جاوید اختر ہمارے شوق کی یہ اِنتہا تھی۔ جاوید اختر

شیزان

لائبریرین
ہمارے شوق کی یہ اِنتہا تھی
قدم رکھا کہ منِزل راستہ تھی
کبھی جو خواب تھا، وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددُعا تھی
محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دِنوں کی آشنا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ ابتداء تھی
مریضِ خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوَا تھی
بچھڑ کر ڈار سے بن بن پھرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی
جاوید اختر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ بہت عمدہ انتخاب شیزان۔۔۔ میرے پسندیدہ کلام میں سے ہے۔۔۔ اور اسکا مقطع تو میں نے اپنے دستخط کی زینت بھی بنا رکھا ہے۔۔ خوش رہیئے۔ زبردست :)
 
Top