اسے دیکھنا تو نصیب تھا ۔۔۔ برائے اصلاح و تبصرہ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسے دیکھنا تو نصیب تھا، اسے چاہنا تو نصیب تھا
اسے چاہ کر بھی نہ پا سکے، یہ نصیب کتنا عجیب تھا
تھے عجیب عجیب سے مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں، نہ فاصلے
نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا
وہ مَرَض کا کچھ بھی نہ کرسکے، سوئے راہِ شہر ِعدم چلے
کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض تھا، نہ طبیب تھا
یہ نہیں کہ سینے میں دل نہ تھا کہ وہ روشنی ہی نہ پاسکا
وہ تو تیرگی کا شکار تھا، مرے سامنے جو ادیب تھا
مرے دوستوں کو پسند تھیں مری، صرف میری تباہیاں
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا
الف عین صاحب
محمد وارث صاحب​
اسد قریشی صاحب​
فاتح صاحب​
 

الف عین

لائبریرین
اسے دیکھنا تو نصیب تھا، اسے چاہنا تو نصیب تھا
اسے چاہ کر بھی نہ پا سکے، یہ نصیب کتنا عجیب تھا
÷÷درست
تھے عجیب عجیب سے مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں، نہ فاصلے
نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا
÷پہلے مصرع میں دوسرے عجیب کی ع کا الف کی طرح وصل کر دیا گیا ہے، جو غلط ہے÷
وہ مَرَض کا کچھ بھی نہ کرسکے، سوئے راہِ شہر ِ ِ عدم چلے
کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض تھا، نہ طبیب تھا
÷÷سوئے راہ؟؟؟ دونوں میں سے ایک لفظ استعمال کیا جائے۔
یہ نہیں کہ سینے میں دل نہ تھا کہ وہ روشنی ہی نہ پاسکا
وہ تو تیرگی کا شکار تھا، مرے سامنے جو ادیب تھا
÷÷واضح نہیں
مرے دوستوں کو پسند تھیں مری، صرف میری تباہیاں
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا
÷÷دونوں مصرعوں میں ربط؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تھے عجیب ہی سے وہ مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں نہ فاصلے
نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا

وہ مَرَض کا کچھ بھی نہ کرسکے، کہ وہ سوئے شہر ِ ِ عدم چلے
کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض تھا، نہ طبیب تھا


باقی دو اشعار بعد میں دیکھتا ہوں۔۔۔ لیکن جو تبدیلی اب تک ہوئی، کیا وہ درست ہے استاد محترم الف عین صاحب۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ نہیں کہ سینے میں دل نہ تھا، نہ وہ ذہن ہی سے تہی ملا
وہ تو تیرگی کا شکار تھا، مرے سامنے جو ادیب تھا​

مرے دشمنوں کو خبر نہ تھی، مرے دوستوں کو خوشی ہوئی
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا​

ایک اور شعر ہے، جو مجھے دو لخت لگ رہا ہے:​
ہوئی بات کیا جسے جانیے، کسےچھوڑئیے، کسے مانیے​
وہ تھا اجنبی مرے سامنے، نہ حبیب تھا، نہ رقیب تھا​

یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے:
اسے کس قصور کی دوں سزا؟ کہ وہ ساتھ ساتھ چلا مرے​
جو تھا اجنبی مرے سامنے، نہ حبیب تھا، نہ رقیب تھا​

اب آگے جو آپ کی رائے ہو، اس کے مطابق چلیں گے۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
میرا مشورہ:

تھے بہت عجیب وہ مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں نہ فاصلے
نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا

وہی سوئے شہر ِ ِ عدم چلے، جو علاج کرنے کے اہل تھے
کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض تھا، نہ طبیب تھا

اسے کس قصور کی دوں سزا؟ کہ وہ ساتھ ساتھ مرے چلا
جو تھا اجنبی مرے سامنے، نہ حبیب تھا، نہ رقیب تھا

یہ نہیں کہ دل ہی نہ اس کا تھا، نہ وہ ذہن ہی سے تہی ملا
وہ تو تیرگی کا شکار تھا، مرے سامنے جو ادیب تھا
حالانکہ یہ کوئی بہت اچھا شعر نہیں۔

مرے دشمنوں کو خبر نہ تھی، مرے دوستوں کو خوشی ہوئی
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا
درست۔ تخلص کی نشست اگرچہ صحیح جگہ نہیں لگ رہی ہے روانی کے حساب سے، لیکن کہیں اور شاید آ ہی نہیں سکتا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسے دیکھنا تو نصیب تھا، اسے چاہنا تو نصیب تھا
اسے چاہ کر بھی نہ پاسکے، یہ نصیب کتنا عجیب تھا

تھے بہت عجیب وہ مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں نہ فاصلے
نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا

وہی سوئے شہر ِ ِ عدم چلے، جو علاج کرنے کے اہل تھے
کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض تھا، نہ طبیب تھا

اسے کس قصور کی دوں سزا؟ کہ وہ ساتھ ساتھ مرے چلا
جو تھا اجنبی مرے سامنے، نہ حبیب تھا، نہ رقیب تھا

مرے دشمنوں کو خبر نہ تھی، مرے دوستوں کو خوشی ہوئی
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا

غزل کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ اشعار کی تعداد طاق ہونی چاہئے۔۔۔ لہٰذا ادیب والے شعر کو خارج کردینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غزل کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ اشعار کی تعداد طاق ہونی چاہئے۔۔۔ لہٰذا ادیب والے شعر کو خارج کردینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔
لیکن احمد فراز کی مشہورِ زمانہ غزل رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے میں تو 6 اشعار ہیں۔ کئی شعراء کی غزلوں میں جفت اشعار بھی ہیں۔
 
مرے دشمنوں کو خبر نہ تھی، مرے دوستوں کو خوشی ہوئی
مرا شہنوازؔ جو گھر جلا، وہ سماں عجیب و غریب تھا
درست۔ تخلص کی نشست اگرچہ صحیح جگہ نہیں لگ رہی ہے روانی کے حساب سے، لیکن کہیں اور شاید آ ہی نہیں سکتا۔

ایک مشورہ اگر پسند آئے تو:

مرا گھر جو جل گیا شہنواز، وہ سماں عجیب و غریب تھا۔

غزل کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ اشعار کی تعداد طاق ہونی چاہئے۔۔۔ لہٰذا ادیب والے شعر کو خارج کردینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔

نہ تو واجب نہ مستحسن۔ کوئی چھ اشعار کی کوئی پانچ اشعار کی، کوئی آٹھ کی تو کوئی سات اشعار کی غزل کہتا ہے۔
کم از کم پانچ اشعار ہونا ضروری ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک مشورہ اگر پسند آئے تو:

مرا گھر جو جل گیا شہنواز، وہ سماں عجیب و غریب تھا۔



نہ تو واجب نہ مستحسن۔ کوئی چھ اشعار کی کوئی پانچ اشعار کی، کوئی آٹھ کی تو کوئی سات اشعار کی غزل کہتا ہے۔
کم از کم پانچ اشعار ہونا ضروری ہیں۔
تو پھر ہم نے کم از کم کی شرط پوری کی ہے، ویسے ہمارے خیال میں تو کم سے کم تین شعر کی غزل ہوا کرتی ہے۔۔۔ شاید کہیں پڑھا تھا، کہاں؟ یاد نہیں۔۔۔
جو صورت آپ نے تجویز فرمائی ہے، یہ پہلے میرے ذہن میں آئی تھی، لیکن شہنواز جو کھنچ رہا ہے، یہ صورت میں سمجھا کہ شاید تقطیع کے حساب سے بے وزن ہوجاتی ہو، اس لیے نہیں لی۔لیکن آپ فرما رہے ہیں تو بے وزن نہیں ہوگی یقیناً۔۔ لیکن روانی کو ایک سکتہ سا لگ جاتا ہے، اکثر مجھ جیسے جاہل تو اسے وزن سے گرنا ہی قرار دیں گے۔۔۔
 
تو پھر ہم نے کم از کم کی شرط پوری کی ہے، ویسے ہمارے خیال میں تو کم سے کم تین شعر کی غزل ہوا کرتی ہے۔۔۔ شاید کہیں پڑھا تھا، کہاں؟ یاد نہیں۔۔۔
جو صورت آپ نے تجویز فرمائی ہے، یہ پہلے میرے ذہن میں آئی تھی، لیکن شہنواز جو کھنچ رہا ہے، یہ صورت میں سمجھا کہ شاید تقطیع کے حساب سے بے وزن ہوجاتی ہو، اس لیے نہیں لی۔لیکن آپ فرما رہے ہیں تو بے وزن نہیں ہوگی یقیناً۔۔ لیکن روانی کو ایک سکتہ سا لگ جاتا ہے، اکثر مجھ جیسے جاہل تو اسے وزن سے گرنا ہی قرار دیں گے۔۔۔

یہ تصرف از روئے عروض جائز ہے۔
اس بحر کا وزن :
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

اس میں ہم دو جگہ متفا علان کر سکتے ہیں۔
ایک تو دوسرا رکن اور ایک چوتھا رکن یعنی
متفاعلن متفاعلان، متفاعلن متفاعلان۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یقیناً یہ تصرف جائز ہے کیونکہ میں نے یہ تصرف بذاتِ خود دیکھا ہے، لیکن میں اس جائز تصرف اور ایسے کچھ اور تصرفات کو عموماً نہیں اپناتا، سوائے اس مثال میں آپ کے بتائے گئے چوتھے یعنی آخری رکن کے، وہ بھی اگر بہت مجبوری ہو۔۔۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں لوگ تیزی سے بس پڑھتے جائیں، ٹھہراؤ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئے۔۔ اس چکر میں ، میں نے جہاں یہ بحر دو ارکان کے بعد رکتی ہے، وہاں بھی ایک غزل میں اسے رکنے نہیں دیا، زمانہ جاہلیت کی ہے، لیکن صرف بطور مثال پیش کررہا ہوں:
کوئی کہہ رہا ہے خزاں میں جیسے بہار ہے کوئی تشنگی
کوئی مانتا ہی نہیں کسی کا خمار ہے کوئی تشنگی
کبھی شاہد اتنا نہیں ہوا، ہم اسے نظر سے گرا سکیں
کبھی راہبر، کبھی ہمسفر، کبھی یار ہے کوئی تشنگی
(دوسرے شعر میں شاید آپ متفاعلن متفاعلن کو الگ کرسکتے ہیں، پہلے میں ملا دیا گیا ہے)
 
یقیناً یہ تصرف جائز ہے کیونکہ میں نے یہ تصرف بذاتِ خود دیکھا ہے، لیکن میں اس جائز تصرف اور ایسے کچھ اور تصرفات کو عموماً نہیں اپناتا، سوائے اس مثال میں آپ کے بتائے گئے چوتھے یعنی آخری رکن کے، وہ بھی اگر بہت مجبوری ہو۔۔۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں لوگ تیزی سے بس پڑھتے جائیں، ٹھہراؤ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئے۔۔ اس چکر میں ، میں نے جہاں یہ بحر دو ارکان کے بعد رکتی ہے، وہاں بھی ایک غزل میں اسے رکنے نہیں دیا، زمانہ جاہلیت کی ہے، لیکن صرف بطور مثال پیش کررہا ہوں:
کوئی کہہ رہا ہے خزاں میں جیسے بہار ہے کوئی تشنگی
کوئی مانتا ہی نہیں کسی کا خمار ہے کوئی تشنگی
کبھی شاہد اتنا نہیں ہوا، ہم اسے نظر سے گرا سکیں
کبھی راہبر، کبھی ہمسفر، کبھی یار ہے کوئی تشنگی
(دوسرے شعر میں شاید آپ متفاعلن متفاعلن کو الگ کرسکتے ہیں، پہلے میں ملا دیا گیا ہے)

شاہد بھائی یہ گنجایشیں ہوتی ہیں۔ اور ان کا استعمال وہی کر سکتا ہے جو اچھا عروضی ہو۔ کیونکہ بقیہ شعرا اول تو ان اجازتوں کو سمجھتے نہیں ہیں دوم اگر تھوڑے اندازے سے کام چلائیں تو غلطی کا خطرہ ہے۔
رہی بات یہ کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی غزل کو روانی سے پڑھا جائیں کہیں وقفہ نہ ہو تو آپ کی سوچ مثبت ہے۔
اور اب یہی طریقہ پوری طرح رائج ہوچکا ہے جس سے ہٹنا شعرا کے لئے ممکن نہیں۔ اور وجہ علم کی کمی اور فقط طبعَ موزوں پر اکتفا کرنا ہے۔
مجتہدین، اساتذہ، اور شعراء فارس کا کلام اٹھا کر دیکھیں تو ہزاروں اشعار ایسے مل جائینگے جنہیں آپ روانی سے پڑھ بھی نہیں سکتے۔ اور کم فہمی کی بنیاد پر اکثر لوگ یہ کہہ جاتے ہیں کہ یہ وزن سے خارج ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ امر علم کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جہاں جس چیز کی ضرورت ہو اسے جائز طریقے سے استعمال کرکے مختلف اوزان کے اختلاط کو رواں جاتا ہے۔
مگر اب اگر جائز طریقوں کو بھی ایک اہل علم استعمال کرے تو کوئی بعید نہیں کے اس کے شعر کو نا موزوں قرار دیا جائے۔ بلکہ دیا جاتا ہے۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
وہ جو لمحوں میں زندہ رہتے ہیں
ان کا کل اور ان کا آج نہیں
علم والے کریں تو کیا ان کا
جاہلوں کا کوئی علاج نہیں۔۔۔
افسوس کہ ان جاہلوں میں میری حیثیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔۔۔ اسی نسبت جہالت کے ناطے آپ سے پوچھ رہا ہوں۔۔ کیا یہ قطعہ وزن میں ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ تو مکمل وزن میں ہے۔
تصرف کی اجازت تو ہے لیکن کیونکہ کم مستعمل ہے، اس لئے شاذ ہونے کے باعث رواں نہیں محسوس ہوتا۔ دوسرے ٹکڑے میں تبدیلی کی کوشش کریں۔ قافیہ محض عجیب ہی بہتر ہے بہ نسبت عجیب و غریب کے
 
Top