؎ تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں سبھا کی پری نہ ہوں!
در اصل مسئلہ تعلیم کا نہیں۔ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ سے تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر اس کی توجہ گھر پر ہو اور وہ گھر اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا مکمل ذہن رکھتی ہو پھر تو کوئی مسئلہ درپیش آنے کے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی عورت کہے کہ میں تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد لازمی طور پر نوکری کرنی ہے اور وہ بھی کسی ہاسپٹل میں اور جہاں ایوننگ اور نائٹ ڈیوٹیاں بھی لگتی ہیں تو ایسے میں گھر کا حشر نشر ہونے کا امکان رہتا ہے۔ عورت کی حالانکہ ذمہ داری گھریلو امور اور مرد کی ذمہ داری بیرونی امور اور بیوی بچوں کے لئے نان و نفقہ کا انتظام و انصرام ہے اور اگر اس کا خیال رکھا جائے تو میاں بیوی زندگی کی ایک گاڑی کے دو پہیے کے طور پر بخوبی نباہ کر سکتے ہیں لیکن اگر دونوں پہیے اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر بلکل برابر ایک ہی ایکسل پر جڑنے کی کوشش کریں تو گاڑی کا تو سرے سے وجود ہی نہ رہ جائے گا!
اب میں اپنے یہاں کا ایک قصہ ذکر کرتا ہوں:
والدین (بمعہ دادی جان) نے بچپن میں فسٹ کزن کے ساتھ منگنی کروا دی جبکہ دونوں تقریباً میٹرک یا مڈل کلاسز کے طالب علم تھے۔ دونوں پڑھتے رہے۔ لڑکی نے ایف ایس سی کی کوشش کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد نرسنگ میں داخلہ لے لیا۔ جبکہ لڑکا بی ایس سی، ایم ایس سی، ایم فل وغیرہ کرتا رہا اور بالآخر ایک گورنمنٹ ادارے میں 16ویں سکیل میں اس کو جاب مل گئی۔ لڑکی اور لڑکی والے بضد ہیں یہ ہاسپٹل میں جاب ضرور کرے گی (لاہور کے ایک ہاسپٹل میں) اور اس کے علاوہ نکاح کے لئے پہلے تین تولے سونا اور شہر میں سے دس مرلہ زمین لڑکی کے نام کروائی جائے اور ناچاقی⁄طلاق کی صورت میں دو لاکھ روپے بھی دینا ہوں گے اس کے علاوہ ماہانہ 2000 روپے جیب خرچ بھی لڑکی کو دیا جائے پھر شادی ہو گی۔ جبکہ لڑکے کا یہ کہنا ہے کہ میں اس کے تمام اخراجات نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوں اور اس میں کوئی کمی یا کوتاہی نہیں آئے گی۔ رہنے کے لئے الگ مکان بھی ہے۔ لڑکی کا کام گھر کو سنبھالنا اور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا اس قسم کی شرائط کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر لڑکے کے والدین کہتے ہیں کہ اپنے قریبی رشتہ دار (لڑکے کے تایا جی اور کزن) ہونے کی وجہ سے ادھر ہی نکاح کرنا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ وغیرہ کوئی اس کا حل!!!!!!!!!!!!
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیویاں، بہنیں مائیں جب ڈاکٹر کے پاس جائیں تو فی میل ڈاکٹرز ہونی چاہیے۔۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں۔ اورغیر مرد سے ان کا پردہ رہے اور پھر ان کو نائٹ ڈیوٹیز کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتے۔۔ کیونکہ اس سے فیملی لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔۔ کیا عورتوں کو ڈاکٹرز کی ضرورت صرف دن میں پڑ سکتی ہے؟
کیا بچے یا گھر صرف عورت کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟ باپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔۔
اگر ایک عورت ڈاکٹر ہے۔۔ ہاسپٹل میں جاب کرتی ہے۔۔ اس کی نائٹ ڈیوٹی ہے تو کیا اس ویک اس کے شوہر حضرات رات کو گھر پر بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتے؟
گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے؟