:):)

نیلم

محفلین
ابتدائی سکول کی اُستانی نے ایک بچے سے نہایت ہی شفقت اور پیار کے ساتھ سوال پوچھا ؛ مُنے اگر میں تمہیں ایک سیب دوں، پھر ایک اور سیب دوں اور پھر ایک اور بھی سیب دوں تو تمہارے پاس کل کتنے سیب ہو جائیں گے؟بچے نے اپنی انگلیوں پر گن کر اُستانی سے کہا: چار

اتنی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ پوچھے گئے سوال کا غلط جواب ملنے پر اُستانی کے چہرے پر ناگواری کے تأثرات کا ظاہر ہونا تو فطری عمل تھا ہی مگر وہ اپنے ناراضگی کے تأثرات کو بھی چھپائے بغیر نہ رہ سکی۔اس سیدھے سے سوال کا جواب تین سیب بنتا تھا جو کہ بچہ نہیں بتا پایا تھا۔

اُستانی نے یہ سوچ کر کہ شاید وہ اپنا سوال ٹھیک سے نہیں بتا پائی یا پھر وہ بچہ ٹھیک طرح سے اُسکا سوال نہیں سمجھ پایا، اُس نے اپنا سوال ایک بار پھر دہراتے ہوئے بچے سے پوچھا، مُنے میرا سوال غور سے سُنو، اگر میں تمہیں ایک سیب دوں، پھر ایک اور سیب دوں، اس کے بعد ایک اور بھی سیب دوں تو کل ملا کرتُمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟

بچہ اُستانی کے چہرے پر ناگواری اور غصہ دیکھ چکا تھا، اور اب اُس کی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنی اُستانی کے چہرے پر دوبارہ وہی مُسکراہٹ دیکھےجس میں رضا اور شفقت کا احساس ہو۔ بچے نے اس بار زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنی انگلیوں پر گننا شروع کیا۔ اس بار بچے نے پورے یقین اور بھروسے کے ساتھ کہا؛ ٹیچر- چار سیب۔

پہلے تو اُستانی کے چہرے پر غصے اور ناراضگی کے محض تأثرات ہی تھے مگر اس بار تو واقعی غصہ اور غضب دکھائی بھی دے رہا تھا۔ اُستانی نے سوچا کہ دو باتیں ہو سکتی ہیں؛ یا تو اُسکا شمار ناکام اور برے اساتذہ میں ہونا چاہیئے جو طلباء کو اپنا پیغام صحیح طریقے سے پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یا پھر یہ بچہ انتہائی کند ذہن اور غبی ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اُستانی نے سوچا کہ وہ کیوں نا اپنا سوال بچوں کے کسی اور پسندیدہ پھل کا نام لیکر کرے۔ اس بار اُستانی نے کہا؛ مُنے اگر میں تمہیں ایک سٹرابیری دوں، پھر ایک اور سٹرابیری دوں اور پھر ایک اور سٹرابیری دوں تو تمہارے پاس کل ملا کر کتنی سٹرابیری ہو جائیں گی؟بچے نے ایک بار اپنی انگلیوں پر گنتی کی اور جواب دیا؛ تین۔ اُستانی کے چہرے پر یہ سوچ کر ایک مُسکراہٹ آگئی کہ وہ جس محنت، توجہ اور مُحبت کے ساتھ بچوں کو پڑھاتی ہے وہ محنت ضائع نہیں جا رہی۔مگر اس کے ساتھ ہی ایک خیال یہ بھی آیا کہ وہ کیوں نا ایک بار پھر اپنا پہلے ولا سوال دوبارہ پوچھ لے۔مُنے کو سٹرابیری کا جواب صحیح دینے پر شاباش دیتے ہوئے اُس نے اپنا سوال دہرایا؛ مُنے اب اگر میں تم کو ایک سیب دوں، پھر ایک اور سیب دوں اور پھر ایک اور سیب دوں تو کل ملا کر تمہارے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے؟

مُنے نے ملنے والی شاباش اور اُستانی کے دوستانہ رویہ سے شہ پا کر قدرے پر جوش طریقہ سے جواب دیا؛ مِس، چار سیب ۔ اِس بار اُستانی سے برداشت نہ ہو سکا اور اُس نے غصے کو دباتے ہوئے اونچی آواز میں پوچھا، مجھے بتاؤ کس طرح سے یہ سیب چار بن جائیں گے؟ مُنے نے اُستانی کے درشت رویہ سے سہم کر ڈرتے ہوئے جواب دیا؛ مس ا ٓج صبح میری امی نے بھی مجھے ایک سیب دیا تھا جو میرے بستے میں پڑا ہے اور اب اگر آپ مجھے تین سیب دینا چاہتی ہیں تو اس طرح سے کل ملا کر میرے پاس چار سیب ہو جائیں گے۔

اس چھوٹے سے قصے میں بھی حکمت کی چند باتیں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ؛

ہمیں چاہیئے کہ کسی بھی معاملے میں اُس وقت تک کوئی حتمی رائے قائم نا کریں جب تک اُس معاملے کے پس منظر اور محرکات کے بارے میں نا جان لیں۔

اپنے خیالات، رویئے اور عقائد کو کم از کم اتنا لچکدار ضرور رکھیں کہ دوسروں کے نقطہ نظر کو قبول کر سکیں۔

دوسروں کے نقطہ نظر کو جان کر کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت غلطیوں کا امکان کم سے کم رہتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے فیصلوں میں دوسروں کے اعتقادات اور نظریات کو بھی جاننا شروع کر دیا تو فیصلے جادو کی حد تک صحیح ہونگے۔ آجکل کی نوجوان نسل کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے تو اور بھی ضروری ہے کہ اُن کے افکار کو جانا جائے جو اُن کے ناپختہ ذہنوں پر کسی منفی اثر کے باعث ہو سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا قصہ میں اُستانی بچے کے اپنے جواب پر اصرار کا سبب اُسی وقت ہی جان پائی جب اُس نے بچے سے یہ پوچھا کہ کس طرح یہ سیب تین نہیں چار ہو رہے ہیں۔ اگر آپ بھی کسی کو ایک مخصوص نقطہ نظر پر مُصر دیکھیں تو کوئی حرج نہیں کہ اُس سے پوچھ ہی لیں کہ وہ کیوں ایسی رائے یا اعتقاد پر یقین کیئے بیٹھا ہے۔ جان لینے کے بعد آپ کو معاملہ آگے بڑھانے میں آسانی رہے گی۔ بلکہ ہو سکے تو ایک بار خود اپنے آپ سے بھی یہ پوچھ لیا کریں کہ آپ کیوں کسی کے بارے میں یہ رائے قائم کر رہے ہیں کہ وہ غلطی پر ہے؟ کہیں غلطی پر آپ ہی ناں ہوں۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بہت خوب!
اور بالکل ٹھیک بات کہی گئی ہے
آج کل ہم بہت جلد باز ہوگئے ہیں۔۔رائے جلدی قائم کرتے ہیں۔۔۔رائے جلدی دیتے ہیں۔۔۔فیصلے فورا صادر کر دیتے ہیں۔۔!
 

نیلم

محفلین
بہت خوب!
اور بالکل ٹھیک بات کہی گئی ہے
آج کل ہم بہت جلد باز ہوگئے ہیں۔۔رائے جلدی قائم کرتے ہیں۔۔۔ رائے جلدی دیتے ہیں۔۔۔ فیصلے فورا صادر کر دیتے ہیں۔۔!
بہت شکریہ:)
بلکل اور خود کوصیحح دوسرےکوغلط بھی سمجھتےہم:)
 
Top