شاعری میں عمل تسبیغ

زلفی شاہ

لائبریرین
اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ راہنمائی فرمائیں۔ عمل تسبیغ کیا ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔ مہربانی ہوگی۔
 
تَسْبِیغ {تَس + بِیغ} (عربی)
اسم نکرہ
معانی
1. (لغوی معنی) تمام کرنا، (عروض) ایک زحاف کا نام، یعنی ایک سبب خفیف کے بیچ میں جو آخررکن میں واقع ہو الف زیادہ کرنا پس مفاعیلن سے مفاعیلان ہو گیا، یہ زخاف اپنے اصلی رکن کے ہموزن گنا جاتا ہے اور ہمیشہمصرع کے آخر میں آتا ہے۔
یہاں دیکھیں
شرکائے فورم کی زبانی
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اتنا موٹا لفظ؟ آج پہلی مرتبہ سنا۔
فرہنگ عمید میں یوں لکھا ہے: تسبیغ یا اسباغ: زیادہ کردن الف است در سببِ خفیف چنانکہ در فعولن فعولان و در فاعلاتن فاعلاتان شود، و آنرا "مسبغ" گویند۔
"المنجد" میں دیکھا تو لکھا ہے: عند اہل العروض: زیادۃ حرف ساکن علی آخر فاعلاتن الواقع فی ضرب مجزوء الرمل فیصیر فاعلاتان۔

باقی مجھے عروض کی الف بے بھی نہیں آتی، جو تشریح کروں۔ امید ہے عروضی صاحبان روشنی ڈالیں گے یا پھر آپ خود ہی اپنے گذشتہ علم کے مطابق کوئی نتیجہ اخذ کر لیں۔ تعریف تو ہو گئی!
 

دوست

محفلین
المنجد اور فرہنگ عمید کی بات کی تھی۔ مجھے پرانی کتابیں یاد آ گئیں وہاں فارسی کی عبارت نقل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے قاری کو فارسی آتی ہے۔تب آتی ہو گی اب کہاں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
المنجد اور فرہنگ عمید کی بات کی تھی۔ مجھے پرانی کتابیں یاد آ گئیں وہاں فارسی کی عبارت نقل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے قاری کو فارسی آتی ہے۔تب آتی ہو گی اب کہاں۔
ترجمہ وہ کرے جسے کچھ عروض آتا ہو۔ میں نے تو آسانی کے حوالہ دے دیا۔ وہی بات اردو میں اسامہ سرسری نے بیان کر دی۔ اب عروضی جانیں، باقی کا کھیل!
 
محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو ‘فالو’ کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام ‘بحرِ مُتَدارِک’ ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں ‘مفاعیلن’ چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن ‘فاعِلُن’ ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو ‘تسبیغ’ کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ ‘مقطع’ بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا – 212 – فاعلن
جا نِ رح – 212- فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف ‘کو’ لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز – 212 – فاعلن
مے ہِ دا – 212 – فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر ‘مے’ یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا – 212 – فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم – 212 – فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا – 212 – فاعلن
رے حَ رَم – 212 – فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا – 212 – فاعلن
رے شِ فا – 212 – فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع – 212 – فاعلن
بہ جُ کی – 212 – فاعلن
ان بَ ؤ – 212 – فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا – 212 – فاعلن
فَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن – 212 – فاعلن
جس کِ ہر – 212 – فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح – 212 – فاعلن
یے خُ دا – 212 – فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے – 212 – فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک – 212 – فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با – 212 – فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب – 212 – فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے – 212 – فاعلن
اُس کِ نا – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو – 212 – فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار – 212 – فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا – 212 – فاعلن
اس شِ کم – 212 – فاعلن
کی قَ نا – 212 – فاعلن
عَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ – 212 – فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را – 212 – فاعلن
طی یَ بہ – 212 – فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ – 212 – فاعلن
جا نِ اح – 212 – فاعلن
مد کِ را – 212 – فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
مضمون --- محمد وارث
حوالہ
http://nawaiadab.com/ایک-نعت-کے-کچھ-اشعار-اور-انکی-تقطیع/
 

زلفی شاہ

لائبریرین
محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو ‘فالو’ کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام ‘بحرِ مُتَدارِک’ ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں ‘مفاعیلن’ چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن ‘فاعِلُن’ ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو ‘تسبیغ’ کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ ‘مقطع’ بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
کُل جَ ہا – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
آپ کے اسباق پڑھنے کے بعد الحمدللہ ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ جواب دے سکیں۔
یہاں شاعر کو ہجائے بلند کی ضرورت تھی اگر جہان استعمال ہوتا تو وزن بگڑ جانا تھا۔ یہاں جہاں کا استعمال اس لئے ہوا کہ نون غنہ تقطیع میں شمار نہیں ہوتا۔
مل ک ار – 212 – فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
کی کے ی کو گرا کر عمل اخفا پر عمل کیا گیا شعر کے وزن کو پورا کرنے کے لئے۔
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
مضمون --- محمد وارث
حوالہ
http://nawaiadab.com/ایک-نعت-کے-کچھ-اشعار-اور-انکی-تقطیع/
کیا شعر کے ایک مصرعے میں عمل تسبیغ جائز ہے؟
شاہ صاحب ! بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اتنی تفصیل سے وضاحت فرما دی۔
 

شوکت پرویز

محفلین
کیا شعر کے ایک مصرعے میں عمل تسبیغ جائز ہے؟
زلفی شاہ صاحب!
بے شک۔ کچھ مثالیں دیکھیں!

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
(میر تقی میر)

عاشقی صبر طلب اور تمنّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک
(غالب)

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
(غالب)

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
(غالب)

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں
(غالب)

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں
(میر تقی میر)
سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے
(غالب)

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچہ کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
(میر تقی میر)

اتنی زیادہ مثالیں دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل میری خواہش تھی کہ مختلف بحروں کی مثالیں پیش کروں۔ تو جتنی یاد آئیں، پیش کر دیں۔
یہ تمام مختلف بحریں ہیں۔
 
اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ راہنمائی فرمائیں۔ عمل تسبیغ کیا ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔ مہربانی ہوگی۔

لفظ"تسبیغ" کے لغوی معنی پر بات ہو چکی ہے (جس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں)۔ البتہ اصطلاحی معنی پر جو بات ہوئی ہے وہ اپنی جگہ ہے۔ چونکہ شوکت صاحب نے مثالیں پیش فرمادی ہیں تو مجھ سے آئے بنا نہیں رہا گیا۔ :p میں ایک وضاحت کرنا چاہونگا:
تسبیغ در اصل عروض میں ایک "علت" کا نام ہے۔ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی سالم بحر کے آخری رکن یعنی "عروض" یا "ضرب" کے آخر میں اگر سبب خفیف (دو حرفی) ہو اس کے بعد ایک ساکن حرف کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
یاد رکھنے کی شرائط:
1۔ بحر اور ارکان سالم ہوں
2۔ آخری رکن سبب خفیف پر ختم ہوتا ہو۔ (وتد مجموع پر نہیں)
3۔ تسبیغ صرف آخری رکن پر کار آمد ہے، یا پھر مقطع بحور جو مثمن ہوں ان میں ہر دوسرا رکن تسبیغ کو ہضم کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر بحرِ ہزج سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

مفاعیلن کے آخر میں "لن: سبب خفیف ہے۔ اس میں ایک ساکن حرف کا آخر میں اضافہ کرکے "لان" بنایا جا سکتاہے۔

نوٹ: مزاحف بحور میں تسبیغ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسی بحر جس کا آخری رکن سبب خفیف پر نہیں ختم ہوتا ان میں بھی تسبیغ کا عمل نہیں ہو سکتا، جیسے "مستفعلن" مجموع میں
آخر جز "علن" وتد ہے۔ اس لئے اس میں تسبیغ کا کردار کوئی نہیں۔ :)
 

شوکت پرویز

محفلین
اسی طرح ایسی بحر جس کا آخری رکن سبب خفیف پر نہیں ختم ہوتا ان میں بھی تسبیغ کا عمل نہیں ہو سکتا، جیسے "مستفعلن" مجموع میں آخر جز "علن" وتد ہے۔ اس لئے اس میں تسبیغ کا کردار کوئی نہیں۔ :)

جناب مزمل شیخ بسمل!
"متفاعلن" میں بھی "مستفعلن" کی طرح آخر میں "علن" ہے تو اس میں بھی تسبیغ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے یا اس کا کوئی الگ اصول ہے۔ کیوں کہ آپ نے پچھلے کسی دھاگہ میں اس کی اجازت بتائی ہے۔ رہنمائی کیجئے کہ میں ذرا تذبذب کا شکار ہو گیا ہوں۔۔ :confused:
یہ تصرف از روئے عروض جائز ہے۔
اس بحر کا وزن :
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

اس میں ہم دو جگہ متفا علان کر سکتے ہیں۔
ایک تو دوسرا رکن اور ایک چوتھا رکن یعنی
متفاعلن متفاعلان، متفاعلن متفاعلان۔ :)
 
جناب مزمل شیخ بسمل!
"متفاعلن" میں بھی "مستفعلن" کی طرح آخر میں "علن" ہے تو اس میں بھی تسبیغ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے یا اس کا کوئی الگ اصول ہے۔ کیوں کہ آپ نے پچھلے کسی دھاگہ میں اس کی اجازت بتائی ہے۔ رہنمائی کیجئے کہ میں ذرا تذبذب کا شکار ہو گیا ہوں۔۔ :confused:

جی یہ ایک اور علت جسے عروض میں "اذالہ" کہا جاتا ہے وتدِ مجموع سے مخصوص ہے۔ تسبیغ سبب خفیف سے مخصوص ہے۔ اسی لئے جب سبب خفیف میں یہ اضافہ ہوگا تو اسے مُسَبِّغ کہا جائے گا۔ اور وتدِ مجموع میں یہ کام "مذال" کہلاتا ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
جی یہ ایک اور علت جسے عروض میں "اذالہ" کہا جاتا ہے وتدِ مجموع سے مخصوص ہے۔ تسبیغ سبب خفیف سے مخصوص ہے۔ اسی لئے جب سبب خفیف میں یہ اضافہ ہوگا تو اسے مُسَبِّغ کہا جائے گا۔ اور وتدِ مجموع میں یہ کام "مذال" کہلاتا ہے۔
تو کیا مستفعلن کے آخر میں بھی ایک حرف کا اضافہ کیا جا سکتا ہے (مستفعلان)؟؟
چاہے جو کچھ اس کی اصطلاح ہو؟؟
 
Top