لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ! نقش خیال…عرفان صدیقی

انتخابات سے قبل غربت، ناخواندگی اور سماجی استحصال کے خاتمے اور وسیع تر اصلاحات کے لئے کینیڈا کے شیخ الاسلام کی طرف سے دی گئی مہلت آج ختم ہو گئی۔ سو ناقوس بجنے کو ہے اور اسلام آباد ٹھٹھرا پڑا، سردی پورے جوبن پہ ہے، رات درجہ حرارت نقطہٴ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے اور صبح دیر تلک شہر گہری دھند کی بکل مارے لیٹا رہتا ہے اور وہ دن قریب آ رہا ہے ”دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے“۔ کیا تاریخ ساز دن ہو گا جب چالیس لاکھ کا کارواں جذب و شوق، ترانے گاتا، نغمے الاپتا ، رجز پڑھتا اور پھریرے لہراتا،کینیڈا کے شیخ الاسلام کی معیت میں اسلام آباد کے کوچہ و بازار میں اترے گا ۔ حضرت کو ضد ہے کہ چونکہ ان کا انقلاب دستوری اصلاحات کا پرچم بردار ہے،اس لئے وہ اپنے خیمے، دنیا بھر کے سفارت خانوں کے پڑوس میں واقع شاہراہ دستور پر لگائیں گے۔انتظامیہ کا خیال ہے کہ دراصل یہ سب کچھ، طفلان خود معاملہ کا ایک تفریحی سا پکنک نما کھیل تماشا ہے،اس لئے وسیع و عریض فاطمہ جناح پارک ”بازیچہ اطفال“ کے طور پر وقف کر دیا گیا ہے ۔ عشق کی گرم جوشیوں اور موسم کی سرد مہریوں کے درمیان ایک عقب کا معرکہ ہونے جا رہا ہے۔” لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“۔
کمزور عقیدے کے حامل کچھ لوگ، اپنی عاقبت (اور کسی حد تک دنیا کو بھی) خطرے میں ڈال کر حضرت کی معجزاتی ، کراماتی اور کرشماتی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے یک زبان ہو کر حضرت کے نسخہٴ کیمیا کو رد کر دیا ہے۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں پر گنے جانے والے ”اہل یقین“ کو چھوڑ کر اول، دوم اور سوم درجے کے تمام کالم نگاروں نے حضرت کی عبائے انقلاب ہی تار تار نہیں کی، ان کی قبائے ذات کی بھی دھجیاں کر دی ہیں۔ حضرت سے منسوب وہ حکایات بھی چوپالوں کا موضوع بن گئی ہیں جو سینوں میں دفن ہو چکی تھیں۔ میں نے ایک عجیب بات محسوس کی کہ حضرت شیخ الاسلام کا تذکر ہ دل پذیر کرتے ہوئے قلم کارواں کے دل و دماغ جیسے قلعی ہو گئے ہیں۔ ان کی تحریروں میں زبردست نکھار آ گیا ہے اور وہ یادگار شہ پارے تخلیق کرنے لگے ہیں۔ صحافت کا کوئی باذوق طالب علم چاہے تو ایک اچھی نصابی کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ یہی حال ٹی وی میزبانوں کا ہے جن کے لب ولہجہ میں بلا کی طراری و طرحداری بھر گئی ہے۔ حضرت سے انٹرویو کرتے ہوئے ان کی وہ عظیم صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جو اب تک سوئی پڑی تھیں۔ کسی نہ کسی کو تحقیق کرنی چاہئے کہ کیا یہ سیاسی آب و ہوا کی اثر آفرینی ہے یا حضرت کے مشکبار تذکرے کی حشر سامانی یا پھر وہی مرزا غالب والی بات کہ
”ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا“
اسلام آباد کا حساس علاقہ بڑے بڑے کنٹینروں سے بند کیا جا رہا ہے، مجھے ابھی تک حضرت کی سپاہ انقلاب کے لئے کوئی خیمہ گاہ دکھائی نہیں دی۔ شاہراہ دستور بیوہ کی کلائی کی طرح سونی پڑی ہے اور جرس غنچہ نے فاطمہ جناح پارک کو بھی قافلہ نو بہار کی کوئی خبر نہیں دی۔ ممکن ہے اسلام آباد میں درود کے ساتھ ہی حضرت ایک پھونک ماریں اور دور تک خیمہ ہائے خوش رنگ کی قطاریں لگ جائیں۔ حضرت کے مرتبہ و مقام سے نا آشنا کچھ کم فہم لوگ، لانگ مارچ کے شرکاء کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ بھلا چالیس لاکھ افراد کیسے متحرک کئے جا سکتے ہیں۔
میں ایساضعیف الاعتقاد نہیں ہوں، مجھے یقین ہے کہ چاہے حضرت کے ساتھ آٹھ دس ہزار افراد ہی آ جائیں جب وہ جلالی انداز میں چاروں طرف نگاہ کریں گے تو ان کی تعداد لاکھوں میں ڈھل جائے گی اور وہ قوم سے کہہ سکیں گے کہ ”چالیس لاکھ کے اس بپھرے ہوئے سمندر پر نظر ڈالو“ کوئی مائی کا لعل انہیں گن پائے گااور کس سوختہ بخت میں اتنی ہمت ہو گی کہ وہ حضرت کو جھٹلا پائے!
کہا جاتا ہے کہ حضرت کی ہتھیلی میں رکھے انقلابی نسخے کے اجزاء، امریکہ اور برطانیہ کی انہی کیمیا گاہوں میں تیار ہوئے ہیں جہاں 2007ء میں این آر او کا کشتہ تیار ہوا تھا۔ امریکی ایوان ہائے اقتدار میں مستقل گردش کرنے اور صدر اوباما تک براہ راست رسائی رکھنے والی ایک شخصیت لاہور پہنچ چکی ہے اور حضرت سے ملاقاتیں کر رہی ہے۔ فوج اور عدلیہ کو نگران حکومت کے اہم اسٹیک ہولڈرز قرار دے کر شیخ الاسلام نے روایتی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا جو تاثر دیا تھا وہ دم توڑ چکا ہے۔ پہلے آئی ایس پی آر نے لاتعلقی ظاہر کی، اب سیکورٹی کے لئے فوج کو دی جانے والی درخواست کے جواب میں بھی کہہ دیا گیا ہے کہ یہ سودا اگلی دکان سے ملے گا ۔ادھر جناب چیف جسٹس نے یہ کہہ کر جھنڈی دکھا دی ہے کہ ”ملک چلانا صرف انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر آنے والے نمائندوں کا کام ہے اور قوم کسی آمادہٴ انتشار گروہ کی حمایت نہ کرے۔ تاہم پہلے بے رنگ سا دکھائی دینے والا یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ حضرت پر یکایک طاری ہو جانے والے ”حال “ کا رشتہ کسی نہ کسی طور خانقاہ عالیہ زرداریہ سے ملتا ہے۔
رحمن ملک کی پہلے لندن میں الطاف بھائی کی بارگاہِ ناز میں اور پھر حضرت کے آستانیہ عالیہ پہ حاضری ایک کہانی کہہ رہی ہے۔ ناٹک کچھ ایسا بن رہا ہے کہ بظاہر لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف ہو گا کہ لیکن اصل میدان کارزار پنجاب کو بنایا جائے گا۔ حضرت نے ابھی سے سنگ زنی شروع کر دی ہے۔ اگلے دو تین دنوں میں سارے تیروں کا رخ پنجاب کی اس حکومت کی طرف موڑ دیا جائے گا جس نے مینار پاکستان میں حضرت کے تاریخی جلسہ عام کو ہر ممکن سہولت فراہم کی ۔
امکانات اور خدشات کے اس ہجوم میں الطاف بھائی کے ڈرون حملے کا تذکرہ بھی عروج پر ہے۔ سرگوشیوں کی صورت گردش کرتی ایک خبر یہ ہے کہ کینیڈا کے شیخ الاسلام ،لانگ مارچ سے دامن چھڑانے کے لئے کسی معتبر اور دل کشا بہانے کی تلاش میں ہیں۔ کچھ بدگمانوں کا خیال ہے کہ یہ بہانہ تخلیق پا چکا ہے۔ ایک آدھ دن میں الطاف بھائی اپنے خطاب میں شیخ الاسلام سے دردمندانہ اپیل کریں گے کہ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لئے تھوڑی مہلت دے دی جائے ۔ لانگ مارچ دوچار ہفتے بعد بھی ہو سکتا ہے اب تک شیخ الاسلام کو بے ساختہ اور والہانہ حمایت صرف الطاف بھائی کی طرف سے ہی ملی ہے لہٰذا خوئے دل نوازی رکھنے والے شیخ الاسلام کے لئے کیسے ممکن ہو گا کہ وہ اس اپیل کو نظر انداز کر دیں ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بدگمانوں کے برعکس الطاف بھائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر اپنا سب کچھ لانگ مارچ کی بھٹّی میں جھونکے جا رہے ہیں۔
ٹھٹھرا ہوا اسلام آباد دم سادھے پڑا ہے۔ عین اس وقت جب چار سو الیکشن کا غلغلہ ہونا چاہئے کینیڈا کے شیخ الاسلام ایک سرکس لگانے آ رہے ہیں۔”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
اصل آرٹیکل کا لنک
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا زبردست تجزیہ سے بھرپور کالم ہے۔ میں آجکل طاہر القادری کا پیش کردی ایجنڈا پڑھ رہا ہوں۔ ابھی کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں :)
 

یوسف-2

محفلین
کیا زبردست تجزیہ سے بھرپور کالم ہے۔ میں آجکل طاہر القادری کا پیش کردی ایجنڈا پڑھ رہا ہوں۔ ابھی کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں :)
سبق پھر پڑھ جہالت کا، وکالت کا، ملامت کا:)
لیا جائے گا تجھ سے کام ’فتنہ‘ کی امامت کا :)
 
Top