کیری لوگر بل کا متن

ساجد

محفلین
امریکہ اور کیری لوگر بل کو اعصاب پہ سوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم امریکہ کا ساتھ دیں یا نہ دیں وہ ہر صورت ہمیں بند گلی میں دھکیلے گا کہ اس کے قومی مفادات کے لئیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو اس نازک موقع پر چین کا اعتماد حاصل کرنا چاہئیے اور اندرونی طور پہ شدت پسندی کے خلاف اقدامات لینے چاہئیں۔
کیری لوگر بل کو بائے بائے کہنے کا حوصلہ کر لینا چاہئیے ۔ 2001 اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ افغانستان میں پٹتی ہوئی امریکی فوج کو مزید نقصان سے بچانے کے لئیے امریکہ کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو مصر و ترکی کی مثالوں سے سبق لے کر طوطا چشم امریکہ سے حالات کے مطابق بات کرنا چاہئیے۔
موجودہ شرائط کے ساتھ کیری لوگر بل کو تسلیم کرنا حکومتی اداروں کو آپس میں ٹکرا دے گا اور یہی وہ مقصد ہے جس کا حصول امریکہ کے لئیے بہت بڑی کامیابی ہو گا۔ یہ یاد رہے کہ اگر کیری لوگر بل واپس بھی کر دیا گیا تو امریکہ اس کے بعد کوئی اس سے بھی مہین جال ڈال کر پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا لہذا صرف ایک بار نہیں بلکہ ہر بار امریکہ سے امداد یا قرضہ کا معاملہ طے کرتے ہوئے انتہائی معاملہ فہمی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری حکومت امداد لینے کا سلسلہ ہی بند کر دے لیکن سر دست اس کے آثار نہیں ہیں اس لئیے کم از کم ملک کی تذلیل کرنے والی شرائط پہ تو اس کو قبول نہ کرے۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں‌خود یہی سمجھتا ہوں‌کہ سب سے پہلی ترجیح تو کشکول توڑ دینے کی ہی ہونی چاہیے اگر اتنی ہمت نہ ہو تو دوست ممالک جن میں چین اور اسلامی ممالک سے تعاون کی اپیل کی جائے ۔
 

دوست

محفلین
یہ بات مد نظر رہے کہ چین اتنی امداد کبھی نہیں دے گا۔ اور دے بھی کیوں؟ امریکہ کو تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون چاہیے۔ چین سرمایہ کاری کرسکتا ہے اور وہ کررہا ہے۔ لیکن چین سے بہت زیادہ توقعات بھی نہ لگائیں۔ چین مستقبل کی سپر پاور ہے اور وہ لوگ فیصلے جذبات میں آکر نہیں کرتے بلکہ زمینی حقائق اور اپنی پالیسیوں کے مطابق کرتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہم امریکہ کا ساتھ دیں یا نہ دیں وہ ہر صورت ہمیں بند گلی میں دھکیلے گا کہ اس کے قومی مفادات کے لئیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

افغانستان میں پٹتی ہوئی امریکی فوج کو مزید نقصان سے بچانے کے لئیے امریکہ کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے

موجودہ شرائط کے ساتھ کیری لوگر بل کو تسلیم کرنا حکومتی اداروں کو آپس میں ٹکرا دے گا اور یہی وہ مقصد ہے جس کا حصول امریکہ کے لئیے بہت بڑی کامیابی ہو گا۔



آپ خود ہی اپنی دليل کی نفی کر رہے ہيں۔ ايک جانب تو آپ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں جاری جنگ کے سبب امريکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور دوسری جانب آپ کا يہ الزام ہے کہ کيری لوگر بل کا مقصد پاکستان کے مختلف اداروں کے مابين ٹکراؤ کی فضا پيدا کر کے ملک کو کمزور کرنا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔

پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔

امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔

تمام تر معاشی مسائل کے باوجود امريکی حکومت ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ يہ امداد محض تربيت اور سازوسامان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی اور ترقياتی امداد بھی شامل ہے۔

کيری لوگر اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم قدم اور پيش رفت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
آپ خود ہی اپنی دليل کی نفی کر رہے ہيں۔ ايک جانب تو آپ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں جاری جنگ کے سبب امريکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور دوسری جانب آپ کا يہ الزام ہے کہ کيری لوگر بل کا مقصد پاکستان کے مختلف اداروں کے مابين ٹکراؤ کی فضا پيدا کر کے ملک کو کمزور کرنا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔

پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔

امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔

تمام تر معاشی مسائل کے باوجود امريکی حکومت ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ يہ امداد محض تربيت اور سازوسامان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی اور ترقياتی امداد بھی شامل ہے۔

کيری لوگر اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم قدم اور پيش رفت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

امریکا اور اس کی تمام امداد گئی بھاڑ میں۔ نہ جانے آپ جیسے براون امریکیوں اور حقیقی امریکیوں کی سمجھ میں یہ بات کب آئی گئی کہ آپکی یہ اور اس طرح کی امداد ایک نام نہاد اقلیت کے لیے ہوتی ہیں جو زرداری، مشرف، گیلانی، ٹوانوں، بجارانیوں جیسے بھاڑ بھونجوں کے گروپ پر مبنی ہے۔
عوام تک کروڑوں عوام تک تمہارے بم، تمہارا تکبر، ضد انا اور جنوں پہنچتا ہے۔ دنیا کے ایک بڑے حصے کے لوگوں کو آپ امریکی کھیت کر چکے ہو۔ تمہارے ڈیزی کٹرز، ایٹم بم ، نپام بم اور نہ جانے کیا کیا کچھ یہ وہ بڑی امداد ہے جو تم امریکی دنیا میں خیرات کی طرح تقسیم کررہے ہو جہاں تماہرا سایہ نامسعود پڑ جائے وہ ملک و قوم تین حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک مراعت یافتہ طبقہ جو تمہاری خیرات یا امداد کے ذیعے اپنے تعیشات پورے کرتا ہے اور ملک کی معشیات کی مٹی پلید کر دیتا ہے تمہارے بھروسے پر۔ دوسرا وہ طبقہ جو تمہارے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے کبھی کبھی جادہ اعتدال سے ہٹ جاتا ہے اور تیسرے عوام۔
اور عوام کے بارے میں حامد میر کا یہ لطیفہ کافی ہے
فوج نے طالبان کی تلاش میں ایک گاؤں کو گھیرا ڈالا اور ایک بزرگ سے پوچھ گچھ شروع کی۔ فوجیوں کو شک تھا کہ گاؤں کے لوگ طالبان کے حامی ہیں ایک فوجی افسر نے بزرگ سے پوچھا کہ پاکستان آرمی کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے؟ بزرگ نے کہا کہ پاکستان آرمی ہماری محافظ ہے اور ہم اپنی آرمی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ فوجی نے کہا کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو؟ بزرگ نے جواب میں کہا کہ استغفراللہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ تم طالبان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو؟ بزرگ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ طالبان نفاذ شریعت چاہتے ہیں، امریکا کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ فوجی افسر نے پوچھا کہ کیا تم طالبان کو کافر نہیں سمجھتے؟ بزرگ نے کہا کہ حضور نہ ہم آپ کو کافر سمجھتے ہیں نہ طالبان کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہ سن کر فوجی افسر جھنجھلا اٹھا اور اس نے غصے سے بزرگ کو پوچھا کہ اگر طالبان بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ہیں تو پھر کافر کون ہے؟ بزرگ نے بڑی عاجزی سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جناب کافر توہم عام لوگ ہیں جنہیں آپ دونوں سے مار پڑتی ہے۔
اور جو ان دونوں سے بچ جاتے ہیں وہ تماہرے بموں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اور تمہاری یہی امداد ہوتی ہے جس کے بہانے تم لوگ ان گدھے حکمرانوں کا بازو بڑی نازک جگہ سے مروڑتے ہو اور یہ گدھے تمہاری ہر بات پر آمنا صدقنا پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خود آپکی امریکی معیشت عالم نزاع سے گزر رہی ہے دل تو چاہتا ہے کہ اس جگہ آپکے اپنے اخبار اور جرائد کے کچھ اقتباسات یہاں نقل کروں جس سے آپکی معیشت کی حالت کا اندازہ ہو سکے لیکن آپکے اس کیری لوگر بل کو سنجید گی سے لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اور خود تم اوپر کہ چکے ہو کہ یہ تمہارے ٹیکس گذار امریکیوں کا پیسہ ہے تو کیوں پاکستان کو تم یہ بھیک دے رہے ہو؟؟کیا تم ایٹم بم برسانے والے غیر انسانی لوگ اتنے مہربان پاکستان پر بلاوجہ ہو۔ یہاں دو سیکنڈ میں اس کیری لوگر بل کی دھجیاں اڑائی جاسکتی ہیں اور کچھ نہں تمہارے اپنے عہدے دار اس بل کے بارے میں چند اعتراضات بالاخر قبول کر چکے ہو۔
بہر کیف بہت بہتر ہو کہ آپ انسان بن جاو آپکی تمام تر ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ صریحا انسانیت کے خلاف صر ف ہوتی جارہی ہے تمہارے اوپر بش جیسے متعصب بلکہ جنونی ٹمپلر حکمرانی کرتے ہیں اور آپ کے ملک کو خود ایک اندھی کھائی کے کنارے لا کھڑا کرتے ہیں لیکن آپ لوگ اندھے بنے ان کی پیروی کرتے ہو۔
 

arifkarim

معطل
واہ جناب بالکل صحیح بات کی آپ نے۔ جیسے چین ترقی کر رہا ہے اس لحاظ سے تو آنے والے دنوں کی سپر پاور ہے۔

یہ کوئی نئی خبر نہیں۔ انکی اقتصادی ترقی کا دارومدار کمیونزم ، نیشنلزم اور کیپٹل ازم میں میانہ روی ہے، جسکی ضرورت ہر ملک کو ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
کیری لوگر بل کا متن یونی کوڈ اردو میں

واشنگٹن: ذیل میں جمعرات24 ستمبر 2009ء کو سینیٹ سے پاس ہونے والے کیری لوگربل کامتن پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوو میں پیش کیا جارہا ہے، اور اگر یہ بغیرکسی ترمیم کے منظور ہوگیا تو صدر اوباما کے پاس قانون دستخط کے لیے بھیج دیاجائے گا، جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
s.1707
پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ ایکٹ برائے 2009 ء
(مستغرق، متفق یاسینیٹ سے منظور)

SEC. 203
کچھ امداد کے حوالے سے متعین حدود

(a) سیکورٹی تعلقات میں معاونت کی حدود: مالی سال 2012 ء سے 2014ء کے لیے، پاکستان کومالی سال میں اس وقت تک کوئی سیکورٹی تعلقات میں معاونت فراہم نہیں کی جائے گی،جب تک سیکریٹری آف اسٹیٹ، صدر مملکت کی ہدایت پرسب سیکشن (c) میں درج ہدایات کے مطابق منظوری نہ دے دیں۔

(b) اسلحہ کی فراہمی کی حدود: مالی سال 2012ء سے 2014ء تک کے لیے، پاکستان کواس وقت تک بڑا دفاعی سامان کی فروخت کا اجازت نامہ یا لائسنس، دی آرم ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (22
usc 2751et seq.) کے مطابق جاری نہیں کیا جائے گا ، جب تک امریکی وزیر خارجہ امریکی صدرکی ہدایت کے مطابق، سب سیکشن (c) میں درج ضروریات کے مطابق منظوری نہ دے دیں

(c) تصدیق کاعمل: اس سب سیکشن کے تصدیقی عمل کے لیے ضروری ہے کہ اسے سیکریٹری آف اسٹیٹ ، صدرکی ہدایت کے مطابق منظورکریں گے، کانگریس کی کمیٹیزکے مطابق کہ

(1) امریکا، حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گاکہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے متعلق مواد کی منتقلی کے نیٹ ورک کو منہدم کرنے میں کردار ادا کرے، مثلاً اس سے متعلقہ معلومات فراہم کرے یا پاکستانی قومی رفاقت جو اس نیٹ ورک کے ساتھ ہے تک یابراہ راست رسائی دے۔ حکومت پاکستان نے موجودہ مالی سال کے دوران مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اب بھی دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر کوششیں کررہی ہے۔

سیکشن 201میں امداد کے جن مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کے تحت حکومت پاکستان نے مندرجہ ذیل امور میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں:
(الف) مدد روکنا: پاکستانی فوج یا کسی انٹیلی جنس ایجنسی میں موجود عناصر کی جانب سے انتہا پسندوں یا دہشتگرد گروپوں ، خصوصی طور پر وہ گروپ جنہوں نے افغانستان میں امریکی یا اتحادی افواج پر حملے کئے ہوں،یا پڑوسی ممالک کے لوگوں یا علاقوں پر حملوں میں ملوث ہوں
(ب) القاعدہ ، طالبان اور متعلقہ گروپوں جیسے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے بچاؤ اور پاکستانی حدود میں کارروائیاں سے روکنا ، سرحد پر پڑوسی ممالک میں حملوں کی روک تھام ، قبائلی علاقوں میں دہشت گرد کیمپوں کی بندش ،ملک کے مختلف حصوں بشمول کوئٹہ اور مریدکے میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ، اہم دہشت گردوں کے بارے میں فراہم کردہ خفیہ معلومات کے بعد کارروائی کرنا،
(ج) انسداد دہشتگردی اور اینٹی منی لانڈرنگ قانون کو مضبوط بنانا،

(3) پاکستان کی سیکورٹی فورسز پاکستان میں عدالتی و سیاسی معاملات میں عملاًیا کسی اور طریقے سے دخل اندازی نہیں کرینگی۔ بعض ادائیگیاں:

(1) عام طور پر ان کا تعلق پیرا گراف (2) سے ان فنڈز میں سے کسی کا تعلق مالی سال 2010ء سے 2014ء تک کے مالی سال سے نہیں ہے یا اس فنڈ کا کوئی تعلق پاکستان کے کاؤنٹر انسرجینسی کیسے بلیٹی فنڈ سے بھی نہیں ہوگا جو سپلی مینٹل ایپرو پری ایشن ایکٹ 2009ء (پبلک لاء 32-III کے تحت قائم ہے) اس کا دا ئرہ کار ان ادائیگیوں تک وسیع ہوگا جن کا تعلق
(الف) لیٹر آف آفر اینڈ ایکسپٹینس (Letter Of Offer And Acceptnce)، PK-D- NAP سے ہے۔ جن پر امریکا اور پاکستان نے 30ستمبر 2006ء کو دستخط کئے تھے اور
(ب) پاکستان اور امریکا کی حکومتوں کے درمیان 30ستمبر 2006کو دستخط شدہ لیٹر آف آفر اینڈ ایکسپٹنس PK-D-NAP اور
(ج) (Letter Of Offer And Acceptnce)، PK-D- NAP جس پر امریکی حکومت اور حکومت پاکستان کی جانب سے 30ستمبر 2006ء کو دستخط ہوئے تھے۔
استثنیٰ: مالی سال 2010ء سے 2014ء تک کیلئے جو فنڈز سیکورٹی میں مدد دینے کے لئے مختص کئے گئے ہیں وہ تعمیرات اور متعلقہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں جن کی وضاحت
Letter Of Offer And Acceptnce کے پیرا گراف (1) میں کی گئی ہے۔ تحریری دستاویز: وزیر خارجہ صدر کی ہدایت کے تحت مختص رقم میں سیکشن (B)-A) اور (D) کے تحت ایک سال کے لئے کمی کرسکتے ہیں وزیر خارجہ یہ اقدام اس وقت اٹھائیں گے جب انہیں خیال ہوگا کہ یہ اقدام امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔
تحریری دستاویز کا نوٹس: وزیر خارجہ کو صدر کی ہدایت کے مطابق رقوم میں کمی کا اختیار پیرا گراف (1) کے مطابق اس وقت تک استعمال نہیں کرسکیں گے جب تک کانگریس کی متعلقہ کمیٹی کو اس سلسلے میں سات روز کے اندر تحریر نوٹس نہ مل جائے جس میں رقوم میں کمی کی وجوہات درج ہوں یہ نوٹس کلاسیفائیڈ یا نان کلاسیفائیڈ شکل میں ضرورت کے مطابق پیش کیا جائے گا۔
(ف) مناسب کانگریسی کمیٹیوں کی تعریف: اس حصے میں مناسب کانگریسی کمیٹیوں کی اصطلاح سے مراد ایوان نمائندگان کی نمبر 1 کمیٹی برائے خارجہ امور، کمیٹی برائے مسلح افواج، کمیٹی برائے حکومتی اصلاحات اور فروگذاشت، 2 سینیٹ کی امور خارجہ تعلقات کمیٹی، مسلح افواج کمیٹی اور نتیجہ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہیں۔ سیکشن 204 خانہ جنگی سے نمٹنے کی پاکستانی صلاحیت کا فنڈ (ایف) مالی سال 2010 (1) عمومی طور پر۔ برائے مالی سال 2010 کیلئے ریاست کے محکمہ نے ضمنی تخصیص ایکٹ 2009 (بپلک لا 111-32) کے تحت پاکستان کی خانہ جنگی سے نمٹنے کی صلاحیت کافنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ (اس کے بعد اسے صرف فنڈ لکھا جائے گا) پر مشتمل ہو گا۔ مناسب رقم پر جو اس سب سیکشن پرعملدرآمد کیلئے ہو گی (جو شاہد شامل نہیں ہو گی اس مناسب رقم میں 70 ایکٹ کے عنوان نمبر ایک پر عملدرآمد کیلئے ہے۔
(ب) وزیر خارجہ کو دستیاب رقم بصورت دیگر اس سب سیکشن پر عملدرآمد کیلئے ہو گی۔

(2) فنڈ کے مقاصد ، فنڈز کی رقم اس سب سیکشن پرعملدرآمد کیلئے کسی بھی مالی سال دستیاب ہو گی اور اس کا استعمال وزیر خارجہ، وزیر دفاع کی اتفاق/ مشاورت سے کریں گے اور یہ پاکستان کی انسداد خانہ جنگی صلاحیت کے فروغ اور استحکام پر انہی شرائط کے تحت صرف ہو گی۔ ماسوائے اس سب سیکشن جو مالی سال 2009 کیلئے دستیاب فنڈ اور رقوم پر لاگو ہو گا۔

(3) ٹرانسفر اتھارٹی،

(الف) عمومی طور پر: امریکی وزیر خارجہ کسی بھی مالی سال کیلئے پاکستان انسداد خانہ جنگی فنڈ جو ضمنی تخصیص ایکٹ 2009 کے تحت قائم کیا گیا ہے، کو رقوم منتقل کرنے کی مجاز ہوں گی اور اگر وزیر دفاع کے اتفاق رائے سے یہ طے پائے کہ فنڈ کی ان مقاصدکیلئے مزید ضرورت نہیں جن کیلئے جاری کئے گئے تھے تو وہ وزیر خارجہ یہ رقوم واپس کر سکتے ہیں۔

(ب) منتقل فنڈ کا استعمال۔ سیکشن 203 کی ذیلی شق (د) اور (ع) کے تحت پیرا گراف (الف) میں دی گئی اتھارٹی اگر فنڈ منتقل کرتی ہے تو انہی اوقات اور مقاصد کے تحت پاکستان انسداد خانہ جنگی فنڈ کے لئے استعمال ہو گی۔

(ج) دوسری اتھارٹیوں سے تعلقات۔ اس سب سیکشن کے تحت معاونت فراہم کرنے والی اتھارٹی اضافی طور پر دیگر ممالک کو بھی امداد کی فراہمی کا اختیار رکھے گی۔

(د) نوٹیفکیشن۔ وزیر خارجہ سب پیرا گراف (اے) کے تحت فنڈز کی فراہمی سے کم از کم 15 روز قبل کانگریس کی کمیٹیوں کو تحریری طور پر فنڈز کی منتقلی کی تفصیلات سے آگاہ کریں گی۔

(ر) نوٹیفکیشن کی فراہمی۔ اس سیکشن کے تحت کسی نوٹیفکیشن کی ضرورت کی صورت میں کلاسیفائیڈ یا غیر کلاسیفائیڈ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

(س) کانگریسی کمیٹیوں کی وضاحت۔ اس سیکشن کے تحت مجاز کانگریشنل کمیٹیوں سے مراد

(1) ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی اور خارجہ تعلقات کمیٹی

(2) سینیٹ کی آرمڈ سروسز اور خارجہ تعلقات کمیٹی ہے۔ سیکشن 205 فراہم کی گئی امداد کا سویلین کنٹرول ضروریات (1) مالی سال 2010 سے مالی سال 2014 کے دوران حکومت پاکستان کو سیکورٹی کیلئے فراہم کی گئی براہ راست نقد امداد پاکستان کی سویلین حکومت کے سویلین حکام کو فراہم کی جائے گی۔ کیری لوگر بل کی سیکشن 205 کے تحت مخصوص امدادی پیکیج پر سویلین کنٹرول کی شرط کیری لوگر بل میں سیکشن 205 کے تحت پاکستان کو امداد کی فراہمی کیلئے سویلین کنٹرول کی شرائط عائد کی گئی ہیں۔

(ا) شرائط :

(1) عمومی طور پر 2010ء سے 2014ء تک حکومت پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی سیکورٹی معاملات سے متعلقہ کیش امداد یا دیگر نان اسسٹنس (غیر امدادی) ادائیگیاں صرف پاکستان کی سویلین حکومت کی سویلین اتھارٹی کو دی جائیگی۔

(2) دستاویزی کارروائی مالی سال 2010-2014ء تک امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع کی معاونت اور تعاون سے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو دی جانے والی غیر امدادی
(Non-Assistance) ادائیگیوں کی حتمی دستاویزات پاکستان کی سویلین حکومت کی سویلین اتھارٹی کو وصول ہو چکی ہیں۔

(ب) شرائط میں چھوٹ :

(1) سیکورٹی سے متعلق امداد، بل کے مطابق امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع سے مشاورت کے بعد ذیلی سیکشن (a) کے تحت سیکورٹی سے متعلق امداد پر عائد شرائط کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ سیکورٹی امداد امریکی بجٹ کے فنکشن نمبر 150 (بین الاقوامی معاملات) سے دی جا رہی ہو اور امریکی وزیر خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس امر کی یقین دہانی کرائیں کہ شرائط میں چھوٹ امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے ضروری اور امریکی مفاد میں ہیں۔،

(2) غیر امدادی (Non-Assistance) ادائیگیاں امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ کی مشاورت سے ذیلی سیکشن (a) کے تحت ایسی غیر امدادی ادائیگیاں جو بجٹ فنکشن 050 (قومی دفاع) کے اکاؤنٹس سے کی جا رہی ہوں۔ پر عائد شرائط کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم اس چھوٹ کیلئے وزیر دفاع کو کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو یقین دہانی کرانا ہو گی۔ کہ پابندیاں میں چھوٹ امریکہ کے قومی مفاد کیلئے اہم ہے۔

(ج) بعض مخصوص سرگرمیوں پر سیکشن (205) کا اطلاق۔ درج ذیل سرگرمیوں پر سیکشن 205 کے کسی حصے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

(1) ایسی کوئی بھی سرگرمی جس کی رپورٹنگ 1947 کے قومی سلامتی ایکٹ (50 U.S.C. 413 et Seq) کے تحت کیا جانا ضروری ہے۔

(2) جمہوری انتخابات یا جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کی فروغ کیلئے دی جانے والی امداد،

(3) ایسی امداد یا ادائیگیاں جن کا وزیر خارجہ تعین کریں اور کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو یقین دہانی کرائیں کہ مذکورہ امداد یا ادائیگیوں کو ختم کرنے سے جمہوریت حکومت اقتدار میں آ گئی ہے۔،

(4) مالی سال 2005ء میں رونلڈ ڈبلیو ریگن نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ کی سیکشن (20 (ترمیم شدہ) کے تحت ہونے والی ادائیگیاں (Public Law 108-375, 118 Stat 2086) ،

(5) امریکی محکمہ دفاع اور وزارت دفاع اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین کراس سروسنگ معاہدے کے تحت کی جانے والی ادائیگیاں،

(6) مالی سال 2009ء کیلئے ڈنکن ہنٹر نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ کی سیکشن (943) کے تحت کی جانے والی ادائیگیاں (Public Law 110-417, 122 Stat 457

(د) اصطلاحات کی وضاحت / تعریف سیکشن 205 میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تعریف / وضاحت اس طرح ہے۔

(1) متعلقہ کانگریس کمیٹیوں سے مراد ایوان نمائندگان اخراجات سے متعلق کمیٹیاں، آرمڈ سروسز اور فارن افیئرز کی کمیٹیاں سینٹ کی اخراجات سے متعلق کمیٹیاں، آرمڈ سروسز اور فارن افیئرز کمیٹیاں ہیں۔،

(2) پاکستان کی سویلین حکومت کی اصطلاح میں ایسی پاکستانی حکومت شامل نہیں ۔جس کے باقاعدہ منتخب سربراہ کو فوجی بغاوت یا فوجی حکم نامے کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا ہو۔ عنوان III حکمت عملی، احتساب، مانیٹرنگ اور دیگر شرائط سیکشن 301 حکمت عملی رپورٹس

(اے) پاکستان کی امداد سے متعلق حکمت عملی کی رپورٹ۔ اس ایکٹ کے نافذالعمل ہونے سے 45 روز کے اندر سیکرٹری خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو پاکستان کی امداد سے متعلق امریکی حکمت عملی اور پالیسی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرے گا۔ رپورٹ میں درج ذیل چیزیں شامل ہوں گی۔

(1) پاکستان کو امریکی امداد کے اصولی مقاصد

(2) مخصوص پروگراموں، منصوبوں اور سیکشن 101 کے تحت وضع کردہ سرگرمیوں کی عمومی تفصیل اور ان منصوبوں، پروگراموں اور سرگرمیوں کے لئے مالی سال 2010ء سے 2014ء تک مختص کردہ فنڈز کی تفصیلات۔

(3) ایکٹ کے تحت پروگرام کی مانیٹرنگ آپریشنز، ریسرچ اور منظور کردہ امداد کے تجزیئے کا منصوبہ۔

(4) پاکستان کے قومی، علاقائی، مقامی حکام، پاکستان سول سوسائٹی کے ارکان، نجی شعبہ، سول، مذہبی اور قبائلی رہنماؤں کے کردار کی تفصیلات جو ان پروگراموں، منصوبوں کی نشاندہی اور ان پر عملدرآمد میں تعاون کریں گے جن کے لئے اس ایکٹ کے تحت امداد دی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ایسے نمائندوں سے مشاورت کی تفصیل:

5: اس ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے اور اٹھائے جانے والے اقدامات سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امداد افراد اور دہشت گرد تنظیموں سے الحاق رکھنے والے اداروں تک نہ پہنچے۔

6: اس ایکٹ کے تحت پاکستان کو فراہم کردہ امداد کی سطح کا تخمینہ لگانے کیلئے اسے مندرجہ ذیل کیٹیگریوں میں تقسیم کیاگیا جسے میلینیم چیلنج اکاؤنٹ امداد (Assistance) کے لئے اہل امیدوار ملک کے تعین کے طریقہ کار کے حوالے سے سالانہ معیاری رپورٹ (Criteria Report) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیٹیگریز مندرجہ ذیل ہیں۔

(I) عوامی آزادی
(II) سیاسی حقوق
(III) آزادی اظہار رائے اور احتساب
(IV) حکومت کی موثریت
(V) قانون کی بالادستی
(VI) بدعنوانی پر قابو
(VII) بیماریوں کی شرح
(VIII) شعبہ صحت پر خرچ
(IX) لڑکیوں کی پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے کی شرح
(X) پرائمری تعلیم پر بجٹ
(XI) قدرتی وسائل کا استعمال
(XII) کاروباری مشکلات کے خاتمے
(XIII) لینڈ رائٹس اور ان تک رسائی
(XIV) تجارتی پالیسی
(XV) ریگولیٹری کوالٹی
(XVI) مہنگائی پر قابو
(XVII) مالی پالیسی

7: پاکستان کے پاس پہلے سے موجود ہیلی کاپٹرز کی تبدیلی اور اس حوالے سے تربیت اور ان کی درستگی کے لئے سفارشات اور تجزیہ بھی کیا جائے گا۔

(B) علاقائی حکمت عملی کی تفصیلی رپورٹ کانگریس کی فہم و فراست: یہ کانگریس کی فہم و فراست ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول، پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے ایک تفصیلی ترقیاتی منصوبے کی ضرورت ہے جس میں دیگر متعلقہ حکومتوں کے تعاون و اشتراک سے قومی طاقت کے تمام عناصر کو اس مقصد کے لئے استعمال میں لایا جائے۔ پاکستان کی دیرپا خوشحالی اور سلامتی کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے مابین مضبوط تعلقات ہوں۔ علاقائی سلامتی کی تفصیلی حکمت عملی : پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے صدر پاکستانی حکومت اور دیگر علاقائی حکومتوں اور اداروں کے اشتراک سے علاقائی سلامتی کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ پاک افغان سرحدی علاقوں فاٹا، صوبہ سرحد، بلوچستان اور پنجاب کے علاقوں میں اس علاقائی سلامتی کی حکمت عملی پر موثر عملدرآمد اور انسداد دہشت گردی کے لئے موثر کوششیں عمل میں لائی جائیں گی۔

3: رپورٹ: عمومی طور پر اس ایکٹ کے لاگو ہونے کے 180 روز کے اندر اندر صدر علاقائی سلامتی کی حکمت عملی کے حوالے سے رپورٹ کانگریس کمیٹی کو جمع کروائیں گے جس کے مندرجات میں علاقائی سلامتی کی حکمت عملی کی رپورٹ کی کاپی، اہداف کا تعین اور تجویز کردہ وقت اور حکمت عملی پر عمل کے لئے بجٹ کی تفصیل شامل ہے۔

(ب) رپورٹ میں ریجنل سیکورٹی کی جامع حکمت عملی کی ایک نقل شامل ہوگی جس میں اہداف سمیت حکمت عملی پر عملدرآمد کیلئے مجوزہ وقت اور بجٹ کی تفصیلات شامل ہوں گی۔

(C) مناسب کانگریسی کمیٹی کی تعریف اس پیراگراف کے مطابق مناسب کانگریسی کمیٹی کا مطلب۔

(i ) ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے Appropriations امورکمیٹی برائے مسلح افواج کمیٹی برائے خارجہ امور اور مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہوگا اور

(ii) سینٹ کی کمیٹی برائے Appropriations کمیٹی برائے مسلح افواج کمیٹی برائے خارجہ امور اور مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہوگا۔

(C) سکیورٹی میں مدد کے حوالے سے منصوبہ: اس قانون کے بنائے جانے کے 180 دن کے اندر وزیر خارجہ مناسب کانگریسی کمیٹی کے سامنے وہ منصوبہ پیش کریں گے جس کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں گے اور یہ مالی سال 2010ء سے 2014ء تک ہرسال ہوگا اس منصوبے میں یہ بتایا جائے گا کہ رقم کا استعمال کس طرح سے سیکشن 204 میں مذکورہ رقوم سے متعلقہ ہے۔


سیکشن 302 ۔ مانیٹرنگ رپورٹس

(a) سیکشن 301(اے) پر عمل کرتے ہوئے Pakistan Assistance Strategy Report پیش کئے جانے کے 180 دن کے اندر (ششماہی) اور بعدازاں 30 ستمبر 2014ء تک ششماہی بنیادوں پر سیکرٹری خارجہ کی طرف سے سیکرٹری دفاع کے ساتھ مشاورت کے بعد مناسب کانگریسی کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے گی جس میں اس طرح (180 دنوں میں) میں فراہم کی گئی مدد/ معاونت کی تفصیلات ہوں گی۔ اس رپورٹ میں درج ذیل تفصیلات ہوں گی۔

(1) جس عرصے کیلئے یہ رپورٹ ہوگی اس عرصے کے دوران اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت کسی پروگرام پراجیکٹ اور سرگرمی کے ذریعے فراہم کی گئی معاونت اور اس کے ساتھ ساتھ جس علاقے میں ایسا کیا گیا ہوگا اس کا حدود اربعہ اس رپورٹ میں شامل ہوگا اور اس میں اس رقم کا بھی ذکر ہوگا جو اس کے لئے خرچ ہوگی جہاں تک پہلی رپورٹ کا تعلق ہے تو اس میں مالی سال 2009ء میں پاکستان کی معاونت کیلئے فراہم کی گئی رقوم کی تفصیل ہوگی اور اس میں بھی ہر پروگرام پراجیکٹ اور سرگرمی کے بارے میں بتایا جائے گا۔

(2) رپورٹ کے عرصے کے دوران اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت پراجیکٹ شروع کرنے والے ایسے امریکی یا کسی اور ملک کے شہریوں یا تنظیموں کی فہرست بھی رپورٹ میں شامل ہوگی جو ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم /فنڈز حاصل کریں گے اور یہ فہرست کسی کلاسیفائیڈ ضمیمہ میں دی جاسکتی ہے تاکہ اگر کوئی سکیورٹی رسک ہوتو اس سے بچا جاسکے اور اس میں اس کو خفیہ رکھنے کا جواز بھی دیا جائے گا۔

(3) رپورٹ میں سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق (3) میں مذکورہ منصوبے کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹس/پیش رفت اور اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت دی گئی معاونت کے اثرات کی بہتری کے لئے اقدامات کی تفصیل بھی شامل ہوگی۔

(4) رپورٹ میں ایک جائزہ بھی پیش کیا جائے گا جس میں اس ایکٹ کے تحت فراہم کی گئی معاونت کے موثر/اثر پذیری کا احاطہ کیا گیا ہوگا اور اس میں سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق 3 میں بتائے گئے طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر مطلوبہ مقاصد کے حصول یا نتائج کا جائزہ لیا گیا ہوگا اور اس سب سیکشن کے پیراگراف 3 کے تحت اس میں ہونیوالی پیش رفت یا اپ ڈیٹ بھی بیان کی جائے گی جوکہ یہ جانچنے کیلئے کہ آیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں یا نہیں ایک منظم مربوط بنیاد فراہم کرے گی اس رپورٹ میں ہر پروگرام اور پراجیکٹ کی تکمیل کا عرصہ بھی بتایا جائے گا۔

(5) امریکا کی طرف سے مالیاتی فزیکل تکنیکی یا انسانی وسائل کے حوالے سے کوئی کمی وبیشی جوکہ ان فنڈز پر موثر استعمال یا مانیٹرنگ میں رکاوٹ ہوگی کے بارے میں بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا جائے گا۔

(6) امریکا کی دوطرفہ یا کثیر الطرفہ معاونت کے منفی اثرات کا ذکر بھی اس رپورٹ میں شامل ہوگا اور اس حوالے سے اگر کوئی ہوگی تو پھر تبدیلی کیلئے سفارشات بھی دی جائیں گی اور جس علاقے کیلئے یہ فنڈز یا معاونت ہوگی اس کی انجذابی صلاحیت /گنجائش بھی رپورٹ میں مذکور ہوگی۔

(7) رپورٹ میں اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت ہونے والے اخراجات کے ضیاع فراڈ یا غلط استعمال کے حوالے سے کوئی واقعہ یا رپورٹ بھی شامل کی جائے گی۔

( ان فنڈز کی رقم جوکہ سیکشن 102 کے تحت استعمال کیلئے مختص کی گئی اور جوکہ رپورٹ کے عرصے کے دوران انتظامی اخراجات یا آڈٹ یا سیکشن 103 یا 101 (سی) کی ذیلی شق 2 کے تحت حاصل اختیارات کے ذریعے استعمال کی گئی کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہوں گی۔

(9) سیکشن 101 (سی) کی ذیلی شق 5 کے تحت قائم/ مقرر کردہ چیف آف مشن فنڈ کی طرف سے کئے گئے اخراجات جوکہ اس عرصے کے دوران کئے گئے ہوں گے جس کیلئے رپورٹ تیار کی گئی ہے اس رپورٹ میں شامل ہوں گے اس میں ان اخراجات کا مقصد بھی بتایا جائے گا اور اس میں چیف آف مشن کی طرف سے ایک لاکھ ڈالر سے زائد کے اخراجات کے وصول کنندگان کی فہرست بھی شامل ہوگی۔

(10) اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت پاکستان کو فراہم کی گئی معاونت کا حساب کتاب (اکاؤنٹنگ) جوکہ سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق 6 میں دی گئی مختلف کٹییگریز میں تقسیم کی گئی ہے کی تفصیل بھی رپورٹ میں بیان کی جائے گی۔

(11) اس رپورٹ میں درج ذیل مقاصد کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششوں کے جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔

(الف) فاٹا یا بندو بستی علاقوں میں القاعدہ طالبان یادیگر انتہا پسند اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے ان کو غیر موثر یا شکست دینے کیلئے کی گئی کوششیں۔
(ب) ایسی قوتوں کے پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کیلئے کی گئی کوششیں
(ج) لشکر طیبہ اور جیش محمد کے تربیتی مراکزکی بندش
(د) دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کوہر قسم کی مدد و تعاون کا خاتمہ
(ر) ہمسایہ ممالک میں حملوں کی روک تھام کیلئے کوششیں / اقدامات
(س) مدارس کے نصاب کی نگرانی میں اضافہ اور طالبان یا دہشت گرد یا انتہا پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کی بندش کیلئے کی گئی کوششیں۔
(ش) انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور دہشت گردی کے انسداد کیلئے فنڈز کے استعمال میں بہتری یا اضافے کی کوششیں یا اقدامات مالیاتی ایکشن ٹاسک فورس کیلئے مبصر کا درجہ اور دہشت گردی کیلئے مالی وسائل کی فراہمی روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن پر عملدرآمد کیلئے کی گئی کوششیں۔

(12) پاکستا ن کی طرف سے جوہری عدم پھیلاؤ (جوہری مواد اور مہارت) کیلئے کی گئی کوششوں کی جامع تفصیل بھی اس رپورٹ میں شامل ہوگی۔

(13) اس رپورٹ میں ایک جائزہ بھی پیش کیا جائے گا تاکہ آیا پاکستان کو فراہم کی گئی معاونت اس کے جوہری پروگرام کی توسیع میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مددگار ثابت ہوئی ہے یانہیں آیا امریکی معاونت کے انحراف یا پاکستان کے وسائل کی Realloction جوکہ بصورت دیگر پاکستان کے جوہری پروگرام سے غیر متعلقہ سرگرمیوں پر خرچ ہوں گے۔

(14) رپورٹ میں سیکشن 202 (بی) کے تحت مختص کئے گئے اور خرچ کئے گئے فنڈز کی جامع تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔

(15) اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کا فوج پر موثر سویلین کنٹرول بشمول سویلین ایگزیکٹو لیڈرز اور پارلیمنٹ کا فوجی /ملٹری بجٹ کی نگرانی اور منظوری کمانڈ کے تسلسل سینئر فوجی افسروں کی ترقی میں عمل دخل کی تفصیلات سٹریٹجک پلاننگ میں سویلین عمل دخل اور سول انتظامیہ میں فوجی مداخلت کی تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔

(b) حکومتی احتساب دفتر کی رپورٹس پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ: سیکشن 301 (اے) کے تحت پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ پیش کئے جانے کے ایک سال کے اندر کنٹرولر جنرل آف امریکا مناسب کانگریسی کمیٹی کو ایک رپورٹ پیش کرے گا جس میں درج ذیل تفصیلات مذکور ہوں گی۔

(الف) پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ کا جائزہ اور اس حوالے سے رائے
(ب) اس ایکٹ کے تحت مقاصد کے حصول کیلئے امریکی کوششوں کو موثر بنانے کیلئے اگر کنٹرولر جنرل کوئی اضافی اقدامات مناسب سمجھتا ہے تو وہ بھی بیان کئے جائیں گے۔
(پ) آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (22 یو ایس سی) کی شق 22 کے تحت دی گئی گرانٹ کے مطابق پاکستان کی طرف سے کئے گئے اخراجات کی مفصل رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔

نوٹ: کیری لوگر بل کے متن کا یہ ترجمہ پاکستان کے تقریباً تمام اردو اخبارات میں من و عن شائع ہوا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ واضح رہے کہ کيری لوگر بل پاکستان اور امريکہ کی حکومتوں کے درميان باہم اتفاق سے تشکيل پانے والا کوئ دستخط شدہ معاہدہ نہيں ہے۔ يہ ايک قانونی بل ہے جس کا اطلاق امريکی حکومتی عہديدران پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں اس بل ميں پاکستان پر ترقياتی منصوبوں سے متعلق امداد کے حوالے سے کوئ شرائط عائد نہيں کی گئ ہيں۔ ليکن اس امدادی پيکج پر اعداد وشمار کے درست حساب کتاب اور فعال احتساب کے ليے اہم اور سخت اقدامات اٹھائے گئے ہيں جو کہ کانگريس کی جانب سے امريکہ کی انتظاميہ پر لاگو ہوتے ہيں نہ کہ پاکستان کی حکومت پر۔ اس کا مقصد اس بات کو يقينی بنانا ہے کہ يہ امداد انھی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے جس کی منظوری دی گئ ہے۔

پاکستان کی حکومت کی جانب سے بھی ان اقدامات کو خوش آئند قرار ديا گيا ہے جو اس بات کو يقينی بنائيں گے کہ وہ رقم جو سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں کی تعمير کے حوالے سے عوام کے ليے مختص کی گئ ہے، اس کوضائع ہونے سے بچايا جا سکے۔

يہ بات حيران کن ہے کہ جو لوگ آج کيری لوگر بل پر اعتراض کر رہے ہيں وہی ماضی ميں يہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ احتساب کا مناسب نظام نہ ہونے کے سبب امداد کے پيکج کارآمد ثابت نہيں ہو سکے ہيں۔

اس بل کا اصل نقطہ يہ ہے کہ شہريوں کی بہبود کے لیے 5۔7 بلين ڈالرز (قريب 62500 کروڑ روپے) مختص کيے گئے ہيں تا کہ اگلے پانچ سالوں (2010 – 2014) کے دوران معاشی بحالی، تعليم، صحت عامہ اور جمہوری اداروں کی مدد کے ضمن ميں پاکستان کے عوام کی مدد کی جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
میں فواد کی اس بات سے متفق ہوں کہ کم از کم اس مرتبہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ دی گئی رقم کا استعمال درست اور شفاف طریقے سے ہو سکے، مجھ سمیت دیگر احباب پاکستانی افواج کی بات کرتے ہوئے بہت جذبات سے کام لیتے ہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ غریب پاکستان کے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ برسوں سے ان پر ہی خرچ ہو رہا ہے اور جب کیری لوگر بل میں زیادہ پیسہ عوام پر خرچ کرنے کی بات کی گئی ہے تو ماتھے پر شکن پڑ گئی، ہے نا عجیب بات۔ دورسری بات یہ کہ یہ ایک امریکی قانون ہے جس کا اطلاق ان کی انتظامیہ پر ہوتا ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں یہ آپ کی صوابدید ہے ، اس پر عمل درامد بھی حکومت پاکستان کے تعاون سے ہی ممکن ہے تو پھر کسطرح سے بیرونی مداخلت ہو پائے گی، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسرائیل، را اور بھارت کا جذباتی کارڈ استعمال کرکے عوام کو گمراہ کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی گفتگو سے جذبات نکال کرحقائق ڈال دیں تو صورتحال بالکل مختلف دکھائی دے گی۔ تیسری بات کہ گفتگو کے دوران شخصی و ذاتی جملے بازی کچھ مناسب نہیں لگتی، اسکا خیال رکھیئے۔
 

اظفر

محفلین
يہ واضح رہے کہ کيری لوگر بل پاکستان اور امريکہ کی حکومتوں کے درميان باہم اتفاق سے تشکيل پانے والا کوئ دستخط شدہ معاہدہ نہيں ہے۔ يہ ايک قانونی بل ہے جس کا اطلاق امريکی حکومتی عہديدران پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں اس بل ميں پاکستان پر ترقياتی منصوبوں سے متعلق امداد کے حوالے سے کوئ شرائط عائد نہيں کی گئ ہيں۔ ليکن اس امدادی پيکج پر اعداد وشمار کے درست حساب کتاب اور فعال احتساب کے ليے اہم اور سخت اقدامات اٹھائے گئے ہيں جو کہ کانگريس کی جانب سے امريکہ کی انتظاميہ پر لاگو ہوتے ہيں نہ کہ پاکستان کی حکومت پر۔ اس کا مقصد اس بات کو يقينی بنانا ہے کہ يہ امداد انھی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے جس کی منظوری دی گئ ہے۔

پاکستان کی حکومت کی جانب سے بھی ان اقدامات کو خوش آئند قرار ديا گيا ہے جو اس بات کو يقينی بنائيں گے کہ وہ رقم جو سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں کی تعمير کے حوالے سے عوام کے ليے مختص کی گئ ہے، اس کوضائع ہونے سے بچايا جا سکے۔

يہ بات حيران کن ہے کہ جو لوگ آج کيری لوگر بل پر اعتراض کر رہے ہيں وہی ماضی ميں يہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ احتساب کا مناسب نظام نہ ہونے کے سبب امداد کے پيکج کارآمد ثابت نہيں ہو سکے ہيں۔

اس بل کا اصل نقطہ يہ ہے کہ شہريوں کی بہبود کے لیے 5۔7 بلين ڈالرز (قريب 62500 کروڑ روپے) مختص کيے گئے ہيں تا کہ اگلے پانچ سالوں (2010 – 2014) کے دوران معاشی بحالی، تعليم، صحت عامہ اور جمہوری اداروں کی مدد کے ضمن ميں پاکستان کے عوام کی مدد کی جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

فواد اوپر اردو میں کیری لوگر لکھا ہوا ہے۔ ایک بار سارا پڑھ لو بچے
تم ایک ہی چیز کو لیکر بیٹھے ہوئے ہو ۔ جن شقوں پر پاکستانی عوام اور آرمی کو اعتراض ہے اس کی طرف تم لوگ آتے ہی نہیں دوسری باتیں‌کر گھمانے کی کوشش کرتے ہو ۔ پیسے کے چکر میں جیش محمد اور لشکر طیبہ کہاں آگئی ؟ ان کا ذکر کرنا آپ کی مجبوری کیوں ؟ حالانکہ ان دو جماعتوں سے تو انڈیا کو تکلیف ہے۔ یہ انڈیا اور امریکہ کی تکلیف سانجھی کب ہوئی ؟؟

خود امریکہ وہ واحد وحشی ملک ہے جس نے جنگ میں اٹامک بم استعمال کیا ۔ دوسروں کی باری تم لوگ جوہری عدم پھیلاو کے نعرے لیکر آجاتے ہو ۔ اگر امریکہ نے اس پر عمل کیا ہوتا تو امریکہ کے بعد دوسرے ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی کہاں سے جاتی ؟؟
اگر میں اپنے بچے کو نماز پڑھنے کا کہوں‌کا تو مجھے چاہئے میں خود پڑھوں‌ پھر اس کو کہوں تاکہ اس پر اثر ہو ۔
میں اپنے بچے کو کار آہستہ چلانے کیلیے کہوں گا تو مجھے چاہیے میں خود بھی ویسے چلاوں‌ تاکہ بچے پر اثر ہو
اگر انکل سام کو دنیا کے جوہری ہتھیاروں سے تکلیف ہے تو اس کو چاہیے وہ اپنے جوہری ہتھیار ختم کرے پھر دوسروں کو کہے ۔پاک آرمی کی تکلیف پیسوں سے نہیں بلکہ ان بونگی شرایط سے ہے ۔

(ر) ہمسایہ ممالک میں حملوں کی روک تھام کیلئے کوششیں / اقدامات

یعنی آپ لوگ کہیں گے فلاں جماعت انڈیا پر حملہ کیا ہے تو پاکستان اس پر پابندی لگائے ؟ تمہارا کیا پتا کل تم کہہ دو انڈیا میں اردو محفل نے حملہ کرایا ہے:rollingonthefloor: ۔ جس طرح کی اوچھی حرکات امریکہ کرتا ہے اس میں یہ امید کی جا سکتی ہے

(س) مدارس کے نصاب کی نگرانی میں اضافہ اور طالبان یا دہشت گرد یا انتہا پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کی بندش کیلئے کی گئی کوششیں۔
یہ پاکستان اور اسلام کا معاملہ ہے ۔ آپ کو اسلام کا مفاد کب عزیز ہوا ؟ مدارس کو بدنام کرنے والے بھی تم لوگ ہو ۔ مشرف و زرداری جیسے حکمرانوں کی بدولت یہ ممکن ہوا ۔

اور سب سے اہم بات کہ اس بل میں یہ بھی شامل ہے کہ جب انکل سام کے بڑے بیٹے کو لگے گا کہ پاکستان کو اب امداد کی ضرورت نہیں تو یہ بند کر دی جائے گی /۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں جب آپ کا مفاد ختم ہو جائے گا تب یہ ہوگا
 

اشتیاق علی

لائبریرین
کیری لوگر بل نا منظور، گو امریکہ گو :surprise:
کیری لوگر بل نا منظور، گو امریکہ گو :surprise:
کیری لوگر بل نا منظور، گو امریکہ گو :surprise:
 

ساجد

محفلین
آپ خود ہی اپنی دليل کی نفی کر رہے ہيں۔ ايک جانب تو آپ يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان ميں جاری جنگ کے سبب امريکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور دوسری جانب آپ کا يہ الزام ہے کہ کيری لوگر بل کا مقصد پاکستان کے مختلف اداروں کے مابين ٹکراؤ کی فضا پيدا کر کے ملک کو کمزور کرنا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔

پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔

امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔

تمام تر معاشی مسائل کے باوجود امريکی حکومت ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ يہ امداد محض تربيت اور سازوسامان تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی اور ترقياتی امداد بھی شامل ہے۔

کيری لوگر اسی مقصد کے حصول کی جانب ايک اہم قدم اور پيش رفت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
عالی جاہ ، میں اپنی دلیل کی نفی نہیں کر رہا۔ جو امداد پاکستان کو اس بل کے ذریعے دی جارہی ہے وہ بھی پاکستان کے قومی اداروں کو آپس میں ٹکرا کر اپنا راستہ ہموار کرنے اور بازو مروڑنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئیے دی جا رہی ہے۔
آپ یہ بات سرخ الفاظ سے اپنی نوٹ بک میں لکھ لیں کہ امریکہ پاکستان کو ہر ممکن و ناممکن طریقے سے قابو کرنے کی انتہائی کوشش کر رہا ہے اور آنے والا وقت اس بات کو ثابت بھی کر دے گا۔
بندہ پرور ، آپ کے خیال میں پاکستان کے جو کروڑوں لوگ اس بل کے خلاف ہیں کیا وہ سب کے سب میڈیا کے اسیر ہیں یا ان کی عقل گھاس چرنے گئی ہے کہ وہ اپنے ملک میں آنے والے ڈالروں کو ٹھکرا دیں؟
آخر امریکہ بھی پاکستان کو یہ امداد قبول کرنے پہ کیوں اتنی زیادہ لابنگ کر رہا ہے اور امریکی انتظامیہ اس کی حمایت میں دلیلوں کے انبار کیوں لگا رہی ہے۔ بھائی ، سیدھی سی بات ہے اگر امداد لینے والا اسے ٹھکراتا ہے تو دینے والا اسے اپنی ہتک سمجھ کے ہاتھ کھینچ لیتا ہے لیکن یہاں تو گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔ امداد دینے والا یہ کہہ رہا ہے کہ اگر یہ امداد رد کر دی گئی تو یہ ہمارے منہ پہ تھپڑ ہو گا۔ ارے بھئی اتنے دانت گھسانے کی کیا ضرورت ہے امداد لینے والا پس و پیش کا شکار ہے تو اس کو اس کے حال میں مست رہنے دو اور اپنی امداد واپس لے جاؤ۔
اللہ اللہ خیر صلا۔ کاہے کی بحث کاہے کا سفارتی ہلا گُلا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

خود امریکہ وہ واحد وحشی ملک ہے جس نے جنگ میں اٹامک بم استعمال کیا ۔

جہاں تک ہيروشيما اور ناگاساکی کا سوال ہے تو میں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ سال 1945 ميں امريکہ کو جاپان سے جنگ کرتے ہوئے 4 سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اگر آپ تاريخ کا جائزہ لیں تو جاپان کی توسيع پسند قوتوں نے نہ صرف يہ کہ امريکہ ميں پرل ہاربر پر حملہ کيا تھا بلکہ چين اور ساؤتھ ايسٹ ايشيا کے بڑے علاقے پر قبضہ کيا جا چکا تھا۔ سال 1945 ميں امريکہ کے سامنے صرف دو آپشنز تھے ، يا تو جاپان ميں ايک بڑی فوج اتار کر باقاعدہ ايک طويل جنگ کا آغاز کيا جائے يا ايٹمی ہتھيار کا استعمال کر کے جاپان کو فوری طور پر شکست پر مجبور کيا جائے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہيروشيما اور ناگاساکی ميں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک بہت بڑا سانحہ تھا ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ طويل المدت زمينی جنگ کی صورت ميں انسانی جانوں کا نقصان اس سے کہيں زيادہ ہوتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دوسروں کی باری تم لوگ جوہری عدم پھیلاو کے نعرے لیکر آجاتے ہو ۔ اگر امریکہ نے اس پر عمل کیا ہوتا تو امریکہ کے بعد دوسرے ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی کہاں سے جاتی ؟؟
اگر میں اپنے بچے کو نماز پڑھنے کا کہوں‌کا تو مجھے چاہئے میں خود پڑھوں‌ پھر اس کو کہوں تاکہ اس پر اثر ہو ۔
میں اپنے بچے کو کار آہستہ چلانے کیلیے کہوں گا تو مجھے چاہیے میں خود بھی ویسے چلاوں‌ تاکہ بچے پر اثر ہو
اگر انکل سام کو دنیا کے جوہری ہتھیاروں سے تکلیف ہے تو اس کو چاہیے وہ اپنے جوہری ہتھیار ختم کرے پھر دوسروں کو کہے

ايٹمی ٹيکنالوجی کے غلط ہاتھوں ميں جانے کے حوالے سے امريکہ اور عالمی برادری کے تحفظات اور خدشات يکساں ہیں۔

آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ امريکہ کے پاس نيوکلير ہتھيار اور ٹيکنالوجی ہے ليکن آپ يہ حقیقت نظرانداز کر رہے ہيں کہ امريکہ نے ايٹمی ہتھياروں کے عدم پھيلاؤ (نيوکلير نان پروليفريشن ٹريٹی) کے عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہيں جس کا مقصد نيوکلير ٹيکنالوجی کے پھيلاؤ کو روکنا ہے۔ سال 1968 ميں امريکہ، برطانيہ اور سويت يونين سميت دنيا کے 59 ممالک نے اس پر دستخط کيے تھے۔

تينوں اہم ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کيا تھا کہ ان ممالک کی مدد نہيں کی جائے گی جن کے پاس يہ صلاحيت نہيں ہے۔ جن ممالک کے پاس نيوکلير ٹيکنالوجی نہيں ہے انھيں اس يقين دہانی کے بدلے ميں پرامن مقاصد کے لیے يہ صلاحيت فراہم کی جائے گی کہ وہ ايٹمی ہتھياروں سے اجتناب کريں گے۔ دو ايٹمی طاقتوں فرانس اور چين نے سال 1992 تک اس معاہدے کی توثيق نہيں کی تھی اور کچھ ايٹمی طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کيے تھے جن ميں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 1995 ميں جب يہ معاہدہ اپنی معياد کے اختتام پر تھا تو اقوام متحدہ کے 174 ممالک کے مشترکہ ووٹ کے ذريعے اس معاہدے کی مدت ميں غير معينہ مدت کے ليے توثيق کر دی گئ۔

اس ضمن ميں صدر اوبامہ کا بيان پيش ہے جس ميں آپ کے سوال کا براہراست جواب موجود ہے۔

"يہ بات ان سب پر واضح ہے جو ايٹمی ہتھياروں کے بارے ميں فکرمند ہيں کہ ہم ايک فيصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکے ہيں۔ يہ محض امريکہ کے مفاد کے بارے ميں نہيں ہے۔ يہ مشرق وسطی ميں اسلحے کی اس خطرناک دوڑ کو روکنے کے بارے ميں ہے جو ايک طرف تو اس خطے کو ايک بے حد خطرناک راستے پر دھکيل دے گی تو دوسری طرف عالمی عدم پھيلاؤ کے قوانين کو بھی تہس نہس کر دے گی۔

ميں ان لوگوں کا موقف سمجھتا ہوں جو کہتے ہيں کہ کچھ ممالک کے پاس ايٹمی اسلحہ ہے اور کچھ کے پاس نہيں۔ کسی واحد ملک کو يہ اختيار نہيں ہونا چاہيے کہ کون سے ممالک کے پاس ايٹمی اسلحہ ہونا چاہيے۔ يہی وجہ ہے کہ ميں اس امريکی اقرار کا اعادہ کرتا ہوں جس کے تحت ايک ايسی دنيا کی جستجو کی جائے گی جہاں کسی ملک کے پاس بھی ايٹمی ہتھيار نہ ہوں۔ اور ہر ملک کو بشمول ايران، عدم پھيلاؤ کے معاہدے کے تحت پرامن مقاصد کے ليے ايٹمی توانائ کے حصول کا حق ہو۔ يہ اقرار اس معاہدے کی بنياد ہے اور سب کو اس پر پوری طرح عمل پيرا ہونا چاہيے۔ مجھے اميد ہے کہ تمام ملک اس مقصد ميں شريک ہو سکتے ہيں"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہ انڈیا اور امریکہ کی تکلیف سانجھی کب ہوئی ؟؟

جب آپ بھارت کے ليے امريکی تعاون کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد اور تعاون کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ بھارت کو ايک دوست اور ديرپا اتحادی سمجھتا ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کئ دہائيوں سے موجود ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت کا تعين براہراست زمينی حقائق اور مشترکہ اقتصادی اور طويل المدت مفادات اور حکمت عملی کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ، بھارت اور پاکستان کے مابين کے تعلقات ميں کئ نشيب و فراز آئے ہيں۔

بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات بالکل مختلف ہيں۔ امريکہ ان دونوں ايشيائ ممالک سے ان کے باہمی تنازعات سے قطع نظر مثبت اور دوررس تعلقات کا خواہاں ہے۔ امريکہ کے نزديک اس حوالے سے معاملہ يہ نہيں ہے کہ دونوں ميں سے کسی ايک کا انتخاب کرے۔

پاکستان کی حدود کے اندر کسی دہشت گروہ يا غير رياستی عناصر کی جانب سے بھارت سميت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کوئ بھی کاروائ دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس کے نتيجے ميں سارے خطے ميں عدم استحکام کی فضا پيدا ہو گي۔ ايسے واقعات کسی بھی اعتبار سے پاکستان کے مفاد ميں نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان اس حقيقت سے آگاہ ہے اور اس بات کی ضرورت کو تسليم کرتی ہے کہ مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

تمام فريقين کے مابين رائج خليج کو دور کرنے اور تعلقات کی مضبوطی کے ليے کی جانے والی انھی کاوشوں کو کيری لوگر بل ميں اجاگر کيا گيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

اظفر

محفلین
جھوٹ

جب آپ بھارت کے ليے امريکی تعاون کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد اور تعاون کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ بھارت کو ايک دوست اور ديرپا اتحادی سمجھتا ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کئ دہائيوں سے موجود ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت کا تعين براہراست زمينی حقائق اور مشترکہ اقتصادی اور طويل المدت مفادات اور حکمت عملی کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ، بھارت اور پاکستان کے مابين کے تعلقات ميں کئ نشيب و فراز آئے ہيں۔

بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات بالکل مختلف ہيں۔ امريکہ ان دونوں ايشيائ ممالک سے ان کے باہمی تنازعات سے قطع نظر مثبت اور دوررس تعلقات کا خواہاں ہے۔ امريکہ کے نزديک اس حوالے سے معاملہ يہ نہيں ہے کہ دونوں ميں سے کسی ايک کا انتخاب کرے۔

پاکستان کی حدود کے اندر کسی دہشت گروہ يا غير رياستی عناصر کی جانب سے بھارت سميت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کوئ بھی کاروائ دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس کے نتيجے ميں سارے خطے ميں عدم استحکام کی فضا پيدا ہو گي۔ ايسے واقعات کسی بھی اعتبار سے پاکستان کے مفاد ميں نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان اس حقيقت سے آگاہ ہے اور اس بات کی ضرورت کو تسليم کرتی ہے کہ مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

تمام فريقين کے مابين رائج خليج کو دور کرنے اور تعلقات کی مضبوطی کے ليے کی جانے والی انھی کاوشوں کو کيری لوگر بل ميں اجاگر کيا گيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ لشکر طیبہ یا جیش محمد نے انڈیا میں کوئی دہشتگردی کی ہو ؟
پاکستان میں اس وقت ایسی حکومت کا جن کا اسلام سے ساتھ تعلق کچھ اچھا نہیں پھر بھی انہوں نے بھی ابھی تک اس انڈیا کی اس بات کو قبول نہیں کیا کہ ممبئی حملے لشکر طینہ نے کئے تھے ۔ تو پھر آپ کو کیسے معلوم ہے؟؟؟

دوسری بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ 5 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لشکر طیبہ پاکستان سے ختم ہو کر کشمیر تک محدود ہو چکی ہے ۔ آپ کو کہانی لکھنے کی بہت عادت ہے ۔ صرف کام کی بات لکھا کریں تاکہ سب سمجھ سکیں
 

اظفر

محفلین
آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ امريکہ کے پاس نيوکلير ہتھيار اور ٹيکنالوجی ہے ليکن آپ يہ حقیقت نظرانداز کر رہے ہيں کہ امريکہ نے ايٹمی ہتھياروں کے عدم پھيلاؤ (نيوکلير نان پروليفريشن ٹريٹی) کے عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہيں جس کا مقصد نيوکلير ٹيکنالوجی کے پھيلاؤ کو روکنا ہے۔ سال 1968 ميں امريکہ، برطانيہ اور سويت يونين سميت دنيا کے 59 ممالک نے اس پر دستخط کيے تھے۔

تينوں اہم ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کيا تھا کہ ان ممالک کی مدد نہيں کی جائے گی جن کے پاس يہ صلاحيت نہيں ہے۔ جن ممالک کے پاس نيوکلير ٹيکنالوجی نہيں ہے انھيں اس يقين دہانی کے بدلے ميں پرامن مقاصد کے لیے يہ صلاحيت فراہم کی جائے گی کہ وہ ايٹمی ہتھياروں سے اجتناب کريں گے۔ دو ايٹمی طاقتوں فرانس اور چين نے سال 1992 تک اس معاہدے کی توثيق نہيں کی تھی اور کچھ ايٹمی طاقتوں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کيے تھے جن ميں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 1995 ميں جب يہ معاہدہ اپنی معياد کے اختتام پر تھا تو اقوام متحدہ کے 174 ممالک کے مشترکہ ووٹ کے ذريعے اس معاہدے کی مدت ميں غير معينہ مدت کے ليے توثيق کر دی گئ۔

آپ کیاس بات سے سو فیصد یہی ثابت ہوتاہے کہ امریکہ چاہتا ہے اسکے ہاس یہ ٹیکنالوجی ہو اور دوسروں‌کے پاس نہ ہو ؟ یہ کیسا انصاف ہے انکل سام کا ؟ ۔
آپ ایران کو ایٹم بم بنانے دیں‌پھر اس سے بھی دستخط کروا لینا ۔ یہ کیسا آیڈیا ہے ؟
 
Top