وہاں میں نے اختلاف اسلئے کیا کیونکہ ابن حسن بڑے دھڑلے کیساتھ انبیاء کو ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کہہ رہے تھے۔ گویا انبیاء انسان نہ ہوں ، فرشتے ہوں! اگر ابن حسن وہاں لکھ دیتے کہ تمام انسان، سوائے انبیاء کے، بالارادہ غلطیاں کرتے ہیں تو میں ہرگز اختلاف نہ کرتا!
درحقیقت کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے خمیر میں ہی قبول حق کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور بحث ، تکرار، ضد ان کا خاصہ ہوتاہے اور ان باتوں کو مہمیز کرنے والی چیز ان کی اناِ باطل ہوتی ہے۔ایسے لوگ حق کی طرف رجوع بڑی مشکل سے کرتے ہیں ۔
عارف کریم کے رویے کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی یہی خرابی و رویہ عیاں ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ پہلے ایک غلط بات کرنا ایسی غلط بات کرنا جو امت محمدیہ کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہو پھر اس بات کی دلیل قرآن سے غلط دینا اور بعد ازاں اپنے ہر جواب میں اپنے موقف سے ہٹتے ہوئے قلابازیاں کھانا تاہم حق بات پھر بھی قبول نہ کرنا اور اب یہ ایک نئی بحث تفضیل ایمان اور اعمال کا آغاز یہ کس چیز کی غمازی کرتا ہے ماسوائے عارف کریم اس اکھڑ پن کے جو ان کو گمراہ کیے ہوئے ہے۔
موصوف نے اپنے پہلے جواب میں یہ موقف اختیا کیا تھا
انبیاء کرام غلطیوں سے پاک نہیں ہیں۔ ہماری طرح کے انسان ہیں لیکن باقی انسانوں سے عموما کم نوعیت کی غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ انکا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے
ان کا پہلا جملہ پڑھیے وہ مطلقا یہ بات کہ رہے ہیںکہ انبیا کرام غلطیوں سے پاک نہیںہیں وہ غلطیاں کرتے ہیں اور غلطیاں کس نوعیت کی ہوتی ہیںاس کی وضاحت وہ اگلے جملے میںکرتے ہیں کہ باقی انسانوں سے عموما کم نوعیت کی غلطیاں ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ باقی انسانوں کی غلطیاں کیا گناہ سے آلودہ نہیں ہوتیں؟ کیا ان میں ارداہ نفسانیت شامل نہیں ہوتا کیا یہ خطائیں عذاب و ناراضگی خداوندی کا موجب نہیںہوتیں ؟ ان کا جواب ظاہر ہے یہی ہے کہ یقینا عام انسانوں کی غلطیاں ان ہی چیزوں کی مرکب ہوتی ہیں۔
اب جب انبیا کرام عام انسانوں کی طرح لیکن کم نوعیت کی غلطیاں کریں گئے (نعوذ باللہ( تو کیا یہ غلطیاںبھی کچھ کم سہی لیکن مذکورہ بالا صفات کی ہی حامل نہ ہوں گی ؟ یقنا اس عقیدے کی زد براہراست عصمت انبیا کے عقیدے پر پڑتی ہے عارف کریم ایک طرف انبیا کی غلطیوںکو عام انسانوں کی مانند قرار دے رہے ہیں دوسری طرف اس عقیدے پر تنقید کے بعد قرآن سے دلیل بھی لا رہے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ جیسا کہ اوپر میں ایک جگہ کہا تھا عارف نے یہاںعموما کا لفظ بھی استعمال کیا ہے یعنی یہ کہ عموما ایسا ہوتا ہے ہمیشہ نہیں اس جملے کا کیا مطلب نکلتا ہے کہ بعض اوقات انبیا اور عام انسانوںکی غلطیاں یکسا ں ہو جاتی ہیں ؟؟؟
اب آگے ان کی پوسٹ دیکھئے
احادیث اور
قرآن پاک میں بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک بندہ "غلطی " سے قتل ہو گیا تھا۔ بعد میں آپؑ نے خدا سے اس فعل کی معافی بھی مانگی تھی۔ ایک بار آنحضورؐ سے بھی نماز میں ایک رکعت کم یا زیادہ ہو گئی تھی۔ صحابہ کرام کے استفسار پر آپ ؐ نے فرمایا تھا کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح کا ایک بشر ہوں (مطلب بھول سکتا ہوں)۔ (اصل حدیث کا حوالہ یاد نہیں)
اور سب سے بڑھ کر حضرت آدم علیہ السلام نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ’’ایک غلطی‘‘ کی تھی۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک انکو پہلا نبی مانا جاتا
ہ
قرآن کے مفہوم اور معنی سے صریحا ناآشنائی کے سبب نہ صرف عارف نے یہاںقرآن کے منشا کو سمجھنے میں غلطی کی بلکہ یہاںایک بار پھر انہوں نے انبیا کرام کو گناہ گار ٹھرایا سب حباب اس پوسٹ کے پورے متن کا جائز لیں اور بتائیں کیا اس پوسٹ سے صریحا یہ مطلب نہیں نکل رہا کہ انبیا بھی دیگر انسانوں کی طرح ہی خطائیں کرتے ہیں؟ یہ وہی بات جو اوپر انہوںنے اپنی ایک پوسٹ میں صاف الفاظ کہی تھی یہاں اب اس کی یہ باقاعدہ مثالیں دے رہے ہیں ۔کہاں اس پوسٹ میں انبیا کی ان سہو کو انہوںنے خطائے اجتہادی کہا؟ یا یہ وضاحت کی کہ یہ باالاردہ خطا نہیں بلکہ نسیان تھا؟ یہ تو صاف صاف انہوںنے انبیا کرام کو گناہ گار ٹھرایا ہے۔
آگے ان چند اور کارنامے دیکھئے
عموما سے میری مراد صرف یہ تھی کہ انبیا کرام عام انسانوں جیسی سنگین غلطیاں ہرگزنہیں کرتے۔ البتہ بشری کمزوری کے باعث کبھی کبھار بھول یا خطا سرزد ہو سکتی ہ
اب پیار کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم یہ عقیدہ ہی بنالیں کہ انبیاء کوئی بھی بھول، خطا یا غلطی نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہرگز انسان کی صورت میں زندہ نہ ہوتے!
ر نبی کا "بشر" ہونا اس امر کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ انبیاء کرام سے بھی خطا سرزد ہو سکتی ہے۔ البتہ انبیاء کرام خدا کے برگزیدہ بندے ہونے کی وجہ سےہرگز اسکی نافرمانی نہیں کرتے اور یوں گناہ کی غلاظت سے پاک ہوتے ہیں۔
اپنی ان پوسٹوں میںہر جگہ انہوں نے مطقا انبیا کے لیے خطا اور غلطی کے الفاظ استعمال کیے ہہیں پہلی جگہ وہ فرمارہے ہیں کہ انبیا عام انسانوں جیسی سنگین غلطیاننہیں کرتے ہاں بشری کمزوری کے تحت بھول و خطا سرزد ہوجا تی ہے یعنی اس کا مطلب اور کیا ہے کہ انبیا عام اسانوںکی طرح سنگین غلطیاں نہیں کرتے لیکن ان ہی طرح بھول و خطا ان سے سر زد ہو جاتی ہے یہ وہی پہلی پوسٹ والی بات ہے۔
ہاں آخری پوسٹ میں پہلی بار انہوں نے یہ بات کہی کہ انبیا گناہوں کی غلاظت سے پاک ہو تے ہیں اور اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے یہ وہی بات ہے جو عارف کریم کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اپنے اس عقیدے پر وہ زیادہ دیر جمے نہیںآگے پھر وہ اپنی پرانی روش پر لوٹ آئے اور انبیا کرام کے معصوم عن الخطا ہونے کے عقیدے کو انہوں نے صدیوں پرانے عقیدے سے تعبیر کیا
آپ سب کی پوسٹس پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی ساری غیرت صدیوں پرانے عقائد پر نکتہ چینی کی وجہ سے بھڑک اٹھتی ہے، لیکن جب اعمال کا معاملہ آئے تو بھیگی بلی
پہلے بھی اوپر وہ یہ کہ چکے تھے کہ کہ اگر مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیا معصوم عن الخطا ہوتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ اور اب وہ اس متفقہ عقیدے کو صدیوں پرانا عقیدہ کہ کر اپنی برات کا اظہار فرما رہے ہیں اس کا اور کیا مطلب ہے کہ ماسوائے اس کہ وہ انبیا کی عصمت کے قائل نہیں بلکہ اس معاملے میں وہ امت مسلمہ کے متفق عقیدہ سے جدا کوئی عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ صرف انہوں نے یہ کہا کہ یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے بلکہ اس کو انہوںنے اندھی تقلید سے بھی تعبیر کیا
البتہ جہاں بات عقائد کی اندھی تقلید کی ہو، وہاں نکتہ چینی کرنا حق بجانب ہے
اور آخری بات جہاں سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو وہ عارف کریم کی یہ بات تھی
جی نہیں، مجھے حق آپ سب کی طرح صدیوں پرانی کتابوں کی تقلید کرکے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زندگی میں مشاہدہ معائنہ کے بعد نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عقائد سے زیادہ اعمال پر ترجیح دیتا ہوں، اور اعمال میں بھی حقوق العبا د پہلے
یہاں کھل کر انہوںنے یہ کہ دیا کہ ان کے عقائد مسلمانوں سے باکل مختلف ہیں کیوں مسلمانوںکا عقیدہ قرآن پر ہے یہ بھی عارف کی نظر میں صدیوں پرانی کتاب ہی ہو گی احادیث پر ہے اور بنیادی کتب احادیث بھی ان صدیوں پرانی کی کیٹگری میںآجاتی ہیں اور جب انسان قرآن اور حدیث کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے تو تو ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ کے اقوال اور دیگر علما کی باتیں تو کسی قطار و شمار میں رہتی ہی نہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ وہ معرفت حق کو دیگر مسلمانوں کی طرح قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مشاہدہ و معائنہ زندگی سے حاصل کرتے ہیں یہاں اور کیا باقی بچتا ہے؟گو کہ عارف نے ایک جگہ یہ کہا ہے کہ صدیوں پرنے کتب سے ان کی مراد
وہی لیٹریچر جو آپکے "عظیم" علماء کرام نے لکھ چھوڑا ہے، تقلید کیلئے
لیکن درحقیت یہ ان کا کتمان ہے اور دجل ہے جس "صدیوں پرانے عقیدے "پر وہ تنقید کر رہے ہیں درحقیقت وہ قرآن اور احادیث کی تعلیمات سے ثابت شدہ ایک عقیدہ ہے اس عقیدہ کو نا ماننا اور اور بطور تمسخر اس عقیدے کو صدیوں پرانا عقیدہ کہنے اور اس عقیدہ کے پیروکاروں کو صدیوں پرانی کتب کا مقلد کہنے سے بلاواسطہ زد قرآن کریم اور احادیث نبویہ پر پڑتی ہے جس کا جواب انشاء اللہ عارف کریم کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دینا پڑے گا۔
اس پوری پوسٹ کا مقصد صرف یہی نہیںکہ عارف کریم کو جواب دینا تھا بلکہ ایک ایسے شخصکے اوپر پڑا وہ نقاب بھی ہٹانا تھا جس کی آڑ میں ایک عرصے سے وہ طرح طرح کے شر و قتنے پھیلا رہا ہے۔ اس کی تفصیلات ایک اگلی پوسٹ میں ضرور بیان کروں گا۔