از گل نوخیزاختر

قیصرانی

لائبریرین
لیکن اس بات کا بھی تو کوئی ثبوت نہیں ہے نا کہ سب ہی کاپی کر لی ہوں گی:happy:
اور اس بات کاکیاثبوت ہے کہ اُنہوں نےواقعی ڈنڈی ماری ہوگی
اس وقت توصرف قیصرانی بھائی ہیں،،،،ان سے ہی لیتےہیں سارےبدلے:laugh:
تو جناب آپ نے کبھی سٹیج ڈرامے دیکھے؟ اگر ہاں تو پھر بات کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر بات وہیں رہ جائے گی :)
 

نیلم

محفلین
ٹنڈ:
جیسے ہی نائی نے میرے سر پر استرا پھیرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سکون سا آ گیا۔ ٹنڈ کروانا میرے لیے ہمیشہ باعث اطمینان رہا ہے۔۔۔۔ جیسے جیسے استرا میرے سر پر پھرتا جاتا ہے مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگتا ہے، میں ٹنڈ اس لیے نہیں کرواتا کہ اس سے سر کو ہوا لگتی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ٹنڈ کروانے سے میرا سر میرے منہ سے اچھا نکل آتا ہے۔ ابا کو میری ٹنڈ سے بہت چڑ ہےان کے بس میں ہو تو وہ دنیا بھر کے استروں کو زنگ لگوا دیں، اگرچہ ان کو ٹنڈ کا کوئی شوق نہیں لیکن قدرت نے ان کے سارے بال اڑا دیے ہیں۔۔۔ ابا کی اتنی گھنی ٹنڈ دیکھ کر میرے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہےاور میں سوچتا ہوں کہ کاش میرا سر بھی ایسا ہی سموتھ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو ابا کے سر پر چپت مارنے کا بڑا مزا آتا تھا، بالکل ایسی آواز آتی تھی جیسے تبلے کی ترکٹ سے آتی ہےلیکن جوں جوں بڑا ہوتا گیا ابا کا سر مجھ سے دور ہوتا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اخلاقی اعتبار سے ابا کے سر پر چپت مارنا میرے لیے جرم ضعیفی قرار پایا۔ انہی دنوں میں نے فیصلہ کیا کہ اب ابا کے سر پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے سر پر خود کھڑا ہوں گا۔۔۔۔ یوں میں نے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلی دفعہ ٹنڈ کرائی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹنڈ شدہ ہو کر گھر پہنچا تو ابا نے دروازے سے ہی مجھے چونی دے کر رخصت کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منۃ کھولا تو میری بات کاٹ کر بولے۔۔۔۔۔ دیکھو بھئی۔۔۔۔۔۔۔ نہ تو ہمارے گھر میں کوئی بچہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شادی ہے۔۔۔۔۔ پھر تمھیں ادھر کا پتہ کس نے دیا ، یہ چونی پکڑو اور معاف کرو! وہ دروازہ بند کرنے لگے۔۔۔۔!!!
ابا۔۔۔۔۔!!! یہ میں ہوں۔۔۔۔ میں چلایا۔۔۔۔۔!!!
ان کے پیرون تلے زمین نکل گئی ۔۔۔۔ ابے آہستہ بول ۔۔۔۔ کیوں مجھے ابا ابا کہہ کر بدنام کر رہا ہے ۔۔۔۔ میں کہاں سے تیرا باپ ہو گیا۔۔۔ وہ غرائے
ابا۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔ ابا ۔۔۔۔ تو ہی میرا باپ ہے۔۔۔۔ خدا کے لیے مجھے پہچان۔۔۔۔!!!
ابے کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔ ابا کے ماتھے پہ پسینہ آکیا۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔ ابا میں تیرا بیٹا ہوں۔۔۔ میں نے دہائی دی۔
لل۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔میں۔۔۔ تو کبھی موت کا کنواں دیکھنے نہیں گیا۔۔۔۔ ابا نے مری مری آواز میں دلیل دی اور بے عزتی کے احساس سے میرا رنگ سرخ ہو گیا۔ میں نے کوئی اور حملہ ہونے سے پہلے جلدی سے کہا ۔۔۔۔
ابا ماضی میں جھانکنے کی بجائے میری آنکھوں میں جھانک۔۔۔۔ میں تیرا بیٹا کمال ہون ۔۔۔۔ کمالا۔۔۔۔

ٹائیں ٹائیں فش از گل نو خیز اختر
 

محمداحمد

لائبریرین
نام کے حوالے سے مجھے اپنے نام کے بڑے فائدے ہیں، یونیورسٹی میں، میرے داخلہ فارم پر اکثر لڑکیوں والی کھڑکی میں بھی قابلٍ قبول سمجھے جاتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ چند سال قبل مجھے روالپنڈی کے ایک شوقین مزاج کا خط موصول ہوا۔ موصوف نے میری کچھ تحریریں پڑھ رکھی تھیں۔ لیکن غالباً میری جنس سے ناواقف تھے۔ لہذا اپنے پہلے خط میں صرف میری اور میری تحریر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور آخر میں سوال پوچھا کہ "کیا ہماری دوستی ہوسکتی ہے۔"

چونکہ ان کے خط میں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ انہوں نے مجھے صنفٍ نازک سمجھ کر خط لکھا ہے لہذا میں نے بھی سادہ سا جواب تحریر کردیا کہ "کیوں نہیں۔" پھر ان کے خطوط کا تانتا بندھ گیا میری طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو ایک خط میں لکھا۔۔۔ ۔"تم نخرے بہت کرتی ہو۔" میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے فوراً اس وقت ایک تصویر انہیں ارسال کی جب میں "داڑھی شدہ" ہوتا تھا۔ جواب ارجنٹ میل سے آیا۔ لکھا تھا۔۔۔ "صوفی، تیرا ککھ نہ رہے، میں نے تو ماں کو بھی راضی کرلیا تھا۔"۔

از گل نوخیز اختر

حیرت ہے۔۔۔! آج تک تو ہم بھی یہی سمجھتے رہے۔۔۔!:D بس خط نہیں لکھا۔ :p
 
Top