کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ۔۔۔۔

زبیر مرزا

محفلین
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین تو کہیں آسمان نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زبان ملی ہے مگر ہم زبان نہیں ملتا
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا
تیرے جہاں میں ایسا نہیں کے پیار نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی،وہاں نہیں ملتا
شاعر: ندا فاضلی
 

مقدس

لائبریرین
ذبردست ۔۔۔۔ ظفری بھیا اگر میں یہ گانا پہلے سنتی تو شاید اس کو اس طرح سمجھ نہ پاتی
جیسے اب سمجھ سکی ہوں
 

ظفری

لائبریرین
بس یہی بات ہوتی ہے کہ پہلے ہم معاملات کو سمجھتے ہیں ۔ پھر ہمیں بات سمجھ آتی ہے ۔ :)
 

مقدس

لائبریرین
جی بھیا۔۔۔ویسے حالات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اکثر ہم اپنے آپ کے حالات نہیں سمجھ پاتے۔دوسروں کے کہاں سے سمجھ پائیں گے
 

مقدس

لائبریرین
ہی ہی ہی بھیا
آپ نے ہی کچھ کہا تھا شاید
میں تو نہیں کہتی
اتنا کچھ دیکھا ہے کہ لگتا ہے سب دیکھ لیا
اب دی اینڈ آگیا:)
 
ظفری بھائی، یہ بچی بھی ناں، بہت چلبلی ہیں۔ جی تو کرتا ہے کہ ان کی شرارتوں پر ان کی ناک کی نوک چٹکی میں دبا کر ہولے ہولے چپت رسید کر دیں۔ پھر ان کی باتوں پر پیار آ جاتا ہے، ہماری ننھی پری جو ہیں۔ :) :) :)
 

مقدس

لائبریرین
:) میں کہاں سنجیدہ باتیں کرتی ہوں بھیا
گانے کا اثر ہو گیا تھا

ویسے بھی ایک بات بتاؤں آپ کے بھیا
ہر انسان کے چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ ہوتا ہے
جو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی اسے دیکھے
کیونکہ ہم اپنے سے اٹیچڈ لوگوں کے لیے بہت ساری خوشیاں چاہتے ہیں
لیکن جب ہم اکیلے ہوتے ہیں تو وہ چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔۔ کبھی کبھی تو ہم خود کو اتنا کور کر کے رکھتے ہیں کہ ہم سے خود کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔۔ میں پتا نہیں کیا اسٹوپڈ لکھ رہی ہوں جس کا شاید کوئی سینس ہی نہ بنتا ہو
 

ظفری

لائبریرین
نہیں آپ بہت اچھا لکھ رہی ہیں ۔ اور لکھتی رہیں ۔۔۔ ویسے ہم خود کو اس لیئے کور رکھتے ہیں کہ ہم کو دوسروں سے بہت ڈر لگتا ہے ۔
 
:) میں کہاں سنجیدہ باتیں کرتی ہوں بھیا
گانے کا اثر ہو گیا تھا

ویسے بھی ایک بات بتاؤں آپ کے بھیا
ہر انسان کے چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ ہوتا ہے
جو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی اسے دیکھے
کیونکہ ہم اپنے سے اٹیچڈ لوگوں کے لیے بہت ساری خوشیاں چاہتے ہیں
لیکن جب ہم اکیلے ہوتے ہیں تو وہ چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔۔ کبھی کبھی تو ہم خود کو اتنا کور کر کے رکھتے ہیں کہ ہم سے خود کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔۔ میں پتا نہیں کیا اسٹوپڈ لکھ رہی ہوں جس کا شاید کوئی سینس ہی نہ بنتا ہو

ایسا ہی "اسٹوپڈ" لکھ کر جو لوگ گذر گئے ان کی تحیریں ہر کسی کے مضامین میں اقتباس کے طور پر شامل کی جاتی ہیں، ان کی باتیں محاورہ بن گئیں، ان کی یادیں نمائش گاہوں میں آویزاں ہیں اور ان کا نام ہر خاص و عام کی سماعت سے کبھی نہ کبھی ضرور ٹکرایا ہوتا ہے۔ :) :) :)
 
Top