کوئی دیکھے تو یہ سایہ ہے سہارا اپنا (سعداللہ شاہ)

کوئی دیکھے تو یہ سایہ ہے سہارا اپنا
کوئی جانے تو یہ آنسو ہے ستارا اپنا

وہ ہمیں چاند کو تکتے ہوئے پاگل سمجھا
ہم سمجھتے تھے وہ سمجھے گا اشارا اپنا

وہ کہ نزدیک بھی آنے نہیں دیتا ہم کو
دور رہنا بھی نہیں‌جس کو گوارا اپنا

بے وفائی کا زمانے سے گلہ کرتے تھے
پھر قصور اس میں نکل آیا ہمارا اپنا

اس کو بھی ترکِ تعلق کی بہت خواہش تھی
ہم نے بھی سر سے میاں‌ بوجھ اتارا اپنا

اس کو اندر سے زمیں چاٹ رہی ہے شاید
اک سمندر نے جو چھوڑا ہے کنارا اپنا

لوگ پڑھتے ہیں تمہیں اور سمجھتے بھی ہیں
کچھ نہ کچھ سعد بھرم رکھنا خدارا اپنا
(سعداللہ شاہ)​
 

آصف شفیع

محفلین
وہ کہ نزدیک بھی آنے نہیں دیتا ہم کو
دور رہنا بھی نہیں‌جس کو گوارا اپنا

کیا بات ہے جناب۔ بہت اچھی غزل ہے۔ پوسٹ کرنے کا شکریہ،
 
Top