اردو کی مفرد آوازیں

الف نظامی

لائبریرین
کیا اردو کے الفاظ (آواز) ایک یا ایک سے زائد مفرد آوازوں سے مل کر بنتے ہیں؟
کیا مفرد آوازوں کو ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کہہ سکتے ہیں؟ ( سبب ثقیل و خفیف )
اردو میں مستعمل مفرد آوازوں کی فہرست کیسے بنائی جا سکتی ہے ، اردو متن کے ذخیرہ سے ہجائے کوتاہ و بلند اخذ کر کے؟
محمد وارث ، محمد یعقوب آسی الف عین دوست
 
اردو میں مستعمل مفرد آوازوں کی فہرست کیسے بنائی جا سکتی ہے​

معذرت خواہ ہوں جناب الف نظامی، صاحب، میں آپ کا سوال نہیں سمجھ پایا۔

یہ جو حروفِ ہجاء ہیں (الف سے یے تک، اور دو چشمی ھ والے حروف بھی)، یہ مفرد آوازوں کی علامات ہی تو ہیں، ان کو ہجائے کوتاہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کوئی الجھاؤ پیدا نہ ہو۔ ہجائے بلند البتہ مختلف چیز ہے، ’’فاعلات‘‘ میں اس پر تفصیل سے عرض کر چکا ہوں۔ کھڑا زبر، کھڑا زیر، الٹا پیش (حرکاتِ طویلہ یا حرکاتِ معروفہ: حروفِ علت - الف، یے، واؤ کی قائم مقام ہیں)، تنوین اور تشدید کو ہجائے بلند کے تناظر میں دیکھئے تو بہتر ہے۔ مختصر لفظوں میں یہ جان لیجئے کہ حروف کے دو رویے ہیں: ناطق اور غیرناطق۔ ایک اکیلا ناطق اگر ہجائے کوتاہ ہے اور کسی دوسرے ناطق یا حرفِ علت (یا قائم مقام) سے مل کر ایک ’’آواز‘‘ بناتا ہے تو وہ ہجائے بلند ہے۔ کچھ حروف اِن سے ذرا سے مختلف بھی ہیں: مثلآ نون غنہ، واوِ معدولہ اور وہ جنہیں ’’ادھے اکھر‘‘ کہا جاتا ہے۔

اگر آپ کسی سافٹ ویئر پر کام کر رہے ہیں تو اس کی فنیات گفتگو کی جہت کا تعین کریں گی۔

بہت آداب۔


پس نوشت:
جناب الف عین، جناب محمد وارث، جناب @دوست، بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ میرا سافٹ ویئر کا کوئی تجربہ نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت شکریہ محمد یعقوب آسی صاحب-
مفرد آوازوں سے میری مراد یوں سمجھیے کہ
جیسے مستقبل میں مس ، تق اور بل تین آوازیں ہیں جن سے مل کر ایک مرکب آواز "مستقبل" بن رہی ہے۔ اس طرح کی مفرد آوازوں کی فہرست اس مقصد کے لیے درکار ہے کہ تمام مفرد آوازوں کو کسی ایک فرد کی آواز میں ریکارڈ کر کے ایک ڈیٹا بیس بنانا مقصود ہے۔ جس کی بنیاد پر" متن سے صوت " والا سافٹ چلے گا۔
 
مفرد آوازوں سے میری مراد یوں سمجھیے کہ
جیسے مستقبل میں مس ، تق اور بل تین آوازیں ہیں جن سے مل کر ایک مرکب آواز "مستقبل" بن رہی ہے۔ اس طرح کی مفرد آوازوں کی فہرست اس مقصد کے لیے درکار ہے کہ تمام مفرد آوازوں کو کسی ایک فرد کی آواز میں ریکارڈ کر کے ایک ڈیٹا بیس بنانا مقصود ہے۔ جس کی بنیاد پر" متن سے صوت " والا سافٹ چلے گا۔
شکریہ جناب الف نظامی، صاحب۔
کمپیوٹر کی ضرورت کو آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ کچھ نکات پیش کرتا ہوں۔
1۔ مَن، تَن، فَن ۔۔ پہلی آوازیں میم، تے، فے اور بیچ میں زبر جو اِن کو نون سے ملاتی ہے۔
2۔ مِن، گِن، چھِن ۔۔ پہلی آوازیں میم، گاف، چھے اور بیچ میں زیر جو اِن کو نون سے ملاتی ہے۔
۔۔۔۔ اس طرح یہ چھ لفظ دو دو آوازوں کے ملنے سے بنے۔ اس پر مَن اور مِن (زبر، زیر) کا اثر الگ۔ مجھے اِن کو مفرد آوازیں تسلیم کرنے میں تامل ہے۔
3۔ بہار : بَ ہا ر ۔ اگر میں ’’ہا‘‘ کو ایک مفرد آواز تسلیم کرتا ہوں تو پھر بے اور رے کو کیا کہوں گا؟۔ بَہار (موسم) اور بِہار (صوبہ) کا فرق بھی موجود ہے۔
4۔ کا، کے، کی، کو، لوگ، لوگو، لوگوں ۔۔ کا، کے، کی، کو : ا، ے، ی، و ۔۔ کا اثر دیکھ لیجئے۔ ایک مفرد آواز کاف کی ہوئی تو یہ حروف علت اپنی حیثی رکھتے ہیں۔ ’’لوگ‘‘ میں وہی بہار کی ب اور ر والا معاملہ، لوگوں (نون غنہ) : اس کو غنہ کہتے ہی اس لئے ہیں کہ اس کی اپنی کوئی آواز نہیں ہوتی، یہ غنائیت یا ناک سے آواز نکالنے کے عمل کی علامت ہے۔
5۔ خوار (ذلیل و خوار) اور خار (کانٹا)۔ آواز دونوں کی ایک جیسی ہے۔ واوِ معدولہ کو املاء سے خارج کر دیجئے، معانی بدل گئے (یعنی بات بدل گئی)۔ ایک اور مثال لیجئے۔ خُرما (کھجور) میں واوِ معدولہ نہیں ہے، خورشید (سورج) میں ہے۔ یہ بھی تو ایک سوال ہے، نا!
6۔ قریب المخرج آوازیں۔ مثالیں دیکھئے: نظر، نذر اِس میں ایک تو ظ اور ذ کا فرق ہے دوسرا اعراب کا۔ درست تلفظ ’’نَظَر‘‘ (ظ پر زبر) اور ’’نَذٖر‘‘ (ذ پر جزم) ہے۔ اور وہ الفاظ جہاں اعراب بھی یکساں ہیں : کَسر (فرق، جزو، حصہ، کمی) اور قَصر (قلعہ، محل، محفوظ مقام)۔ ک اور ق الگ الگ حروف، س اور ص الگ الگ۔ بولنے میں تو عام لوگ کیا پڑھے لکھے بھی ک،ق اور س،ص،ث کا فرق نہیں رکھتے اور بسا اوقات ہم رکھ نہیں پاتے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ایسا جائز ہے یا نہیں، سیاق و سباق معانی اور املاء کا تعین کیسے کرتے ہیں؛ ہمارے سامنے اِس وقت کا نکتہ انفرادی آواز کو انفرادی کیریکٹر یا کوڈ دینا ہے۔
7۔ ’’ادھے اکھر‘‘ اور تشدید کا معاملہ بھی ہے، دو چشمی ھ والے حروف جو ظاہری املاء میں ’’دوحرفی‘‘ ہیں اور صوت میں مفرد ہیں۔

یہ سارا کچھ آپ کے گوش گزار کرنے کا مقصد نکتہ چینی نہیں بلکہ باریک بینی ہے، کہ انسانی سطح سے اتر کر مشین کی سطح پر بات کرنا مقصود ہو تو ہمیں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو دھیان میں رکھنا پڑے گا۔
 
ایک مشورہ ہے۔ پتہ نہیں، قابلِ عمل ہے بھی کہ نہیں اور اگر ہے تو اِس نہج پر کچھ کام ہوا ہے یا نہیں۔

آپ لکھی ہوئی اردو کو کمپیوٹر سے ’’بُلوائیے‘‘۔ اس میں آپ ہر حرفِ ہجا، کے لئے ایک مخصوص آواز کمپیوٹر سے پیدا کریں گے، جس میں زبر زیر پیش کا بھی کوئی کنٹرول ہو گا، ایک پورے لفظ کو توڑنا کیسے ہے۔ شعر میں الف واو یاے کے گرنے کی بات تو بہت بعد کی ہے پہلے سیدھا سادہ کام لکھی ہوئی نثر پر مبنی ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک لفظ دیکھئے: قابِلِ عَمَل (قا بِ لِ عِ مَل)۔ میرے ذہن میں آرہی ہے کہ اگر ’’فاعلات‘‘ میں دئے گئے ’’زیرو وَن زیرو وَن‘‘ یا محمد وارث، صاحب کے طریقہ ’’ون ٹو ون ٹو‘‘ کی مدد سے بائنری کنٹرول بنا سکیں تو امید ہے، آسانی ہو گی۔
 
عربی الاصل الفاظ کا معاملہ بھی تو ہے۔
مثلآ ’’بالکل‘‘ اس میں الف نہیں بولتا، نہ نظم میں نہ نثر میں مگر لکھا جائے گا کہ درست املاء یہی ہے۔ اسی طرح ’’فی الواقع‘‘ ہے۔ اس کی صوتیت ہے ’’فِل وا قِع‘‘ مگر املاء وہی رہے گی ’’فی الواقع‘‘۔ ’’دارالشفا‘‘ کو دیکھئے۔ (صوتیت: دا، رُش، شِ، فا) ’’وَ علیٰ ہٰذا القیاس‘‘ لکھنے میں وہ دو دو الف متواتر ہیں دونوں بولنے میں نہیں آتے۔ (صوتیت: وَ عَ لا ہا ذَل قِ یا س)۔
وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

اب دیکھئے جیسے میں نے یہاں ’’مثلآ‘‘ لکھا ہے، یہاں مد نہیں اصولی طور پر دو زبر ہیں، مگر میں وہ لکھ نہیں پا رہا۔ جیسے لکھ سکا لکھ دیا کہ میرا معاملہ انسانوں کے ساتھ ہے، وہ سمجھ جائیں گے کہ اس لفظ کو مثلن کی نہج پر پڑھنا ہے۔ کمپیوٹر میں یہ بات کیسے ڈالی جائے گی، یہ مجھے نہیں معلوم۔ قاعدہ عربی اور اردو دونوں میں یہی ہے کہ ایسے الفاظ (صوتیت: مثلن، اتفاقن، یقینن، فورن) میں دو زبر کے ساتھ الف لازمآ ہوتا ہے۔ اور آواز نون کی ہوتی ہے۔

توجہ فرمائیے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عربی الاصل الفاظ کا معاملہ بھی تو ہے۔
مثلآ ’’بالکل‘‘ اس میں الف نہیں بولتا، نہ نظم میں نہ نثر میں مگر لکھا جائے گا کہ درست املاء یہی ہے۔ اسی طرح ’’فی الواقع‘‘ ہے۔ اس کی صوتیت ہے ’’فِل وا قِع‘‘ مگر املاء وہی رہے گی ’’فی الواقع‘‘۔ ’’دارالشفا‘‘ کو دیکھئے۔ (صوتیت: دا، رُش، شِ، فا) ’’وَ علیٰ ہٰذا القیاس‘‘ لکھنے میں وہ دو دو الف متواتر ہیں دونوں بولنے میں نہیں آتے۔ (صوتیت: وَ عَ لا ہا ذَل قِ یا س)۔
وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

اب دیکھئے جیسے میں نے یہاں ’’مثلآ‘‘ لکھا ہے، یہاں مد نہیں اصولی طور پر دو زبر ہیں، مگر میں وہ لکھ نہیں پا رہا۔ جیسے لکھ سکا لکھ دیا کہ میرا معاملہ انسانوں کے ساتھ ہے، وہ سمجھ جائیں گے کہ اس لفظ کو مثلن کی نہج پر پڑھنا ہے۔ کمپیوٹر میں یہ بات کیسے ڈالی جائے گی، یہ مجھے نہیں معلوم۔ قاعدہ عربی اور اردو دونوں میں یہی ہے کہ ایسے الفاظ (صوتیت: مثلن، اتفاقن، یقینن، فورن) میں دو زبر کے ساتھ الف لازمآ ہوتا ہے۔ اور آواز نون کی ہوتی ہے۔

توجہ فرمائیے گا۔
بہت اہم بات فرمائی آپ نے۔ اس کے لیے سب سے پہلے متن کو جانچا جائے گا اور اس طرح کے الفاظ کو ان کے صوتی تلفظ سے تبدیل کیا جائے گا۔ مثلا کو مثلن اتفاقا کو اتفاقن وغیرہ
اسی طرح منبر کا معاملہ بھی ہے جس میں "ن" کو "م" سے تبدیل کر دیا جائے گا۔
 

دوست

محفلین
ہجا شاید سیلیبل کو اردو میں کہتے ہیں؟
ایک ہوتا ہے صوتیہ یا فونیم
ایک ہوتا ہے سلیبل
صوتیہ واؤل ہو سکتا ہے یا کانزوننٹ، یعنی زیر زبر پیش، اور حرف صحیح۔
ان کے ملنے سے جو کمبی نیشن وجود میں آتا ہے وہ سلیبل کہلاتا ہے۔ مثلآ قسطنطنیہ میں:: ق، پیش، س، ط، پیش، ن، ط، پیش، ن، ی، زبر، ہ (یہ سارے صوتیے ہیں۔ املا پر نہ جائیں ان کو بول کر گننے کی کوشش کریں، یہاں بول کر لکھ نہیں سکتا تھا)۔ اب ان کے سیلیبل دیکھیں:: قس، طُن، ُ طُن، یہ (چار سیلبل ہوئے)۔
کسی بھی زبان میں بنیادی صوتیے محدود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اردو میں 17 واؤل اور 43 حروف صحیح کل 60 ہیں۔ کرلپ کا ایک تحقیقی پرچہ ملاحظہ کریں۔
اس کی بنیاد پر آگے جو مرضی کیا جا سکتا ہے۔ اگر سلیبل کے ممکنہ کمبی نیشنز پر بات کرنی ہے تو وہ بھی دیکھے لیتے ہیں۔لیکن یہاں اردو فاعلات کو الگ کرنا پڑے گا۔ اس کے قوانین، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اردو کی فونولوجی سے مختلف ہیں۔ مثلآ باپ کو با اور پ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے (2 1) لیکن اصل میں یہ ایک ہی سلیبل ہے جس میں حرف صحیح، لانگ واؤل، حرف صحیح کا کمبی نیشن ہے۔ (زیر زبر پیش شارٹ واؤلز ہیں)۔ اور اردو والے زیر زبر پیش والا سلیبل ایسے نہیں توڑتے مثلآ کب کا ب الگ نہیں کیا جائے گا۔ ایک جیسی مثالوں کے لیے تھپ اور تھاپ کا تقابل کر لیں۔ موخر الذکر میں اردو فاعلات کے مطابق پ کو الگ سلیبل سمجھا جاتا ہے (یا جو بھی تکنیکی اصطلاح ہے)۔ فونولوجی میں یہ دونوں ایک ہی وزن پر ہیں، صرف واؤل کی لمبائی میں فرق ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی یہی کہنے والا تھا کہ یہ تو شاکر عزیز کا فیلڈ ہے، لسانیات۔ وہی مصوتوں مصمتوں کی باریکیوں سے واقف ہوں گے۔
آسی بھائی نے واقعی بہت اچھے نکات اٹھائے ہیں۔
الف نطامی کا پہلا مراسلہ پڑھ کر تو وہ مشہور شعر یاد آ گیا۔
پہلے اس نے ’مُس‘ کہا، پھر تق‘ کہا، پھر ’بِلُ کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دئے۔
محمد یعقوب آسی بھائی، تنوین یہاں شفٹ m پر ہے، اور زیر زبر الٹے ہیں ان پیج کے صوتی تختے یا دوسرے صوتی تختوں کے
 

الف نظامی

لائبریرین
ہجا شاید سیلیبل کو اردو میں کہتے ہیں؟
ایک ہوتا ہے صوتیہ یا فونیم
ایک ہوتا ہے سلیبل
صوتیہ واؤل ہو سکتا ہے یا کانزوننٹ، یعنی زیر زبر پیش، اور حرف صحیح۔
ان کے ملنے سے جو کمبی نیشن وجود میں آتا ہے وہ سلیبل کہلاتا ہے۔ مثلآ قسطنطنیہ میں:: ق، پیش، س، ط، پیش، ن، ط، پیش، ن، ی، زبر، ہ (یہ سارے صوتیے ہیں۔ املا پر نہ جائیں ان کو بول کر گننے کی کوشش کریں، یہاں بول کر لکھ نہیں سکتا تھا)۔ اب ان کے سیلیبل دیکھیں:: قس، طُن، ُ طُن، یہ (چار سیلبل ہوئے)۔
کسی بھی زبان میں بنیادی صوتیے محدود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اردو میں 17 واؤل اور 43 حروف صحیح کل 60 ہیں۔ کرلپ کا ایک تحقیقی پرچہ ملاحظہ کریں۔
اس کی بنیاد پر آگے جو مرضی کیا جا سکتا ہے۔ اگر سلیبل کے ممکنہ کمبی نیشنز پر بات کرنی ہے تو وہ بھی دیکھے لیتے ہیں۔لیکن یہاں اردو فاعلات کو الگ کرنا پڑے گا۔ اس کے قوانین، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اردو کی فونولوجی سے مختلف ہیں۔ مثلآ باپ کو با اور پ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے (2 1) لیکن اصل میں یہ ایک ہی سلیبل ہے جس میں حرف صحیح، لانگ واؤل، حرف صحیح کا کمبی نیشن ہے۔ (زیر زبر پیش شارٹ واؤلز ہیں)۔ اور اردو والے زیر زبر پیش والا سلیبل ایسے نہیں توڑتے مثلآ کب کا ب الگ نہیں کیا جائے گا۔ ایک جیسی مثالوں کے لیے تھپ اور تھاپ کا تقابل کر لیں۔ موخر الذکر میں اردو فاعلات کے مطابق پ کو الگ سلیبل سمجھا جاتا ہے (یا جو بھی تکنیکی اصطلاح ہے)۔ فونولوجی میں یہ دونوں ایک ہی وزن پر ہیں، صرف واؤل کی لمبائی میں فرق ہے۔
"سلیبل کے ممکنہ کمبی نیشن" بالکل یہی چیز درکار ہے!
 
Top