”اردو محفل “ کے شاعرسے مکالمہ (نیاسلسلہ)

محمداحمد

لائبریرین
اردو محفل : ادب میں حلقہ بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا اس سے ادب کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟

میرے نزدیک ادب میں حلقہ بندیاں ناپسندیدہ ہی ہیں۔ حلقہ بندی از خود کوئی بُری چیز نہیں ہے بلکہ اس طرح ( حلقہ کے نام پر ہی سہی) ادبی سرگرمیاں ہوا کرتی ہیں، اور اکثر مقابلے کی فضا کی وجہ سے زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ تخلیق ادب کا کام کیا جاتا ہے ۔ لیکن اسی مقابلے کی فضا کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ آپ کا نکتہ ارتکاز بدل جاتا ہے۔ عموماً آپ عمدہ ادب کے متلاشی ہوتے ہیں لیکن کسی خاص حلقے سے جُڑنے کے بعد آپ کی پہلی ترجیح اپنا حلقہ ہوجاتی ہے اور ادب اور اُس کے معیار کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔

ایسے میں آپ کی دلچسپی صرف مسابقت کی دوڑ تک محدود ہو جاتی ہے اور جانبداری کے باعث آپ کی عمدہ ادب تک رسائی بھی محدود ہو جاتی ہے۔ رسائی محدود ہونے سے مراد یہ ہے کہ یا تو آپ صرف اپنے حلقے کے ہی ہو کے رہ جاتے ہیں یا پھر یہ کہ جانبداری کے باعث آپ کا ذہن فریقِ مخالف کی عمدہ کوشش کو بھی اُس کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتے، اور اس طرح اپنے ساتھ ہی زیادتی کر جاتے ہیں۔
اردو محفل : آپ کیا کہتے ہیں کہ کسی شاعر کے ہاں اسلوب کیسے ترتیب پاسکتا ہے ؟

ہم کچھ نہیں کہتے۔ اس سوال کے جواب کی توقع تو اساتذہ سے ہی کی جا سکتی ہے۔


اردو محفل : ہم عصر شعراءاور نوواردانِ شعر میں معیارِ شعر کا فرق ؟ یہ فرق کیسے ختم ہوسکتا ہے ؟ اچھے شعر کا معیار کیا ہے ؟

نئے آنے والوں کو بہرحال ایک خاص معیار تک پہنچنے میں وقت تو لگتا ہے۔ یہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہر نیا آنے والا کم تر معیار ہی لے کر آئے ۔ تاہم فطری اصولوں کے تحت نئے لکھنے والوں کو وہ وقت تو ملنا چاہیے جو کہنہ مشق شاعروں نے کوئلے سے کندن بننے میں لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ نوواردانِ شعر آتے رہیں اور شعر و ادب کی راہیں آباد رہیں۔ کیا خوب کہا احمد مشتاق صاحب نے:

نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں

رہی اچھے شعر کے معیار کی بات ، تو حسرت موہانی کہتے ہیں:
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

واقعی اچھا شعر تو وہی ہوتا ہے جو پہلی ملاقات پر ہی دل میں گھر کرلے۔ اب ایسے اشعار بہت سے ہوسکتے ہیں۔ کوئی ایسا شعر جس میں معنی آفرینی ہو، یا کوئی ایسا شعر جس میں ندرتِ بیان ہو، یا اثر انگیزی ہو۔ جس میں نغمگی ہو ۔ لہجے کی چاشنی ہو۔ یا پھر کوئی ایسا شعر جو ان سب یا ان میں سے کچھ صفات کا مرقع ہو۔

پھر معیار کا کوئی پیمانہ تو ہوتا نہیں ہے کہ جس سے ناپ لیا جائے۔ بس جسے معتبر حلقوں میں پسند کیا جائے وہی معیاری ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک تو معیار یہ بھی ہے کہ میر و غالب سے کم کسی کے شعر پر پسندیدگی کی مہر ہی نہ لگائی جائے (شاید ایسا کرکے وہ اپنا قد کاٹھ بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ) لیکن کیا میر و غالب کے بعد اچھا شعر کہنے والا کوئی نہیں رہا۔ ایک چھوٹا سا شعر دیکھے:

اُس نے پوچھا جناب کیسے ہو
اس خوشی کا حساب کیسے ہو

دیکھیے کتنا سادہ اور کتنا خوبصورت شعر ہے۔ یہ سعداللہ شاہ کا شعر ہے۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ شعر کی تحسین شاعر کا نام دیکھ کر ہی کی جائے۔ یا اگر کوئی شاعر آپ کو پسند نہ ہو تو آپ اُس کے اچھے شعر کو بھی اچھا نہ کہیں ۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تحسین کلام کی ہونی چاہیے نہ کہ صاحبِ کلام کی۔

اردو محفل : مملکت ِ ادب میں چلن عام ہے کہ لکھنے والے بالخصوص نئی نسل اپنے کام کو ” ادب کی خدمت“ کے منصب پر فائز دیکھتی ہے ۔۔ کیا ایسا دعویٰ قبل از وقت نہیں ؟


اگر اس طرح کا کوئی دعویٰ ہے تو یقیناً قبل از وقت ہی ہے۔ لیکن اس دور میں جب بقول کسی کے ادب رو بہ زوال ہے ایسے میں تو کسی اچھے شعر کی ترسیل میں فریق بن جانا ہی ادب کی خدمت ہے۔ کچھ کر لینے والوں کا اترانا اتنا نامناسب بھی نہیں ہے۔ :)


اردو محفل : ادب کی حقیقی معنوں میں خدمت کیا ہے ؟

شاید میں اس سوال کے بھرپور جواب کا اہل نہیں ہوں تب بھی اپنے طور پر عرض کروں کہ :

۱۔ اس زبان کے فروغ کے لئے کام کیا جائے جو ادب کی زبان ہے ۔
۲۔ ادبی موضوعات پر مواد کی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک فراہمی کی کوشش کی جائے۔
۳۔ ادبی گفتگو اور مباحثوں کا اہتمام کیا جائے یا کم از کم اُس کا حصہ بنا جائے۔
۴۔ مطالعے کی کثرت سے خود میں ادبی ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
۵۔ اور اگر توفیق ہو تو ادب کی تخلیق کی کوشش کی جائے۔

اردو محفل : نظم کی بات الگ مگراسالیب ِ غزل میں”لسانیاتی تداخل“ کے نام پرعلاقائی بولیوں، زبانوں بالعموم و بالخصوص انگریزی زبان کے الفاظ زبردستی ٹھونسے جارہے ہیں، کیا غزل اس کی متحمل ہوسکتی ہے؟

میرے نزدیک غزل میں اس قسم کے تجربات کرنا غزل کے ساتھ دشمنی روا رکھنے کے مترادف ہے۔

(چند سوالات اب بھی باقی ہیں۔ انشاءاللہ ایک آدھ دن میں جان چھوڑ دوں گا۔ :) )
 

محمداحمد

لائبریرین
اردو محفل : لسانیاتی تشکیل اور اس کے عوامل کے جواز کے طور پر تہذیب و ثقافت سے یکسر متضاد نظریات کے حامل بدیسی ادیبوں کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں ۔۔ کیا زبانِ اردو اوراصنافِ ادب مزید کسی لسانیاتی تمسخر کی متحمل ہوسکتی ہیں ؟؟

اس سوال کا جواب تو ظاہر ہے کہ نفی میں ہی ہو سکتا ہے۔ یقیناً اس قدر متضاد تہذیب و ثقافت کے باوصف مشرق و مغرب کا تقابل کوئی خاص سود مند ثابت نہیں ہو سکتا لیکن ہم چونکہ ہر ہر میدان میں مغرب سے مرعوب ہیں اور وہ زیادہ تر معاملات میں ہم سے بہت آگے ہیں اس لئے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کا اور اپنا تقابلی جائزہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اگر اس طرح کے تجزیے عوام میں پیش کردیے جائیں جو پہلے ہی مغرب سے مرعوب ہے تو اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

ہاں البتہ آج جب کہ دنیا سمٹ گئی ہے اور فاصلے جدید ٹیکنالوجی کے باعث غیر اہم ہو گئے ہیں ایسے میں عالمگیریت کی طرف دیکھنے والے لوگ اپنی زبان و ثقافت کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی عالمگیر ادبی تحریک سے جڑنا چاہیں تو اُس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اردو محفل : پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے پورے ملک بالخصوص دبستانِ لاہور سے پنجاب بھر میں رمزیات سے قطعِ نظر اسالیبِ غزل میں مذہبی علامتوں تشبیہات کا دخول نظر آتا ہے ۔۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ دیکھا جائے تو غزل میں حمد و نعت، سلام، مناقب کے اشعار کا رجحان تیزی سے ترتیب پا رہا ہے کیا ایسا کرنے سے خود غزل اور دیگر اصناف کی حیثیت مجروح نہیں ہوتی ؟

پاکستان میں چونکہ اکثریت مسلمان شعرا کی ہے تو مذہبی علامتوں اور تشبیہات کا اظہار میں آجانا تو فطری سی بات ہے اور اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم غزل میں حمد و نعت سلام وغیرہ کے اشعار کا در آنا غزل کے تشخص کو متاثر کرنے والی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ بالفرض اگر کوئی شعر کسی اور صنف کا غزل میں آبھی جائے تو اسے الگ کرکے متعلقہ صنف میں کوشش کی جا سکتی ہے۔

اردو محفل : محدود مشاہدے کے مطابق ۰۸ کی دہائی کی نسل اور نسل ِ نوکے ہاں عام طور پر اسے تصوف کی شاعری پر محمول کیا اور جتایا جاتا ہے اسالیبِ شعری میں تصوف اور عرفیت کا غلغلہ چہ معنی دارد ؟

میرے نزدیک تصوف بھی شاعری کے دیگر موضوعات کی طرح بس ایک موضوع ہی ہے ۔ اس کے لئے الگ سے اصنافِ شعری اگر کوئی ہیں بھی تو میرے علم میں نہیں ہے۔

اردو محفل : کیا مجازکی راہ سے گزرے بغیریہ نعرہ درست ہے؟ کیا محض تراکیب وضع کرنے اور مضمون باندھنے سے تصوف در آتا ہے ؟ اور کیا ایسا ہونا لاشعوری طور پر زمیں سےرشتہ توڑنے کا اشاریہ نہیں ؟

ان سوالات کا جواب تو کوئی صوفی شاعر ہی دے سکتا ہے ۔ ہم تو ابھی تک فسانہء گل و بلبل کی گردان تک ہی محدود ہیں۔ :)

اردو محفل : تقسیمِ ہند کے بعداردو ادب میں مختلف تحاریک کا ورود ہوا،اس سے کلاسیکیت کے نام بوسیدگی کو ادب گرداننے جیسے نظریات کو خاصی حد تک کم کیا گیا۔ مگر بعد ازاں اخلاق، سماج ،ثقافت اور روایت سے باغی میلانات نرسل کی طرح اگنے لگے اور بے سروپا تخلیقات انبار لگ گئے ۔۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجود دور میں ادب کومزیدکسی تحریک کی ضرورت ہے ۔۔ ؟؟

ادبی تحاریک کی ضرورت تو ہمیشہ ہی رہتی ہے کہ ادبی تحریک کچھ نہ کچھ کر گزرنے پر اکساتی ہے اور جہاں جہاں تبدیلی کی ضرورت ہو تبدیلی لانے کا کام بھی کرتی ہے۔ رہی بات بے سروپا تخلیقات کے انبار کی بات تو اب اس بات کا رجحان اور بھی بڑھ گیا ہے کہ اب انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ خود ہی تخلیق کار، خودی ہی تنقید نگار اور خود ہی ناشر ہو گئے ہیں۔ معیار کا تعین اور جانچ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بنائیے اپنا بلاگ اور لگائیے ڈھیر کے ڈھیر۔

لیکن اچھے لکھنے والے زود گوئی کے نقصانات سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنی تخلیقات کو بے توقیر ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ افتخار عارف کا شعر دیکھیے:

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں مصرعے نغمے گیت
ایسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

اردو محفل : نئے لکھنے والوں کے لیے فرمائیے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کن باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے ؟؟

یہ بات تو ہم اوپر بھی لکھ چکے ہیں یہاں بھی دہرا دیں کہ نئے لکھنے والوں کو لکھنے سے زیادہ پڑھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بقول جناب وحیدالدین خان انسان کو اُس وقت تک نہ لکھنا چاہیے جب تک کہ اُس کا رواں رواں لکھنے کے لئے بے قرار نہ ہو جائے۔ ساتھ ساتھ نئے شعرا کے لئے میں ایک دو باتیں ضرور کہوں گا کہ:

۱۔ جب بھی لکھیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ جو خیال وہ لکھ رہے ہیں وہ نیا ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی پہلے سے کہے ہوئے مضمون کو تو نہیں دہرا رہے ۔اگر ہاں تو ایسے خیال کو ترک کردینا چاہیے یا کم از کم اس بات کو ایک بالکل نئے انداز میں کہنے کی کوشش کی جائےتو پھر بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس سب کے تعین کے لئے کسی حد تک وسیع مطالعہ بہر کیف ضروری ہے۔

۲۔ اگر کچھ وہ کوئی نیا خیال باندھ رہے ہیں تو پھر اندازِ بیاں بہت اہم ہے کہ عام سی بات بھی خاص انداز میں کی جائے تو دلکش ہو جاتی ہے۔
۳۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پڑھنا سب کو چاہیے لیکن کسی کا انداز دانستہ طور پر اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ بات کو اپنے مزاج کے حساب سے اپنے انداز میں کہنا چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جو کل آپ کو دوسروں سے ممتاز کرے گی۔

آخر میں احباب کی توجہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ساتھ ساتھ وقت کی کمی کے باعث جوابات میں جو تاخیر ہوئی اُس کے لیے معذرت خواہ بھی ہوں۔
 
ماشائ اللہ جوابات میں کافی گہرائی اور گیرائی رہی ۔انداز بیان بھی اچھوتا اور عاجزی سے لبریز ۔اسی کو کہتے ہیں نا استاذفن۔
:)
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
دعاگو ہوں کہ:اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے۔
 
اس سوال کا جواب تو ظاہر ہے کہ نفی میں ہی ہو سکتا ہے۔ یقیناً اس قدر متضاد تہذیب و ثقافت کے باوصف مشرق و مغرب کا تقابل کوئی خاص سود مند ثابت نہیں ہو سکتا لیکن ہم چونکہ ہر ہر میدان میں مغرب سے مرعوب ہیں اور وہ زیادہ تر معاملات میں ہم سے بہت آگے ہیں اس لئے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کا اور اپنا تقابلی جائزہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اگر اس طرح کے تجزیے عوام میں پیش کردیے جائیں جو پہلے ہی مغرب سے مرعوب ہے تو اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔​

ہاں البتہ آج جب کہ دنیا سمٹ گئی ہے اور فاصلے جدید ٹیکنالوجی کے باعث غیر اہم ہو گئے ہیں ایسے میں عالمگیریت کی طرف دیکھنے والے لوگ اپنی زبان و ثقافت کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی عالمگیر ادبی تحریک سے جڑنا چاہیں تو اُس میں کوئی حرج نہیں ہے۔​

لاجواب! جناب محمداحمد صاحب۔
 
۱۔ جب بھی لکھیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ جو خیال وہ لکھ رہے ہیں وہ نیا ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی پہلے سے کہے ہوئے مضمون کو تو نہیں دہرا رہے ۔اگر ہاں تو ایسے خیال کو ترک کردینا چاہیے یا کم از کم اس بات کو ایک بالکل نئے انداز میں کہنے کی کوشش کی جائےتو پھر بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس سب کے تعین کے لئے کسی حد تک وسیع مطالعہ بہر کیف ضروری ہے۔​

۲۔ اگر کچھ وہ کوئی نیا خیال باندھ رہے ہیں تو پھر اندازِ بیاں بہت اہم ہے کہ عام سی بات بھی خاص انداز میں کی جائے تو دلکش ہو جاتی ہے۔​
۳۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پڑھنا سب کو چاہیے لیکن کسی کا انداز دانستہ طور پر اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ بات کو اپنے مزاج کے حساب سے اپنے انداز میں کہنا چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جو کل آپ کو دوسروں سے ممتاز کرے گی۔​

تائید، جناب محمداحمد صاحب۔
 
واقعی خلیل بھائی۔۔۔ ! محترم آسی صاحب جب جب محفل میں قلم رنجہ فرماتے ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے اور پڑھنے والے پڑھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اتنی عمدہ گفتگو کہ بعد ہم ایسوں کو تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس کے بعد کیا کہنا ہے۔ یعنی گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل۔ :)
یہ اختراع تو کمال لطف دے گئی جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
واقعی وہ جو کہتے ہیں نا، کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے، آسی بھائی نے اسے سچ کردکھایا۔ محمداحمد بھائی نہ صرف بہترین پروگرامر ہیں، خوبصورت شاعر ہیں بلکہ بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر کی تعریف محمد یعقوب آسی بھائی جیسے خوبصورت شاعر ہی کو زیبا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشائ اللہ جوابات میں کافی گہرائی اور گیرائی رہی ۔انداز بیان بھی اچھوتا اور عاجزی سے لبریز ۔اسی کو کہتے ہیں نا استاذفن۔
:)
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
دعاگو ہوں کہ:اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے۔

بھیا آپ کی محبت ہے ورنہ میں کسی قابل نہیں ہوں۔

دعا کے لئے شکر گزار ہوں۔

خوش رہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واقعی وہ جو کہتے ہیں نا، کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے، آسی بھائی نے اسے سچ کردکھایا۔ محمداحمد بھائی نہ صرف بہترین پروگرامر ہیں، خوبصورت شاعر ہیں بلکہ بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر کی تعریف محمد یعقوب آسی بھائی جیسے خوبصورت شاعر ہی کو زیبا ہے۔
شکریہ جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
جناب محمداحمد کی نثر تو خوب صورت ہے ہی! دریں چہ شک؟ ان کی باتیں مجھے ’’سولہ آنے سچ‘‘ لگیں۔

محترم محمد خلیل الرحمٰن بھائی اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب،

آپ دونوں کی محبت کا مقروض ہوں۔ یہ بات میرے لئے باعثِ اعزاز ہے کہ آپ سے اتنی محبت ملی۔

آپ کی دعاؤں کا طلبگار ہوں۔
 

مغزل

محفلین
اب کس کی باری ہے، جنابِ مغزل!
میرے خیال میں اب نایاب صاحب کو زحمت دی جائے کہ محفل میں صرف شعراء کی تخصیص بھی ہٹ جائے گی اور ادب سے محبت رکھنے والے احباب کی رائے بھی بہم ہوسکے گی ۔ کیا کہتے ہیں آپ ؟ یا پھر جیسا آپ سمجھیں میں آپ کی رضا پر راضی ہوں۔:angel:
 
میرے خیال میں اب نایاب صاحب کو زحمت دی جائے کہ محفل میں صرف شعراء کی تخصیص بھی ہٹ جائے گی اور ادب سے محبت رکھنے والے احباب کی رائے بھی بہم ہوسکے گی ۔ کیا کہتے ہیں آپ ؟ یا پھر جیسا آپ سمجھیں میں آپ کی رضا پر راضی ہوں۔:angel:

مناسب ہے جناب مغزل ۔
اور اگر نایاب شاعر نہیں ہیں تو سوالات میں بھی ترمیم کرنی ہو گی۔
 

مغزل

محفلین
مناسب ہے جناب مغزل ۔
اور اگر نایاب شاعر نہیں ہیں تو سوالات میں بھی ترمیم کرنی ہو گی۔
نہیں میرے خیال میں نہیں کیوں کہ جو سوالات براہِ راست مطابقت نہیں رکھتے اسے ہمارے محترم خود نظر انداز کرسکتے ہیں یا محض ایک قاری کی حیثیت سے تجرباتی مشاہداتی تجزیہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے نایاب صاحب راضی نہیں ہوتے تو ۔ ہم نئے لکھنے والے دوستوں میں چاہے مزاح نگار ہی کیوں نہ ہو زحمت دے سکتے ہیں۔
 
نہیں میرے خیال میں نہیں کیوں کہ جو سوالات براہِ راست مطابقت نہیں رکھتے اسے ہمارے محترم خود نظر انداز کرسکتے ہیں یا محض ایک قاری کی حیثیت سے تجرباتی مشاہداتی تجزیہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔​
متفق! بلکہ نایاب صاحب اگر مناسب سمجھیں تو اپنے طور پر کوئی نیا نکتہ اٹھا لیں۔ میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔

اگر کسی وجہ سے نایاب صاحب راضی نہیں ہوتے تو ۔ ہم نئے لکھنے والے دوستوں میں چاہے مزاح نگار ہی کیوں نہ ہو زحمت دے سکتے ہیں۔​
ان کے راضی نہ ہونے کی کوئی ظاہری وجہ تو نہیں ہے!۔ تاہم اگر ایسا ہو ہی جاتا ہے تو حسبِ موقع جیسے مناسب ہو۔

بہت آداب۔
 
Top