کیا اللہ تعالٰی کے مبعوث کیئے ہوئے انبیاء کرام سے باالقصد خطاؤں کا صدور ممکن تھا؟؟؟

نبیل

تکنیکی معاون
ابوکاشان، آپ کی تجویز کا بہت شکریہ۔ یقیناً آپ نے یہ مشورہ خلوص سے دیا ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں فاروق بھائی اور عارف میں فرق ہے۔ ویسے آپ چاہیں تو اسی تھریڈ کو عارف کے خیالات سے آگاہی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
 

ابو کاشان

محفلین
میرا مقصد دونوں کا موازنہ نہیں تھا۔ صرف خیالات کی جانچ کے لیئے کہا تھا سو وہ یہاں بھی ہو رہی ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اسکا بنانے والا موجود ہے! اپنے ارد گرد ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے۔ خدا کا مشاہدہ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ تو دعا ہے، کبھی گریہ و زاری سے دعا کر کرکے دیکھیں۔ اپنے آپ معلوم ہو جائے گا کہ خدا موجود ہے کہ نہیں!

حجور معاف کیجیئے گا میں یہاں آپ کہ ساتھ خدا کہ وجود و عدم کی بحث نہیں کررہا جو آپ مجھے گریہ و زاری کہ مشورے دے رہے ہیں میں نے آپ کہ اس مؤقف پر کہ آپ اعتقادات کہ معاملہ فقط مشاہدہ اور معائنہ ہی کہ قائل ہیں بطور اعتراض معائنہ و مشاہدہ کہ لغوی مباحث کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے خدا کو کہاں دیکھا ؟ باقی رہ گئی کائنات کہ ذرے ذرے کی اللہ پاک کی گواہی دینے کی بات تو الحمداللہ ہم مسلمان ہیں ہمارے لیے خدا کہ وجود پر سب سے بڑی دلیل وحی ہے یعنی اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بتا دینا ہی کافی ہے اور پھر اس بات کا تواتر سے نقل (اس نقل کہ جس کو ماننے سےآپ انکاری ہیں)ہونا ہی سب سے بڑی دلیل ہے رہ گئی کائنات کہ مشاہدے کی بات یہ تمام ضمنی دلائل ہیں لیکن جس طرح آپ فقط مشاہدہ کی بات کرتے ہیں اس طرح تو کائنات کہ بڑے بڑے نامور لوگ جو کہ فقط مشاہدہ ہی کہ قائل تھے وہ اس کائنات کہ مشاہدہ کہ بعد اللہ کہ وجود کو تسلیم تو کُجا سرے سے خدا کی ذات کہ ہی منکر ہوگئے اور یہ سب بھی (فقط آپکی طرح) مشاہدہ اور معائنہ ہی پر اصرارکی وجہ سے ہی ممکن ہوا وگرنہ وہ اگر نقلی دلائل پر اکتفا کرتے تو ہرگز اس گمراہی کہ گڑھے میں نہ گرتے ۔ ۔ ۔
انبیاء کرام گناہ کی غلاظت سے معصوم ہیں، جبھی تو انکو نبی کا درجہ دیا گیا۔۔۔ البتہ یہ "بد ترین بشری ذائل" والا معاملہ آپنے خود گڑھا ہے۔ میں‌صرف اس بات کا قائل ہوں کہ انبیاء کرام سے بھی کبھی کبھار کمزوری بشریت کی وجہ سے چھوٹی نوعیت کی خطائیں ، چوک وغیرہ صادر ہو سکتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک شخص کا ٖغلطی سےقتل ہوجانا، آنحضور ؐ کا نماز میں ایک رکعت بھول جانا اور اس جیسی حادثاتی خطائیں انبیاء سے صادر ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ان سب کو ’’بد ترین بشری ذائل‘‘ کا نام دینا حماقت ہے!
حجور یا تو آپکی یاداشت کمزور ہے یا پھر آپ بھولے ہیں ؟
جب ابن حسن نے ہمارے ملک کہ سیاستدانوں کی غلیظ غلطیوں سے صرف نظر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ عرض کی تھی کہ وہ سب ہماری طرح کہ انسان ہی ہیں اور انسانوں سے اس قسم (یعنی غلیظ قسم )کی غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں فقط انبیاء کرام ان سے معصوم ہوتے ہیں ۔ ۔تو آپ نے فورا وہاں پر ان سے اختلاف کیا تھا اور انبیاء کرام کو ہماری ہی طرح کا بشر ٹھراتے ہوئے غلطیوں سے مبرا ماننے سے انکار کردیا تھا ۔۔ ۔ ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جس قسم کی غلطیوں کا ذکر ہورہا تھا اس قسم کی غلطیوں کہ معاملے میں انبیاء کا ذکر وہاں پر فقط ایک ہی حوالے سے بنتا تھا یعنی براءت اور وہ حوالہ ابن حسن نے دے دیا کہ انبیاء کرام کی براءت ظاہر کردی مگر آپ نے انکا رد کیا اور جب آپ سے دلیل مانگی تو آپ بھول چوک کی طرف چلے گئے ۔ ۔ ۔ کیا آپ اتنے ہی معصوم ہیں کہ آپ کو لاکھوں کروڑوں کی کرپشن اور اس قسم کہ دیگر معاملات بھول چوک کا شاخسانہ نظر آتے ہیں یا پھر آپ جہل مرکب کا شکار ہیں ؟
میں پوچھتا ہوں کہ جن برائیوں سے ابن حسن نے انبیاء کرام کی براءت ظاہر کی تھی وہاں پر آپ کا ان سے اختلاف کرنے کی کیا تُک بنتی تھی کیا وہاں پر کوئی ایسا معاملہ زیر بحث تھا کہ انبیاء کرام سے اجتھادی خطاؤں کا صدور ممکن ہے یا نہیں ؟ ہاں اگر ایسا معاملہ زیربحث ہوتا تو پھر آپ یقینا ابن حسن کا رد فرماتے اور ہم بھی آپ کا ساتھ دیتے کہ ہاں بھائی انبیاء کرام سے اجتھادی خطائیں ہوتی ہیں لہزا ابن حسن بھائی آپ غلط ہو ۔ ۔ ۔۔ لیکن ہم صاف صاف دیکھتے ہیں کہ وہاں ایسا کوئی معاملہ زیر بحث نہیں تھا بلکہ اس کہ بالکل برعکس وہاں یہ بات ضمنا آگئی تھی کہ جس قسم کی غلطیاں ہم لوگ کرتے ہیں (یعنی بالاارادہ اور باالقصد ) ان سے فقط انبیاء ہی محفوظ ہیں مگر آپ نے فی الفور اس بات سے اختلا ف کرتے ہوئے انبیاء کرام کو معصوم ماننے سے انکار کردیا اور اب بجائے اپنی غلطی کو ماننے کہ آئیں بائیں اور شائیں سے کام لے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پہلے یہ تسلیم کریں کہ جس جگہ آپ نے انبیاء کرام کہ اجتھادی خطاؤں کی بحث چھیڑی ہے وہاں اس کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی سوائے ابن حسن بھائی سے اتفاق کرنے کہ ۔ ۔پھر آپ سے دیگر معاملات پر بھی گفتگو ہوتی رہے گی ۔ ۔ ۔
 

arifkarim

معطل
عقائد میں سب سے پہلے "ایمان باللہ والرسول" ہی آتا ہے۔
اگر عقیدہ کو دوسرے نمبر پر دھکیل کے "اعمال" کو اول نمبر پر کر دیا جائے تو پھر مسلمان اور کافر کی تفریق کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جائے گی؟؟
کیونکہ (حقوق العباد کے معاملے میں) اعمال تو کافر کے بھی اتنے ہی اچھے ہو سکتے ہیں جتنا کہ مسلمان کے۔

اعمال، ایمان کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج کے مسلمان اپنے آپ کو عقائد لے لحاظ سے بہترین ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہیں، مگر جب اعمال کی بات آئے تو صفر۔ یاد رکھیں کہ ایسے ایمان کا کوئی بھی فائدہ نہیں جب تک اسمیں اعمال شامل نہ ہوں!
 

arifkarim

معطل
بلکہ میں نے یہاں دیکھا ہے کہ بہت سے غیر مسلم حقوق العباد ادا کرنے میں مسلمانوں سے بہت آگے ہیں۔

بالکل، وہ صرف انسانیت کو مد نظر رکھ کر نیک اعمال کرتے ہیں، جبکہ مسلمان جو اسلام پر چلے کے دعوے دار ہیں، وہ انسانیت سے لبریز دین پر عمل پیرا نہیں ہیں!
 

arifkarim

معطل
۔ ۔ ۔ ۔ آپ پہلے یہ تسلیم کریں کہ جس جگہ آپ نے انبیاء کرام کہ اجتھادی خطاؤں کی بحث چھیڑی ہے وہاں اس کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی سوائے ابن حسن بھائی سے اتفاق کرنے کہ ۔ ۔پھر آپ سے دیگر معاملات پر بھی گفتگو ہوتی رہے گی ۔ ۔ ۔

یہ تو میں پہلی ہی تسلیم کر چکا ہوں کہ ابن حسن والی پوسٹ میں میں نے انبیاء کے حوالے سے بالارادہ غلطیوں کا ذکر نہیں کیا تھا گو کہ وہاں بات سیاست دانوں کی ہو رہی تھی، جو بالارادہ غلطیاں کرنےمیں سب سے آگے ہیں!
 

باذوق

محفلین
اعمال، ایمان کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج کے مسلمان اپنے آپ کو عقائد لے لحاظ سے بہترین ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہیں، مگر جب اعمال کی بات آئے تو صفر۔ یاد رکھیں کہ ایسے ایمان کا کوئی بھی فائدہ نہیں جب تک اسمیں اعمال شامل نہ ہوں!
جناب عالی ! کسی کے ایمان کو جانچنے یا اس کی عکاسی کرنے کا معاملہ آپ کو کیوں درپیش ہے؟
کیا آپ جان سکتے ہیں کہ میرے دل میں‌ ایمان کی کیا حالت ہے ؟ یا آپ کے دل میں‌ کتنا ایمان ہے؟
یہ کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ہم آپ اپنے اپنے ایمان کی عکاسی کے نہ مکلف ہیں اور نہ ذمہ دار۔

رہی یہ بات کہ : ایسے ایمان کا کوئی بھی فائدہ نہیں جب تک اسمیں اعمال شامل نہ ہوں !
حضور پہلی بات تو یہ کہ اعمال کا انکار کون کمبخت کر رہا ہے۔ بات تو ترجیح دینے پر ہوئی تھی (آپ آخر اتنی جلدی جلدی کیوں پینترے بدلتے ہیں؟؟؟؟؟ :confused:)
آپ نے خود یوں لکھا تھا :
یہی وجہ ہے کہ میں عقائد سے زیادہ اعمال پر ترجیح دیتا ہوں، اور اعمال میں بھی حقوق العبا د پہلے، حقوق اللہ بعد میں!
جس کے جواب میں میں نے کہا تھا کہ :
اگر عقیدہ کو دوسرے نمبر پر دھکیل کے "اعمال" کو اول نمبر پر کر دیا جائے تو پھر مسلمان اور کافر کی تفریق کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جائے گی؟؟

اب آپ یہ بتائیے کہ :
وہ کافر جس کے اعمال بہتر سے بہترین بلکہ عمدہ ترین ہوں ، کیا وہ بروز حشر اللہ کی رحمت کا بلاکھٹکے مستحق قرار پا جائے گا؟؟

اور ہاں‌ ۔۔۔۔ جواب دینے سے قبل سورۃ التغابن کی آیات 9 اور 10 کا مطالعہ کر لیجئے گا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ تو میں پہلی ہی تسلیم کر چکا ہوں کہ ابن حسن والی پوسٹ میں میں نے انبیاء کے حوالے سے بالارادہ غلطیوں کا ذکر نہیں کیا تھا گو کہ وہاں بات سیاست دانوں کی ہو رہی تھی، جو بالارادہ غلطیاں کرنےمیں سب سے آگے ہیں!

تو جب آپ کو یہ تسلیم ہے تو پھر وہاں آپ نے ابن حسن بھائی سے اختلاف کیوں کیا؟ جب آپ دونوں ہی ایک بات کررہے تھے تو محل اختلاف کیا تھا جو آپ نے ابن حسن بھائی کی بات کو رد کرتے ہوئے مطلقا انبیاء کرام کہ بشریت کہ ساتھ انکی خطاؤں کا ذکر کیا ؟ اب جب کہ آپ کو یہ تسلیم ہے کہ وہاں آپ کی مراد وہ نہ تھی جو کہ آپ کی تحریر سے ثابت تھی تو پھر وہاں پر آپ کہ اختلافی نوٹ کو ہم کیا سمجھیں ؟ آپکہ فہم کا قصور یا پھر آپکی بے بصیرتی پر دال ایک تحریر ۔ ۔ ۔ ۔؟
 

arifkarim

معطل
جس کے جواب میں میں نے کہا تھا کہ :
اگر عقیدہ کو دوسرے نمبر پر دھکیل کے "اعمال" کو اول نمبر پر کر دیا جائے تو پھر مسلمان اور کافر کی تفریق کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جائے گی؟؟

اب آپ یہ بتائیے کہ :
وہ کافر جس کے اعمال بہتر سے بہترین بلکہ عمدہ ترین ہوں ، کیا وہ بروز حشر اللہ کی رحمت کا بلاکھٹکے مستحق قرار پا جائے گا؟؟

اور ہاں‌ ۔۔۔۔ جواب دینے سے قبل سورۃ التغابن کی آیات 9 اور 10 کا مطالعہ کر لیجئے گا۔

900.gif

901.gif


یہاں صاف لکھا ہے کہ ایمان اور اعمال آپس میں باہم منسلک ہیں۔ جیسا کے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اعمال کے بغیر صرف ایمان کی بنیاد پر خدا کی رحمت کا حقدار سمجھنابے معنی ہے۔ جبکہ اوپر آپ ذکر کر رہے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ کسکو ایمان کی عکاسی (اعمال) کی توفیق دے۔ یعنی آپ خود اس آیت کا انکار رہے ہیں۔ اگر نیک اعمال کی توفیق دینا محض اللہ کا کام ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کو رحمت کے حصول کیلئے "نیک اعمال کی ترغیب" دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا عیسائیوں کی طرح صرف "درست" ایمان کا ہونا کافی نہ ہوتا؟

ایک کافر جو روز حشر پر یقین ہی نہیں رکھتا، لیکن نیک اعمال متواتر کرتا ہے۔ اسکے ساتھ روز محشر میں نیک اعمال تو ہوں گے لیکن "اسلامی" ایمان نہیں، جبکہ مسلمانوں کیساتھ صرف اعتقادی ایمان ہوگا، نیک اعمال نہیں۔ یعنی دونوں کا معاملہ 50 / 50
 

arifkarim

معطل
تو جب آپ کو یہ تسلیم ہے تو پھر وہاں آپ نے ابن حسن بھائی سے اختلاف کیوں کیا؟

وہاں میں نے اختلاف اسلئے کیا کیونکہ ابن حسن بڑے دھڑلے کیساتھ انبیاء کو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کہہ رہے تھے۔ گویا انبیاء انسان نہ ہوں ، فرشتے ہوں! اگر ابن حسن وہاں لکھ دیتے کہ تمام انسان، سوائے انبیاء کے، بالارادہ غلطیاں کرتے ہیں تو میں ہرگز اختلاف نہ کرتا!
 

طالوت

محفلین
ذرا سی بات ، اختلاف نہیں ، صرف کہنے کے انداز پر اتنی مشقیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
وہاں میں نے اختلاف اسلئے کیا کیونکہ ابن حسن بڑے دھڑلے کیساتھ انبیاء کو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کہہ رہے تھے۔ گویا انبیاء انسان نہ ہوں ، فرشتے ہوں! اگر ابن حسن وہاں لکھ دیتے کہ تمام انسان، سوائے انبیاء کے، بالارادہ غلطیاں کرتے ہیں تو میں ہرگز اختلاف نہ کرتا!

بھول چوک سہو یا نسیان پر عُرف یا لغت میں تو خطاء کا اطلاق ہوتا مگر حقیقتا یہ خطاء نہیں ہوتے لہزا ابن حسن بھائی نے بالکل بجا فرمایا تھا اور یہی عین ایمان ہے کہ جب مطلقا برائی کا ذکر آئے تو انبیاء کرام کی ان سے براءت ظاہر کی جائے اور دیگر ابن حسن بھائی کی بات کہ حق ہونے پر پر انکی تحریر میں قرینہ بھی موجود ہے کہ وہاں بات ہی مطلقا اچھائی یا برائی کہ مرکب کی ہورہی تھی جیسا کہ آپ درج زیل میں ابن حسن بھائی کی عبارت کا وہ حصہ جو کہ ہماری بات پر شاہد ہے اس کو سرخ رنگ میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ وہاں پر بات مطلقا اچھائی یا برائی کہ ایک ایسے مخصوص مرکب کی ہورہی تھی کہ جن سے انبیاء کرام کرام کا دامن ہرگز ہرگز محفوط ہوتا ہے ۔ ۔۔
نواز شریف ، عمران خان، جماعت اسلامی اور وکلا اسی سپریم کورٹ کی بحالی کے لیے جد د جہد کر رہے ہیں انہیں کرنے دیجئے اور ان کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگئے
اقتدار تو آنی جاے والی چیز ہے کیا ہوا اگر نواز و شہباز ناہل قرار دے دئیے گئے اگر وہ اپنے مقصد یعنی جسٹس افتخار کی بحالی میں کامیاب ہو گئے تو امید ہے حالات سدھر ھائیں گئے۔
ہر شخص کا ایک ماضی ہوتا ہے جو عموما برائی اور اچھائی کا مرکب ہوتا ہے کوئی بھی شخص معصوم عن الخطا نہیں ہے ماسوائے انبیا کرام ۔ ایسا ہی ماضی نواز و شہباز کا بھی ہے عمران کا بھی اور زرداری کا بھی ۔تاہم نواز ،شہباز اور عمران ماضی کے اندھیروں سے نکل کر ایک روشن حال کے متمنی نظر آتے ہیں‌ جبکہ زرداری کے چہار سو اب بھی اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اگر کسی کو اب بھی زرداری اور پیپلز پارٹی کے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے تو خیر وکلا کا مارچ شروع ہو لینے دیں جلد ہی عوامی مزاج بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہاں صاف لکھا ہے کہ ایمان اور اعمال آپس میں باہم منسلک ہیں۔ جیسا کے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اعمال کے بغیر صرف ایمان کی بنیاد پر خدا کی رحمت کا حقدار سمجھنابے معنی ہے۔ جبکہ اوپر آپ ذکر کر رہے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ کسکو ایمان کی عکاسی (اعمال) کی توفیق دے۔ یعنی آپ خود اس آیت کا انکار رہے ہیں۔ اگر نیک اعمال کی توفیق دینا محض اللہ کا کام ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کو رحمت کے حصول کیلئے "نیک اعمال کی ترغیب" دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا عیسائیوں کی طرح صرف "درست" ایمان کا ہونا کافی نہ ہوتا؟

ایک کافر جو روز حشر پر یقین ہی نہیں رکھتا، لیکن نیک اعمال متواتر کرتا ہے۔ اسکے ساتھ روز محشر میں نیک اعمال تو ہوں گے لیکن "اسلامی" ایمان نہیں، جبکہ مسلمانوں کیساتھ صرف اعتقادی ایمان ہوگا، نیک اعمال نہیں۔ یعنی دونوں کا معاملہ
حجور آپ بہت سے سوالات کا جواب گول کرجاتے ہیں نیز جب آپ پر کراس کؤسچننگ کی جاتی ہے تو آپ اپنی عبارات جو کہ اپنے مفھوم میں صریح اور واضح ہوتی ہیں کی تاویلیں گھڑنا شروع کردیتے مثلا جب آپ سے یہ پوچھا گیا کہ آپ عقائد کہ معاملے میں وحی پر انحصار (جو کہ نقلی تواتر سے ہم تک پہنچی )کی بجائے مشاہدہ اور معائنہ پر کیوں انحصار کرتے ہیں اور اس ضمن میں آپ نے ذات باری تعالٰی کا کہاں پر مشاہدہ فرمالیا ؟تو جوابا آپ رقم طراز ہیں کہ میں نے کائنات کہ مشاہدے سے وجود باری تعالٰی کا ادراک حاصل کیا جس پر ہم نے عرض کی کہ ہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ بتانے سے اللہ پاک کو ایک مانا اور باقی دلائل کو ضمنی جانا تو آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ۔۔ ۔ اسی طرح اب یہاں بھی آپ نے ایمان اور اعمال کی بحث چھیڑ دی ہے آپ کہ ہاں اعمال کو تقدم ہے ایمان پر اور جب آپ سے دلیل مانگی گئی تو آپ نے بطور دلیل یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ ایمان کی حقیقت میں اعمال شامل ہیں جب کہ یہاں سرے سے یہ سوال ہی نہیں ہے کہ اعمال حقیقت ایمان میں شامل ہیں یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ کہ اہن جو ایمان کی بجائے اعمال کو تقدم ہے اسکی کیا دلیل ہے ؟؟؟؟؟؟
جب کہ پورا قرآن میں اللہ پاک نے جہاں بھی ایمان اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہمیشہ ایمان کو تقدم بخشا ہے
جیسے درج آیات شاہد ہیں ۔ ۔
ان الذين امنوا وعملو الصالحات سيجعل لهم الرحمن ۔ ۔ ۔۔
اللذين آمنوا وعملو الصالحات هل تعلم ان لم ترد فى القران كلمه ۔۔۔۔
والعصر ان الانسان لفي خسر الا الذين آمنوا وعملو الصالحات ۔ ۔۔ ۔

آپ نے دیکھا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی ایمان اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر آیا ہے وہاں پر ایمان کو تقدم حاصل ہے پھر آپ کس بنیاد پر اعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ۔ ۔آپ پہلے ہمارے ان درج زیل سوالوں کا جواب مرحمت فرمایئے پھر ہم آپ سے اعمال کہ حقیقت ایمان میں شامل ہونے پر بھی گفتگو کریں گے ۔۔ ۔۔
سوال نمبر 1 آپ کہ نزدیک عقائد کا مدار بجائے وحی کہ مشاہدہ یا ،معائنہ کیوں ہے
سوال نمبر 2 جب اللہ پاک کہ نزدیک سارے قرآن پاک میں ایمان کو اعمال پر تقدم حاصل ہے تو پھر وہ کونسی دلیل ہے کہ جس کی بنا پر آپ اعمال کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں ؟
 
وہاں میں نے اختلاف اسلئے کیا کیونکہ ابن حسن بڑے دھڑلے کیساتھ انبیاء کو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کہہ رہے تھے۔ گویا انبیاء انسان نہ ہوں ، فرشتے ہوں! اگر ابن حسن وہاں لکھ دیتے کہ تمام انسان، سوائے انبیاء کے، بالارادہ غلطیاں کرتے ہیں تو میں ہرگز اختلاف نہ کرتا!
درحقیقت کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے خمیر میں ہی قبول حق کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور بحث ، تکرار، ضد ان کا خاصہ ہوتاہے اور ان باتوں کو مہمیز کرنے والی چیز ان کی اناِ باطل ہوتی ہے۔ایسے لوگ حق کی طرف رجوع بڑی مشکل سے کرتے ہیں ۔
عارف کریم کے رویے کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی یہی خرابی و رویہ عیاں ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ پہلے ایک غلط بات کرنا ایسی غلط بات کرنا جو امت محمدیہ کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہو پھر اس بات کی دلیل قرآن سے غلط دینا اور بعد ازاں اپنے ہر جواب میں اپنے موقف سے ہٹتے ہوئے قلابازیاں کھانا تاہم حق بات پھر بھی قبول نہ کرنا اور اب یہ ایک نئی بحث تفضیل ایمان اور اعمال کا آغاز یہ کس چیز کی غمازی کرتا ہے ماسوائے عارف کریم اس اکھڑ پن کے جو ان کو گمراہ کیے ہوئے ہے۔
موصوف نے اپنے پہلے جواب میں یہ موقف اختیا کیا تھا

انبیاء کرام غلطیوں سے پاک نہیں ہیں۔ ہماری طرح کے انسان ہیں لیکن باقی انسانوں سے عموما کم نوعیت کی غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ انکا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے
ان کا پہلا جملہ پڑھیے وہ مطلقا یہ بات کہ رہے ہیں‌کہ انبیا کرام غلطیوں سے پاک نہیں‌ہیں‌ وہ غلطیاں کرتے ہیں اور غلطیاں کس نوعیت کی ہوتی ہیں‌اس کی وضاحت وہ اگلے جملے میں‌کرتے ہیں کہ باقی انسانوں سے عموما کم نوعیت کی غلطیاں ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ باقی انسانوں کی غلطیاں کیا گناہ سے آلودہ نہیں ہوتیں؟ کیا ان میں ارداہ نفسانیت شامل نہیں ہوتا کیا یہ خطائیں‌ عذاب و ناراضگی خداوندی کا موجب نہیں‌ہوتیں ؟ ان کا جواب ظاہر ہے یہی ہے کہ یقینا عام انسانوں کی غلطیاں ان ہی چیزوں کی مرکب ہوتی ہیں‌۔
اب جب انبیا کرام عام انسانوں کی طرح لیکن کم نوعیت کی غلطیاں کریں گئے (نعوذ باللہ( تو کیا یہ غلطیاں‌بھی کچھ کم سہی لیکن مذکورہ بالا صفات کی ہی حامل نہ ہوں گی ؟ یقنا اس عقیدے کی زد براہراست عصمت انبیا کے عقیدے پر پڑتی ہے عارف کریم ایک طرف انبیا کی غلطیوں‌کو عام انسانوں کی مانند قرار دے رہے ہیں دوسری طرف اس عقیدے پر تنقید کے بعد قرآن سے دلیل بھی لا رہے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر میں ایک جگہ کہا تھا عارف نے یہاں‌عموما کا لفظ بھی استعمال کیا ہے یعنی یہ کہ عموما ایسا ہوتا ہے ہمیشہ نہیں اس جملے کا کیا مطلب نکلتا ہے کہ بعض اوقات انبیا اور عام انسانوں‌کی غلطیاں‌ یکسا ں ہو جاتی ہیں ؟؟؟
اب آگے ان کی پوسٹ دیکھئے
احادیث اور
قرآن پاک میں بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک بندہ "غلطی " سے قتل ہو گیا تھا۔ بعد میں آپؑ نے خدا سے اس فعل کی معافی بھی مانگی تھی۔ ایک بار آنحضورؐ سے بھی نماز میں ایک رکعت کم یا زیادہ ہو گئی تھی۔ صحابہ کرام کے استفسار پر آپ ؐ نے فرمایا تھا کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح کا ایک بشر ہوں (مطلب بھول سکتا ہوں)۔ (اصل حدیث کا حوالہ یاد نہیں)
اور سب سے بڑھ کر حضرت آدم علیہ السلام نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ’’ایک غلطی‘‘ کی تھی۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک انکو پہلا نبی مانا جاتا
ہ
قرآن کے مفہوم اور معنی سے صریحا ناآشنائی کے سبب نہ صرف عارف نے یہاں‌قرآن کے منشا کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ یہاں‌ایک بار پھر انہوں نے انبیا کرام کو گناہ گار ٹھرایا سب حباب اس پوسٹ کے پورے متن کا جائز لیں اور بتائیں کیا اس پوسٹ سے صریحا یہ مطلب نہیں نکل رہا کہ انبیا بھی دیگر انسانوں‌ کی طرح ہی خطائیں کرتے ہیں‌؟ یہ وہی بات جو اوپر انہوں‌نے اپنی ایک پوسٹ میں صاف الفاظ کہی تھی یہاں اب اس کی یہ باقاعدہ مثالیں دے رہے ہیں ۔کہاں اس پوسٹ میں انبیا کی ان سہو کو انہوں‌نے خطائے اجتہادی کہا؟ یا یہ وضاحت کی کہ یہ باالاردہ خطا نہیں بلکہ نسیان تھا؟ یہ تو صاف صاف انہوں‌نے انبیا کرام کو گناہ گار ٹھرایا ہے۔
آگے ان چند اور کارنامے دیکھئے
عموما سے میری مراد صرف یہ تھی کہ انبیا کرام عام انسانوں جیسی سنگین غلطیاں ہرگزنہیں کرتے۔ البتہ بشری کمزوری کے باعث کبھی کبھار بھول یا خطا سرزد ہو سکتی ہ
اب پیار کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم یہ عقیدہ ہی بنالیں کہ انبیاء کوئی بھی بھول، خطا یا غلطی نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہرگز انسان کی صورت میں زندہ نہ ہوتے!
ر نبی کا "بشر" ہونا اس امر کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ انبیاء کرام سے بھی خطا سرزد ہو سکتی ہے۔ البتہ انبیاء کرام خدا کے برگزیدہ بندے ہونے کی وجہ سےہرگز اسکی نافرمانی نہیں کرتے اور یوں گناہ کی غلاظت سے پاک ہوتے ہیں۔
اپنی ان پوسٹوں میں‌ہر جگہ انہوں نے مطقا انبیا کے لیے خطا اور غلطی کے الفاظ استعمال کیے ہہیں پہلی جگہ وہ فرمارہے ہیں کہ انبیا عام انسانوں جیسی سنگین غلطیان‌نہیں کرتے ہاں بشری کمزوری کے تحت بھول و خطا سرزد ہوجا تی ہے یعنی اس کا مطلب اور کیا ہے کہ انبیا عام اسانوں‌کی طرح سنگین غلطیاں نہیں کرتے لیکن ان ہی طرح بھول و خطا ان سے سر زد ہو جاتی ہے یہ وہی پہلی پوسٹ والی بات ہے۔
ہاں آخری پوسٹ میں پہلی بار انہوں نے یہ بات کہی کہ انبیا گناہوں کی غلاظت سے پاک ہو تے ہیں اور اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے یہ وہی بات ہے جو عارف کریم کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اپنے اس عقیدے پر وہ زیادہ دیر جمے نہیں‌آگے پھر وہ اپنی پرانی روش پر لوٹ آئے اور انبیا کرام کے معصوم عن الخطا ہونے کے عقیدے کو انہوں نے صدیوں پرانے عقیدے سے تعبیر کیا
آپ سب کی پوسٹس پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی ساری غیرت صدیوں پرانے عقائد پر نکتہ چینی کی وجہ سے بھڑک اٹھتی ہے، لیکن جب اعمال کا معاملہ آئے تو بھیگی بلی
پہلے بھی اوپر وہ یہ کہ چکے تھے کہ کہ اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیا معصوم عن الخطا ہوتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ اور اب وہ اس متفقہ عقیدے کو صدیوں‌ پرانا عقیدہ کہ کر اپنی برات کا اظہار فرما رہے ہیں اس کا اور کیا مطلب ہے کہ ماسوائے اس کہ وہ انبیا کی عصمت کے قائل نہیں‌ بلکہ اس معاملے میں وہ امت مسلمہ کے متفق عقیدہ سے جدا کوئی عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ صرف انہوں نے یہ کہا کہ یہ صدیوں‌ پرانا عقیدہ ہے بلکہ اس کو انہوں‌نے اندھی تقلید سے بھی تعبیر کیا
البتہ جہاں بات عقائد کی اندھی تقلید کی ہو، وہاں نکتہ چینی کرنا حق بجانب ہے
اور آخری بات جہاں سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو وہ عارف کریم کی یہ بات تھی
جی نہیں، مجھے حق آپ سب کی طرح صدیوں پرانی کتابوں کی تقلید کرکے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زندگی میں مشاہدہ معائنہ کے بعد نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عقائد سے زیادہ اعمال پر ترجیح دیتا ہوں، اور اعمال میں بھی حقوق العبا د پہلے

یہاں کھل کر انہوں‌نے یہ کہ دیا کہ ان کے عقائد مسلمانوں سے باکل مختلف ہیں کیوں‌ مسلمانوں‌کا عقیدہ قرآن پر ہے یہ بھی عارف کی نظر میں صدیوں پرانی کتاب ہی ہو گی احادیث پر ہے اور بنیادی کتب احادیث بھی ان صدیوں پرانی کی کیٹگری میں‌آجاتی ہیں اور جب انسان قرآن اور حدیث کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے تو تو ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ کے اقوال اور دیگر علما کی باتیں تو کسی قطار و شمار میں رہتی ہی نہیں‌ اور پھر یہی نہیں بلکہ وہ معرفت حق کو دیگر مسلمانوں کی طرح قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مشاہدہ و معائنہ زندگی سے حاصل کرتے ہیں یہاں اور کیا باقی بچتا ہے؟گو کہ عارف نے ایک جگہ یہ کہا ہے کہ صدیوں پرنے کتب سے ان کی مراد
وہی لیٹریچر جو آپکے "عظیم" علماء کرام نے لکھ چھوڑا ہے، تقلید کیلئے
لیکن درحقیت یہ ان کا کتمان ہے اور دجل ہے جس "صدیوں پرانے عقیدے "پر وہ تنقید کر رہے ہیں درحقیقت وہ قرآن اور احادیث کی تعلیمات سے ثابت شدہ ایک عقیدہ ہے اس عقیدہ کو نا ماننا اور اور بطور تمسخر اس عقیدے کو صدیوں پرانا عقیدہ کہنے اور اس عقیدہ کے پیروکاروں کو صدیوں پرانی کتب کا مقلد کہنے سے بلاواسطہ زد قرآن کریم اور احادیث نبویہ پر پڑتی ہے جس کا جواب انشاء اللہ عارف کریم کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دینا پڑے گا۔

اس پوری پوسٹ کا مقصد صرف یہی نہیں‌کہ عارف کریم کو جواب دینا تھا بلکہ ایک ایسے شخص‌کے اوپر پڑا وہ نقاب بھی ہٹانا تھا جس کی آڑ میں ایک عرصے سے وہ طرح طرح کے شر و قتنے پھیلا رہا ہے۔ اس کی تفصیلات ایک اگلی پوسٹ میں ضرور بیان کروں گا۔
 

باذوق

محفلین
یہاں صاف لکھا ہے کہ ایمان اور اعمال آپس میں باہم منسلک ہیں۔ جیسا کے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اعمال کے بغیر صرف ایمان کی بنیاد پر خدا کی رحمت کا حقدار سمجھنابے معنی ہے۔ جبکہ اوپر آپ ذکر کر رہے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ کسکو ایمان کی عکاسی (اعمال) کی توفیق دے۔ یعنی آپ خود اس آیت کا انکار رہے ہیں۔ اگر نیک اعمال کی توفیق دینا محض اللہ کا کام ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کو رحمت کے حصول کیلئے "نیک اعمال کی ترغیب" دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا عیسائیوں کی طرح صرف "درست" ایمان کا ہونا کافی نہ ہوتا؟

ایک کافر جو روز حشر پر یقین ہی نہیں رکھتا، لیکن نیک اعمال متواتر کرتا ہے۔ اسکے ساتھ روز محشر میں نیک اعمال تو ہوں گے لیکن "اسلامی" ایمان نہیں، جبکہ مسلمانوں کیساتھ صرف اعتقادی ایمان ہوگا، نیک اعمال نہیں۔ یعنی دونوں کا معاملہ 50 / 50
میرا خیال ہے کہ مجھے شائد آپ کی زبان یا زبان کی صرف ونحو پہلے سیکھنا ضروری ہے۔
یا پھر آپ جان بوجھ کر الفاظ کا الٹ پھیر کر رہے ہیں؟؟
آپ نے لکھا تھا :
اعمال، ایمان کی عکاسی کرتے ہیں۔
فیروز اللغت میں لفظ "عکاسی" کا مطلب لکھا ہے :
تصویر کشی کرنا

یعنی آپ کے جملے کا مطلب ہوا کہ :
اعمال، ایمان کی تصویر کشی کرتے ہیں۔
یعنی کسی کے ایمان کے درجے کو ظاہر کرتے ہیں۔

اسی سبب میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں پوچھا تھا کہ کسی کے ایمان کو جانچنے یا ظاہر کرنے کی آپ کو کیوں ضرورت درپیش ہے؟ کیونکہ کسی کے ایمان کو جانچنا یا اس سے واقف ہونا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔

پھر اعمال کا انکار بھی میں نے نہیں کیا تھا۔ بلکہ میرا سارا اعتراض یہ تھا کہ :
آپ کس بنیاد یا دلیل کے سہارے عقائد سے زیادہ اعمال کو ترجیح دیتے ہیں؟

ترجیح والا مسئلہ شائد آپ کے لئے اس قدر تلخ ٹھہر گیا ہے کہ بات آپ سے بنائے نہیں بن رہی ۔۔۔۔
(جیسا کہ اس کی طرف آبی بھائی نے بھی قرآنی آیات کے حوالے سے بجا طور اشارہ کیا ہے)
ورنہ جو آیات آپ لگا رہے ہیں انہی پر ایک نظر ڈال لیتے تو صاف لکھا ہے:
۔۔۔ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے۔۔۔۔
(التغابن:9)


یعنی قرآن بھی صاف صاف کہہ رہا ہے کہ نیک عمل پر عقیدہ ترجیح رکھتا ہے یعنی "اللہ پر ایمان"

اور پھر یہ جو آپ میرے ذمہ ایک جھوٹی بات منسوب کر رہے ہیں :
اوپر آپ ذکر کر رہے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے کہ وہ کسکو ایمان کی عکاسی (اعمال) کی توفیق دے۔ یعنی آپ خود اس آیت کا انکار رہے ہیں۔
خدا کی مرضی یا اس کی توفیق کا ذکر تو میں نے کہیں بھی نہیں نکالا برادر۔ لہذا آیت کے انکار کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔
ہاں اگر آپ کو کھلی آنکھوں آیت میں اعمال پر عقیدہ کی ترجیح نظر نہیں آتی تو پھر یہ آپ کا قصور ہے۔

آخری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے مسلمان اور کافر کو ایک قطار میں ٹھہرا کر 50 / 50 کا معاملہ طے کرا دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

بھائی پھر تو نعوذباللہ قرآن ناحق ہی مومن اور کافر کی تفریق کرتا ہے۔ آپ کے بقول (نعوذباللہ) قرآن کو تو چاہئے تھا کہ "ایمان" کے بجائے "اعمال" کو ترجیح دیتا اور مومن/کافر کے الفاظ کے بجائے صرف لفظ انسان استعمال کرتا۔

مگر میں افسوس کے ساتھ آپ سے ہمدردی کرتا ہوں کہ قرآن آپ کی اس 50 / 50 والی فکر سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا اور ببانگ دہل وہی کہتا ہے جو آپ نے خود اوپر ترجمہ لگایا ہے۔
ذرا سورہ التغابن کی آیت:10 پڑھ لیں ہمت کر کے ۔۔۔۔
آپ ہی کے مہیا کردہ ترجمہ میں لکھا ہے :
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں (جو) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔
 

arifkarim

معطل
جب کہ پورا قرآن میں اللہ پاک نے جہاں بھی ایمان اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہمیشہ ایمان کو تقدم بخشا ہے
جیسے درج آیات شاہد ہیں ۔ ۔
ان الذين امنوا وعملو الصالحات سيجعل لهم الرحمن ۔ ۔ ۔۔
اللذين آمنوا وعملو الصالحات هل تعلم ان لم ترد فى القران كلمه ۔۔۔۔
والعصر ان الانسان لفي خسر الا الذين آمنوا وعملو الصالحات ۔ ۔۔ ۔

آپ نے دیکھا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی ایمان اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر آیا ہے وہاں پر ایمان کو تقدم حاصل ہے پھر آپ کس بنیاد پر اعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ۔ ۔آپ پہلے ہمارے ان درج زیل سوالوں کا جواب مرحمت فرمایئے پھر ہم آپ سے اعمال کہ حقیقت ایمان میں شامل ہونے پر بھی گفتگو کریں گے ۔۔ ۔۔
سوال نمبر 1 آپ کہ نزدیک عقائد کا مدار بجائے وحی کہ مشاہدہ یا ،معائنہ کیوں ہے
سوال نمبر 2 جب اللہ پاک کہ نزدیک سارے قرآن پاک میں ایمان کو اعمال پر تقدم حاصل ہے تو پھر وہ کونسی دلیل ہے کہ جس کی بنا پر آپ اعمال کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں ؟

۔1۔جواب: کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر فرمایا ہے کہ کائنات کی تسخیر کرو، اسمیں فہم والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عقائد کو ایک زمانے کیلئے محدود نہیں کیا بلکہ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ تو ہماری جہالت ہے کہ دنیا 21 ویں صدی میں‌قدم رکھ چکی ہے، جبکہ ہم مسلسل 700 عیسوی میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی ذات کا ثبوت صرف وحی الہیٰ پر ایمان سے دینا کافی ہوتا، تو کوئی کافر ہرگز اسکو نہ مانتا جب تک کہ کوئی عمدہ دلیل نہ دی۔ خد ا کی ذات کی دلیل آنحضور ؐ نے وحی کیساتھ ساتھ قدرت الہیٰ کے مشاہدہ سے بھی فرمائی ہے۔
آج سائنسدان اس بات کے قائل ہیں کہ اگر ہماری زمین اپنے مدار سے ۱۰۰ کلو میٹر بھی سورج سے قریب یا دور ہوتی تو یہاں ہرگز کوئی زندگی پیدا نہ ہو سکتی تھی۔ یہی حال ہمارے چاند کے وجود کا بھی ہے جو ہماری زندگی کو قائم رکھنے کیلئے مددگار ہے۔ اسلئے اب بہت سے ’’دہریہ‘‘ سائنسدان بھی صرف ’’مشاہدہ معائنہ‘‘ کے بعد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس پوری کائنات کے پیچھے ایک ’’با شعور اور با مقصد‘‘ ہستی کار فرما ہے۔

۲۔ ایمان اور اعمال کا تواتر کیساتھ آیات میں‌اکٹھے آنے سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ایمان کو اعمال پر ترجیح ہے :confused: اگر آپکا نظریہ یہ ہے کہ کیونکہ ایمان کا لفظ پہلے اور اعمال کا بعد میں ، یوں ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ تو اسکو رد کرنے کیلئے صرف ایک یہ دلیل کافی جو ہم مادی دنیا میں روزانہ دیکھتے ہیں:
فرض کریں ایک انجینیر، ڈاکٹر،ٹیکنیشن۱۵، ۲۰ سالوں کی انتھک پڑھائی کے بعد اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جب ہم کہہ سکیں کہ یہ اپنی فیلڈ میں‌مکمل ماہر ہو چکا ہے۔ لیکن اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد نہ تو اسکو اس فیلڈ میں کام ملے اور نہ ہی کوئی موقع دیا جائے تا وہ اپنے حاصل کردہ علم کو عملی جامہ پہنا سکے تو ُ آپ ہی بتائیں کیا ایسے علم کا اس شخص کو یا کسی اور کو کوئی فائدہ ہوگا؟
بالکل یہی حال اعتقادی ایمان اور اعمال کا ہے۔ ایمان کی ترغیب پہلے اسلئے کہ یہ (اسلام) وہ علم ہے جو انسانیت کی نجات کا واحد راستہ دکھلاتا ہے۔ اور انسان کو مکمل نجات تب حاصل ہوگی جب وہ اپنے حاصل کر دہ علم ’’اعتقادی ایمان‘‘ کو روز مرہ کی زندگی میں معمول کا حصہ بنائے۔ جب کہ آپ حضرت فرما رہے ہیں کہ صرف ایمان کا ہونا بہت کافی ہے اور اعمال کا نمبر دوسرا ہے! بھائی جب ایمان عملی زندگی میں کام ہی نہیں آرہا تو وہ کس قسم کا ایمان ہے:confused:
 

arifkarim

معطل
درحقیقت کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے خمیر میں ہی قبول حق کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور بحث ، تکرار، ضد ان کا خاصہ ہوتاہے اور ان باتوں کو مہمیز کرنے والی چیز ان کی اناِ باطل ہوتی ہے۔ایسے لوگ حق کی طرف رجوع بڑی مشکل سے کرتے ہیں ۔

الحمد للہ، یعنی آپ اور آپکی جماعت والے مسلمانوں کے ۱۰۰ زائد فرقوں کی طرح اپنے آپکو ’’درست‘‘ حق والے راستہ پر قائم سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپکو اسی راہ پر قائم رہنے کی توفیق دے۔

عارف کریم کے رویے کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی یہی خرابی و رویہ عیاں ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ پہلے ایک غلط بات کرنا ایسی غلط بات کرنا جو امت محمدیہ کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہو پھر اس بات کی دلیل قرآن سے غلط دینا اور بعد ازاں اپنے ہر جواب میں اپنے موقف سے ہٹتے ہوئے قلابازیاں کھانا تاہم حق بات پھر بھی قبول نہ کرنا ۔۔۔

آپکا کیا خیال ہے کہ اگر آپ اپنے ’’دیسی‘‘ دلائل سے مطمئن ہیں تو کیا ہم بھی ہوں گے؟ قرآن سے دلیل میں نے درست دی تھی۔ لیکن جنہوں نے ایک ہی نظر سے ہر چیز کو دیکھنا وہ اسی پر اٹک جاتے ہیں اور اسی کو حق سمجھتے ہیں جو بچپن سے پچپن تک کانوں میں پڑا ہو!

لیکن درحقیت یہ ان کا کتمان ہے اور دجل ہے جس "صدیوں پرانے عقیدے "پر وہ تنقید کر رہے ہیں درحقیقت وہ قرآن اور احادیث کی تعلیمات سے ثابت شدہ ایک عقیدہ ہے اس عقیدہ کو نا ماننا اور اور بطور تمسخر اس عقیدے کو صدیوں پرانا عقیدہ کہنے اور اس عقیدہ کے پیروکاروں کو صدیوں پرانی کتب کا مقلد کہنے سے بلاواسطہ زد قرآن کریم اور احادیث نبویہ پر پڑتی ہے جس کا جواب انشاء اللہ عارف کریم کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دینا پڑے گا۔

اس پوری پوسٹ کا مقصد صرف یہی نہیں‌کہ عارف کریم کو جواب دینا تھا بلکہ ایک ایسے شخص‌کے اوپر پڑا وہ نقاب بھی ہٹانا تھا جس کی آڑ میں ایک عرصے سے وہ طرح طرح کے شر و قتنے پھیلا رہا ہے۔ اس کی تفصیلات ایک اگلی پوسٹ میں ضرور بیان کروں گا۔

یعنی آخر کار میں اس بات کو ثابت کرپایا کہ اسلام وہ واحد مذہب و دین ہے جسمیں‌اسکی آتھورٹی پر ’’تنقید‘‘ کرنے والے کو دجال، کافر، شرپھیلانے والا، مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں‌کہ اندھی تقلید اسی کا نام ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر مسلمان وہ تمام عقائد ۱۰۰ فیصد تک اپنائے جو باقی مسلمانوں نے اپنا رکھیں ہیں۔ آپ یہ بھول رہے ہیں کہ مسلمان کہلانے کیلئے صرف کلمہ طیبہ اور توحید باری تعالیٰ کا ادراک کافی ہے۔ باقی سب اعتقادی باتیں جو ہر فرقہ اور مسلک کے جھگڑوں کے باعث کہیں‌سے کہیں پہنچ گئی ہیں۔
میں ابھی بھی اس بات کا قائل ہوں کہ انبیاء کرام سے بشری کمزوری کے باعث بھول چوک ہو سکتی ہے، لیکن دین کے معاملہ میں بالاردہ خطاؤں و غلطیوں کا کوئی سوال ہی نہیں ہے!
یہ بات نوٹ فرمالیں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت سب کیلئے یکساں ہے۔ اگر میرے ایمان کے بارے میں سوال ہو گا تو آپ سب کے اعمال کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ آپ میرے نظریات کو شر انگیزیوں کا نام دے سکتے ہیں اور میں آپکے اسلامی عقائد میں بہت سی چیزوں کو لکیر کی فقیری کہہ سکتا ہوں۔ آپ میری ذات پر سے سارے ڈھکے چھپے پردے اٹھا لیں ۔ ہو سکتا ہے یہی آپ کے ایمان کے مطابق آپ کیلئے راہ نجات بن جائے!:rolleyes:
 

arifkarim

معطل
مگر میں افسوس کے ساتھ آپ سے ہمدردی کرتا ہوں کہ قرآن آپ کی اس 50 / 50 والی فکر سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا اور ببانگ دہل وہی کہتا ہے جو آپ نے خود اوپر ترجمہ لگایا ہے۔
ذرا سورہ التغابن کی آیت:10 پڑھ لیں ہمت کر کے ۔۔۔۔
آپ ہی کے مہیا کردہ ترجمہ میں لکھا ہے :
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں (جو) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

اچھا، یعنی کہ اگر کوئی کافر جو قرآن پاک پر یا آنحضورؐ کو صرف اسلئے تسلیم نہ کر سکا کہ اسکی مذہب کی طرف توجہ نہ تھی۔ لیکن اسکے باوجود وہ ساری عمر دکھی انسانیت کی مدد کرتا رہا اور ہر ممکن طور پر حقوق العباد ادا کرتا رہا۔ یوں وہ کافر ان سب نیک اعمال کے بعد بھی دوزخی ہی ٹھہرے گا! اسکے برعکس ایک مسلمان جو ساری عمر عقائد امت مسلمہ پر ۱۰۰ فیصد قائم و دائم رہا لیکن نیک اعمال نہ کر سکا، موت کے بعد خدا کی رحمت کا حقدار بنے گا کیونکہ ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے! بہت خوب، بہت اچھی تعلیم ہے آپکے اسلام کی!
 
Top