السلام علیکم. تقریبا چار سال پہلے صوبہ سرحد کے بڑے ہسپتال کی گائنی وارڈ میں ہونے والی منفی سرگرمیوں کے بارے میں ناچیز نے ایک سروے رپورٹ لکھ کر ایک قومی اور ایک مقامی اخبار کے چھپنے کےلئے دی لیکن اس کے تین دن بعد وہی سٹوری اسی ہسپتال کے ای ذمہ دار ک افیسر کی ٹیبل پر صرف ایک ہزار روپے کے اشتہار کے بدلے میں رہ گئی جس کی وجہ سے میرا اس شعبے سے چوتھے ستون کا گمان اٹھ گیا. یہ تو صرف ایک واقعہ ہے اور بھی کئی واقعات ناچیز کی قلم سے کاغذ پر تو منتقل ہوگئے لیکن آزاد صحافت کے دعوے دار اس ملک کے کسی اخبار میں نہ چھپ سکے کیوں کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے اشتہارات میڈیا کے پاوں میں زنجیر سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں اور جس دن یہ زنجیر ٹوٹ گئی تب پاکستان کی ترقی کے دن شروع ہوجائیں گے لیکن یہ ناممکن ہے کاش یہ ممکن ہوسکے. آمین