ایک غزل اصلاح، تنقید اور رہنُماءی کی غرض سے ،'' محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا ''

محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، سب صحیح لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
 

الف عین

لائبریرین
ثقہ لوگ تو اس کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ فعل میں کہاں تانیث ہو، اور کہاں تذکیر۔ جیسے دوا کیونکہ مؤنث ہے، اس لئے ’دوا کرنے کی سوچو‘ زیادہ درست ہوتا۔ لیکن اس قسم کی گرامر کا اہلِ دہلی بھی خیال نہیں رکھتے۔
ایک جگہ ’صحیح۔ بمعنی ’سہی‘ لکھ رہے ہو، اس کو سہی ہونا چاہئے، صحیح وزن میں نہیں آتا، کہ آخر کی ح بھی تقطیع میں آنی ضروری ہے۔ اس کو گرایا نہیں جا سکتا۔ باقی بعد میں
 
اب دیکھیے تو جناب اُستاد

محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم
کبھی اُسکی دوا کرنے کی سوچو، تو بتا دینا
 

اسد قریشی

محفلین
اظہر بھائی غزل اچھی ہے،

اعجاز عُبید صاحب کا مقصد آپ کو نشاندہی کروانا تھا کہ تانیث کا خیال رکھنا ضروری ہے، لیکن ساتھ ہی اس کی گنجائش بھی دی جاتی ہے۔اور آپ کی ردیف چونکہ "کرنے کا سوچو، تو بتا دینا " ہے اس لیے یہاں "کی" نہیں لایا جاسکتا ہے، لہٰذا اس کو "کا" ہی رہنے دیں۔

بہت سی داد قبول کیجئے!
 
اظہر بھائی غزل اچھی ہے،

اعجاز عُبید صاحب کا مقصد آپ کو نشاندہی کروانا تھا کہ تانیث کا خیال رکھنا ضروری ہے، لیکن ساتھ ہی اس کی گنجائش بھی دی جاتی ہے۔اور آپ کی ردیف چونکہ "کرنے کا سوچو، تو بتا دینا " ہے اس لیے یہاں "کی" نہیں لایا جاسکتا ہے، لہٰذا اس کو "کا" ہی رہنے دیں۔

بہت سی داد قبول کیجئے!
اوہ ایسا کیا؟ بہت شکریہ اسد قریشی
 
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ثقہ لوگ تو اس کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ فعل میں کہاں تانیث ہو، اور کہاں تذکیر۔ جیسے دوا کیونکہ مؤنث ہے، اس لئے ’دوا کرنے کی سوچو‘ زیادہ درست ہوتا۔ لیکن اس قسم کی گرامر کا اہلِ دہلی بھی خیال نہیں رکھتے۔
ایک جگہ ’صحیح۔ بمعنی ’سہی‘ لکھ رہے ہو، اس کو سہی ہونا چاہئے، صحیح وزن میں نہیں آتا، کہ آخر کی ح بھی تقطیع میں آنی ضروری ہے۔ اس کو گرایا نہیں جا سکتا۔ باقی بعد میں
اس قسم کی گرامر کامیں بھی خیال نہیں رکھتا۔۔۔ کیونکہ میری نظر میں دوا کرنے کا سوچو یا کی سوچو دونوں ہی ٹھیک ہیں۔
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
÷÷عجیب سی خواہش ہے، روایت اس کے خلاف ہی ہے، لیکن یہ اختلاف ہے، محض اختلاف۔۔۔
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
÷÷پہلا مصرع قدرے کمزور لگتا ہے کیونکہ یہ کا استعمال جہاں ہوا ہے، محض وزن برابر کرنے کی غرض سے لانامعلوم ہوتا ہے۔۔
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
÷÷درست
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
÷÷پہلے مصرعے میں تبدیلی کچھ اس طرح بھی ہوسکتی ہے:
مریض عشق ہے اظہر،جوہو چارہ، کرو ہمدم​
÷÷ لیکن یہ ضروری نہیں ۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​
÷÷درست​
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے​
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷ظالم​
کی جگہ کچھ اور لایا جا سکتا ہے، جس سے ’یہ‘ سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ستائیں گے‘ بھی زیادہ ہی ہے۔مثلاً​
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے​
دوسرے مصرع میں بت کو خدا کرنے کی نسبت سے مجھے کافر ادا پسند آ رہا ہے، لیکن دوسری صورتیں بھی ممکن ہیں۔​
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے​
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷’پیار‘ یہاں فٹ نہین ہو رہا ہے، اس کی جگہ الفت کر دو تو بہتر ہے​
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہےزنداں سے​
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن​
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷درست​
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم​
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
ہمدم کی بجائے اگر ’چارہ گرو‘ لا سکو تو بہتر ہے۔ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔​
 

الف عین

لائبریرین
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​
÷÷درست​
بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے​
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷ظالم​
کی جگہ کچھ اور لایا جا سکتا ہے، جس سے ’یہ‘ سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ستائیں گے‘ بھی زیادہ ہی ہے۔مثلاً​
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے​
دوسرے مصرع میں بت کو خدا کرنے کی نسبت سے مجھے کافر ادا پسند آ رہا ہے، لیکن دوسری صورتیں بھی ممکن ہیں۔​
کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے​
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷’پیار‘ یہاں فٹ نہین ہو رہا ہے، اس کی جگہ الفت کر دو تو بہتر ہے​
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہےزنداں سے​
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن​
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
÷÷درست​
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم​
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​
ہمدم کی بجائے اگر ’چارہ گرو‘ لا سکو تو بہتر ہے۔ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔​
 
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​

ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا​

÷÷درست​

بڑے ظالم یہ ہوتے ہیں حسیں چہرے، ستاٴیں گے​

کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​

÷÷ظالم​

کی جگہ کچھ اور لایا جا سکتا ہے، جس سے ’یہ‘ سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ستائیں گے‘ بھی زیادہ ہی ہے۔مثلاً​

بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے​

دوسرے مصرع میں بت کو خدا کرنے کی نسبت سے مجھے کافر ادا پسند آ رہا ہے، لیکن دوسری صورتیں بھی ممکن ہیں۔​

جی یہ صورت ، خوبصورت ہے


کٹی ہے عمر ساری قید میں، ہے پیار زنداں سے​

جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​

÷÷’پیار‘ یہاں فٹ نہین ہو رہا ہے، اس کی جگہ الفت کر دو تو بہتر ہے​

کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہےزنداں سے​

جی بہت بہتر


ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن​

کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​

÷÷درست​

مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ کوٴی ہمدم​

کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا​

ہمدم کی بجائے اگر ’چارہ گرو‘ لا سکو تو بہتر ہے۔ سوچو، میں بھی سوچتا ہوں۔​

یوں دیکھ لیجیے جناب​

مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
گویا اب صورتحال کچھ یوں ہو گی

محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہے زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
 

پپو

محفلین
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
 
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہے زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا

محمد اظہر نذیر صاحب، بات کرنے کی اجازت ہے؟
احباب کی زیرک نگاہی اور عمدہ مشوروں کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ غزل کی اب تک جو صورت بنی ہے اُسی کی بنیاد پر آگے چلتے ہیں۔

محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
میری ذاتی رائے ہے کہ ردیف میں ہر جگہ ’’کا‘‘ کی بجائے ’’کی‘‘ ہونا چاہئے۔ بہرحال یہ معاملہ چونکہ روزمرہ اور محاورہ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے لکھاری اپنے علاقائی محاورے کے مطابق جسے راجح سمجھے۔ مطلع کا مضمون روایت سے کسی قدر ہٹ کر ضرور ہے، تاہم اس میں کوئی ناکردنی یا ناگفتنی بھی نہیں، لہٰذا میں اس کو ’’مناسب‘‘ قرار دیتا ہوں۔

بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلا مصرعہ اپنے اولین متن کی نسبت تو بہت بہتر ہو گیا، تاہم ایک سوال ہنوز باقی ہے۔ چہرے سنگ دل ہوتے ہیں یا چہروں والے سنگ دل ہوتے ہیں؟ توجہ فرمائیے گا۔ دیکھئے، ہمارے آپ کے کہے میں بہتری کی گنجائش ہمہ وقت ہوتی ہے۔ میرے دوست تھے ڈاکٹر رؤف امیر (مرحوم) کہا کرتے تھے اپنے لکھے پر کبھی مطمئن نہیں ہونا، اس کو مانجھتے اور پالش کرتے رہا کرو۔ ’’بت کو خدا کرنے کی‘‘ تازہ کاری کی عمدہ مثال ہے۔ اس ٹکڑے میں نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ روایت سے مربوط رہ کر اپنی انفرادیت کا اظہار کر رہا ہے۔

کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہے زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلے مصرعے میں تعقیدِ لفظی کی صورت پیدا ہو رہی ہے، اس کو کسی طور سنوار لیں تو بہت اچھا شعر بنتا ہے۔ دوسرے، زندان سے الفت، محبت کی بجائے اگر ’’مانوس ہونا‘‘ ہو سکے تو اور بھی اچھا ہے۔ خیال اگرچہ بہت پرانا ہے تاہم اظہار مناسب ہے اور اِس غزل کی عمومی فضا میں جچ رہا ہے۔ شعر میں تعقید کسی نہ کسی طور موجود ہوتی ہے کہیں کم کہیں زیادہ، اور فن یہ ہے کہ قواعد کا دھیان رکھتے ہوئے صوتی اور معنوی سطح پر ملائمت برقرار رہے۔ میں ذاتی طور پر غزل میں بالخصوص ملائمت کا قائل ہوں، احباب کی رائے کا احترام اپنی جگہ واجب ہے۔ کچھ شعراء بطورِ خاص تنویر سپرا کی شناخت ہی ان کا کھردرا لہجہ ہے، اور ان کے ہاں اس کھردرے لہجے کا جواز بھی تو ہے۔
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
یہ شعر پوری غزل کی فضا میں کمزور لگ رہا ہے۔ پہلا مصرعہ اب تک کی متعدد ترامیم کے بعد بھی ’’جان دار‘‘ نہیں بن پایا۔ اسے غالبآ عجزِ بیان کہا جاتا ہے؟ کہ بات ویسی بن نہیں پائی جیسے کہنی مقصود تھی۔ ’’کہنی مقصود تھی‘‘ اور ’’کہنا مقصود تھا‘‘ یہ معاملہ بھی بہت زیرِ بحث رہتا ہے۔ ایک شعر (شاعر کا نام اس وقت ذہن میں نہیں):
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک​
کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا​
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلا مصرع اچھا ہے، دوسرا مصرع معنوی سطح پر پہلے مصرعے کی ٹکر کا نہیں کہ اس میں تشکیک کا عنصر پایا جاتا ہے، جس کا جواز پہلے مصرعے میں فراہم نہیں کیا گیا۔ اس پر بھی توجہ فرمائیے گا۔ یہاں ایک اہم نکتہ: الفاظ کو بلا ضرورت ملا کر لکھنا مستحسن نہیں ہے۔ ’’اُسکی‘‘ کو ’’اُس کی‘‘ لکھنا نفاست اور دورَ حاضر کی کمپیوٹر کی ضروریات دونوں لحاظ سے بہتر ہے۔ خطاطی کی بات اور ہے، کہ وہاں لفظوں کی ظاہری شکل معنویت پر فوقیت رکھتی ہے۔​
میرا طریقہ (اگرچہ کچھ احباب اس سے متفق نہیں) یہی ہے کہ تجاویز اور دلائل جہاں تک بن سکے پیش کر دیتا ہوں، الفاظ اور عبارت کیا ہو، اور کیسے ہو، یہ خود صاحبِ کلام پر ہے، میں اُس کے منہ میں لفظ ڈالنے والا کون ہوتا ہوں!۔ اور اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ مجھے جو عرض کرنا تھا، میں نے کر دیا۔ شاعر کو مکمل حق حاصل ہے کہ میرے کہے کو کلی یا جزوی طور پر قبول کر لے یا رد کر دے۔​
خوش رہیں۔​
 
محترم محمد ا ظہر نذیر صاحب کی اجازت سے :
یقین مانومجھے تم نے بھی ٹھکرانا ہے آخر میں
مگر پھر بھی وفا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
 
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک​
کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا​
محترم محمد يعقوب آسي صاحب آپ كے ذوق سے ملتي جلتي غزل پيش خدمت هے:​
انکے انداز کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ہے پر درد نہ جانا دل کا

دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
ہم دیکھتے رہ گئے ہاتھ سے جانا دل کا (پير نصير الدين نصير )

 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ شعر پوری غزل کی فضا میں کمزور لگ رہا ہے۔ پہلا مصرعہ اب تک کی متعدد ترامیم کے بعد بھی ’’جان دار‘‘ نہیں بن پایا۔ اسے غالبآ عجزِ بیان کہا جاتا ہے؟ کہ بات ویسی بن نہیں پائی جیسے کہنی مقصود تھی۔ ’’کہنی مقصود تھی‘‘ اور ’’کہنا مقصود تھا‘‘ یہ معاملہ بھی بہت زیرِ بحث رہتا ہے۔ ایک شعر (شاعر کا نام اس وقت ذہن میں نہیں):
÷÷کچھ لوگ بات کرنا لکھتے ہیں، کچھ کرنی، کرنی غلط اور کرنا درست ہے، جہاں تک میں نے مولانا انجم فوقی کے استدلال سے سمجھا ہے۔ جو مفہوم اس اقتباس کا بنتا ہے ، کچھ یوں ہے کہ علامت مصدری نا ہے، نی نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا امر کی وجہ سے ہے سو یہ سبب بھی قابل قبول نہیں ۔۔۔۔ اگر اس میں آپ لوگ کچھ آراء دیں گے تو میں ان کا قول وقت نکال کر ہو بہو نقل کردوں گا جو ان کی کتاب فکر وفن میں موجود ہے۔۔۔ شاید آپ میں سے کسی نے وہ کتاب نہ پڑھی ہو۔ بہت پرانی کتاب ہے۔

 

الف عین

لائبریرین
اس کا مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ’کا‘ یا ’کی‘ کچھ اجنبی کیوں لگا تھا۔ اس کی مناسبت فاعل سے ہوتی ہے لیکن ہر جگہ نہیں، یہ میں نے غلط لکھا تھا۔ بات کرنی مجھے مشکل۔۔۔ درست ہے، لیکن اس غزل میں ’سوچ‘ کی مناسبت سے کا یا کی لگانا چاہئے۔ (جیسا کہ ’کہنا مقصود تھا‘ میں مقصود کے حوالے سے ’کا‘ زیادہ درست ہے) سوچ کیونکہ مؤنث ہے، اس لئے چاہے مؤنث دوا کرنے کی سوچو، یا مذکر دغا کرنے، ’کی‘ ہی درست ہے، باقی آسی بھائی کی بات پر بھی غور کرو۔ میرا طریق یہ ہے کہ میں کم سے کم اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top