تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

یوسف-2

محفلین
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتہ ملتا نہیں
غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غمِ عقبیٰ مزا ملتا نہیں
کشتیِ دل کی الٰہی! بحر ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن باخُدا ملتا نہیں
زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
اُن کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں
صرف ظاہر ہو گیا سرمایہ زیب و صفا کی
ا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشانِ نقش پا ملتا نہیں
(اکبر الہ آبادی)​
 

عسکری

معطل
یہ بھی اسی بحث کا ایک حصہ ہے یوسف ثانی بھائی جان :grin: ہم ٹھہرے لوفر پلٹر ہمیں یہ شاعری واعری سمجھ نہیں آتی :p خون کا کیا بنا یار ؟ ڈی این اے کرا لیں پھر ؟
 

یوسف-2

محفلین
یہ بھی اسی بحث کا ایک حصہ ہے یوسف ثانی بھائی جان :grin: ہم ٹھہرے لوفر پلٹر ہمیں یہ شاعری واعری سمجھ نہیں آتی :p خون کا کیا بنا یار ؟ ڈی این اے کرا لیں پھر ؟
آج کل ڈی این اے کا بہت شہرہ ہے۔ یار لوگ (آپ نہیں :D ) سمجھتے ہیں کہ کسی جسم کے کسی بھی حصہ کا ڈی این اے کرالو، رزلٹ میں صاحب جسم کا نام پتہ سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ کیا خون کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ فلاں ہستی کے جسم کا خون ہے :p
میرا خیال ہے کہ کسی ”نامعلوم فرد“ کے ڈی این اے ٹیسٹ کو معلوم شدہ ڈی این اے رزلٹس کے ڈیٹا سے میچ کرکے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اس نامعلوم فرد کا نسبی تعلق کس فرد یا خاندان سے ہے یا یہ ”مطلوبہ فرد“ ہے یا نہیں، اگر ”مطلوبہ فرد“ کا ڈی این اے رزلٹ پہلے سے ڈیٹا مین موجود ہو تو۔
عسکری بھائی ! تصحیح کیجئے گا، اگر میری یہ رائے غلط ہو تو ۔ یہاں تو آپ ”مستند بیان“ دے ہی سکتے ہیں نا :p
 

عسکری

معطل
آج کل ڈی این اے کا بہت شہرہ ہے۔ یار لوگ (آپ نہیں :D ) سمجھتے ہیں کہ کسی جسم کے کسی بھی حصہ کا ڈی این اے کرالو، رزلٹ میں صاحب جسم کا نام پتہ سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ کیا خون کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ فلاں ہستی کے جسم کا خون ہے :p
میرا خیال ہے کہ کسی ”نامعلوم فرد“ کے ڈی این اے ٹیسٹ کو معلوم شدہ ڈی این اے رزلٹس کے ڈیٹا سے میچ کرکے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اس نامعلوم فرد کا نسبی تعلق کس فرد یا خاندان سے ہے یا یہ ”مطلوبہ فرد“ ہے یا نہیں، اگر ”مطلوبہ فرد“ کا ڈی این اے رزلٹ پہلے سے ڈیٹا مین موجود ہو تو۔
عسکری بھائی ! تصحیح کیجئے گا، اگر میری یہ رائے غلط ہو تو ۔ یہاں تو آپ ”مستند بیان“ دے ہی سکتے ہیں نا :p
جی بالکل اسا ہے ترکی کے میوزیم میں سے سیمپلز لے کر میچ کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں:grin:

اس بال جو کے حضور سئ منصوب ہے اور اس خون کا
hair-of-prophet-muhammad-pbuh.jpg
 

یوسف-2

محفلین
عسکری بھائی! عقیدتمند مسلمانوں کو اتنے بڑے ” سائنسی امتحان“ میں تو نہ ڈالیں :D اس طرح تو دو اور دو چار اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوسکتا ہے :p
 

عسکری

معطل
عسکری بھائی! عقیدتمند مسلمانوں کو اتنے بڑے ” سائنسی امتحان“ میں تو نہ ڈالیں :D اس طرح تو دو اور دو چار اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوسکتا ہے :p
ہاں تو ٹھیک ہے نا ایک بار یہ ٹنٹا نکال دیتے نا جو بھی کچھ ہے دنیا میں جہاں جہاں سب کو ملا کر ایک ڈیٹا بیس بنا لیں اور سب کا تجزیہ کر لیں بات ہی ختم ہو جائے گی :bighug:۔ مذہب تو ہے ہی ایک امتحان پھر امتحانوں سے کیا ڈرنا :laughing:
 

عسکری

معطل
پیرِ طریقت رہبرِ شریعت حضرت علامہ کیتھ بیری کے ایمان افروز معجزات و کرامات بھی ملاحظہ فرمائیں۔
آنجناب کے کچھ خوارق عادت معجزات ٹیڈ ڈاٹ کام پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ بندہ کار معجزانہ طور پر ایسے چلا سکتا ہے تو ہم کیوں نا اسے اپنے پاس پائلٹ رکھ لین جو دشمن پائلٹوں کی آنکھوں سے دیکھ کر انہیں پاگل بناتا رہے اور ہم انہیں ہٹ کرتے رہیں :laugh:
 

عدیل منا

محفلین
میرے محترم بھائی " اسم الرجال " کے ماہرین اور " ثقہ علماء کی تخریج شدہ مستند و مصدقہ کئی احادیث سن 1970 سے لیکر سن 1988 تک " ضعیف و موضوع تک کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں ۔ پاکستان جانا ہو تو پنجاب پبلک لائیبریری کا دورہ کیجیئے گا ۔ اور سن 1970 سے پہلے کی شائع شدہ " صحیح بخاری و صحاح ستہ " سمیت احادیث کے مجموعوں کا مطالعہ کیجئے گا ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی ایسے پاکستانی سے جس نے 70 سے 80 کے درمیان میٹرک پاس کیا ہو ۔ اس سے " آخری خطبہ پاک کے متن بارے اور " علی و فاطمہ " کے ذکر بارے پوچھ لیجئے گا ۔
اور باقی رہا اوسط عمر بارے تو ذرا تلاش کیجئے گا کہ جناب امام مالک امام شافعی امام حنبل امام ابو حنیفہ کی عمر مبارک کیا تھی ۔
امام ذہبی نے "ابو مخنف " کی تاریخ وفات تو ثابت کر دی ۔ لیکن تاریخ پیدائیش سے انجان رہے ۔ سبحان اللہ
نایاب بھائی! یہاں میرا مقصد اپنی علمیت ثابت کرنا نہیں ہے۔ آپ کا علم مجھ سے زیادہ ہے۔ آپ نے چونکہ احادیث کی ترتیب کی بات کی تھی تو میں نے اسی بات پر یہ کہا تھا کہ تاریخ اکٹھی کرنے میں وہ احتیاط نہیں کی گئی جو احادیث کیلئے کی گئی۔
ابو مخنف کے بارے میں میں نے زیادہ بات نہیں۔ اگر اس کا بائیو ڈیٹا یہاں لکھ دیتا تو ایک الگ بحث چھڑجاتی۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ بندہ کار معجزانہ طور پر ایسے چلا سکتا ہے تو ہم کیوں نا اسے اپنے پاس پائلٹ رکھ لین جو دشمن پائلٹوں کی آنکھوں سے دیکھ کر انہیں پاگل بناتا رہے اور ہم انہیں ہٹ کرتے رہیں :laugh:
مگر یہ تو کافر ہے اور کفار کا ہی ساتھ دے گا۔ ہاہاہا
 
اے کاش کہ ہم مسلمان مذہب کو روایات، جھوٹے اعتقادات، رسومات اور رواجوں، جھوٹی تاریخ اور سچے جھوٹے سیاسی واقعات سے آزاد کرکے صرف اور صرف شارع علیہ السلام کے لائے ہوئے قرآن اور ان ﷺ کے سکھائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا سیکھ لیں۔ نیز آپ ﷺ اور حضراتِ شیخین ( حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ) کے ادوار کو اپنی زندگیوں کا ماڈل بنا لیں۔حضراتِ شیخین نے جس طرح آپ ﷺ کے پیغام کی تشریح کی ( فقہ کے بانی اور تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمرؓ ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی) وہ رہتی دینا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے ہجرِ اسود کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان‘‘ جب ہجرِ اسود کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں کہ حضراتِ صحابہ ؓنے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ حج اور عمرے کے ارکان کی ادائیگی میں اسے بوسہ دیا یا استلام کیا، تو کوئی اور پتھر جو رنگ بدلتا ہو اس کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔
’’اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے، اسی بناء پر کعبہ اور ہجرِ اسود کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی اصول سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہوگئی تھی حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلطی میں پڑنے سے باز رکھا۔ ( الفاروق۔ از علامہ شبلی نعمانی)
وما علینا الا البلاغ
 

عدیل منا

محفلین
اے کاش کہ ہم مسلمان مذہب کو روایات، جھوٹے اعتقادات، رسومات اور رواجوں، جھوٹی تاریخ اور سچے جھوٹے سیاسی واقعات سے آزاد کرکے صرف اور صرف شارع علیہ السلام کے لائے ہوئے قرآن اور ان ﷺ کے سکھائے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا سیکھ لیں۔ نیز آپ ﷺ اور حضراتِ شیخین ( حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ) کے ادوار کو اپنی زندگیوں کا ماڈل بنا لیں۔حضراتِ شیخین نے جس طرح آپ ﷺ کے پیغام کی تشریح کی ( فقہ کے بانی اور تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمرؓ ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی) وہ رہتی دینا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے ہجرِ اسود کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان‘‘ جب ہجرِ اسود کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں کہ حضراتِ صحابہ ؓنے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ حج اور عمرے کے ارکان کی ادائیگی میں اسے بوسہ دیا یا استلام کیا، تو کوئی اور پتھر جو رنگ بدلتا ہو اس کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔​
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔​
’’اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے، اسی بناء پر کعبہ اور ہجرِ اسود کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی اصول سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہوگئی تھی حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلطی میں پڑنے سے باز رکھا۔ ( الفاروق۔ از علامہ شبلی نعمانی)​
وما علینا الا البلاغ​
بہت شکریہ جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب
 
تری نگا ہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا:)
جو دوست یہاں کسی بھی بات کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے ماننے پر تیار نہیں ہیں ان سے دست بستہ عرض ہے کہ جس عدم اعتماد کو انہوں اپنی سوچ کا محور و مرکز بنا رکھا ہے، پہلے اسے اپنی ذات پر لاگو کریں۔۔آپ جب پیدا ہوئے اور کچھ عرصے کے بعد آپ نے ہوش سنبھالا اور آپ کو بتایا گیا کہ فلاں صاحب آپکے والد صاحب ہیں اور فلاں والدہ۔۔آپ نے اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے اس بات کو من و عن تسلیم کرلیا۔ آپ بھی ضرور تسلیم کریں گے کہ اس اعتماد کی بنیاد تو قطعاّ غیر سائنسی ہے۔ انٹلکچوئل دیانت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنا اور اپنے مبینہ والدین کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر "عین الیقین" کی منزل حاصل کریں۔۔اسکے بعد دوسروں کے عقائد کا سائنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیجئے۔Charity begins at home.۔۔۔;) اور بات یہیں ختم نہیں ہوگی کیونکہ حق الیقین کا درجہ حاصل کرنے کیلئے قدم قدم پر کئی منزلوں سے گذرنا پڑے گا۔
ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ دنیا میں آپ کو کسی نہ کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ہی پڑ تا ہے اور کئی باتوں کو دوسروں کے علم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسکے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے اور وہ جو کچھ تشخیص کردے اور جو دوا لکھ کر دے دے اسے آپ تسلیم کرلیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ کہیں سے سن رکھا ہے کہ یہ ڈاکٹر مستند ہے۔ جب اسکی تشخیص درست ثابت ہوتی ہے اور دوا اپنا اثر دکھانےلگتی ہے تو آپکو اس ڈاکٹر کی مسیحائی پر پہلے سے نسبتاّ زیادہ مضبوط بھروسہ (یا ایمان) حاصل ہوجاتا ہے۔
مذہب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کسی انسان پر اس درجے بھروسہ کرتے ہیں کہ اسکی کہی ہوئی ہر بات کو سچی اور معتبر جانتے ہیں۔ چنانچہ علم کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اور اس ذریعے کو چار و ناچار آپ بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے تین درجوں میں سے سب سے پہلا درجہ "اسلام" ہے یعنی مان لینا ۔۔۔۔اور جب زندگی کے تجربات سے آپکو اس انسان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں تو آپکو اس شخص کی دانائی ، فراست، علم وغیرہ پر مزید ایقان حاصل ہوتا ہے۔۔ہمارے خیال میں تو علم حاصل کرنے کا یہی ایک واحد طریقہ ہے یعنی کسی اور کے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے ابتدائی طور پر بغیر چون و چرا کئے اسی تحقیقات و تسلیم کرلیا جائے اور پھر درجہ بدرجہ اپنی جستجو اور صلاحیت کی مدد سے سے اس پوائنٹ سے آگے بڑھ کر علم میں مزید وسعت ، accuracy اور نکھار لایا جائے۔ جب ہم سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی اصول کارفرما ہے کچھ assumptionsہیں جنہیں ہم بغیر کسی ثبوت کے تسلیم کرکے اپنی تحقیقات کے سلسلے کوآگے بڑھاتے ہیں۔:)
اب اس دھاگے میں پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا۔ یا تو آپ ود اس جگہ پر پہنچ کر بذاتِ خود اس بات کا مشاہدہ کرلیجئے کہ ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ پہلے سے موجود اپنے علم کی روشنی میں عقل اور منطق و استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ یہاں آکر دو فریق جدا ہوجاتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی منطق اور عقل کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ یہ درست ہے یا نہیں، مذہبی آدمی جسکی منطق کی بنیاد یہی ہے کہ اگر کسی قابلِ بھروسہ آدمی نے( جس کے سچ پر وہ بھروسہ کرسکتا ہے) یہ کہا ہے تو پھر یہ بات ٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔ جبکہ غیر مذہبی آدمی کو چونکہ اس معاملے میں ایسا کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر وہ بھروسہ کرسکے، چنانچہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اسکی منطق یہی کہتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔:)
 

فاتح

لائبریرین
آپ کی اطلاع کت لیے عرض کر دوں کہ میرے پاس نہ صرف اپنے بلکہ اپنی اولاد کے بھی ڈی این اے ریزلٹس محفوظ ہیں اور ان ریزلٹس سے پہلے میں بھی آپ کی طرح اندھیروں میں ہی جی رہا تھا :)
 

شمشاد

لائبریرین
محمود بھائی سائنس تو آج تک یہ نہیں معلوم کر سکی کہ روح کی حقیقت کیا ہے، کہاں سے آتی ہے اور کہاں جاتی ہے، باقی باتیں تو چھوڑیں۔
 
امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے ہجرِ اسود کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان‘‘ جب ہجرِ اسود کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں کہ حضراتِ صحابہ ؓنے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ حج اور عمرے کے ارکان کی ادائیگی میں اسے بوسہ دیا یا استلام کیا، تو کوئی اور پتھر جو رنگ بدلتا ہو اس کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
خلیل بھائی، آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ نامکمل ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں(مستدرک حاکم وغیرہا) میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ حضرت عمر نے جب یہ بات کہی تو حضرت علی وہیں موجود تھے اور انہوں نے فوراّ کہا کہ نہیں امیر المؤمنین ایسا نہیں ہے اس پتھر سے نفع پہنچ سکتا ہے کیونکہرسولِ پا ک نے فرمایا کہ یہ پتھر بنی آدم کے گناہوں کو جذب کرتا ہے اور اسکا رنگ سفید تھا لیکن اسی وجہ سے کالا ہوگیا اور یہ کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنے ہاتھ سے تشبیہہ دی ہے
جو شخص اسے چومتا ہے وہ گویا (مجازی طور پر ) اللہ سے مصافحہ کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم نے اسے استسلام کیا اور بوسہ دیا ورنہ رسولِ کریم کی شان اس بات سے نہایت بلند ہے کہ وہ کوئی عبث اور فضول کام کریں۔۔۔۔حضرت عمر نے حضرت علی کی اس بات کو تسلیم بھی کیا۔
واللہ اعلم بالصواب
 
آپ کی اطلاع کت لیے عرض کر دوں کہ میرے پاس نہ صرف اپنے بلکہ اپنی اولاد کے بھی ڈی این اے ریزلٹس محفوظ ہیں اور ان ریزلٹس سے پہلے میں بھی آپ کی طرح اندھیروں میں ہی جی رہا تھا :)
اس ڈی این اے ٹیسٹ کی Interpretationیقیناّ آپ نے نہیں کی ہوگی بلکہ متعلقہ ڈاکٹر صاحب پر بھروسہ کرتے ہوئے انکی interpretationکو تسلیم کرلیا ہوگا۔۔۔یہی بات میں بھی کہنا چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی سٹیج پر آپ کو دوسرے کے علم پر بھروسہ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ شک دور نہیں ہوسکتا :)
 

میر انیس

لائبریرین
خلیل بھائی، آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ نامکمل ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں(مستدرک حاکم وغیرہا) میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ حضرت عمر نے جب یہ بات کہی تو حضرت علی وہیں موجود تھے اور انہوں نے فوراّ کہا کہ نہیں امیر المؤمنین ایسا نہیں ہے اس پتھر سے نفع پہنچ سکتا ہے کیونکہرسولِ پا ک نے فرمایا کہ یہ پتھر بنی آدم کے گناہوں کو جذب کرتا ہے اور اسکا رنگ سفید تھا لیکن اسی وجہ سے کالا ہوگیا اور یہ کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنے ہاتھ سے تشبیہہ دی ہے
جو شخص اسے چومتا ہے وہ گویا (مجازی طور پر ) اللہ سے مصافحہ کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم نے اسے استسلام کیا اور بوسہ دیا ورنہ رسولِ کریم کی شان اس بات سے نہایت بلند ہے کہ وہ کوئی عبث اور فضول کام کریں۔۔۔ ۔حضرت عمر نے حضرت علی کی اس بات کو تسلیم بھی کیا۔
واللہ اعلم بالصواب
بالکل میں آپ کی اس بات کی تائید کرتا ہوں ۔ یہ روایت آدھی بیان کی جاتی ہے آنحضرت(ص) کا کسی پتھر کو بوسہ دینا بلا وجہ نہیں ہوسکتا ۔ حضرت مولا علی(ع) علی نے پھر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ روزِ قیامت یہ پتھر مومنین کے اس عمل کی یعنی محبت سے اسکو بوسہ دینے کہ گواہی دے گا اس بات کے بعد حجرت عمر(ر) نے ارشاد فرمایا تھا کہ علی آج اگر تم نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔ واللہ عالم بالصواب
 
Top