محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: فراز صاحب اب لکھنے کا کیا عالم ہے؟
فراز:زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا تھا۔ کبھی لکھنے پہ آتے ہیں تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں،(in one span) کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتے، طبیعیت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو وہی میرے لکھنے کی رفتار ہے جو تھی۔​
سوال: کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟
فراز:(سوچتے ہوئے) یہ تو، ایسے ہے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ پوچھیں کہ سانس کیوں لیتے ہو۔ اب تو یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ شروع میں تو شاید کوئی خیال بھی نہیں تھا لیکن جب اس بیماری نے اپنی گرفت میں لیا تو اب نہ یہ جان چھوڑتی ہے اور نہ ، بقول غالب کے ’نہ پھندا ٹوٹتا ہے نہ جان نکلتی ہے‘۔​
سوال: لیکن جب آپ نے لکھنا شروع کیا تھا اور پہلی چیز جو آپ نے لکھی تھی کیا وہ آپ کو یاد ہے؟
فراز:ہاں یاد ہے، اس لیے کہ بہت بچپن کا واقعہ ہے اس لیے بھول نہیں سکتا۔ میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:​
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے​
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے​
تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔​
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی​
تو اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ سکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔​
سوال: تو آپ نے ملازمت شروع کی کراچی سے تو اس زمانے میں وہاں اور کون کون لوگ تھے؟
فراز:وہاں بڑے بڑے لوگ تھے اس وقت، ارم لکھنوی، سیماب اکبر آبادی اور شاہد احمد دہلوی، اور میں تو اردو بول بھی نہیں سکتا تھا اس زمانے تک، لکھ لیتا تھا ٹھیک ٹھاک لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ کراچی جانے سے پہلے تو ادھر ادھر ہم اردو میں بات ہی نہیں کرتے تھے تو جب کراچی پہنچا تو اکثر تو میں چپ رہتا تھا۔ یا ہاں ہوں ہاں کرتا تھا۔ پھر کراچی میں والدہ یاد آتی تھی۔ دن میں سکرپٹ لکھتے تھے اور رات میں والدہ کو یاد کر کے روتے تھے۔ ہم نے سب کی منت زاری کی اور کہا کہ ہم نہیں رہ سکتے، ہم واپس جاتے ہیں۔ تو اس طرح ہمارا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پشاور میں ان دنوں افضل اقبال صاحب تھے ڈائریکٹر پھر ن م راشد آگئے ڈائریکٹر ہو کر۔ تو انہوں نے کہا کہ خالی بیٹھے رہتے ہو پڑھنا کیوں چھوڑا تم نے، یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ یہیں بیٹھ کے کرو۔ کالج ختم کر کے آؤ جو لکھنا ہے وہ گھر جا کر بھی لکھ سکتے ہو۔ تو اس طرح ہم نے کالج جوائن کیا۔ پھر ایم بھی کیا۔​
سوال: ایم اے آپ نے کہاں سے کیا؟
فراز:پشاور یونیورسٹی سے۔ اسی زمانے میں میں پروڈیوسر ہو چکا تھا لیکن جب ایم اے کر لیا تو لیکچرر شپ کی آفر آ گئی۔ مجھے پڑھانا بہت پسند تھا تو پشاور یونیورسٹی چلے گئے۔پتا نہیں کیسا پڑھاتا تھا لیکن دوسرے سبجیکٹ کے لڑکے بھی کلاس میں آ جاتے تھے۔ مجھے ٹیچنگ سے واقعی محبت تھی لیکن ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک سینئر پروفیسر، پورا نام تو اب ان کا یاد نہیں، خلجی صاحب کو جنہیں اسلامیہ کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا تھا، بڑا پریسٹیجس (پُر وقار) کالج ہوتا تھا، الیکشن میں لڑکے خوب گالیاں دے رہے ہیں۔ میں نے سوچا کے پروفیسر کے پاس تو عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے، بس وہ دن تھا کہ میں سوچا کہ ٹیچنگ اب نہیں کرنی۔​
جو بھی پہلی نوکری ملے گی میں اس پر چلا جاؤں گا۔ اسی دوران اشتہار آیا اور میں نے اس کے لیے اپلائی کر دیا اور وہ واحد ملازمت تھی جس کے لیے میں نے اپلائی کیا تھا۔ لیکن اس پر انہوں نے کسی اور کو رکھ لیا۔ کچھ دن بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کوئی حکومت کی بات کی میں نے کہا کہ بھئی ہم نے تو درخواست بھی دی تھی لیکن ہمیں تو انہوں نے انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا۔ اس کے کچھ دن بعد سیکرٹری کا فون آ گیا۔ دوبارہ انٹرویو ہوئے اور میں سلیکٹ ہو گیا اور اس طرح میں نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر رہا۔ پھر 1977 میں جب بھٹو صاحب اکیڈمی آف لیٹرز قائم کرنا چاہتے تھے تو میں اسلام آباد آ گیا۔ 1977 میں نے ایک نظم لکھی، فوج کے بارے میں ’پیشہ ور قاتلو‘۔ وہ بھٹو صاحب کا آخری زمانہ تھا لیکن فوج نے گرپ (گرفت) حاصل کر لی تھی اور فوج سٹوڈنٹس کو مار رہی تھی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے انہوں نے دفتر سے گرفتار کیا حالانکہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ لیکن وہ آنکھوں پر پٹی وغیرہ باندھ کر لے گئے۔ مانسہرہ کیمپ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جب مجھے سپریم کورٹ نے رہا کیا تو انہوں نے مجھ پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ عدالت سے مجھے وہ سی این سی ہاؤس لے گئے وہاں ضیاء الحق تھا اور میرا ایک دوست وہ جنرل بنا ہوا تھا جنرل عارف۔ ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اتنی تعریفیں کر رہا تھا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ بس یہ سمجھیں کہ خدا کو اس نے معاف کیا باقی تمام پیغبروں سے وہ انہیں اونچا ثابت کر رہا تھا۔ یہ میں 30 جون کی بات کر رہا ہوں اور چار جولائی کو انہوں نے تختہ الٹنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ سے انگریزی میں کہا کہ ’آپ کو وزیراعظم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مداخلت کر کے آپ کو بچایا‘۔ دوسرے دن میں دفتر گیا تو بہت فون آئے۔ اخبار میں آ گیا تھا کہ فوج نے فراز کے خلاف الزامات واپس لے لیے ہیں۔​
سوال: کیا آپ کو یہ نظم یاد ہے؟
فراز:نہیں یاد نہیں ہے۔ وہ میں نے کہیں پڑھی بھی نہیں تھی۔ کہیں چھپی تھی اور لوگوں نے اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے بانٹی تھیں۔​
’پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں‘ یہ اس نظم کی آخری لائن تھی۔ خیر دفتر میں بھٹو صاحب کا فون بھی آیا۔ اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں تھی نہ ہی کبھی بات ہوئی تھی۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیراعظم بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’فراز دس از می، دس ٹائم آئی سیوڈ یور لائف۔ دے وانٹ ٹو ٹرائی یو‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے کہا کہ آپ ان دو لوگوں سے انتہائی محتاط رہیے گا۔ انہوں نے پوچھا کن دو لوگوں سے میں نے انہیں بتایا کہ ایک تو جنرل ضیاء الحق سے اور ایک کوثر نیازی سے، میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے اور میں نے اس کی آنکھوں میں مکاری دیکھی ہے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ یہ کیا کریں گے ہمارا پی این اے سے معاہدہ ہو گیا ہے اور ہم اکتوبر میں انتخابات کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ہو گی؟ میں نے جواب دیا کہ شاعری تو ہو گی لیکن میں نہ تو جالب ہوں اور نہ جمیل الدین عالی۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا جیسے بچوں کو ہوتا ہے، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کا؟
فراز:نہیں میں تو پائلٹ بننا چاہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نویں دسویں جماعت میں ہمیں جس پہلی لڑکی سی فیسینیشن (رغبت) ہوئی اس کا بھائی پائلٹ تھا۔ اب یہ قصہ لمبا ہے لیکن وہ ایک وجیہہ آدمی تھا خاص طور پر وردی میں بہت ہینڈسم لگتا تھا۔ میں نے انٹرویو وغیرہ بھی دیا اور سلیکٹ بھی ہو گیا اور کال بھی آ گئی لیکن میری والدہ مخالف تھیں کیونکہ میرا بڑا بھائی فوج میں جا چکا تھا اور میری والدہ کا کہنا تھا کہ وہ سب بچوں کو ادھر نہیں بھیجنا چاہتی۔ تو ان کی چھٹی حس تھی جس کی بنا پر انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا کیونکہ میرے ساتھ کے جتنے بھی لڑکے گئے وہ سب ہی مارے گئے کچھ ٹرینگ میں کچھ ویسے۔​
سوال: تو وہ پہلی خاتون تھیں؟
فراز:ہاں وہ پہلی تھی۔ اور وہ مجھ پر کوئی تیس سال تک طاری رہی۔ حالانکہ یہ نویں دسویں کی بات تھی۔ خاص طور پر ہماری طرف جہاں پردہ وغیرہ بہت تھا اور میل جول بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی ہو گئی۔ وہ اس وقت دسویں میں تھی۔ پھر اس سے میری ملاقات تیس سال بعد ہوئی۔ او ہو ہو۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی اس سے مل کر۔ مجھ میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب تو خیر میرا وزن بھی بڑھ گیا ہے لیکن تب تک میں بہت تبدیل نہیں ہوا تھا اور اس نے ساری باتیں کیں اس طرح کی مجھے شوگر ہے اور مجھے یہ ہے اور وہ ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ چائے کی پیالی کب ختم ہو گی۔ مجھے اتنا افسوس اور دکھ ہو رہا تھا کہ کس کے لیے تیس سال کٹے۔​
سوال: بیچ میں کوئی نہیں آیا؟
فراز:نہیں آتے رہے۔ میرا وہ شعر ہے نا:​
ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ​
٭ ٭ آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا​
سوال: کتنا کردار ادا کیا آپ کی شاعری میں آپ کے وجیہہ ہونے نے؟ ظاہر ہے آپ شعراء میں ؟
فراز:چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں، میں کہاں کا وجیہہ تھا، بس قبول صورت تھا۔ اور اس میں تو دو رائے نہیں کہ بہت پیار مجھے ملا۔ ابھی کچھ روز پہلے میں ہوٹل سے نکل رہا تھا کہ فوجیوں کی ایک گاڑی نے مجھے آگے آ کر ہاتھ دیا میں نے سوچا لو پھر آ گئے۔ اس میں دھڑ دھڑ کرتے ہو ئے کمانڈوز کی وردی میں پہلے سپاہی اترے پھر ایک افسر اور اس نے سو کا نوٹ میرے آگے کیا اور کہا کہ ’اس پر دستخط کر دیں گے آپ؟‘ تو میں نے ان سے کہا کہ تم لوگوں کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس نے کہا کہ آپ احمد فراز ہیں؟ میں نے کہا کہ فراز تو میں ہوں۔ اس کے بعد ایک اور نے دستخط کرائے۔ تو پیار لوگوں مے بہت دیا۔​
اگرچہ میں فوج کے افسروں وغیرہ کو پسند نہیں کرتا لیکن ابھی پچھلے دنوں کراچی ائر پورٹ پر میں اوپر وی آئی پی روم میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا تو پہلے پولیس والے آئے اور آ کر دیکھ داکھ کر چلے گئے پھر دو افسر آئے۔ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ ان میں ایک بڑا سمارٹ سا۔ تو میں نے سوچا اب یہ پوچھے گا یہاں کیوں بیٹھے ہو اور بدمزہ کرے گا حالانکہ وہ جگہ سگریٹ پینے کے لیے ہی مخصوص ہے۔ لیکن وہ قریب آئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ’میں آپ سے ہاتھ ملانا چاہتا ہوں‘​
میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ساتھ تمہارے افسر ہیں اور کمانڈوز ہیں کیوں اپنی نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔ اس نے جواب میں کہا ’ٹو ہیل ود دیم‘ اور بڑے ادب سے ہاتھ ملا کر چلاگیا۔ تو فوج میں بھی ہم سے محبت کرنے والے ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں خوش ہوں اور اتنی محبت مجھے ملی ہے کہ بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کہ میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: تخلیقی عمل کو آپ کیسے بیان کریں گے؟
فراز:تخلیقی عمل کے حوالے سے پہلی چیز تو یہ ہے کچھ نہ کچھ پاگل پن تو اندر ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے لیے زندگی میں عشق بہت ضروری ہے۔ تو زندگی میں جتنی بھی آگے دھکیلنے والی چیزیں ہیں ان کے پیچھے یہی ہوتا ہے۔ اسے آپ عشق کہہ لیں، لگن کہہ لیں، جنون کہہ لیں، دیوانگی کہہ لیں، کچھ کہہ لیں۔ پھر جب آپ کی دلچسپی ہو جائے تو اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ سب کچھ آپ کو اوپر سے تحفتاً مل جائے۔ یہ ضرور ہے کہ رحجان ہوتا ہے لیکن اس کے لیے علم ضروری ہے ، تعلیم ضروری ہے، اس کے لیے تجربہ ضروری ہے۔ لوگوں میں شامل ہونا اور زندگی سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا۔ سب سے اہم ہے لوگوں میں شامل ہونا۔ کیونکہ آدمی کا درد کتنا بھی بڑا ہو، چھوٹا ہوتا ہے اور کتنی بھی بڑی اس کی خواہش ہو چھوٹی ہوتی ہے، اس لیے جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان کے دکھ تو بہت زیادہ ہیں اور اگر تب آپ میں تھوڑا سا بھی انصاف ہے تو آپ اپنے غموں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ تو ہم نے یہی سیکھا پڑھ کر بھی اور لوگوں سے مل جل کر بھی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ لوگ عشق بھی کرتے ہیں تو مانگے تانگے کا۔ تو سب سے بڑی بات ہوتی ہے اپنا تجربہ۔ اب میں نے دس کتابیں پڑھیں۔ غالب پڑھا، فیض پڑھا، قاسمی پڑھا اور ان کے عشق کے احساس کو دوبارہ بیان کر دیا تو یہ نہیں چلتا۔ آپ کو براہ راست اپنا تجربہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میری زندگی میں ایسے مواقع آتے رہے جو مجھے تحریک دیتے رہے، چاہے وہ جیل تھی یا ملک بدری تھی، چاہے جلا وطنی میں رہا، چاہے زندگی کے اور دکھوں میں رہا تو ایک اچھی زندگی گزاری۔ دھوپ بھی دیکھی چھاؤں بھی دیکھی لیکن اصل بات تو ہوتی ہے سوچ کا اخلاص (سنسیریٹی آف تھاٹ)۔ لیکن اس ملک کی خرابی یہ ہے کہ یہاں سے سچ کوچ کر گیا ہے اور جہاں سے سچ کوچ کر جائے تو پیچھے پیچھے جاتا ہے انصاف۔ اس کے بعد ڈمی رہ جاتی ہے اور ساری اقدار کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔​
سوال: تو تخلیقی عمل میں آپ کسے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، فطری صلاحیت کو یا مہارت کو؟
فراز:یہ دونوں پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ اب میں تو شاعر ہوں اور شاعری کے حوالے سے ہی کہوں گا کہ اس میں ٹیکنیکل چیزیں بھی بہت سی ہیں، مثلاً آپ میٹر (بحر) ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کو میٹر پر مہارت نہیں ہے تو آپ اس میں کھیل نہیں سکتے۔ یا آپ کے پاس کنٹینر (قالب) نہیں ہے تو آپ اپنے مواد کو کیسے سنبھالیں گے۔ تو لفظ جو ہیں وہ کنٹینر ہوتے ہیں سوچ اور فکر کے لیے۔ تو جس زبان میں آپ شعر کہہ رہے ہیں اگر وہ آپ کی زبان نہیں ہے تو آپ کو دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، زبان پر بھی اور فکر پر بھی۔ اور اس سے بھی زیادہ تجربہ ہے۔​
سوال: آپ کے پسندیدہ شاعر یا ادیب؟
فراز:مجھے شاعری کے مقابلے میں پروز رائٹر پسند رہے ہیں۔ کالج سے ہی مجھے ہارڈی پسند تھا۔ پرلز بک کے ناول میں پڑھتا تھا۔ دوستوؤفسکی کے ناول تو ہم نے بعد میں پڑھے۔ پروز میں میٹر (مواد) بہت ہوتا ہے، دوستوؤفسکی کے ناول آپ پڑھیں تو اس میں آپ کو اتنی ورائٹی آف کریکٹر ملے گی اور ان کی گفتگوئیں ملیں گی۔ شاعری میں تو مجھے بیدل پسند تھا اور ہے۔ پھر حافظ اور سعدی پڑھے ہم نے، میرے والد فارسی کے اچھے خاصے سکالر تھے تو ہم نے ان کی کتابوں سے فیض اٹھایا۔ پھر نئے لوگوں میں ہمیں غالب پسند آیا بلکہ مجھے میر سے زیادہ غالب پسند ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر غالب تھا۔ اقبال بھی ہے۔ میرے دل میں اقبال کے لیے بھی بڑی عزت ہے کیونکہ اس کا بالکل نیا سٹائل تھا، نیا ڈکشن تھا، وکبلری (ذخیرۂ الفاظ) نئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نظریاتی طور پر اختلاف کر سکتے ہیں لیکن بطور شاعر میں انہیں ایک بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد فیض صاحب آئے، فیص صاحب کا یہ ہے کہ انہوں نے نیا راستہ اختیار کیا۔ تو انہوں نے بھی ایک نیا راستہ بنایا، روایت اور جدید کا مکسچر بنا کر۔ میں ان سے بہت متاثر بھی ہوا۔ ان سے سے پہلے ساحر کی نظمیں مجھے بہت پسند تھیں۔ قاسمی صاحب بھی ہمیں بہت پسند تھے اور ہم انہیں پڑھتے تھے۔​
سوال: اب کس شاعر آپ زیادہ پڑھتے ہیں؟
فراز:غالب، اصل میں غالب میں یہ خوبی ہے اور ہر بڑے شاعر میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ جس قدر آپ کا تجربہ اور نالج بڑھتی ہے اسی طرح وہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ ایف میں ہم غالب کو پڑھتے تھے تو وہ کچھ اور تھا، بی اے میں کچھ اور تھا اور ایم میں کچھ اور اور جب پڑھانا شروع کیا تو کچھ اور تھا اب بھی میرے سرہانے غالب یا غالب کے بارے میں کوئی کتاب پڑی ہو گی۔ تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ، مثلاً میں نے اگر کسی شاعر کی زمینوں پر یا غزلوں پر کہی ہیں تو وہ غالب ہی ہے۔ میرا خیال ہے دس بارہ ہونگی، اتنی کسی اور شاعر کی نہیں ہونگی۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: فیض کے بعد آپ کہاں رکتے ہیں؟
فراز:فیض کے بعد تو کچھ لوگ اچھے چلے گئے۔ کچھ لوگ ان دنوں اچھے لگتے تھے اب اچھے نہیں لگتے۔ لیکن کچھ ہی لوگ ہوتے ہے جو وقت کی آزمائش پر پورے اترتے ہیں، اور ساتھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں۔ جیسے میں نے شروع میں کہا کہ مجھے ساحر بہت پسند تھا لیکن بعد میں پتہ چلا فیض اہم ہیں۔ اس طرح غالب کو پڑھتے تھے پھر بیدل پڑھا تو وہ مجھے اونچا لگا لیکن اس سے غالب کا رتبہ کم نہیں ہوا بلکہ ان کا جو مقام تھا وہ وہیں نہیں رہا۔ باقی کا یہ کہ آج آپ نے ایک چیز پڑھی اچھی لگی دو چار دن بعد پڑھی تو وہی چیز اچھی نہیں لگی۔ تو وہ جو مستقل قدر رکھنے والے ہوتے ہیں وہ وہی دو تھے اور ہیں۔​
سوال: آپ نے غزلیں زیادہ کہی ہیں؟
فراز:نہیں ایسا نہیں ہے۔ غزلیں بھی ہیں نظمیں بھی۔ کبھی یہ سوچ کر کچھ نہیں لکھا کہ آج غزل لکھنی ہے اور آج نظم لکھنی ہے۔ بس کبھی کسی موضوع نے گرفت میں لے لیا کبھی کسی لائن نے۔ ابھی میری یہ کتاب جس کا میں نے ذکر کیا ہے ’اے عشقِ جنوں پیشہ‘ یہ اسی لیے رکی ہوئی ہے کہ میں اس موضوع پر نظم (تھیم پوئم) لکھنا چاہتا ہوں اور اب تک مجھ سے نہیں لکھی جا رہی۔ کئی بار میں نے لکھا اور پھاڑ دیا کیونکہ میں مطمعن نہیں ہوا۔ اسی لیے کتاب رکی ہوئی ہے۔ اسکی کمپوزنگ وغیرہ ہو چکی لیکن اسی وجہ سے کتاب رکی ہوئی ہے۔​
سوال: کیا کبھی ایسے بھی ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ غزل ہو جائے گی لیکن مطلع سے آگے نہیں چل کر دیتی؟
فراز:ایسا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً میری مشہور غزل ’رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ‘ میں نے اس کے تین شعر لکھے تھے اس کے بعد آگے شعر ہو کر نہیں دے رہے تھے۔​
سوال: کون سے تین شعر پہلے ہوئے؟
فراز:پہلے تین شعر:​
رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ​
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ​
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم​
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے​
اور ایک اور شعر۔ اس کے ایک سال بعد میں ٹرین میں کہیں جا رہا تھا۔ بالکل ٹھیک اسی طرح کی کیفیت پھر مجھ پر طاری ہوئی جیسی پہلے تین شعر لکھتے وقت تھی اور تین شعر میں نے اور لکھے۔ اس غزل میں مقطع بھی نہیں ہے۔ سٹیشن آ گیا۔ اتر جاؤ بھئی۔ تو وہی مسئلہ ہو گیا۔​
سوال: حالانکہ کہ کوئی قافیہ ردیف کا مسئلہ بھی نہیں تھا؟
فراز:نہیں، نہیں، ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی۔ بلکہ مہدی حسن نے اس میں کسی اور کے شعر ڈال دیے۔ میں نے اس سے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ذرا لمبائی کم پڑ گئی تھی۔ میں نے کہا یہ کام مت کیا کرو میرے ساتھ۔​
سوال: اور نظم کے لیے؟
فراز:نظم کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے۔ زیادہ ڈسپلنڈ فارم آف پوئٹری ہے۔ غزل تو چلتے ہوئے، سفر کرتے ہوئے، ڈرائیو کرتے ہوئے، جہاز میں بیٹھے ہوئے، یہاں تک کہ سبزی خریدتے ہوئے بھی ہو سکتی ہے لیکن نظم کے لیے آپ کو لازماً کاغذ قلم اور بیٹھنے کی باقاعدہ جگہ درکار ہوتی ہے۔​
سوال: نظم کیسے ہوتی، پہلے تصور یا ۔۔۔!
فراز:ہاں پہلے خیال یا تصور یا کوئی چیز چھوتی ہے۔ جیسے طلباء پر گولی چلی تو میں نے سوچا کہ فوجی یہ کیا کر رہے ہیں؟ تو ایسے شروع ہوتی ہے دو چار بند ہو گئے اور پھر اور لیکن مختلف چیزیں مختلف پراسس میں سے آتی اور ہوتی ہیں۔ میری ایک نظم تھی ’اظہار‘ کئی بار لکھی، لکھتا تھا پھاڑ دیتا تھا۔ لکھتا تھا پھاڑ دیتا تھا۔ لیکن وہ بات نہیں ہو رہی تھی جو میں چاہتا تھا۔ اب تو نہیں لیکن پہلے میں صبح میں سب سے پہلے چائے پیتا تھا اور اس کے ساتھ ہی سگریٹ شروع ہو جاتی تھی۔ آدھا پیکٹ تک۔ (دس سگریٹ) روزانہ لکھتا تھا اور پھاڑ دیتا تھا۔ ایک رات تین بجے تک یہی ہوتا رہا آخر میں تنگ آ کر سو گیا۔ صبح اٹھا، چائے کی پیالی پی اور اس کے ساتھ ہی ایسے وہ نظم آئی جیسے کوئی مجھے ڈکٹیشن دے رہا ہو۔ اوپر سے نیچے تک۔ بڑی مختصر سی نظم تھی لیکن اس کے مکمل ہوتے ہی اطمینان سا محسوس ہو۔ اب مجھے وہ نظم پوری طرح تو یاد نہیں لیکن کوشش کرتا ہوں۔ جتنی لائینیں بھی یاد آجائیں۔​
پتھر کی طرح جو چپ ہوں​
نہیں یاد رہی اب۔ مجھے اس نظم کا خیال آپ کے سوال سے آیا۔​
سوال: کوئی ایسی نظم بھی ہے ، جو پوری طرح آپ آشکار ہو گئی ہو لیکن آپ لکھنے نہ بیٹھے ہوں اور پھر وہ نظم نہ ہوئی ہو اور رہ کر آپ کو اس کا خیال آتا ہو؟
فراز:ہاں، ہوتا ہے نظم کے ساتھ ہی نہیں غزل کے شعروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ایک بار ایک شعر ہوا اس کے ساتھ ہی ایک دوست کا فون آ گیا اور اس نے کہا ’یار مجھے کوئی شعر سناؤ، مجھے کوئی تحفہ دو‘۔ میں نے اسے شعر سنا دیا۔ اس کے بعد وہ شعر میری یاد سے نکل گیا لیکن یہ خیال رہا کہ ایک شعر تھا جو ہوا تھا اور میں نے اسے اپنے اس دوست کو سنایا تھا۔ بہت دن بعد جب اس کا فون آیا تو میں نے اسے کہا کہ میں اس روز تمہیں جو شعر سنایا تھا کیا تمہیں وہ یاد ہے ۔ اس نے جواباً مجھے کہا کہ تم نے شعر کہا تھا تمہیں یاد ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں نے ایک شعر کہا تھا اور تمہیں سنایا تھا اس کے علاوہ مجھے کچھ یاد نہیں۔ اس نے مجھے وہ شعر سنا دیا۔ دیکھیں اب یاد آ جائے:​
معلوم ہے اس کو میری تاکید کی عادت​
قاصد ہے کہ خط لے کے روانہ نہیں ہوتا​
تو غزل میں یاد کرنے کے کی سہولتیں بھی ہیں لیکن نظم کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اسے لکھ نہ لیا جائے تو ذہن سے نکل جاتی ہے۔ ذرا سی بھی بے التفاتی برتیں تو چلی جاتی ہے۔ ایک بار میری کینیڈا میں بحث ہو گئی مجروح سلطان پوری سے۔ وہ فیض صاحب کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض نے جو چیزیں لکھی ہیں وہ انہوں نے ان سے پہلے لکھی تھیں۔ جیسے ’رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ‘۔ میں نے ان سے کہا کہ مجروح صاحب کتنے سال ہو گئے ہیں آپ کو فلم انڈسٹری میں گئے؟ انہوں نے کہا کہ تیس سال ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا: تیس سال تو بیوی بھی بے نیازی برداشت نہیں کرتی اور شاعری تو محبوبہ ہوتی ہے۔ آپ کچھ بھی کریں شاعری فل ٹائم کام ہے۔ آپ کوئی کام کرتے ہوں، پتھر کوٹتے ہوں دفتر میں کام کرتے ہوں شاعری کا عمل جاری رہتا ہے۔ جیسے چشمہ پھوٹنے کے لیے راستہ تلاش کرتا رہتا اسی طرح شاعری بھی راستہ تلاش کرتی رہتی ہے۔ دکھ ہو خوشی ہو۔ خوشی میں تو کم ہی ہوتا ہے لیکن دکھ میں ہوتا ہے۔​
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/1023_likhari_fz_sen/page4.shtml
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: آپ کا تمام کلام شائع ہو گیا ہے یا اس کتاب کے ساتھ ہو جائے گا یا اس کے علاوہ بھی غیر مطبوعہ ہے؟
فراز:نہیں میں پھاڑ دیتا ہوں پہلے تو شعر کو قبول کرنے اور مسترد کرنے کا عمل میرے ذہن ہی میں ہوتا ہے، اس کے بعد میں اسے کاغذ پر اتارتا ہوں اور پھر اس سے بھی کچھ چیزیں میں ڈسکارڈ (مسترد) کر دیتا ہوں۔ چھپتے وقت بھی۔ میں نئے لکھنے والوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ کتاب چھپوانے میں جلدی نہ کریں اور ایک شادی میں جلدی نہ کریں۔​
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے کوئی کام محققوں کے لیے نہیں چھوڑا، کہ وہ کلام دریافت کریں؟
فراز:ان کی ایسی تیسی، میں ویسے بھی نقادوں اور محققوں سے کوئی زیادہ سمپتھیٹک (ہمدردی نہیں رکھتا) نہیں ہوں۔
سوال: آپ کے خیال میں نقاد کا کیا کردار ہے؟
فراز:ہمارے ہاں اردو میں محاورہ ہے: بگڑا شاعر مرثیہ گو، شاعری نہیں کرتے تو مرثیہ کہنا شروع کر دیتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ لوگ مرثیے کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔ اسی طرح بگڑا شاعر یا افسانہ نگار نقاد ہو جاتا ہے۔ ایسے نقاد بہت کم ہیں، بہت ہی کم جو شاعر بھی اچھے تھے اور نقاد بھی۔ مثلاً فراق تھے، فراق گورکھ پوری جو شاعر بھی اچھے اور نقاد بھی۔ فیض صاحب بھی، ان کی کتاب میزان میں بعض مضمون بہت اچھے ہیں لیکن باقی جو ہیں وہ بگڑے ہوئے ہیں شاعر نہیں ہو سکے، افسانہ نگار نہیں ہو سکے، پھر تاری پوری طرح کرتے نہیں، پڑھتے نہیں ہیں، کچھ چیزیں، کچھ ترکیبیں انہوں نے رکھی ہوتی ہیں، اس میں یہ ہے، اس میں وہ ہے، فلاں فلاں فلاں، آپ فلیپ دیکھیں لوگوں کے، اس میں نام دیکھیں لوگوں کے اس میں نام بدل دیں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جیسے رسالے آپ ان کا کور پیپر بدل دیں تو اندر کنٹینٹ کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان کا اپنا کوئی کریکٹرنہیں ہوتا۔ اسی طرح نقادوں کا بھی یہی حال ہے اور ضروری نہیں کہ جو ایم اے کرلے، ایم اے لٹریچر کر لے وہ اچھا نقاد بھی ہو جائے گا۔ جیسے آپ دس دواوین پڑھ لیں شاعری کے تو آپ اچھے شاعر نہیں ہو سکتے۔ بہر حال ہوتے ہوں گے لیکن مجھے کبھی کسی نقاد نے امپریس (متاثر) نہیں کیا۔​
سوال: شاعر بھی تو شاعروں کی شہادت دیتے ہیں، آپ نے اب تک کتنے شاعروں کے شاعر ہونے کی شہادت دی ہے؟ اور وہ کہاں تک درست ثابت ہوئی؟
فراز:ہاں یہ بھی ہے ایک صاحبہ تھیں، ایک ہمارا دوست تھا، دوست کیا بہت ہی شریف آدمی، اس کا ہمارے ہاں بہت آنا جانا بھی تھا، ڈپٹی کمشنر، لیکن بہت ہی شریف آدمی، ان کی بیوی تھیں افسانہ نگار، ان کا ایک افسانہ چھپا ایک رسالے میں میں نے وہ پڑھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا۔ تو ٹھیک تھا، اس کے بعد انہوں نے کہنا شروع کیا کہ فراز بھائی مجھ پر آپ کچھ لکھ دیں، میں نےکہا کہ میں نہیں لکھتا، لیکن وہ بضد رہیں، لاہور میں تھیں، ایک دن انہوں نے فون کیا اور کہا کہ میں فون پر ہوں آپ بولتے جائیں میں لکھ لوں گی۔ میں نے بول دیا جو بھی بکواس کرنی تھی۔ وہ چھپ گئی۔ اس کے بعد جو میں کتاب پڑھتا ہوں، ایسے خراب افسانے کہ میں سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایسے خراب کہ جس کی حد نہیں وہ ایک افسانہ پتہ نہیں کیسے نکل آیا تھا۔ اس کے بعد میں نے کانوں کو ہاتھا لگا لیا۔ اسی طرح ایک پنجابی کی شاعرہ، میں نے بہت کہا کہ بابا میں پٹھان آدمی ہوں، مجھے پنجابی کا کیا پتہ، میں توپشتو بھی نہیں ٹھیک سے جانتا۔ وہ بھی ٹیلی فون پر، اب ہوتا کیا ہے، آپ آئے۔ آپ ے کہا میرے لیے لکھو۔ میں نے کہا کہ میں تو لکھتا ہی نہیں۔ جواب ملتا ہے کہ آپ نے انور کے لیے نہیں لکھا تھا۔ ہ میرے لیے عذاب بن گیا۔ اس طرح نوبت ڈھٹائی تک آ گئی۔ انڈیا میں تو بہت مشکل ہے، بس جی دو چار لائنیں ہی لکھ دیں۔ بس دو لائنیں ہی لکھ دیں۔ میں بہت کہتا ہوں : دیکھیںاس طرح لیبل سے چیز نہیں بکتی۔ فارسی کا مقولہ ہے: عطر آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید: عطر عطار کے تعارف کا محتاج نہیں ہوگا، خوشبو پھیل کر خود ہی بتا دے گی۔ ایک یہ مصیبت ہے اور ایک یہ مصیبت ہے لوگ کتابیں دیتے ہیں، چلیں آدمی اخلاقاً لے بھی لیتا ہے۔ میری بیوی کو بڑی چڑ ہے کہ کتابیں آ جاتی ہیں اور پڑھی بھی نہیں جاتی ہیں اور سارا گند پڑا رہتا ہے۔ گھر بدل رہے تھے تو اس نے کہا کہ ریڈ آؤٹ نہیں کرتے تو ویڈ آؤٹ کرو۔ انڈیا میں گیا تو میرے ایک دوست کے دوست نے کہا کہ میری کتاب لے جائیے۔ لکھ کر بڑی محبت سے دی۔ اب جب گھر بدلنے کا مرحلہ آیا تو جمعدار سے کہا گیا کہ یہ سب کتابیں لے جاؤ۔ اس نے بیچ دی ہونگی، ردی والے کے ہاں یا کسی اور کے پاس اس میں وہ کتاب بھی تھی۔ ادھر کوئی شخص اس کا جاننے والا پہنچ گیا اس نے کتاب دیکھی اس پر اندر لکھا تھا: احمد فراز کی نذر، اس نے اس کو فون کر دیا۔ اس نے مجھے رات کو فون کیا۔ صاحب میں آپ کو اتنی محبت سے کتاب دی اور آپ نے ردی میں ڈال دی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے تو پتا نہیں لیکن گھر بدلا ہے ۔ میں نے پتہ نہیں اسے کیا کیا جھوٹ سچ کہا اس کے لیے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوئی۔ یہ نہیں کہ ارادۃً کرتا ہوں بعض اوقات ہو بھی جاتا ہے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: کتنی بار جیل جانا پڑا؟
فراز:جیل تو میں ایک ہی بار گیا، ایک بار جیل اور ایک بار جلاوطنی۔ لیکن قیدِ تنہائی اور جس طرح لے گئے تھے۔ حکومتیں بھی ہماری عجیب ہوتی ہیں۔ مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے گئے اور لے جا کر کیمپ جیل میں ڈال دیا۔ پہلے تو کہیں تہہ خانے میں رکھا اور پھر جب کیمپ جیل میں ڈالا تو میں خوش ہوا کہ سلاخیں تھیں اور ہوا آ رہی تھی۔ تو خوشی اس کی ہوئی کہ کم از کم ہوا تو آ رہی ہے۔ باہر ایک گارڈ تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ وہ تو مجھے آنکھیں بند کر کے اور چھپا کر لائے تھے۔ اس نے فوراً بتا دیا کہ ’مانسر کیمپ‘ ۔ اس کے بعد ایک میجر آیا اور مجھے یوں یوں دیکھنے لگا اور اس کے بعد بولا: آپ احمد فراز تو نہیں؟ میں نے کہا کہ جو مجھے یہاں چھوڑ گئے ہیں انہوں نے کوائف تو بھیجے ہوں گے۔ اس نے کہا کہ انہوں نے تو ہم سے کہا تھا کہ انڈیا کا ایجنٹ بھیج رہے ہیں۔ میں کہا تو پھر ہوں۔ تو یہ ہیں ہماری فوج کے کرتوت۔​
سوال: آپ اپنے اب تک کے سفر اور کام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کیا زندگی ایسے ہی گزارنا چاہتے تھے جیسی آپ نے گزاری ہے؟
فراز:یار زندگی، اگر مجھ سے پوچھا جائے تو (آئی وڈ لائک ٹو ریپیٹ اٹ) میں یہی زندگی دوبارہ جینا پسند کروں۔ احمد فراز کی حیثیت سے اتنا خوش رہا ہوں۔ مطلب ہے کہ دکھوں کے بعد بھی لوگوں جو مجھے پیار دیا ہے۔ خواہش تو ہے میری لیکن خواب ہو جائیں گے۔ انڈیا کا یا پاکستان کا کوئی اچھا یا برا آرٹسٹ نہیں جس نے مجھے نہ گایا ہو۔ لتا، مہدی حسن، نور جہاں، جگجیت، پنکھج اداس، طلعت محمود تک نے مجھے گایا ہے۔ میری غزلیں گائی ہیں حالانکہ میں فلم کا لکھنے والا نہیں ہوں۔ اگرچہ مجھے ہلالِ پاکستان کا ایوارڈ دیا جو میں نے فوجی حکومت کی وجہ سے واپس کر دیا۔ ہلالِ امتیاز، میں واپس کر دیا۔ میں نے کہہ دیا کہ آپ کا اعزاز نہیں چاہیے سویلین حکومت ہوتی تو میں لے لیتا۔ اس کے بعد بڑے لوگوں نے میری دیکھا دیکھی واپس کیے۔ ہمارے ملک کی حالت جتنی فوج نے خراب کی ہے نا کسی نے نہیں کی۔ یہ تو ایک عام بات ہے کہ چوکیدار گھر کا مالک بن جائے۔ لیکن تاریخی طور پر بھی نوے ہزار فوجیوں نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ پوری انسانی تاریخ میں، جو انہوں نے ڈالے۔ جنہیں ہم نے پال پال کے تیار کیا تھا۔ جنگ کے میں خلاف ہوں میں لکھنے والا ہوں اور امن چاہتا ہوں۔ لیکن ان کا جو کردار ہے ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی میں پھرتا ہے ایک جرنیل۔ ایک سو چالیس جرنیل ہیں۔ کس لیے بابا رکھے ہوئے ہیں۔اپنے لوگوں پر بمباری کرتے ہیں، اپنے لوگوں قتل کرتے ہیں، اپنے لوگوں کو قید کرتے ہیں۔​
سوال : مشرقی پاکستان، جو پاکستان کا اکثریتی حصہ تھا، جو کچھ وہاں کیا گیا اور جو کچھ وہاں، کیا کبھی سوچا ہے اس ردِ عمل کے بارے میں جو یہاں ظاہر کیا گیا؟
فراز:دیکھیں سویلین پاپولیشن (آبادی) بے بس ہوتی ہے۔ایک میڈیا ہمیشہ کنٹرول میں رہا۔ ایک تو لوگ ان پڑھ ہیں۔ دماغ کا استعمال بھی کم ہی ہوتا ہے بیشتر آبادی اخبار بھی نہیں پڑھ پاتی۔ جو پڑھے لکھے ہیں وہ بے بس ہو جاتے ہیں کہ حکومت ہے کچھ نہ کچھ تو کرے گی۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلتا، بی بی سی یا دوسرے غیر ملکی ذرائع سے کوئی خبر مل جاتی ہے۔یہ تو جب ہتھیار ڈال رہے تھے تو تب بھی یہ خبر دے رہے تھے کہ دو کمانڈروں کا معاہدہ ہو رہا ہے۔ میں تو وہاں گیا ہوں، وہاں انہوں نے میوزیم آف لیبرٹی بنایا ہوا ہے۔ دوسری دفعہ انہوں نے کہا تو میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے پوچھا کیا وجہ ہے، سارے ڈیلیگیشن (وفود) کے لوگ جا رہے ہیں، میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا۔ انٹرنیشل کانفرنس تھی۔ اس میوزیم میں انہوں نے رکھی ہوئی ہے اروڑا کی تصویر نیازی اس کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہے۔ وہ میز جس پر سائن ہوئے تھے اور وہ کھوپڑیاں، جو جنوسائڈ (جسے وہ نسل کُشی) کہتے ہیں، کیا تھا۔ تو بہر حال یہ ہے؟ اور جرنیل جس نے ہتھیار ڈالے تھے اسے اسی شان شوکت سے دفن کیا گیا، غازی جو تھا۔ میں نے تو شعر کہا ہے:​
عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا​
کوئی فراز ساکافر نہیں تھا غازی تھا​
بہرحال فوج کا کردار جو رہا مجھے اس نفرت ہو گئی ہے۔​
سوال: اور یہ جو سیاستداں بار بار فوج سے مفاہمت اور اتحاد کرتے رہتے ہیں؟
فراز:ان پڑھ ہیں نا۔ انہیں کوئی اور طریقہ سمجھ نہیں آتا۔ آپ دیکھ لیں حضرت علی اور حضرت حسین کے زمانے میں بھی کئی لوگ یزید سے ملے ہوئے تھے۔ آپ اپنی تاریخ دیکھ لیں۔ ابھی میں پڑھ رہا ہوں، غدر میں، انگریزوں کے زمانے میں کس طرح کوآپریٹ کر رہے تھے اور کس طرح اپنے ہی لوگوں نے مخبری کی تھی۔ دو، تین، چار ہزار لوگ تو نکل آتے ہیں پندرہ کروڑ، بیس کروڑ آدمی ہوں تو۔ آپ جائیں بازار سے آدمی لے آئیں، اسے سو روپے دیں اور اسے کہیں کھودنا ہے، اسے اس سے کچھ نہیں ہو گا کہ لان کھودنا یا قبر کھودناہے۔ اس طرح کے بکنے والے لوگ تو موجود ہوتے ہیں۔ اب یہ جو ہیں ممکن ہے کہ کل ووٹ بھی لے جائیں گے۔​
سوال: کوئی طریقہ آپ کو سوجھتا ہے اس سے نکلنے کا، ذرا اچھا بننے کا؟
فراز:نا جی نا۔ ناٹ ان مائی لائف، ناٹ ان یورس (نہ تو میری زندگی میں، نہ ہی آپ کی زندگی میں)۔ میں نے ایسی ہی فرسٹریشن میں کہا تھا:​
فراز صحنِ چمن میں بہار کا موسم​
نہ فیض دیکھ سکے تھے نہ ہم ہی دیکھیں گے​
جس ملک کے جرنیل خود حفاظتی گاڑی میں گھوم رہے ہوں اس ملک میں کیا ہے۔ کچھ روز قبل ایک ایڈووکیٹ جنرل بتا رہا تھا کہ ہر جرنیل ریٹائرمنٹ پہ تیس کروڑ کا مالک ہوتا ہے۔ یہ بھی وہ، جس نے کوئی ہینکی پینکی نہ کی ہو صرف تنخواہ پر گزارہ کرے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تازہ غزل
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی

اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرشش نہیں کی

جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خِواہش نہیں کی

یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی

اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی

ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی

اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی

کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی

وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فراز
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/1023_likhari_fz_sen/page7.shtml
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سوال: آپ کا تمام کلام شائع ہو گیا ہے یا اس کتاب کے ساتھ ہو جائے گا یا اس کے علاوہ بھی غیر مطبوعہ ہے؟
فراز:نہیں میں پھاڑ دیتا ہوں پہلے تو شعر کو قبول کرنے اور مسترد کرنے کا عمل میرے ذہن ہی میں ہوتا ہے، اس کے بعد میں اسے کاغذ پر اتارتا ہوں اور پھر اس سے بھی کچھ چیزیں میں ڈسکارڈ (مسترد) کر دیتا ہوں۔ چھپتے وقت بھی۔ میں نئے لکھنے والوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ کتاب چھپوانے میں جلدی نہ کریں اور ایک شادی میں جلدی نہ کریں۔
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے کوئی کام محققوں کے لیے نہیں چھوڑا، کہ وہ کلام دریافت کریں؟
فراز:ان کی ایسی تیسی، میں ویسے بھی نقادوں اور محققوں سے کوئی زیادہ سمپتھیٹک (ہمدردی نہیں رکھتا) نہیں ہوں۔
سوال: آپ کے خیال میں نقاد کا کیا کردار ہے؟
فراز:ہمارے ہاں اردو میں محاورہ ہے: بگڑا شاعر مرثیہ گو، شاعری نہیں کرتے تو مرثیہ کہنا شروع کر دیتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ لوگ مرثیے کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔ اسی طرح بگڑا شاعر یا افسانہ نگار نقاد ہو جاتا ہے۔ ایسے نقاد بہت کم ہیں، بہت ہی کم جو شاعر بھی اچھے تھے اور نقاد بھی۔ مثلاً فراق تھے، فراق گورکھ پوری جو شاعر بھی اچھے اور نقاد بھی۔ فیض صاحب بھی، ان کی کتاب میزان میں بعض مضمون بہت اچھے ہیں لیکن باقی جو ہیں وہ بگڑے ہوئے ہیں شاعر نہیں ہو سکے، افسانہ نگار نہیں ہو سکے، پھر تاری پوری طرح کرتے نہیں، پڑھتے نہیں ہیں، کچھ چیزیں، کچھ ترکیبیں انہوں نے رکھی ہوتی ہیں، اس میں یہ ہے، اس میں وہ ہے، فلاں فلاں فلاں، آپ فلیپ دیکھیں لوگوں کے، اس میں نام دیکھیں لوگوں کے اس میں نام بدل دیں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جیسے رسالے آپ ان کا کور پیپر بدل دیں تو اندر کنٹینٹ کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان کا اپنا کوئی کریکٹرنہیں ہوتا۔ اسی طرح نقادوں کا بھی یہی حال ہے اور ضروری نہیں کہ جو ایم اے کرلے، ایم اے لٹریچر کر لے وہ اچھا نقاد بھی ہو جائے گا۔ جیسے آپ دس دواوین پڑھ لیں شاعری کے تو آپ اچھے شاعر نہیں ہو سکتے۔ بہر حال ہوتے ہوں گے لیکن مجھے کبھی کسی نقاد نے امپریس (متاثر) نہیں کیا۔

واہ فراز واہ۔
فیض صاحب تو پکڑے گئے تھے، فراز کو کون پکڑے گے؟

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
 

یوسف-2

محفلین
شکریہ بلال کہ آپ نے ہمیں فراز کے تازہ ترین خیالات سے سرفراز کیا۔ ایک ”بڑا شاعر“ سمجھ کر ان کے ”سخن گسترانہ باتوں“ پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا، ورنہ یہاں ایک اور ”بے فضول“ نئی بحث شروع ہوجائے گی۔:)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شکریہ بلال کہ آپ نے ہمیں فراز کے تازہ ترین خیالات سے سرفراز کیا۔ ایک ”بڑا شاعر“ سمجھ کر ان کے ”سخن گسترانہ باتوں“ پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا، ورنہ یہاں ایک اور ”بے فضول“ نئی بحث شروع ہوجائے گی۔:)

شکریہ یوسف انکل۔

لیکن "سخن گسترانہ باتوں" کا کیا مطلب ہے اور "بڑا شاعر" کو واوین میں لکھنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
 

یوسف-2

محفلین
مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے :)

فراز کو بہت سے نقاد ”رومان پسند ٹین ایجرز“ کے پسندیدہ شاعر کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں اور انہیں ”اسی زمرہ“ کا ”بڑا شاعر“ کہتے ہیں:)
 
Top