کیا اعلٰی تعلیم لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ ہے؟

شمشاد

لائبریرین
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کی عمر جب 20، 22 سال ہوتی ہے تو رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں، تب والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ لڑکی ابھی پڑھ رہی ہے اور لڑکی کی اپنی مرضی بھی یہی ہوتی ہے کہ میں نے ابھی پڑھنا ہے۔ جوں جوں ڈگریاں ملتی جاتی ہیں، عمر بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے بعد رشتوں کا حصول مشکل ہو جاتا ہے کہ لڑکا اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے، اور جو ان سے زیادہ پڑھا لکھا لڑکا ملتا ہے تو ان کی طلب بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی چکر میں بہت سی لڑکیوں کی عمر شادی کی مناسب عمر سے بہت آگے بڑھ جاتی ہے جو کہ والدین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں بچپن کی منگنی بھی عام ہے۔ والدین نے بچپن میں بچوں کی نسبت طے کر دی۔ بڑے ہونے پر ان دونوں میں سے کوئی ایک بہت پڑھ گیا اور کوئی ایک پیچھے رہ گیا، تب مشکل، ان دونوں میں سے کسی ایک نے انکار کر دیا تب مشکل۔ والدین نے زبردستی شادی کر دی تو ساری عمر گلے پڑا ڈھول بجانا تو پڑے گا، بُری بھلی نبھانی تو پڑے گی۔

آپ کی آراء کا انتظار ہے۔
 

عسکری

معطل
تعلیم رکاوٹ تک نہیں جب تک بچہ نہیں ہو جاتا جیسے ہی لڑکی ماں بنتی ہے اس پر درجنوں ذمہ داریاں آجاتی ہیں تب پڑھائی یا گھر ایک چننا پڑاتا ہے ۔رہ گئی بات عمر کی تا میرا خیال ہے لڑکی کی شادی ہمیشہ 20 21 تک ہو جانی چاہیے یہی بہتر ہے آجکل کا ماحول اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لڑکی پہلے کی طرح 25-30 کی ہو جاتی لیکن گاؤں میں آزاد کھومتی اب ماحول خراب ہو چکا ہے ہر کسی کو اپنی بچیوں اور عزت کی حفاظت کرنی چاہیے ۔۔

بچپن کا رشتہ تو ٹھیک ہے پر جوان ہونے پر اگر ایک فریق راضی نا ہو زبردستی کرنا ظلم بلکہ بے وقوفی کی حد تک پاگل پن ہے ۔ جب وہ دونوں ہی نہیں چاہیتے تو ایسی زنجیر ڈالنے کا فائدہ؟
 

شمشاد

لائبریرین
گاؤں میں تو اور بھی جلدی شادیاں ہو جاتی ہیں، اب جہیز کی وجہ سے تاخیر ہو تو یہ بھی ایک وجہ ہے۔
 

عسکری

معطل
گاؤں میں تو اور بھی جلدی شادیاں ہو جاتی ہیں، اب جہیز کی وجہ سے تاخیر ہو تو یہ بھی ایک وجہ ہے۔

جہیز ایک ایسی دیمک بن چکا ہے جو ہر چیز کو نگل رہا ہے جہیز کی وجہ سے شادی نا ہونا اور اس کی وجہ سے جو بگاڑ پیدا ہوتے ہیں سب جہیز کی وجہ سے ہی ہے ۔ میرے خیال سے اس معاملے پر پاکستان میں بہت ہی زیادہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے ۔

ویسے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کے گھر والے لڑکے والے راضی ہوتے ہیں پر لڑکی خود شادی نہیں کرنا چاہتی اور پڑھنا چاہتی ہے ایسی صورت میں کتنے سال کی عمر تک اس لڑکی کو وقت دینا چاہیے پڑھائی کے لیے؟
 

مقدس

لائبریرین
السلام علیکم
شمشاد بھیا آئی آل ویز بلیوڈ کہ شادی کا ایک ٹائم ہے۔۔ جب وہ ٹائم آتا ہے۔۔ آپ جو مرضی کر لو۔۔ وہ ہو کر ہی رہتی ہے۔۔ میری اپنی مثال میرے سامنے ہے۔۔
شادی تب ہی ہونی چاہیے جب دونوں اس کے لیے مکمل رضامند ہوں۔۔
اگر زیادہ پڑھنے کی وجہ سے بعد میں رشتے آنا کم ہو جاتے ہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمر زیادہ ہو چکی ہوتی ہے یا لڑکیاں اپنے سے کم پڑھے لکھے لڑکوں سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔ یہ سوچ کر کہ ان میں ویسا ریلشن شپ نہیں بن سکے گا جیسا کہ ایک سیم لیول ایجوکیٹڈ بندے سے۔۔ تو آئی ڈاؤنٹ ایگری ود دس۔۔ ہمیں اپنے بچوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم خود اس بات سے ایگری کرتے ہوں ۔۔ اسٹارٹننگ پوائنٹ سے ہی بچوں کو اگر اس بات پر مینٹلی تیار کر دیا جائے تو پھر بعد میں پرابلم نہیں ہوتی۔
ایک اور بات مردوں کو بھی کمپرومائز کرنا چاہیے۔۔ صرف عورت سے ایکسپیکٹ نہیں کرنا چاہیے کہ ہر صورت میں اس نے ہی حالات سے کمپرومائز کرنا ہے۔۔

بچپن کی منگنی ۔۔۔ آئی ایم فلی اگینسٹ دیٹ۔۔۔ابھی بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم ان کی منگنی کردیتے ہیں ۔۔ ان کو کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی اور جب بڑے ہو کر وہ اس کے خلاف جاتے ہیں تو پھر فیملیز میں جو اختلافات ہوتے ہیں۔۔ ناراضگی ہوتی ہے۔۔ اتنے رشتے ٹوٹتے ہیں۔۔ اس لیے بہتر ہے کہ جب اس قابل ہوجائیں کہ ان کی شادی کرنی ہے تب ہی اینگیج کیا جائے ان کو۔۔ وہ بھی ان کی مکمل رضامندی سے۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ مقدس

لیکن تمہارے معاشرے اور ہمارے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں ہر زیادہ تر شادیاں والدین کی مرضی سے طے پاتی ہیں جبکہ لڑکے اور لڑکی کی مرضی بعد میں معلوم کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لڑکی زیادہ پڑھ لکھ جائے تو والدین اس سے کم پڑھے لکھے لڑکے کے ساتھ رشتہ طے کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

مزید یہ کہ یہاں پر برادری سے باہر رشتہ کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے، اس وجہ سے بھی لڑکیوں کے لیے مناسب رشتہ ملنا دشوار ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
شمشاد بھیا تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا چاہیے ناں
شادی بچوں کی کرنی ہے تو ان کی مکمل رضامندی سے کرنی چاہیے۔۔
معاشرے کو ٹھیک کرنا بھی تو ہم جیسے لوگوں کا کام ہے۔ ون ہیز ٹو اسٹارٹ

برادری یو مین ٹو سئے اپنے رشتہ داروں میں ہی، یہ بھی غلط ہے اگر ہم ہر جگہ مذہب کو لے کر آتے ہیں تو ہم یہ دیکھیں کہ نبی پاک کی کتنی بیویاں ایسی تھی جو ان کے رشتہ داروں میں سے تھی یا ان کی کزنز تھی۔۔
شمشاد بھیا کسی ایک کو تو اسٹیپ لینا ہو گا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
مقدس یہاںجتنا مرضی پڑھ لکھ لیں لیکن جو خاندان سے باہر رشتے نہیں کرتے تو وہ کبھی بھی خاندان سے باہر رشتے نہیں کریں گے۔

سندھ کے بعض علاقوں میں تو لڑکی کی شادی قرآن سے کر دیتے ہیں کہ جائیداد تقسیم نہ ہو۔ ایسے میں لڑکیاں کیا کریں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر ہی نہیں سکتی۔ پنجاب میں البتہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے جن میں سے بیشتر کا انجام قتل و غارت پر ہی ہوتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے ۔ آپ کسی کو کیسے اس کے آفاقی و اخلاقی حق سے محروم کر سکتے ہیں؟ مجھے بھی روایات پسند ہیں لیکن اس قسم کی بےہودہ روایات کے میں سخت خلاف ہوں چونکہ میں خود بھی اس کا شکار ہو چکا ہوں اسلئے اور بھی برا لگتا ہے۔ ۔ ۔ صرف لڑکیاں یا ان کے والدین ہی انکار نہیں کرتے بلکہ زیادہ پڑھی لکھی بیویاں شوہروں سے بھی ہضم نہیں ہوتیں ۔ مگر اصل معاملہ شاید شعور کا ہے شعوری طور پر طرفین کو ملتا جلتا اور قریب قریب ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ بیویاں زیادہ پڑھی لکھی ہیں اور شوہر نامدار کم پڑھے لکھے۔ احساس کمتری اپنی جگہ لیکن male dominated معاشرے میں حاوند نے بحثیت مرد اپنا ٹہکا بھی تو رکھنا ہے ناں۔
 

عسکری

معطل
سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ بیویاں زیادہ پڑھی لکھی ہیں اور شوہر نامدار کم پڑھے لکھے۔ احساس کمتری اپنی جگہ لیکن male dominated معاشرے میں حاوند نے بحثیت مرد اپنا ٹہکا بھی تو رکھنا ہے ناں۔

غلط سب ایسے نہیں ۔آج سچ کہوں میں اینگیج ہوں اور میری منگیتر میری کزن ہے جس نے مجھے ریکوسٹ کی ہوئی کہ مجھے ام بی اے کرنے دیں اور میں اس بات پر قائم ہوں کہ اپنی ہونے والی بیوی کو اپنے سے ڈبل پڑھنے دوں :talktothehand:

ہماری اینگیج + لو میرج ہے اسے کوئی اعتراض ہے نا مجھے یہ کوئی زبردستی نہیں نا ہی بری بات ہے ۔ ہم خوش ہیں دونوں پر ابھی وقت ہے جو اس نے مانگا میں نے دیا ہے ۔ الٹا ہماری فیملیز چاہتی ہیں ہماری شادی جلد ہو پر ہم اٹل ہیں اپنے فیصلے پر ۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو میں نے کب کہا ہے کہ سو فیصد ایسے ہی ہوتا ہے۔ مانتا ہوں کہ تمہارے جیسے لوگ بھی ہوں گے لیکن کتنے فیصد؟
 

عسکری

معطل
تو میں نے کب کہا ہے کہ سو فیصد ایسے ہی ہوتا ہے۔ مانتا ہوں کہ تمہارے جیسے لوگ بھی ہوں گے لیکن کتنے فیصد؟

یہ نہیں پتہ مجھے پر ایسا نہیں کہ سب ایک جیسے ہیں بیوی پڑھی لکھی اور اگر جوان ہو تو ہی مزہ ہے لائف کا نا اتنی کہ عمر ڈھل جائے نا اتنی کہ ان پڑھ بچی ہو ۔میانہ روی اچھی ہے ۔مجھے تو کوئی برائی نہیں لگتی پڑھائی میں ۔ اچھا ہے اگر زیادہ پڑھے گی تو سارے کمپنی کے کام کمپیوٹر پر اس سے کراؤ خود مزے کرو اپنے کمپیوٹر پے :rollingonthefloor:
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں، لیکن میں موجودہ معاشرے کی بات کر رہا ہوں جو موجودہ قدروں پر ڈھل چکا ہے۔
 

بلال

محفلین
میرے خیال میں اگر ٹھیک طرح پڑھا جائے تو بندہ 22-23 سال کی عمر تک ایم۔اے کر جاتا ہے۔ اس عمر میں شادی ہو جائے تو میرے خیال میں یہ تاخیر نہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں لڑکیاں عام طور پر گریجوایشن تک پہنچتی ہیں اور پھر اس سے کم تعداد ایم-اے کرتی ہے۔ اس طرح تعلیم کے فوراً بعد شادی کر دی جائے تو 20 سے 23 یا 24 سال تک شادی ہو جائے گی۔ اس لئے کم از کم میرے خیال میں تعلیم شادی میں عمر کے حوالے سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔ رہی بات تعلیم یافتہ لڑکی کے لئے اتنی ہی یا زیادہ تعلیم والے لڑکے کی تلاش۔ اگر اس طرح کیا جائے تو پھر میرے خیال پاکستان کی آدھی سے زیادہ لڑکیوں کی کبھی شادی نہیں ہو پائے گی، کیونکہ آج کل زیادہ تر لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں اور پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے میں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا کیا حل ہے اس جانب توجہ دینی ہو گی۔ اب تو زیادہ تر دیکھنے میں یہی آ رہا ہے کہ لڑکی ایم-اے اور لڑکا ایویں-ای۔۔۔ میرے خیال میں مسئلہ لڑکیوں کی تعلیم کا نہیں بلکہ لڑکوں کی تعلیم کا ہے۔

باقی میں بچپن کی منگنی کے حق میں نہیں کیونکہ زیادہ تر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ رہی بات جہیز کی تو موجودہ دور میں جس انداز میں اور جہاں تک یہ پہنچ چکا ہے وہاں تو یہ کسی لعنت سے کم نہیں اور والدین پر یہ ایک عذاب بن چکا ہے۔ کسی زمانے میں ماوراء نے جہیز ایک لعنت کے عنوان سے مضامین کا مقابلہ بھی کروایا تھا۔
 
Top