فراز ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے ...احمد فراز...اے عشق جنوں پیشہ

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے​
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے​
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے​
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح​
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے​
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے​
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے​
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی​
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے​
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست​
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے​
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز​
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے​
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر​
یہ جو دیوارِ قفس ظاہرن آراستہ ہے​
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ​
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے​
1؎ قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا۔
(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص36)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس غزل میں قافیہ اور ردیف کیا ہے؟
اور اس شعر
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے

کا کیا حساب ہے کہ "قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا"۔
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے
بہت شکریہ ، اتنے عمدہ کلام کی شراکت کا
 

فاتح

لائبریرین
اس غزل میں قافیہ اور ردیف کیا ہے؟
اور اس شعر
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے

کا کیا حساب ہے کہ "قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا"۔
قوافی: آ، بنا، فنا، وغیرہ
ردیف: راستہ ہے
منع کو منا کے وزن پر باندھا ہے جو غلط ہے اور اسی کا اظہار کیا ہے فراز نے نوٹ میں۔
ویسے فراز اس غلطی کا اظہار کرنا بھول گئے کہ قافیہ و ردیف مطلع میں متعین ہوتے ہیں نا کہ غزل کے اٹھارویں شعر میں۔ :laughing:
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
قوافی: آ، بنا، فنا، وغیرہ
ردیف: راستہ ہے
منع کو منا کے وزن پر باندھا ہے جو غلط ہے اور اسی کا اظہار کیا ہے فراز نے نوٹ میں۔
ویسے فراز اس غلطی کا اظہار کرنا بھول گئے کہ قافیہ و ردیف مطلع میں متعین ہوتے ہیں نا کہ غزل کے اٹھارویں شعر میں۔ :laughing:

اس لائن کی سمجھ نہیں حالانکہ غلطی کا اظہار تو انہوں نے خود ہی کر دیا ہے۔

اور منع کو منا کے وزن پہ باندھنے کی اردو شاعری میں کتنی گنجائش ہے مطلب کہ ایسا کن صورتوں میں کیا جا سکتا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
اس لائن کی سمجھ نہیں حالانکہ غلطی کا اظہار تو انہوں نے خود ہی کر دیا ہے۔

اور منع کو منا کے وزن پہ باندھنے کی اردو شاعری میں کتنی گنجائش ہے مطلب کہ ایسا کن صورتوں میں کیا جا سکتا ہے؟
اس لائن کا مطلب ہے فراز نے کھچ ماری ہے۔۔۔ ہاہاہاہا
انھوں نے منع کی غلطی کا اظہار تو کر دیا لیکن یہ پتا نہیں چلا انھیں کہ مطلع میں قافیہ "چمن اور انجمن" اور ردیف "آراستہ ہے" متعین ہو چکے تھے اور ساری غزل میں وہی قافیہ و ردیف چل رہے ہیں سوائے چھٹے، ساتویں اور دسویں شعر میں جہاں وہ اچانک پٹڑی سے اتر گئے اور قافیہ و ردیف بدل ڈالے۔
خیر، جانے دیں۔۔۔ ایسی فاش غلطیوں پر ہم انھیں بڑھاپے کا ایڈوانٹج دے دیتے ہیں۔ :)
 

طارق شاہ

محفلین
اس غزل میں قافیہ اور ردیف کیا ہے؟
اور اس شعر
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے

کا کیا حساب ہے کہ "قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا"۔
بلال میاں!

غزل کی ردیف = راستہ ہے
قوافی یوں ہیں :
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے =============== خنا​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے =============== منا​
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے ============= منا​
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے​
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے ================ کنا​
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح​
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے =============== سنا​
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے​
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے ========== منا​
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی​
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے =========== بنا​
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست​
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے== یہاں فراز صاحب نے صوتی قافیہ(ع بر آواز الف) دانستہ اختیار کیا ہے، جو اردو شاعری میں روا نہیں​
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز​
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے ========= =فنا​
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر​
یہ جو دیوارِ قفس ظاہرن آراستہ ہے ============رنا​
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ​
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے ========= فنا​
منع کے علاوہ تمام قوافی بستگی میں درست ہیں​
قوافی میں حرف روی "ن" ہے اور ان قوافی میں حرکت کا اختلاف ( عیبِ سناد ) نہیں​
ہر قافیہ میں ،حرف روی "ن " سے ما قبل حرف پر فتح (زبر) ہے ، یعنی عیوب قافیہ سے پاک ہے یہ​
۔۔۔۔۔۔۔۔​
طارق​
 

فاتح

لائبریرین
بلال میاں!

غزل کی ردیف = راستہ ہے
قوافی یوں ہیں :
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے =============== خنا​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے =============== منا​
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے ============= منا​
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے​
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے ================ کنا​
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح​
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے =============== سنا​
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے​
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے ========== منا​
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی​
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے =========== بنا​
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست​
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے== یہاں فراز صاحب نے صوتی قافیہ(ع بر آواز الف) دانستہ اختیار کیا ہے، جو اردو شاعری میں روا نہیں​
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز​
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے ========= =فنا​
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر​
یہ جو دیوارِ قفس ظاہرن آراستہ ہے ============رنا​
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ​
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے ========= فنا​
منع کے علاوہ تمام قوافی بستگی میں درست ہیں​
قوافی میں حرف روی "ن" ہے اور ان قوافی میں حرکت کا اختلاف ( عیبِ سناد ) نہیں​
ہر قافیہ میں ،حرف روی "ن " سے ما قبل حرف پر فتح (زبر) ہے ، یعنی عیوب قافیہ سے پاک ہے یہ​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
طارق​
جناب طارق شاہ صاحب! آپ کا تفصیلی مراسلہ نظر نواز ہوا۔ ماشاء اللہ آپ کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آپ سے دو ایک سوالات کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
  1. اول یہ کہ حرف روی، قافیہ اور ردیف کس شعر میں متعین کیے جاتے ہیں؟ مطلع میں یا چھٹے ساتویں شعر میں؟
  2. دوم یہ کہ ردیف کی تعریف کیا ہے؟ ایک یا ایک سے زائد "الفاظ" یا لفظ کا ٹکڑا؟
  3. سوم یہ کہ اوپر کے سوالات کے جوابات کی روشنی میں درج ذیل مطلع میں قافیہ، حرف روی اور ردیف بتا دیجیے جو شاعری کے اصولوں سے نہ ٹکراتی ہوں:
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
 

فاتح

لائبریرین
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے== یہاں فراز صاحب نے صوتی قافیہ(ع بر آواز الف) دانستہ اختیار کیا ہے، جو اردو شاعری میں روا نہیں​
طارق شاہ صاحب! اردو شاعری میں صوتی قافیہ روا ہے۔۔۔ 18 مثالیں تو میں دے سکتا ہوں۔
یہاں فراز نے منع کی نون کو متحرک کیا ہے اور اسے فعو کے وزن پر باندھا ہے جب کہ منع کا درست تلفظ ن کے سکون ساتھ فاع کے وزن پر ہے اور یہ وہ غلطی ہے جس پر فراز نے نوٹ لگایا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
بلال میاں!
غزل کی ردیف = راستہ ہے
قوافی یوں ہیں :
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے =============== خنا​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے =============== منا​
یہی تو ہم نے بھی لکھا تھا کہ قافیہ اور ردیف یہ ہیں:
قوافی: آ، بنا، فنا، وغیرہ
ردیف: راستہ ہے
منع کو منا کے وزن پر باندھا ہے جو غلط ہے اور اسی کا اظہار کیا ہے فراز نے نوٹ میں۔
ویسے فراز اس غلطی کا اظہار کرنا بھول گئے کہ قافیہ و ردیف مطلع میں متعین ہوتے ہیں نا کہ غزل کے اٹھارویں شعر میں۔ :laughing:
 

طارق شاہ

محفلین
قوافی: آ، بنا، فنا، وغیرہ
ردیف: راستہ ہے
منع کو منا کے وزن پر باندھا ہے جو غلط ہے اور اسی کا اظہار کیا ہے فراز نے نوٹ میں۔
یہاں تک آپ نے صحیح لکھا ، لیکن اٹھارویں شعر والی لائن:

ویسے فراز اس غلطی کا اظہار کرنا بھول گئے کہ قافیہ و ردیف مطلع میں متعین ہوتے ہیں نا کہ غزل کے اٹھارویں شعر میں۔ :laughing:
نے، آپ کی اس بات کو غلط ہونے کا مفہوم دیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ مطلع میں قوافی غلط ہیں
جبکہ خَنا اور مَنا درست ہیں
اور اسی کو ہی مدنظر رکھ کر بقیہ قوافی کی بستگی کی گئی ہے سوائے ایک شعرمیں (وہ بھی دانستہ) 'منع' استعمال میں لایا گیا ہے
جس کی وجہ غلط ہونے کے باوجود فراز صاحب نے، اپنی پسند ٹہرائی ہےاور اس پر حاشیہ برداری کی۔

طارق شاہ صاحب! اردو شاعری میں صوتی قافیہ روا ہے۔۔۔ 18 مثالیں تو میں دے سکتا ہوں۔

یہاں فراز نے منع کی نون کو متحرک کیا ہے اور اسے فعو کے وزن پر باندھا ہے جب کہ منع کا درست تلفظ ن کے سکون ساتھ فاع کے وزن پر ہے اور یہ وہ غلطی ہے جس پر فراز نے نوٹ لگایا ہے۔

اٹھارہ سے زاید بھی مثالیں آپ دیں گے، تب بھی ایسے صوتی مثالیں قافیے قبول عام نہیں ہیں اور نہ ہی ہونگے
ورنہ ہر کوئی
خاص قافیہ کے مقابل پاس یا گھاس کا قافیہ جائز جانے گا
اسے طرح، لحاظ ، راز، بیاض، شاذ بھی ایک ہی غزل میں صحیح قافیے گردانے جائیں گے

آپکی دوسری بات کہ :
"یہاں فراز نے منع کی نون کو متحرک کیا ہے اور اسے فعو کے وزن پر باندھا ہے جب کہ منع کا درست تلفظ ن کے سکون ساتھ فاع کے وزن پر ہے اور یہ وہ غلطی ہے جس پر فراز نے نوٹ لگایا ہے"
اسے وزن کی غلطی ظاہر کرتی ہے ، جبکہ نوٹ صرف اور صرف ع اور ا کے تضاد کی وجہ سے ہے

اگر" تصنُّع" قافیہ کے مقابل فراز صاحب "منع " قافیہ باندھتے تو آپ کی بالا بات صحیح ہوتی کہ یہ' ہم وزن' نہیں ۔
جناب طارق شاہ صاحب! آپ کا تفصیلی مراسلہ نظر نواز ہوا۔ ماشاء اللہ آپ کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آپ سے دو ایک سوالات کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
  1. اول یہ کہ حرف روی، قافیہ اور ردیف کس شعر میں متعین کیے جاتے ہیں؟ مطلع میں یا چھٹے ساتویں شعر میں؟
  2. دوم یہ کہ ردیف کی تعریف کیا ہے؟ ایک یا ایک سے زائد "الفاظ" یا لفظ کا ٹکڑا؟
  3. سوم یہ کہ اوپر کے سوالات کے جوابات کی روشنی میں درج ذیل مطلع میں قافیہ، حرف روی اور ردیف بتا دیجیے جو شاعری کے اصولوں سے نہ ٹکراتی ہوں:
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
ظاہر ہے جو مجھے یا میرے علم میں ہے اسی پر ہی بات کرونگا ، یا پیش کروں گا،
نمبر ایک اور تین کے جواب میرے تفصیلی لکھے میں ہی ہے
دوم کے لئے یہ کہ :
ہر شعر کے آخر میں جس لفظ کو مکرّر لایا جاتا ہے، اسے ردیف کہتے ہیں

ہر غزل کے لئے ردیف ضروری یا لازمی نہیں ، لیکن غیر مردف (بغیر ردیف والی )
غزل کے قوافی آخر میں آئیں گے جس طرح قافیوں میں حرف روی کا ہونا لازم ہے
اسی طرح غیر مردف غزل میں ،قافیوں کے آخری حرف میں مماثلت بھی شرط ہے
زندگی،بندگی، شرمندگی، تابندگی
ڈر،در،بھر،شر، کر
مان، جان تان
۔۔۔۔
قافیہ ہم مطلع سے اس لئے پرکھتے ہیں کے اسکے دونوں مصرع میں قافیہ ہوتا ہے
اور محاسن اور عیوب قافیہ، اگر علم میں ہیں تو مطلع کو ان پر پرکھ کر دوسرے اشعار
کو دیکھا یا پرکھا جاتا ہے کہ آیا وہ بھی عیوب سے پاک ہیں کہ نہیں
یہ ضروری یا شرط نہیں، کہ شاعر غزل لکھنے کے لئے سب سے پہلے قافیہ لکھے
ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ مطلع سرِ فہرستِ اشعار رکھے اور ان میں ایطاء (قافیہ شائیگاں ) نہ ہو
یعنی ایک ہی قافیہ کو دوبارہ لانا ۔

امید ہے اپنی بات واضح طریقے سے کہ پایا ہوں، ورنہ یوں کہ
بڑھاپے کا ایڈوانٹج مجھے بھی دے دیجئے گا :)

فاتح صاحب !
بہت خوش رہیں
طارق
 

طارق شاہ

محفلین
اب مجھے مجموعی طور پہ بتائیں کہ فراز صحیح ہے یا غلط؟
میں تو کنفیوژ ہو گیا ہوں۔
بلال میاں!
ایک شعر جس میں قافیہ 'منع' ہے وہ بہ روئے اردو شاعری صحیح نہیں
بقیہ تمام اشعار ١٠٠ فی صد درست ہیں

رہی یہ بات کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو
یہ کہونگا کہ ایسا کرنا نئی بات نہیں ، یاس یگانہ صاحب
اور جگر صاحب کے کلام میں ایسی مثالیں (حاشیہ برداری ، وضاحت کے ساتھ ) ہیں

بہت خوش رہیں
 
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع1؎ راستہ ہے
پہلی بات:​
منع کو صوتی قافیہ سمجھنا محض غلطی ہے۔ اگر صوتی قافیہ ہوتا تو یہ نوٹ ممکن ہے کہ نہ لگا ہوتا اور کسی صورت انکار کی گنجائش نہ ہوتی۔ پہلے تو یہ سمجھیں کے صوتی قافیہ ہوتا کس صورت میں؟ یہ اس صورت میں صوتی قافیہ کہلاتا جب منع کا تلفظ مَنَع ہوتا۔ لیکن فرض کریں اگر منع میں نون پر زبر ہو بھی تو ”آراستہ ہے“ یہ دو لفظ اس غزل میں ردیف ہیں جنہیں کسی صورت ”راستہ ہے“ کرنا صحیح نہیں۔​
ردیف (”آراستہ ہے“) کا اپنے اصل لفظوں کے ساتھ اپنی جگہ پر رہنا ہر شعر میں ضروری ہے۔ قافیہ کو صوتی کرنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں یہ بات تو واضح ہوئی کہ منع صوتی قافیہ نہیں ہے، نہیں ہے اور کسی صورت نہیں ہے۔​
دوسری بات:​
نوٹ (قافیہ غلط ہی سہی) سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کے فراز نے منع کو نون متحرک کے ساتھ سمجھا ہے مغالطے میں۔اب اگر منع کے نون کو متحرک کر کے ہم اسے صوتی قافیہ بنا بھی لیتے ہیں تو ہماری ردیف کا (عالموں کے متفقہ فیصلہ سے) نقصان ہو گیا۔ صوتی قافیہ استعمال ہوتا رہا ہے اور قدما نے اسے بے تکلف ہو کر باندھا ہے مگر اس سے ردیف کہیں نہیں جاتی اپنی جگہ پر رہتی۔​
تیسری بات:​
اب اس شعر میں یا تو ردیف کو غلط کہیں یا قافیہ کو۔ اور میں سمجھتا ہوں یہاں ہر لحاظ سے قافیہ ہی غلط ہے جس کی وجوہات:​
1۔ اگر قافیہ کو نون پر سکون کے ساتھ باندھیں تو بحر سے خارج۔​
2۔ نون کی تحریک سے باندھیں (اول تو غلط تلفظ ہے مگر پھر بھی فرض کریں) تو بھی صوتی قافیہ ہے جو عیوب قافیہ میں ”اکفا“ کہلاتا ہے۔ اور ردیف بھی ضائع ہوئی۔​
اب ثابت یہ ہوا کے یہ شعر غلط ہے اور شاعری کے شرائط سے ٹکراتا ہے۔​
ایک اور مزے کی بات بتاؤں وہ یہ کہ فراز نے قافیہ بے شک دانستہ طور پر غلط باندھا ہے لیکن وزن میں غیر دانستہ طور پر غلطی کر گئے ہیں ;)
نوٹ: یہ صوتی قافیہ نہیں ہے۔​
 

فاتح

لائبریرین
اب مجھے مجموعی طور پہ بتائیں کہ فراز صحیح ہے یا غلط؟
میں تو کنفیوژ ہو گیا ہوں۔
اس غزل میں فراز سو فیصد غلط ہے۔ کسی بھی غزل میں حرفِ روی، قافیہ، ردیف اور بحر مطلع میں متعین کی جاتی ہے جب کہ اس غزل کے مطلع میں جو حرفِ روی، قافیہ اور ردیف متعین کی ہے فراز نے، چھٹے ساتویں اور دسویں شعر میں اسی قافیے ردیف سے پھسل کر ایک نیا قافیہ اور نئی ردیف گھڑ لی ہے۔۔۔ لہٰذا یہ فراز کی فاش غلطی ہے جسے میں فراز کا عاشق ہونے کی نسبت سے پچاس الٹی سیدھی دلیلیں لا کر درست ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کرتا رہوں مگر یہ غلط ہی رہے گی۔
مجھے تو شک ہے کہ کہیں یہ فراز کی دو غزلوں کے اشعار ایک جگہ اکٹھے تو نہیں کر دیے گئے؟
 

فاتح

لائبریرین
نہ صرف یہ شعر بلکہ دو مزید شعر بھی غلط ہیں۔۔۔ چھٹا، ساتواں اور دسواں :)
واضح رہے کہ فراز میرے پسندیدہ ترین شعرا میں سے ہیں اور رہیں گے۔

ان اشعار کو میں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے تو مطلع سے صرف منع والے شعر کو دیکھ لیا تھا۔
اب آپ کے پسندیدہ شاعر کی غلطی پر میں تو غلط ہونے کا فتوی دے ہی چکا ہوں۔ اور اس سلسلے میں میں آپ سے معافی کا طلبگار بھی نہیں ہوں۔ :LOL:
 

فاتح

لائبریرین
یہاں تک آپ نے صحیح لکھا ، لیکن اٹھارویں شعر والی لائن:


نے، آپ کی اس بات کو غلط ہونے کا مفہوم دیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ مطلع میں قوافی غلط ہیں
جبکہ خَنا اور مَنا درست ہیں
اور اسی کو ہی مدنظر رکھ کر بقیہ قوافی کی بستگی کی گئی ہے سوائے ایک شعرمیں (وہ بھی دانستہ) 'منع' استعمال میں لایا گیا ہے
جس کی وجہ غلط ہونے کے باوجود فراز صاحب نے، اپنی پسند ٹہرائی ہےاور اس پر حاشیہ برداری کی۔



اٹھارہ سے زاید بھی مثالیں آپ دیں گے، تب بھی ایسے صوتی مثالیں قافیے قبول عام نہیں ہیں اور نہ ہی ہونگے
ورنہ ہر کوئی
خاص قافیہ کے مقابل پاس یا گھاس کا قافیہ جائز جانے گا
اسے طرح، لحاظ ، راز، بیاض، شاذ بھی ایک ہی غزل میں صحیح قافیے گردانے جائیں گے

آپکی دوسری بات کہ :
"یہاں فراز نے منع کی نون کو متحرک کیا ہے اور اسے فعو کے وزن پر باندھا ہے جب کہ منع کا درست تلفظ ن کے سکون ساتھ فاع کے وزن پر ہے اور یہ وہ غلطی ہے جس پر فراز نے نوٹ لگایا ہے"
اسے وزن کی غلطی ظاہر کرتی ہے ، جبکہ نوٹ صرف اور صرف ع اور ا کے تضاد کی وجہ سے ہے

اگر" تصنُّع" قافیہ کے مقابل فراز صاحب "منع " قافیہ باندھتے تو آپ کی بالا بات صحیح ہوتی کہ یہ' ہم وزن' نہیں ۔

ظاہر ہے جو مجھے یا میرے علم میں ہے اسی پر ہی بات کرونگا ، یا پیش کروں گا،
نمبر ایک اور تین کے جواب میرے تفصیلی لکھے میں ہی ہے
دوم کے لئے یہ کہ :
ہر شعر کے آخر میں جس لفظ کو مکرّر لایا جاتا ہے، اسے ردیف کہتے ہیں

ہر غزل کے لئے ردیف ضروری یا لازمی نہیں ، لیکن غیر مردف (بغیر ردیف والی )
غزل کے قوافی آخر میں آئیں گے جس طرح قافیوں میں حرف روی کا ہونا لازم ہے
اسی طرح غیر مردف غزل میں ،قافیوں کے آخری حرف میں مماثلت بھی شرط ہے
زندگی،بندگی، شرمندگی، تابندگی
ڈر،در،بھر،شر، کر
مان، جان تان
۔۔۔ ۔
قافیہ ہم مطلع سے اس لئے پرکھتے ہیں کے اسکے دونوں مصرع میں قافیہ ہوتا ہے
اور محاسن اور عیوب قافیہ، اگر علم میں ہیں تو مطلع کو ان پر پرکھ کر دوسرے اشعار
کو دیکھا یا پرکھا جاتا ہے کہ آیا وہ بھی عیوب سے پاک ہیں کہ نہیں
یہ ضروری یا شرط نہیں، کہ شاعر غزل لکھنے کے لئے سب سے پہلے قافیہ لکھے
ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ مطلع سرِ فہرستِ اشعار رکھے اور ان میں ایطاء (قافیہ شائیگاں ) نہ ہو
یعنی ایک ہی قافیہ کو دوبارہ لانا ۔

امید ہے اپنی بات واضح طریقے سے کہ پایا ہوں، ورنہ یوں کہ
بڑھاپے کا ایڈوانٹج مجھے بھی دے دیجئے گا :)

فاتح صاحب !
بہت خوش رہیں
طارق
بزرگوار! آپ کے حکم کے مطابق آپ کو بڑھاپے کا ایڈوانٹج دیا ورنہ آپ کا مراسلہ اصل نکتے سے اتنا دور جا پڑا ہے کہ الحفیظ والامان اور آپ کا تمام مراسلہ کل ملا کر بھی کسی ایک نکتے کا بھی دفاع نہیں کر پایا یعنی فراز کی اس فاش غلطی کو درست ثابت نہیں کر پایا۔ :)
 
بزرگوار! آپ کے حکم کے مطابق آپ کو بڑھاپے کا ایڈوانٹج دیا ورنہ آپ کا مراسلہ اصل نکتے سے اتنا دور جا پڑا ہے کہ الحفیظ والامان اور آپ کا تمام مراسلہ کل ملا کر بھی کسی ایک نکتے کا بھی دفاع نہیں کر پایا یعنی فراز کی اس فاش غلطی کو درست ثابت نہیں کر پایا۔ :)

در اصل طارق صاحب سمجھتے ہیں کے ردیف کوئی لفظ نہیں بلکہ لفظ کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر ردیف ایک یا ایک سے زائد الفاظ ہوتے ہیں نہ کے حصہ۔ جو حصہ ہو وہ تو قافیہ کی شان ہے۔ اسی لئے طارق صاحب راستہ اور آراستہ دونوں کو ردیف کہہ رہے ہیں۔
اور صوتی قافیہ تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن ردیف کا یہ انداز کہیں سے ثابت بھی نہیں ہوگا۔
 
Top