بے پر کی

محمد امین

لائبریرین
آپ نے بھی اور سعود بھیا نے بھی۔۔
کوئی نہیں کوئی نہیں۔۔۔معصوم سے بچوں کو تھوڑی کوئی کچھ کہتا :)
وہ کیسے بھیا؟
میں نے کیا کیا بھلا؟ :unsure:
ہی ہی ہی ۔۔۔میں تو لوگوں کی بات کر رہا تھا نا تمہاری تھوڑی ؛)
 

غ۔ن۔غ

محفلین
اوہ ہماری بہت ہی پیاری سی گڑیا ہماری عزیز ترین بہنا عائشہ عزیز نے کتنے پیار سے ہمیں یاد کیا اور پکارا کہ ہماری تو آنکھیں بھیگ گئیں خوشی کے مارے ۔ ۔ ۔ ۔
خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ان کے پیارے یاد بھی رکھتے ہیں اور آواز بھی دیتے ہیں اور ہم بھی ان ہی میں سے ہیں یہ جان کر دل خوشی سے جھوم جھوم اٹھا ہے پیاری بہنا:)
کوشش ہوگی کہ آپ کی شکایت دور کر سکیں اور ہم دونوں پھر یہاں پہلے کی طرح ایکٹِو ہو سکیں تاکہ ہماری بہنا کو ہماری کمی محسوس نہ ہو اور ہماری پہلے کی طرح بات چیت ہوسکے
اب خوش ناں پیاری سی گڑیا سی بہنا؟

سدا خوش اور سلامت رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آمین:praying:
یہ آپ کے پیار اور خلوص کے نام ہم دونوں کی جانب سے پھولوں کا نذرانہ
Beautiful-Flowers-HD-Wallpapers-Flower-886556.jpg
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
جھوٹی کہانی
کیا آپ کوئی ایسی کہانی سنا سکتے ہیں جو بالکل جھوٹی ہو؟​
:chatterbox: ایک تھا راجہ۔۔۔​
لیکن رکیے! راجہ تو تھے۔ آپ کو جھوٹی کہانی سنانی ہے بابا!​
:chatterbox: بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔​
لیکن بہت دنوں پہلے تو بہت سی باتیں ہوئیں تھیں اس میں جھوٹ کیا ہوا؟​
:idontknow: اچھا آپ ہی سنائیں ایسی کہانی جو بالکل غلط ہو۔​
ٹھیک ہے ہم سناتے ہیں۔ :)
ایک تھا راجہ۔۔۔​
:bringiton:ایک منٹ بقول آپ کے، راجہ تو ہوتے تھے۔​
ارے بابا!!! ابھی کہانی کہاں شروع کی ہے۔ مان لیں کہ ایک راجہ تھا، اس حال میں کہ ابھی کہانی شروع نہیں ہوئی۔ :)
:roll: اچھا مان لیا!​
تو جناب! ایک تھا راجہ، اس کا ایک بڑا سا محل تھا۔ راجہ قصے سننے کا بہت شوقین تھا۔ لوگ اس کے ہاں آکر قصے سناتے اور انعام پاتے۔ ایک دن ایک آدمی راجہ کے محل کے سامنے آیا۔ درباری اس کو پکڑ کر راجہ کے سامنے لے گئے۔ (کہانی ابھی شروع نہیں ہوئی :))​
راجہ اس آدمی سے آنے کی وجہ دریافت کی تو جواب ملا کہ شہنشاہ کو کہانی سنانے حاضر ہوا ہے۔ راجہ نے کہا، ٹھیک ہے ضرور سنیں گے اور انعام بھی ملے گا لیکن کہانی ہم اپنی شرط پر سنیں گے اور وہ شرط یہ ہے کہ آپ ہمیں کوئی ایسی کہانی سنائیں جس میں کوئی بات سچ نہ ہو۔ آپ کو کل تک کا وقت ملے گا ، کہانی سوچ لیں اور کل ہمیں سنائیں۔ اس دوران آپ کو مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے گا اور خوب خاطر تواضع ہوگی۔ وہ آدمی رضامند ہو گیا۔
اگلے دن دربار لگا۔ راجہ مسند پر بیٹھا اور اس آدمی کو راجہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ راجہ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر ایک بھی لفظ اس کہانی میں سچ نکلا تو تمہارا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ وہ آدمی کہانی سنانے لگتا ہے۔ (اور کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے :))​
میں اپنے دادا جان کا بڑا بھائی تھا ۔آدمی نے کہا، جب دادا جان پیدا ہوئے تو میں آٹھ سال کا تھا۔ میں دادا جان کو گود میں لے کر ٹہلنے جاتا۔ ایک دفعہ میں نے دادا جان کو گود میں لیا اور ہم گھومتے ہوئے بازار کی طرف نکل گئے۔ ایک دوکان کے سامنے دادا جان نے انڈے کی طرف اشارہ کیا کہ وہ چاہیے۔ میں نے دادا کو انڈہ دلا دیا اور ہم گھر کی طرف بڑھے۔ راستے میں میں نے دادا جان کو کہا کہ انڈہ مجھے دے دیں لیکن وہ نہ مانے اور اس کو مٹھی میں پکڑے رہے کہ اچانک وہ گرا اور ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں دادا جان کو اس حرکت پر ڈانٹتا کہ کیا دیکھتا ہوں اس ٹوٹے ہوئے انڈے کی بکھری ہوئی زردی سے مرغ کا بچہ نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگا یہاں تک کہ اونٹ کے برابر ہوگیا۔ اس پر تین چار لوگ آرام سے سواری کر سکتے تھے۔ میں نے دادا جان کو مرغے کی پیٹھ پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھا اور ہم گھر کی طرف چلے۔
اتنا بڑا مرغا ملنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہم روز اس پر جنگل جاتے ، لکڑیاں کاٹ کر اس کی پیٹھ پر لادتے اور ان کو بازار لا کر بیچتے۔ ایک طرف میں بیٹھ جاتا اور دوسری طرف دادا جان۔۔ کئی روز تک ہم یہ کام کرتے رہے کہ ایک دن مرغے کی پیٹھ پر زخم آ گیا اور اس کی کھال چھل گئی۔ میں حکیم کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ ناریل کا چھلکا پیس کر زخم پر لگایا جائے۔ ناریل کے چھلکے کا پیسٹ مرغے کی پیٹھ پر لگانا تھا کہ کہ تھوڑی دیر میں اس جگہ ایک چھوٹا سا ناریل کا پودا نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل پیڑ بن گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس پر ناریل کے پھل لگ گئے اور اس حالت میں ہوگئے کہ ان کو توڑا جا سکے۔ پیڑ بہت اونچا تھا میں نے ناریل توڑنے کے لیے مٹی کا ایک ڈھیلا کھینچ مارا۔ اتفاق سے مٹی کا ڈھیلا وہاں اٹک گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھیلنے لگا۔ دیر نہ گزری تھی کہ وہاں سو ایکڑ کی زمین بن گئی۔ میں نے اور دادا جان نے سوچا زمین کو دیکھا جائے کہ قابل کاشت ہے یا نہیں۔ ہم نے درخت کی شاخ سے رسی باندھی اور اوپر پہنچے۔ زمین کا معائنہ کیا تو کھیتی ہو سکتی تھی۔ ہم نیچے آئے اور سرسوں کے دانے لیے، ان کا گٹھا باندھ کر کمر پر لادا اور اوپر چڑھ گئے۔ وہ سرسوں ہم نے زمین میں بو دی اور واپس آگئے۔ دو تین ہفتے انتظار کیا اور پھر ایک دن میں اور دادا جان پھر زمین کی خبر لینے گئے۔ دیکھا تو ایک دانہ بھی نہ اُگا تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ اتنی دیر میں تو اگ جانا چاہیے تھا۔ بڑی کوشش سے وجہ سمجھ نہ آئی تو فیصلہ ہوا کہ سرسوں کے دانے چن لیتے ہیں اور واپس لے چلتے ہیں۔ دادا نے اور میں نے مٹی کرید کرید کر سرسوں کے دانے اکھٹے کیے تو دادا جان بولے پوتے ہمیں دانے گن لینے چاہیے۔ ہم نے کہا دادا جان بات تو ٹھیک ہے۔ گنا تو پتا چلا کہ ایک دانہ کم ہے۔ اب ہم سو ایکڑ کی زمین میں مارے مارے پھر رہے تھے کہ آخر ایک دانہ کہاں گیا کہ کیا دیکھتے ہیں ایک چیونٹی اس دانے کو لیے جا رہی ہے۔ میں نے اس کے منہ سے دانہ چھیننے کی کوشش کی تو وہ مجھے بھی ساتھ ہی گھسیٹنے لگی۔ میں نے دادا جان کو آواز دی کہ میری مدد کریں۔ دادا جان اور میں مل کر زور لگانے لگے۔ اس کھینچا تانی میں وہ دانہ ٹوٹ گیا اور تیل کی دھار بہہ نکلی۔ اتنا تیل نکلا کہ ساری زمین تیل میں ڈوب گئی۔ اس تیل کے ساتھ مٹی بھی بہہ گئی اور سرسوں کے دانے بھی، کچھ بچا تو میں، دادا جان اور پیڑ سے جھولتی رسی۔۔خیرمیں نے دادا جان کو اس لٹکتی رسی کی مدد سے نیچے اتارا اور خود اتر رہا تھا میرا ہاتھ پھسلا اور میں گر گیا۔ میرا انتقال ہوگیا۔ لوگ مجھے قبرستان لے گئے اور اس سے پہلے کہ دفن کرتے مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے دادا جان کو بلایا اور کہا دادا جان قبر میں تو منکر نکیر بھی آئیں گے اور سوال بھی پوچھیں گے۔ اگر انہوں نے سنگترہ کا بھاؤ پوچھ لیا تو میں کیا کہوں گا۔ دادا جان نے کہا واقعی پوتے سنگترہ کا بھاؤ تو ہمیں بھی معلوم نہیں۔ میں نے کہا دادا جان آپ تھوڑی دیر میری جگہ لیٹیں اور اگر منکر نکیر آئیں تو ان کو باتوں میں الجھا کر رکھیں میں ابھی بازار سے سنگترہ اور کچھ اور چیزوں کا بھاؤ معلوم کر کے آتا ہوں۔ میں بازار کی طرف جا ہی رہا تھا کہ رستے میں ایک دوست مل گیا۔ پوچھنے لگا کہاں تھے؟ میں نے کہا، کیا ہوا؟ تو بولا کہ میرے دادا کی پہلی شادی ہے تم کو ضرور آنا ہے۔ میں نے کہا لیکن میرا تو انتقال ہوگیا ہے۔ تو میرا دوست ضد کرنے لگا کہ چاہے انتقال ہوگیا ہے یا نہیں بس تمہیں میرے دادا کی شادی پر ضرور آنا ہے۔ خیر میں نے کہا ٹھیک ہے چلتا ہوں۔ ہم جا رہے تھے کہ میں تھوڑی دیر کے لیے درخت کے نیچے سستانے لگا اس دوران میرا دوست آگے نکل گیا۔ ابھی میں اس کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا کہ راستے میں آپ کا محل نظر آیا اور رک کر اس کی شان و شوکت دیکھنے لگا کہ آپ کے درباری پکڑ کر یہاں لے آئے کہ چلو بادشاہ کو کہانی سناؤ۔ اب قصہ تمام ہوا آگے آپ کی تلوار ہے اور میری گردن۔​

یہ کہانی ہمیں ہمارے بڑے بھیا نے سنائی تھی۔ :) :) :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جھوٹی کہانی
کیا آپ کوئی ایسی کہانی سنا سکتے ہیں جو بالکل جھوٹی ہو؟​
:chatterbox: ایک تھا راجہ۔۔۔​
لیکن رکیے! راجہ تو تھے۔ آپ کو جھوٹی کہانی سنانی ہے بابا!​
:chatterbox: بہت دنوں کی بات ہے۔۔۔​
لیکن بہت دنوں پہلے تو بہت سی باتیں ہوئیں تھیں اس میں جھوٹ کیا ہوا؟​
:idontknow: اچھا آپ ہی سنائیں ایسی کہانی جو بالکل غلط ہو۔​
ٹھیک ہے ہم سناتے ہیں۔ :)
ایک تھا راجہ۔۔۔​
:bringiton:ایک منٹ بقول آپ کے، راجہ تو ہوتے تھے۔​
ارے بابا!!! ابھی کہانی کہاں شروع کی ہے۔ مان لیں کہ ایک راجہ تھا، اس حال میں کہ ابھی کہانی شروع نہیں ہوئی۔ :)
:roll: اچھا مان لیا!​
تو جناب! ایک تھا راجہ، اس کا ایک بڑا سا محل تھا۔ راجہ قصے سننے کا بہت شوقین تھا۔ لوگ اس کے ہاں آکر قصے سناتے اور انعام پاتے۔ ایک دن ایک آدمی راجہ کے محل کے سامنے آیا۔ درباری اس کو پکڑ کر راجہ کے سامنے لے گئے۔ (کہانی ابھی شروع نہیں ہوئی :))​
راجہ اس آدمی سے آنے کی وجہ دریافت کی تو جواب ملا کہ شہنشاہ کو کہانی سنانے حاضر ہوا ہے۔ راجہ نے کہا، ٹھیک ہے ضرور سنیں گے اور انعام بھی ملے گا لیکن کہانی ہم اپنی شرط پر سنیں گے اور وہ شرط یہ ہے کہ آپ ہمیں کوئی ایسی کہانی سنائیں جس میں کوئی بات سچ نہ ہو۔ آپ کو کل تک کا وقت ملے گا ، کہانی سوچ لیں اور کل ہمیں سنائیں۔ اس دوران آپ کو مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے گا اور خوب خاطر تواضع ہوگی۔ وہ آدمی رضامند ہو گیا۔
اگلے دن دربار لگا۔ راجہ مسند پر بیٹھا اور اس آدمی کو راجہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ راجہ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر ایک بھی لفظ اس کہانی میں سچ نکلا تو تمہارا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ وہ آدمی کہانی سنانے لگتا ہے۔ (اور کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے :))​
میں اپنے دادا جان کا بڑا بھائی تھا ۔آدمی نے کہا، جب دادا جان پیدا ہوئے تو میں آٹھ سال کا تھا۔ میں دادا جان کو گود میں لے کر ٹہلنے جاتا۔ ایک دفعہ میں نے دادا جان کو گود میں لیا اور ہم گھومتے ہوئے بازار کی طرف نکل گئے۔ ایک دوکان کے سامنے دادا جان نے انڈے کی طرف اشارہ کیا کہ وہ چاہیے۔ میں نے دادا کو انڈہ دلا دیا اور ہم گھر کی طرف بڑھے۔ راستے میں میں نے دادا جان کو کہا کہ انڈہ مجھے دے دیں لیکن وہ نہ مانے اور اس کو مٹھی میں پکڑے رہے کہ اچانک وہ گرا اور ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں دادا جان کو اس حرکت پر ڈانٹتا کہ کیا دیکھتا ہوں اس ٹوٹے ہوئے انڈے کی بکھری ہوئی زردی سے مرغ کا بچہ نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگا یہاں تک کہ اونٹ کے برابر ہوگیا۔ اس پر تین چار لوگ آرام سے سواری کر سکتے تھے۔ میں نے دادا جان کو مرغے کی پیٹھ پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھا اور ہم گھر کی طرف چلے۔
اتنا بڑا مرغا ملنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہم روز اس پر جنگل جاتے ، لکڑیاں کاٹ کر اس کی پیٹھ پر لادتے اور ان کو بازار لا کر بیچتے۔ ایک طرف میں بیٹھ جاتا اور دوسری طرف دادا جان۔۔ کئی روز تک ہم یہ کام کرتے رہے کہ ایک دن مرغے کی پیٹھ پر زخم آ گیا اور اس کی کھال چھل گئی۔ میں حکیم کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ ناریل کا چھلکا پیس کر زخم پر لگایا جائے۔ ناریل کے چھلکے کا پیسٹ مرغے کی پیٹھ پر لگانا تھا کہ کہ تھوڑی دیر میں اس جگہ ایک چھوٹا سا ناریل کا پودا نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل پیڑ بن گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس پر ناریل کے پھل لگ گئے اور اس حالت میں ہوگئے کہ ان کو توڑا جا سکے۔ پیڑ بہت اونچا تھا میں نے ناریل توڑنے کے لیے مٹی کا ایک ڈھیلا کھینچ مارا۔ اتفاق سے مٹی کا ڈھیلا وہاں اٹک گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھیلنے لگا۔ دیر نہ گزری تھی کہ وہاں سو ایکڑ کی زمین بن گئی۔ میں نے اور دادا جان نے سوچا زمین کو دیکھا جائے کہ قابل کاشت ہے یا نہیں۔ ہم نے درخت کی شاخ سے رسی باندھی اور اوپر پہنچے۔ زمین کا معائنہ کیا تو کھیتی ہو سکتی تھی۔ ہم نیچے آئے اور سرسوں کے دانے لیے، ان کا گٹھا باندھ کر کمر پر لادا اور اوپر چڑھ گئے۔ وہ سرسوں ہم نے زمین میں بو دی اور واپس آگئے۔ دو تین ہفتے انتظار کیا اور پھر ایک دن میں اور دادا جان پھر زمین کی خبر لینے گئے۔ دیکھا تو ایک دانہ بھی نہ اُگا تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ اتنی دیر میں تو اگ جانا چاہیے تھا۔ بڑی کوشش سے وجہ سمجھ نہ آئی تو فیصلہ ہوا کہ سرسوں کے دانے چن لیتے ہیں اور واپس لے چلتے ہیں۔ دادا نے اور میں نے مٹی کرید کرید کر سرسوں کے دانے اکھٹے کیے تو دادا جان بولے پوتے ہمیں دانے گن لینے چاہیے۔ ہم نے کہا دادا جان بات تو ٹھیک ہے۔ گنا تو پتا چلا کہ ایک دانہ کم ہے۔ اب ہم سو ایکڑ کی زمین میں مارے مارے پھر رہے تھے کہ آخر ایک دانہ کہاں گیا کہ کیا دیکھتے ہیں ایک چیونٹی اس دانے کو لیے جا رہی ہے۔ میں نے اس کے منہ سے دانہ چھیننے کی کوشش کی تھی وہ مجھے بھی ساتھ ہی گھسیٹنے لگی۔ میں نے دادا جان کو آواز دی کہ دادا میری مدد کریں۔ دادا جان اور میں مل کر زور لگانے لگے۔ اس کھنچا تانی میں وہ دانہ ٹوٹ گیا اور تیل کی دھار بہہ نکلی۔ اتنا تیل نکلا کہ ساری زمین تیل میں ڈوب گئی۔ اس تیل کے ساتھ مٹی بھی بہہ گئی اور سرسوں کے دانے بھی، کچھ بچا تو میں، دادا جان اور پیڑ سے جھولتی رسی۔۔خیرمیں نے دادا جان کو اس لٹکتی رسی کی مدد سے نیچے اتارا اور خود اتر رہا تھا میرا ہاتھ پھسلا اور میں گر گیا۔ میرا انتقال ہوگیا۔ لوگ مجھے قبرستان لے گئے اور اس سے پہلے کہ دفن کرتے مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے دادا جان کو بلایا اور کہا دادا جان قبر میں تو منکر نکیر بھی آئیں گے اور سوال بھی پوچھیں گے۔ اگر انہوں نے سنگترہ کا بھاؤ پوچھ لیا تو میں کیا کہوں گا۔ دادا جان نے کہا واقعی پوتے سنگترہ کا بھاؤ تو ہمیں بھی معلوم نہیں۔ میں نے کہا دادا جان آپ تھوڑی دیر میری جگہ لیٹیں اور اگر منکر نکیر آئیں تو ان کو باتوں میں الجھا کر رکھیں میں ابھی بازار سے سنگترہ اور کچھ اور چیزوں کا بھاؤ معلوم کر کے آتا ہوں۔ میں بازار کی طرف جا ہی رہا تھا کہ رستے میں ایک دوست مل گیا۔ پوچھنے لگا کہاں تھے؟ میں نے کہا، کیا ہوا؟ تو بولا کہ میرے دادا کی پہلی شادی ہے تم کو ضرور آنا ہے۔ میں نے کہا لیکن میرا تو انتقال ہوگیا ہے۔ تو میرا دوست ضد کرنے لگا کہ چاہے انتقال ہوگیا ہے یا نہیں بس تمہیں میرے دادا کی شادی پر ضرور آنا ہے۔ خیر میں نے کہا ٹھیک ہے چلتا ہوں۔ ہم جا رہے تھے کہ میں تھوڑی دیر کے لیے درخت کے نیچے سستانے لگا اس دوران میرا دوست آگے نکل گیا۔ ابھی میں اس کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا کہ راستے میں آپ کا محل نظر آیا اور رک کر اس کی شان و شوکت دیکھنے لگا کہ آپ کے درباری پکڑ کر یہاں لے آئے کہ چلو بادشاہ کو کہانی سناؤ۔ اب قصہ تمام ہوا آگے آپ کی تلوار ہے اور میری گردن۔​

یہ کہانی ہمیں ہمارے بڑے بھیا نے سنائی تھی۔ :) :) :)
زبردست۔ یہ ہوئی نا بے پر کی :)
 
Top