آئی ڈونیشن! ایک نظم از فاتح الدین بشیرؔ

فاتح

لائبریرین
آج تمھیں اک بات بتاؤں
ایک کہانی یا کوئی قصہ
جو بھی کہہ لو
میرے لیے تو نوحہ ہے یہ
ماتمی نوحہ
آخری نوحہ

تمھیں پتا ہے؟
اس قصے کی الٹی مثلث مجھ پہ کھڑی ہے

تمھیں پتا ہے؟
برسوں سے خاموش سا بیٹھا
کن سوچوں کی
قبر میں دھنستا جاتا ہوں میں؟
سوچ رہا ہوں۔۔۔
کیسی لگتی ہو گی تم
کیسی لگتی ہو گی دنیا
اس دنیا کے رنگ اور نور کی بارش میں تم
بھیگتی کیسی لگتی ہو گی
ہنستی کیسی لگتی ہو گی

یاد ہے تم کو فیصلے کا وہ آخری لمحہ؟
وہ لمحہ جو
صدیوں سے میں جھیل رہا ہوں
تنہا تنہا

۔۔۔فیصلے کا وہ لمحہ جس میں
تم نے میری آنکھیں لے کر
اور کسی کو تحفہ دی تھیں
یاد ہے تم کو؟

تمھیں پتا ہے؟
بہت دنوں تک
میں تو یہ بھی جان نہ پایا
میری آنکھیں
جا بھی چکی ہیں
بینائی سے میرا رشتہ
ٹوٹ چکا ہے
ہوش میں آنے پر
جب میں نے
آنکھوں پر سے پٹی کھولی
چاروں اور اندھیرا تھا
بس تاریکی تھی
وحشت میں ہاتھوں سے ٹٹولا
آنکھ کی جا پر فقط گڑھے تھے

تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
میرا حصہ گھور اندھیرے
تمھیں پتا ہے؟
ایسے اندھیرے
جن میں
تمھارے چہرے کا بھی دیپ نہیں ہے
جن میں
تمھارا سایا بھی معدوم ہوا ہے۔۔۔
مٹ ہی چلا ہے

تمھیں پتا ہے؟
تاریکی کی لحَد میں لیٹا
سوچتا ہوں میں
رنگ اور نور کی بارش اب بھی ہوتی ہو گی
اب بھی
بہاریں آتی ہوں گی
اب بھی
تمھارے ہونٹوں پر وہ
مسکانوں کی قوس قزح اور
آنکھوں میں وہ
دیپ تو ہوں گے
مجھ کو لیکن کیسے خبر ہو؟
میری تو آنکھیں ہی لے کر
تم نے کسی کو ہدیہ دی تھیں
نور مری ہی آنکھوں کا تو
تم نے کسی کو دان کیا تھا
جو اَب تم کو دیکھ رہا ہے
میری آنکھوں سے جو تم کو دیکھ رہا ہے
میرے سپنے
میرے منظر
اس کے ہیں اب
وہ
جو میری آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہے
وہ جو تم کو دیکھ رہا ہے

(فاتح الدین بشیرؔ)
 

رانا

محفلین
بہت عمدہ۔
میں نے بھی اپنی آنکھیں ڈونیٹ کی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ نظم پڑھ کے مجھے آئندہ کا منظر کچھ ایسا نظر آرہا ہے کہ میں اپنی آنکھیں نکالنے والے ڈاکٹر کے خواب میں آکر کہہ رہا ہوں:
تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
اور وہ بےچارہ چیخ مار کے خواب سے اٹھا اور سیدھا آئی ڈونیشن کے دفتر پہنچا اور چلا کر کہا:
"یہ رانے سے فارم پر دستخط زبردستی لئے تھے کیا؟ اس نے تو آگے جاکر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔۔۔۔":)
 

فاتح

لائبریرین
بہت عمدہ۔
میں نے بھی اپنی آنکھیں ڈونیٹ کی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ نظم پڑھ کے مجھے آئندہ کا منظر کچھ ایسا نظر آرہا ہے کہ میں اپنی آنکھیں نکالنے والے ڈاکٹر کے خواب میں آکر کہہ رہا ہوں:
تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
اور وہ بےچارہ چیخ مار کے خواب سے اٹھا اور سیدھا آئی ڈونیشن کے دفتر پہنچا اور چلا کر کہا:
"یہ رانے سے فارم پر دستخط زبردستی لئے تھے کیا؟ اس نے تو آگے جاکر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔۔۔ ۔":)
ہماری نظم کا جو حال کیا ہے آپ نے اس پر خواہش تو ہماری یہ ہے کہ کاش ہم بھی آپ کے خواب میں آ سکتے ;)
 

رانا

محفلین
ارے نہیں فاتح بھائی! لاجواب نظم ہے۔ دل کے تاروں کو چھو لینے والی۔
آپ کو تو پتہ ہے لاجواب کا ہی "حال" کیا جاتا ہے ورنہ "گزارے لائق" چیزوں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔:)
 
Top