اچھی زندگی عقل کی محتاج ہے یا قسمت ؟

نیلم

محفلین
آج میں فیس بک پہ ایک حکایت پڑھ رہی تھی تو یہ سوال میرے دماغ میں آیا اس بارے میں آپ سب کی کیا رائےہےکہ
اچھی زندگی عقل کی محتاج ہے یا قسمت کی ؟
بعض لوگوں کو ہم کہتے سُنتے ہیں ارے میری تو قسمت ہی خراب ہے جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ناکام ہی رہتا ہوں،،:)
جب کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی طلاق میں بدل جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ،،بےچاری یا بےچارہ بہت بد نصیب ہے،
اکثر لوگوں کو میں نے دیکھاہے اُن کی ساری زندگی عیش وآرام سے گزرتی ہے اور کچھ بے چارے ساری زندگی دکھوں تکلیفوں اور ناکامیوں میں گزار دیتے ہیں ،،،
جولوگ ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں یہ اُن کی عقل کا کمال ہوتا ہے یا قسمت کا؟
 

نیلم

محفلین
اس حکایت کے بارے میں آپ سب کا خیال ہے؟

،،،،،


کہتے ہیں کسی جگہ دو شخص رہتے تھے
ایک کا نام “عقل” تھا اور دوسرے کا نام “نصیب”
ایک دفعہ وہ دونوں کار میں سوار ہو کر ایک لمبے سفر پر نکلے
آدھے راستے میں سنسان راستے پر کار کا پیٹرول ختم ہوگیا
دونوں نے کوشش کی کہ کسی طرح رات گہری ہونے سے پہلے یہاں سے نکل جائیں،مگر اتنا پیدل چلنے سے بہتر یہ جانا گیا کہ ادھر ہی وقت گزار لیں جب تک کوئی مددگار نہیں آ جاتا۔

عقل نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کے نیچے جا کر سوئے گا نصیب نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے درمیان میں ہی سوئے گا۔عقل نے نصیب سے کہا بھی کہ تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟
سڑک کے درمیان میں سونا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے
نصیب نے کہا؛ نہیں۔ سڑک کے درمیان میں سونا مفید ہے،
کسی کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو جگا کر یہاں سونے کا سبب پوچھے گا اور ہماری مدد کرے گا
اور اس طرح عقل درخت کے نیچے جا کر اور نصیب سڑک کے درمیان میں ہی پڑ کر سو گیا
گھنٹے بھر کے بعد ایک بڑے تیز رفتار ٹرک کا ادھر سے گزر ہوا۔
جب ٹرک ڈرائیور کی نظر پڑی کہ کوئی سڑک کے بیچوں بیچ پڑا سو رہا ہے
تو اس نے روکنے کی بہت کوشش کی،
ٹرک نصیب کو بچاتے بچاتے مڑ کر درخت میں جا ٹکرایا
درخت کے نیچے سویا ہوا بیچارہ عقل کچل کر مر گیا
اور نصیب بالکل محفوظ رہا

*****

شاید حقیقی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
نصیب لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے
حالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہی ان کی تقدیر ہوتی ہے۔
بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔
نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔

"ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو
اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو
اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے" (سورۃ البقرۃ – 216) —
 

نایاب

لائبریرین
عقل محنت کوشش کے بھرپور استعمال کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے وہی قسمت کہلاتا ہے ۔
اور اس سے مفر نہیں ۔
کچھ عقل مند اپنی عقل استعمال کرتے ترقی کرتے جاتے ہیں
اور کچھ اپنی عقل استعمال کرتے تنزلی کی جانب رواں ہوتے ہیں ۔
 

نیلم

محفلین
عقل محنت کوشش کے بھرپور استعمال کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے وہی قسمت کہلاتا ہے ۔
اور اس سے مفر نہیں ۔
کچھ عقل مند اپنی عقل استعمال کرتے ترقی کرتے جاتے ہیں
اور کچھ اپنی عقل استعمال کرتے تنزلی کی جانب رواں ہوتے ہیں ۔
اور جو لوگ اپنی عقل اور کوشش کے استعمال کے باجود بھی خالی ہاتھ رہتے ہیں وہ ؟
 
عقل محنت کوشش کے بھرپور استعمال کے بعد جو کچھ پیش آتا ہے وہی قسمت کہلاتا ہے ۔
اور اس سے مفر نہیں ۔
کچھ عقل مند اپنی عقل استعمال کرتے ترقی کرتے جاتے ہیں
اور کچھ اپنی عقل استعمال کرتے تنزلی کی جانب رواں ہوتے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ پڑھا تھا۔ مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ آپ مکمل واقعہ شیئر کردیجیے گا۔
جس میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تھا دعا میں جب بھی مانگو قسمت یا نصیب مانگو۔ کیوں کہ بڑے بڑے عقلمند نصیب والوں کے ملازم ہوتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
اور جو لوگ اپنی عقل اور کوشش کے استعمال کے باجود بھی خالی ہاتھ رہتے ہیں وہ ؟
انہیں اپنے مقدر پر شاکر رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کہ ان کا محنت و مشقت کے باوجود خالی ہاتھ رہنا رب تعالی کی حکمت
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ پڑھا تھا۔ مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ آپ مکمل واقعہ شیئر کردیجیے گا۔
جس میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تھا دعا میں جب بھی مانگو قسمت یا نصیب مانگو۔ کیوں کہ بڑے بڑے عقلمند نصیب والوں کے ملازم ہوتے ہیں۔

محترم بھائی مجھے علم نہیں کس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں آپ
آپ علی علیہ السلام کا اک مشہور مقولہ اکثر ذکر کیا جاتا ہے کہ
میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے پر اللہ کی حکمت کو جانا ۔۔۔۔
عقل ارادے باندھتی ہے ۔ کوشش پر اکساتی ہے ۔ محنت کرواتی ہے ۔ اور آخر نتیجہ " مقدر " یا " اللہ کی مرضی " سے نکلتا ہے ۔
 

عمراعظم

محفلین
عقل کا استعمال اختیاری ہے جبکہ قسمت پر ہمارا کوًی اختیار نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ قسمت کے فیصلے مغفی رہتے ہیں۔البتہ عقل کا صحیح یا غلط استعمال ہمیں کامیابی یا ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔جبکہ بعض اوقات عقلی اور شعوری کوششوں کے باوجود ہم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوتے، اسی نقطہ پر قسمت کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
ویسے یہ سوال جو کہ قسمت و عقل کے نتائج سے منسلک ہے ۔ کوئی سادہ و آسان نہیں ہے ۔
اس پر فلسفہ " جبروقدر " کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے ۔
یہ فلسفہ کچھ لوگوں کو دہریت کی جانب بھی مائل کرنے میں مددگار ہوتا ہے ۔
اور اس کو دہریت کی جانب رواں کرنے والے آیت قرانی ہی سے استدلال کرتے ہیں کہ
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى(39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔‏
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی تقدیر پر راضی رہنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین
 

نیلم

محفلین
عقل کا استعمال اختیاری ہے جبکہ قسمت پر ہمارا کوًی اختیار نہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ قسمت کے فیصلے مغفی رہتے ہیں۔البتہ عقل کا صحیح یا غلط استعمال ہمیں کامیابی یا ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔جبکہ بعض اوقات عقلی اور شعوری کوششوں کے باوجود ہم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوتے، اسی نقطہ پر قسمت کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
تو اس کا مطلب کہ اچھی زندگی قسمت کی محتاج ہے عقل کی نہیں
 

عمراعظم

محفلین
اچھی زندگی دونوں کی محتاج ہے ۔قسمت اسی لیے عیاں نہیں کی گیی تاکہ آپ اپنی عقل کو استعمال کر کے اسے حاصل کر سکیں جو آپ کی قسمت میں ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
تو اس کا مطلب کہ اچھی زندگی قسمت کی محتاج ہے عقل کی نہیں
یاد رکھنا چاہیئے کہ قسمت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے عقل سوچ اور محنت و مشقت کی قوت سے بھی نوازا ہے ۔ ہمیں ان سب پر یکساں یقین کے ساتھ کوشش کرتے نتائج کو اللہ تعالی کی حکمت پر چھوڑ دینا چاہیئے ۔ اگر صرف قسمت کو لیکر بیٹھ گئے تو ہماری جملہ صفات انسانی پر جمود طاری ہو جائے گا ۔
وہ سچا خالق جو بلا شک پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے ۔ کیڑا اگر پتھر سے باہر نہیں نکل پاتا مگر حرکت کرتے کوشش کرتا رہتا ہے ۔
کسی ستم ظریف کا قسمت بارے اک لطیفہ لکھا کہیں پڑھا تھا یاد آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ اور بیٹا کہیں جا رہے تھے صبح سویرے کا وقت تھا ۔ باپ نے اپنے بیٹے کو کہا دیکھو یہ پرندے صبح سویرے اٹھ کر اپنے رزق کی تلاش میں نکلے تو اللہ نے ان سب کو کیڑوں مکوڑوں کی صورت رزق سے نوازا ۔ یہ اپنی اپنی قسمت کہ کس پرندے کو کیا رزق ملا ۔
بیٹا کہنے لگا کہ " بابا کیڑوں مکوڑوں کو صبح سویرے گھر سے نکل کر کیا ملا " ؟؟؟؟؟؟؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نصیب اول دوئم عقل
اک حکایت سنتی جاؤ۔:p
اک بیوقوف بدو اک اونٹ پر اک طرف ریت لادے اور دوسری طرف گندم کی بوری لادے جا رہا تھا۔ کہ کوئی قسمت کا مارا دانا اس سے آٹکرا۔۔۔ اب اس نے دیکھا۔ تو تعجب سے اسے دیکھا۔ ان دنوں انگلیاں دانتوں میں دبانے کا رواج نہ تھا۔ اس نے کہا۔
اے بیوقوف انسان۔
تو نے اونٹ پر یہ دو بوریاں کیوں لاد رکھی ہیں۔
یہ ماجرا کیا ہے۔
آخر کیوں تو اس بے زبان اونٹ پر اتنا بوجھ لاد رہا ہے۔
بولتا کیوں نہیں
اس پر اس احمق بدو نے کہا اوئے عقل کے مارے دانا۔ ذرا سانس لے تو میں بھی بولوں۔
ماجرا یہ ہے کہ اونٹ پر وزن برابر کرنے کو اک طرف ریت اور دوسری طرف بوری لاد رکھی ہے۔
اس پر دانا ہنس پڑا۔ پرانے داناؤں میں قہقہہ لگا کر ہنسنا بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔
اس نے کہا کہ تو نے یہ گندم دو بوریوں میں آدھی آدھی کیوں نہ ڈال لی۔ وزن بھی برابر رہتا۔ اور اونٹ پر بھی بوجھ نہ پڑتا۔
اب اس بیوقوف نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یہ کام آگے چل کر حیرانگی ظاہر کرنے کا رواج بنا۔
اس نے کہا۔
یا حیرت!
تو اتنا عقلمند ہے تو تیرا یہ حال کیوں ہے۔ اے انسان!
اس پر دانا نے کہا۔ دانے نصیب سے ملتے۔ (یہ دانے سے مراد گندم کا دانا ہے نہ کے دانا کی جمع دانے)
یہ بات سن کر وہ بدو بھڑک اٹھا۔ اور بولا
او نامراد دانا!
نکل لے یہاں سے۔
کہیں اپنی منحوس عقلمندی کا سایہ مجھ پر نہ ڈال دینا۔
کیا فائدہ ایسی عقلمندی کا جو تجھے دو وقت کی روٹی نہ دے سکے۔

اخلاق سبق: زندگی نصیب سے بنتی ہے۔ مگر اگر عقل ہو تو مزا دوچند ہو جاتا ہے۔ :biggrin:

نوٹ: اس حکایت پر اپنے خیالات کا اظہار میں تھوڑی دیر میں کرتا ہوں۔ :bighug:
 
عقل بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔۔اس حوالے سے تذکرہ غوثیہ میں درج ایک حکایت یاد آئی۔
کہتے ہیں کہ کسی شہر میں ایک نجیب الطرفین سید صاحب رہتے تھے جو حسن و جمال، نازک مزاجی، عقل و فہم اور علم و اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے لیکن غربت اتنی تھی کہ گھر میں آئے دن فاقہ ہوتا تھا۔ جبکہ انہی کے مکان کے سامنے ایک موٹا تازہ بدشکل سا بگڑا ہوا رئیس رہتا تھا جسک کسی بات کی تمیز نہیں تھی لیکن مال و دولت کی بہتات تھی اسکے ہاں۔۔۔اس شہر میں کسی درویش فقیر کا گذر ہوا۔ وہ سید صاحب اسکی شہرت سن کر اس کی زیارت کیلئے پہنچے اور انہوں نے اس درویش سے کہا کہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔ درویش نے کہا کہ پوچھو۔۔۔
انہوں نے کہا کہ میں نجیب الطرفین سید ہوں۔ صاحبِ عقل و فہم ہوں۔ علمِ دین بھی ہے، خوبصورت بھی ہوں، لیکن فاقوں میں گذر ہورہی ہے۔ جبکہ میرا پڑوسی ان تمام صفات سے محروم ہے لیکن پھر بھی مال و دولت ٹوٹ کر برس رہے ہیں اسکے گھر۔۔۔ایسا کیوں ہے ؟ یہ کیسا انصاف ہے؟
فقیر نے ایک لحظہ غور و فکر کیا اور کہا:
کہو تو بدل دوں ۔ اسے تمہارے جیسا اور تمہیں اس جیسا بنا دوں؟
سید صاحب یہ عجیب سا سوال سن کے بہت حیران ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے کہ نہیں۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ اتنی ساری خوبیاں سے محروم ہوکر مال و دولت کا مالک بن جاؤں۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
فقیر مسکرایا اور کہنے لگا : کہ انصاف تو یہی ہے جو ہورہا ہے آپ کو اتنا کچھ ملا اور اس بیچارے کو ان سب سے محروم رکھا گیا۔ اب اسے مال و دولت بھی نہ دیا جاتا تو یہ بے انصافی ہوتی۔ چنانچہ مالک کے کسی فعل پر ناانصافی کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ :)
 

نیلم

محفلین
نصیب اول دوئم عقل
اک حکایت سنتی جاؤ۔:p
اک بیوقوف بدو اک اونٹ پر اک طرف ریت لادے اور دوسری طرف گندم کی بوری لادے جا رہا تھا۔ کہ کوئی قسمت کا مارا دانا اس سے آٹکرا۔۔۔ اب اس نے دیکھا۔ تو تعجب سے اسے دیکھا۔ ان دنوں انگلیاں دانتوں میں دبانے کا رواج نہ تھا۔ اس نے کہا۔
اے بیوقوف انسان۔
تو نے اونٹ پر یہ دو بوریاں کیوں لاد رکھی ہیں۔
یہ ماجرا کیا ہے۔
آخر کیوں تو اس بے زبان اونٹ پر اتنا بوجھ لاد رہا ہے۔
بولتا کیوں نہیں
اس پر اس احمق بدو نے کہا اوئے عقل کے مارے دانا۔ ذرا سانس لے تو میں بھی بولوں۔
ماجرا یہ ہے کہ اونٹ پر وزن برابر کرنے کو اک طرف ریت اور دوسری طرف بوری لاد رکھی ہے۔
اس پر دانا ہنس پڑا۔ پرانے داناؤں میں قہقہہ لگا کر ہنسنا بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔
اس نے کہا کہ تو نے یہ گندم دو بوریوں میں آدھی آدھی کیوں نہ ڈال لی۔ وزن بھی برابر رہتا۔ اور اونٹ پر بھی بوجھ نہ پڑتا۔
اب اس بیوقوف نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یہ کام آگے چل کر حیرانگی ظاہر کرنے کا رواج بنا۔
اس نے کہا۔
یا حیرت!
تو اتنا عقلمند ہے تو تیرا یہ حال کیوں ہے۔ اے انسان!
اس پر دانا نے کہا۔ دانے نصیب سے ملتے۔ (یہ دانے سے مراد گندم کا دانا ہے نہ کے دانا کی جمع دانے)
یہ بات سن کر وہ بدو بھڑک اٹھا۔ اور بولا
او نامراد دانا!
نکل لے یہاں سے۔
کہیں اپنی منحوس عقلمندی کا سایہ مجھ پر نہ ڈال دینا۔
کیا فائدہ ایسی عقلمندی کا جو تجھے دو وقت کی روٹی نہ دے سکے۔

اخلاق سبق: زندگی نصیب سے بنتی ہے۔ مگر اگر عقل ہو تو مزا دوچند ہو جاتا ہے۔ :biggrin:

نوٹ: اس حکایت پر اپنے خیالات کا اظہار میں تھوڑی دیر میں کرتا ہوں۔ :bighug:
تو آپ سب کی باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں جو بھی دکھ تکلیف یا خوشی ملتی ہے سب ہمارےنصیب سے ملتی ہے
اگر ایسا ہے تو پھر یہ بھی تو کہا جارہاہے کہ آج کا انسان اپنا نصیب خود بناتاہے،،ایسا کیوں ؟
 
Top