شعیب سعید شوبی
محفلین
یہ میں نے کب کہا؟ اللہ نہ کرے! یہ حکومت تو ویسے بھی ختم ہو چکی۔ میری خواہش ہے کہ الیکشن نہ ہوں اور کوئی فوجی ووجی حکومت پر قبضہ کرے۔بالکل، اور اسی حکومت کو تاقیامت رہنا چاہیے۔
یہ میں نے کب کہا؟ اللہ نہ کرے! یہ حکومت تو ویسے بھی ختم ہو چکی۔ میری خواہش ہے کہ الیکشن نہ ہوں اور کوئی فوجی ووجی حکومت پر قبضہ کرے۔بالکل، اور اسی حکومت کو تاقیامت رہنا چاہیے۔
یہ میں نے کب کہا؟ اللہ نہ کرے! یہ حکومت تو ویسے بھی ختم ہو چکی۔ میری خواہش ہے کہ الیکشن نہ ہوں اور کوئی فوجی ووجی حکومت پر قبضہ کرے۔کیونکہ اگر الیکشن ہوئے تو یہی لوگ پھر اسمبلیوں میں بیٹھے نظر آئیں گے۔ تو پھر کس کام کی ایسی نام نہاد جمہوریت؟
ووٹ تو جناب ہم ضرور ڈالیں گے،جس کو بہتر سمجھیں گے۔ مگر جس قسم کی جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، اس سے اچھے وقت کی امید رکھنا دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کوئی بھی پارٹی عوام کے لیے مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ہماری یاداشت بہت ہی کمزور ہے۔ ابھی تو کچھ عرصہ ہی ہوا ہے کہ فوج نے 9 سال حکومت کی ہے۔ اب دوبارہ ہی انہیں بلا لیں۔ جو ان کی اپنی فیلڈ ہے، یعنی جنگ لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا، اس میں ان کی کارکردگی کتنی اچھی رہی ہے کہ ہم پورے ملک کی باگ ڈور ان کو دے دیں؟ کیا پاکستان آج 2008 کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے یا کم؟ کیا دہشت گردوں کا خاتمہ ہوگیا؟
جو ان کا کام ہے ان کو وہی کام کرنے دیں اور حکومت چلانا جن کا کام ہے وہ کام ان کو کرنے دیں۔ ابھی پہلے پانچ سال گزرے ہیں، ہمارے لئے تو یہ بہت لمبا عرصہ ہے لیکن قومون کی تاریخ میں یہ ایک ساعت سے بھی کم ہے۔ قومیں ان سے کئی برے حالات سے گزرتی ہیں لیکن پھر اچھا وقت دوبارہ آ جاتا ہے۔ ظاہری بات ہے اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اب اس وقت ہمارا کام ہے صحیح لوگوں کو ووٹ دینا، ہم اپنا کام کریں تو اچھا وقت بھی آئے گا۔
ووٹ تو جناب ہم ضرور ڈالیں گے،جس کو بہتر سمجھیں گے۔ مگر جس قسم کی جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، اس سے اچھے وقت کی امید رکھنا دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کوئی بھی پارٹی عوام کے لیے مخلص دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے اپنی غلطی مان لی۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے آپ کو بدل لیا۔ڈیڑھ سو سال پہلے امریکہ بہادر کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اس کو چھوڑیں ابھی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے کیا حالات تھے اور یورپ میں کتنی قتل و غارتگری ہوئی؟ یہ سب چیزیں ہوتی ہیں لیکن ان سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اچھے کی امید رکھنی چاہئے۔
انہوں نے اپنی غلطی مان لی۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے آپ کو بدل لیا۔
ہمارے والے جاگیردار اور وڈیرے تو غلطی ہی نہیں کرتے تو وہ کیسے سیکھیں گے۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو! مگر جن گھوڑوں (یا شاید گدھوں) کے ساتھ عمران خان الیکشن کی ریس لڑنے جارہے ہیں، وہ انھی اصطبلوں سے لائے گئے ہیں جہاں دوسری پارٹیوں کے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ان انتخابات میں عمران خان کی پارٹی بھی شامل ہے نا۔ تو کچھ تبدیلی تو ہے نا، بالکل ویسا تو نہیں ہے جیسا 2008 میں تھا۔ عمران جیتے یا نہ جیتے ہمارے ملک کی سیاست پر بڑا اثر ضرور پڑے گا۔ میں عمران کا فین نہیں ہوں لیکن اتنا معلوم ہے کہ تحریک انصاف کا الیکشن لڑنا ملک اور جمہوریت کے لئے خوش آئند ہے۔
ہمارے ہاں تو پڑھ لکھے جاگیرداروں اور وڈیروں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔اور پھر وہ لوگ مہذب اور پڑھی لکھی قومیں ہیں۔ ہماری طرح کی جاہل قوم نہیں ہیں جو ہر بار ڈس جانے کے باوجود اسی سوراخ میں ہاتھ ڈال دیتی ہے۔
ہمارے ہاں تو پڑھ لکھے جاگیرداروں اور وڈیروں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
سید صاحب یہ خواہشات تبھی پوری ہو سکتی ہیں جب عوام کو گلی محلے کی سطح پر اپنے نمائندے چننے اور ان نمائندوں کو شہری و مقامی حکومتیں چلانے کی آزادی دی جائے بصورتِ دیگر جمہوریت کے نام پر ہونے والے پانچ سالہ الیکشنی ڈراموں میں یہی وڈیرے اور جاگیردار ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے یا پھر "امپورٹڈ مال" کو ان ڈراموں کے ذریعہ ہم پر لادا جاتا رہے گا۔وڈیرے، جاگیردار، تاجر تو اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ پارلیمنٹ میں اصولاً ایسے لوگ ہونے چاہیں جو کہ consumer یا پھر خریدار اور فیکٹری ورکرز ، کسان وغیرہ کی نمائندگی کریں اور ایسے قوانین بنائیں جو بڑے بڑے تاجروں، فیکٹری مالکان اور جاگیرداروں سے خریداروں اور ورکرز کو تحفظ دے سکیں۔ یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ وہی تاجر، جاگیردار، جن سے ہمیں تحفظ ملنا چاہیے، قانون بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بہبود یعنی تعلیم، صحت وغیرہ حکومت کی تقدیم کی فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں۔
سب سے پہلا کام یہی کرنا چاہیے کہ ہم ان کو تو کم از کم ووٹ نا دیں۔ جیسے کہ بھیڑ کا نمائندہ بھیڑیا نہیں ہو سکتا، ویسے ہی مزدور اور کسان کا نمائندہ جاگیردار اور تاجر نہیں ہو سکتا۔
سید صاحب یہ خواہشات تبھی پوری ہو سکتی ہیں جب عوام کو گلی محلے کی سطح پر اپنے نمائندے چننے اور ان نمائندوں کو شہری و مقامی حکومتیں چلانے کی آزادی دی جائے بصورتِ دیگر جمہوریت کے نام پر ہونے والے پانچ سالہ الیکشنی ڈراموں میں یہی وڈیرے اور جاگیردار ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے یا پھر "امپورٹڈ مال" کو ان ڈراموں کے ذریعہ ہم پر لادا جاتا رہے گا۔
اگر کسی سیاسی جماعت نے آج تک لوکل گورنمنٹس کے لئے کام کیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مزاج جمہوری ہے ورنہ سب چور اچکے ، منافق ، جھوٹے اور دھوکہ باز ہیں۔ بڑے شوق سے کسی کے بھی ہتھے چڑھ جائیے ۔