پھر ان کی بیٹیوں کو حسین مستقبل کے خواب دکھا کر ان سے اس طرح شادی رچا لیتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا نیک انسان کوئی ہے ہی نہیں۔ لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کا سنہرا مستقبل دیکھتے ہوئے انہیں انجان لوگوں کے ساتھ بیاہ تو دیتے ہیں مگر انہیں ہر وقت یہ دھڑکا بھی لگا رہتاہے کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی دھوکہ نہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ولایت سے جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس لئے بھی پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش میں جاکر لڑکیوں سے شادی کرتی ہے کہ انہیں اچھی بیوی اور ان کے والدین کو اچھی بہو کی تلاش ہوتی ہے مگر بعض اوقات یہ والدین اپنی بیٹیوں کو اوباش عناصر کے ساتھ رخصت کر دیتے ہیں جن کا مقصد محض جنسی عیاشی ہوتا ہے اور وہ ان بیویوں کو برطانیہ میں اپنا جنسی غلام بنا کر رکھ لیتے ہیں۔ تعلیم کی کمی اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ لڑکیاں نہ صرف اپنے شوہروں بلکہ سسرالی رشتہ داروں کے مظالم کا بھی شکار ہوتی ہیں۔ ان کے شوہر ان کے پاسپورٹ تک غائب کر دیتے ہیں اور ان کے دو سالہ سپاوز ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد غیر معینہ مدت کے ویزے کے لئے درخواست بھی نہیں دیتے۔ جس کی وجہ سے یہ لڑکیاں اس ملک میں غیر قانونی ہو جاتی ہیں اور ان کے شوہر ان پر جی بھر کے ظلم کرتے ہیں۔ جی بھر جانے پر بعض لڑکیوں کو شوہر دھوکے سے واپس ان کے ممالک میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا مقصد ان لڑکیوں کو برطانوی عدالتی حدودسے باہر دھکیلنا ہوتا ہے تاکہ یہ اپنے حق کے لئے قانونی جنگ کا آغاز نہ کرسکیں۔ ایسی ہزاروں عورتیں جنوبی ایشیاء اور دوسرے ممالک میں موجود ہیں جن کو ان کے شوہر برطانوی عدالتی نظام سے دور چھوڑ آتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بعض عورتیں اپنے عزم و حوصلہ اور برطانیہ کے انصاف پر مبنی نظام کی وجہ سے اپنے شوہروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اس حوالے سے کوٹلی آزادکشمیر کی نازیہ اور بھارتی صوبہ گجرات کے علاقے احمد آباد کی رضیہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان دونوں خواتین کے شوہر ان کے دو سالہ سپاوز ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں دھوکے سے ان کے والدین کے پاس چھوڑ کر آئے اور ان کے ساتھ ناطہ توڑ دیا۔ رضیہ کا شوہر اس کے تین سالہ بیٹے کوبھی اغواکر کے لے آیا جبکہ نازیہ کے ہاں برطانیہ سے جانے کے بعد بیٹی پیداہوئی جس کو اس کے شوہر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نازیہ نے برطانوی عدالتی نظام کے حدود میں نہ ہونے باوجود اپنے شوہر کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کی مگر شوہر نے اسے سپانسر کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اس کا کیس مسترد ہوگیا۔ البتہ اب ہائی کورٹ اسے اپنے شوہر کے خلاف ازسر نو کیس لڑنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ ہوم آفس نے بھی نازیہ کی مخالفت کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ نازیہ اپنی بیٹی کو اس کا مقام دلانا چاہتی ہے اور اپنا حق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ اس ملک میں بچوں اور عورتوں کے انسانی حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی رضیہ تین سال تک قانونی جنگ لڑنے کے بعد اب برطانیہ آگئی ہے اور اس کی اپنے بیٹے کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ اب بچے کی کسٹڈی کا کیس لڑ رہی ہے۔ ان دونوں عورتوں کی وجہ سے برطانیہ میں ایسی مثال قائم ہونے جارہی ہے جس سے ایسی ہزاروں عورتوں کو بھی فائدہ ہوگا جو اپنے شوہروں کی دھوکہ بازی کا شکار ہوئی ہیں۔ تاہم اس کے لئے ان ساری عورتوں کو ان دونوں کی طرح حوصلہ دکھانا ہوگا اور لڑنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ اگرچہ اس ملک میں باہر بیٹھ کر قانونی جنگ لڑنا کافی مشکل کام ہے۔ مگر یہاں کی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہوا دکھائی ضرور دیتا ہے اور اس کی بے شمار مثالیں بھی موجود ہیں۔ تاہم ان خواتین کو بہت جلد اور مفت انصاف مل جاتا ہے جو اپنے شوہروں کی شاطر دماغی کو سمجھ جاتی ہیں اور اس سے پہلے کہ شوہر ان کو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش یا کہیں اور چھوڑ آئیں وہ خود یہاں کی سوشل سروسز اور ایسے اداروں کے پاس چلی جاتی ہیں جو ان کی مدد کے لئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے پاس ایسی خواتین بھی گئی ہیں جن کو ان کے سسرال والوں اور شوہروں نے باقاعدہ غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ انہیں بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے بھی سسرال والوں کا سہرا لینا پڑتا تھا۔ ان میں سے بعض دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں ڈاکٹروں، ہیلتھ ورکرز، سوشل ورکرز یا پولیس کو بتانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مگر ایسی بھی خواتین موجود ہیں جو اس ملک میں اپنے سسرال والوں کی غلام بن کر ساری زندگی گزار دیتی ہیں۔ انہیں اپنے آبائی ممالک میں والدین سے ملنے تک کیلئے نہیں بھیجا جاتا کیونکہ ان کے ویزے کی تجدید ہی نہیں کرائی گئی ہوتی۔ بعض عورتوں کے بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں اور وہ انتہائی مشکل حالات میں رہ رہی ہیں۔ ان میں سے جتنی بھی خواتین نے اپنے شوہروں اور سسرال والوں کے خلاف آواز بلند کی انہیں انصاف ضرور ملا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور اور اسلام آباد کی ماریہ اور مونا کی سٹوریز بھی جنگ لندن میں شائع ہو چکی ہیں جنہوں نے مظالم کی انتہا ہو جانے کے بعد اپنے شوہروں کے خلاف آواز بلند کی اور اب وہ اس ملک میں باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ ماریہ (نام فرضی ہوسکتا ہے) نے جنگ کو یہ تک بتایا تھا کہ اس کا ”نیک پرہیز گار اور پارسا شوہر“ اس کو ریپ تک کیا کرتا تھا اور اسے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر دیوار کے ساتھ پٹخ دیا کرتا تھا۔ ابھی چند روز قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مجھے لندن کے ایک انتہائی باوقار ادارے میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں اگرچہ موضوع تو ”جبری شادیوں سے کیسے نمٹا جائے“ رکھا گیا تھا تاہم اس میں بھی زیادہ تر مقررین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان، بھارت، صومالیہ، بنگلہ دیش اور ایسے ہی دوسرے ممالک سے بیاہ کر لائی جانے والی لڑکیوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ سیمینار کے دوران خواتین کی امور کی ایک ماہر کنسلٹنٹ ڈاکٹر سونجی کلارک نے بتایا کہ میڈیکل سٹاف کے لئے یہ جاننا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیاء یا افریقہ سے آنے والی کون سی عورت گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہے کیونکہ اس کے ساتھ اس کے سسرالی رشتہ سائے کی طرح لگے ہوتے ہیں اور وہ ایسی عورتوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ سیمینار میں مقررین نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان اور دوسرے ممالک سے بیاہ کر لائی جانے والی لڑکیوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اس وقت برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی پہلے ہی چائلڈ سیکس گرومنگ اور بعض دوسرے کیسوں کی وجہ سے آئے روز ہیڈ لائنز میں آجاتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وطن عزیز سے بیاہ کر لائی جانے والی خواتین کے اس مسئلے پر بھی توجہ دے وگرنہ دوسرے انڈر کارپٹ مسائل کی طرح اس مسئلہ کو بھی مغربی میڈیا باہر نکالے اور اچھالے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
بہ شکریہ روزنامہ جنگ