وراء کے آئینے میں ماوراء ہے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اگر یہ صورت جائز بھی ہے تو سوائے مجبوری کے اس کو استعمال نہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی۔ قافیہ واضح طور پر آپس میں ملے تبھی بات میں برجستگی محسوس ہوتی ہے، یا پھر بات ہو ہی برجستہ تو قافیوں کا کم آمیز ہونا نظر نہیں آئے گا۔
 
کچھ الفاظ جوڑ کر خیالات کو رقم کرنے کی کوشش کی ہے، احباب کی رائے اور راہنمائی کا خواہش مند ہوں۔​
وراء کے آئینے میں ماوراء ہے
یہی سب سے بڑا یک دائرہ ہے
مزاجِ عاجزی نے قفل کھولے
عیاں مجھ پر ہراک تحت الثریٰ ہے
مری تیرہ شبوں کا راز جانو
بدن میں نور سا میرے بھرا ہے
بساطِ زندگی میں مکر جیسے
سبھی کھوٹوں میں اک سکّہ کھرا ہے
مرے زخموں میں تھا اک زخمِ ہجرت
وہی اک زخم ہے اب تک ہرا ہے
مری واماندگی تیرے سبب سے
اسد میرا ہے جو کچھ سب ترا ہے
قافیہ، ردیف اور بحر کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ غزل اچھی لکھی ہے خصوصاّ معنوی اعتبار سے ۔۔۔۔
 

شام

محفلین
جی بالکل مِلا جُلا رُلا سِلا وغیرہ یہ قوافی جائز ہیں۔ بلکہ مستعمل بھی ہیں۔ اس سلسلے میں میں مزید مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ اور ویسے عروضی مستند کتابیں جیسے بحر الفصاحت وغیرہ اس کو غلط نہیں بتاتی ہیں۔ بس روی متحرک ہو تو ما قبل حرکت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ بس روی کی حرکت میں مطابقت ہونا ضروری ہے۔ بلکہ یہ روی کی حرکت میں مطابقت بھی اردو میں واجب قرار دی گئی۔ ورنہ فارسی اور عربی میں تو اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اکثر۔
مزمل بھائی اگر ایسا ہے تو کیا پھر ڈوبتے کا قافیہ چونکتے اور جلتے کا قافیہ تکتے ہو سکتا ہے
 
مزمل بھائی اگر ایسا ہے تو کیا پھر ڈوبتے کا قافیہ چونکتے اور جلتے کا قافیہ تکتے ہو سکتا ہے

حرف روی دیکھا جائے گا سب سے پہلے۔ اگر حرف روی میں تضاد ہو تو قافیہ وہیں مسترد کر دیا جائے گا۔ حرکت تو بعد میں آئے گی۔ اب دیکھیںمذکورہ الفاظ میں حروف روی کیا ہیں:
صرف ”تے“ کو حذف کریں اور جو بچے گا ان میں حرفِ آخر روی ہے۔ پھر بتائیں کیا ڈوب کا قافیہ جل درست ہے؟ تک کا قافیہ چونک؟ ہرگز نہیں۔
ہاں جلتے کا ملَتے ہوگا تو درست، تکتے کا بکتے وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
بھئی میں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں عروض کا اکسپرٹ نہیں، عملی طور پر جو ممکن ہوتی ہے، اور جو سمجھ میں آتی ہے، اسے مان لیتا ہوں۔ اس رو سے مجھے تو یہ قوافی گڑبڑ ہی نظر آتے ہیں۔ بسمل بے شک اکسپرٹ ہیں، لیکن ان کی بات دل کو نہیں لگ رہی۔
 
اس پر مجھے شک ہے۔ واضح طور پر رَا یا رَیٰ یا رَاء قوافی ہیں، جو رَا روی کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ اس لئے سوال ان سے پہلے حرف کی حرکت پر ہونا چاہئے۔

استاد محترم اگر ”ر“ کو بھی روی مان لیا جاتا ہے تب بھی قوافی درست ہیں۔ کیونکہ جب روی خود متحرک ہو تو اس سے پہلے والی حرکت کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جیسے میر کی غزل کا مطلع:
کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

اور اسی غزل کا ایک اور شعر:
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے

ثابت ہوا کہ جب روی خود متحرک ہو تو اس کی حرکت میں تو مطابقت ضروری ہے مگر اس سے پہلے والے حرف میں مطابقت ضروری نہیں۔ اور عروض میں ایسا کوئی قانون بھی نہیں۔
ہاں روی اگر ساکن ہو تو ما قبل حرف کی حرکت کی مطابقت فرض ہے۔ اور یہ عروضی قانون بھی ہے۔

ایک اور غزل سے تین اشعار:

کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپ ہی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں

وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں

دل اب تو ہم سے ہے بد باز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں

اب اگر ”ر“ کو روی مانیں (جو کہ میرے مطابق روی نہیں) تو بھی درست ہے۔ اور الف ساکن کو روی مانیں تب بھی درست۔ کیونکہ ساکن روی سے پہلے حرکت میں تضاد جائز نہیں اور یہاں مطابقت موجود ہی ہے۔ اور متحرک روی سے پہلے حرکت میں مطابقت ضروری نہیں جیسا کہ مثالوں سے واضح ہوا۔

اس لاجک سے تو پھر مَ لا، کھ لاُ، کھِ لا، سب قوافی جائز ہوں گے؟؟
جی بالکل مِلا جُلا رُلا سِلا وغیرہ یہ قوافی جائز ہیں۔ بلکہ مستعمل بھی ہیں۔ اس سلسلے میں میں مزید مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ اور ویسے عروضی مستند کتابیں جیسے بحر الفصاحت وغیرہ اس کو غلط نہیں بتاتی ہیں۔ بس روی متحرک ہو تو ما قبل حرکت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ بس روی کی حرکت میں مطابقت ہونا ضروری ہے۔ بلکہ یہ روی کی حرکت میں مطابقت بھی اردو میں واجب قرار دی گئی۔ ورنہ فارسی اور عربی میں تو اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اکثر۔

استاد محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں اس مسئلے کے بارے میں۔؟؟
 
محترمی شیخ بسمل ۔۔ سب سے پہلے تو یہ ’’استاد‘‘ والی بات کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ فقیر کہاں اور استادی کہاں، ہاں کبھی لفظوں کے ہیر پھیر میں اُستادی دکھا جائیں تو وہ الگ بات۔

قوافی کا معاملہ دو انداز پر ہے، ایک وہ جس کی بات اعجاز عبید صاحب کر رہے ہیں۔ حرفِ روی کہتے ہیں اس کو؟ اس سے پہلے والے حروف کی حرکت مماثل ہونی چاہئے۔ فاتح الدین اور محمد نصیر صاحبان (ان دونوں کے نام اس لئے لے رہا ہوں کہ وہ اس محفل کے رکن ہیں) کا مؤقف بھی یہی ہے۔ دوسرا انداز وہ ہے جس کی وکالت آپ نے کی۔

اب اس کو کیا کہئے کہ یہ دونوں رائج ہیں اور کچھ غواصوں نے تو اساتذہ کے ہاں بھی اس کی مثالیں ڈھونڈ نکالیں!۔ یہاں جلیل عالی کی بات صلحِ کل کی دعوت بنتی ہے، انہوں نے ایک محفل میں کہا تھا: ’’زبان کو نقصان نہ پہنچے تو کچھ نہ کچھ لچک دینے میں کوئی ہرج نہیں‘‘۔

اپنا حساب تو وہی ہے کہ ’’تھوتھا چنا، باجے گھنا‘‘۔
 
لوگ سہل پسندی میں یا شاید جدت بلکہ جدیدیت پسندی میں قوافی سے بھاگ گئے، تو نظم معرٰی ہو گئی (معٰری اور عریاں کی اصل ایک ہے)۔ پھر اوزان و بحور سے بیزار ہوئے تو نظم ’’آزاد‘‘ ہو گئی، اور اب؟ وہ ایک تیسری دنیا ہے کہ پھیلتی جا رہی ہے۔ وہ کچھ لکھ دیا کہ شاعری تو کیا بن پاتی، نثر بھی باقی نہ رہی، اور صاحب کی ’’نظم‘‘ کی چھ کتابیں بازار میں آ گئیں۔ یہیں پر بس نہیں، یار لوگوں نے غزل کو بھی ’’آزاد‘‘ کر دیا۔ نہ ردیف، نہ قافیہ نہ شعر نہ بیت کا وہ بنیادی تصور! کچھ ہم وزن مصرعے کہئے، جو جہاں فٹ آئے رکھ دیجئے! لیجئے صاحب، آپ کی ’’غزل‘‘ ہو گئی۔ رباعی کا رونا دیکھ لیجئے۔ اقبال نے خود اپنے جن چار، چار مصرعوں کو قطعات قرار دیا، بعد والوں نے ان کو ’’رباعیات‘‘ کہہ دیا اور رباعی کے اصولی اوزان سے فرار کی راہ نکال لی۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ!

رہ معیار کی بات، تو بس جانے دیجئے۔ میرے ایک مہربان ہیں، ان کے نعتیہ مجموعے کو صدارتی ایوارڈ ملا۔ اسی شام انہوں نے اس فقیر کو میزبانی کا شرف بخشا اور کتاب کا ایک نسخہ بھی مرحمت فرمایا۔ رات بیٹھ کر کتاب کو دیکھا، پڑھا، مگر ۔۔۔ صد حیف کہ پوری کتاب میں کوئی ایک دھڑکتا ہوا شعر نہیں ملا۔ کتاب ہو نعت کی اور الفاظ کھوکھلے، مصنوعی!! اس کو کیا کہئے گا اور اس ’’پیتل‘‘ پر سہاگہ صدارتی ایوارڈ!!

تلخ نوائی پر معذرت خواہ ہوں۔ آپ دونوں احباب کی درد مندی غنیمت ہے، اسے زندہ رکھئے گا۔ ہم فقیروں کا کیا ہے!!!۔
 
آہا، وہ ’’دُم‘‘ والی غزل پر تو خوب لے دے ہوئی یا شاید ہو بھی رہی ہو۔

میرا ایک اپنا نکتہء نظر ہے۔ ہم شعر ہی کیوں کہتے ہیں، بات نثر میں بھی تو ہو سکتی ہے؛ اس کا سادہ سا جواب ہے حُسنِ ادا یا جمالیات۔ میرے شعر میں اگر جمالیاتی نقص ہے تو ظاہر ہے وہ ذوقِ لطیف پر گراں گزرے گا۔ جب شعر کہنا ہی ٹھہرا تو پھر جمالیات کا لحاظ تو رکھنا پڑے گا، بات قافیے کی ہو، یا ردیف کی۔ ردیف اصولی طور پر شعر کا لازمی حصہ نہیں ہے، لیکن جب آپ نے (غزل کے) مطلع میں ردیف کا اعلان کر دیا تو پھر اُس کو نباہنا اور اُس کا حق ادا کرنا آپ پر لازم ہو گیا۔ آج ہی فیس بک پر ایک دوست کی غزل پر بات کرتے ہوئے، میں نے تو عرض کر دیا تھا کہ ایک دو مقامات پر ردیف ’’محض زائد‘‘ محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں وہ شعر نقل کرنا مناسب نہیں ہو گا، کہ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے۔

یہیں کسی تبصرے میں یہ بھی دیکھا، کہ دیگر زبانوں کے الفاظ (مثلآ انگریزی) اردو شاعری کے تاثر کو مجروح کرتے ہیں۔ اسی تبصرے میں مقامی زبانوں کا ذکر بھی تھا، کہ اُن سے بھی الفاظ نہ لئے جائیں۔ میں اس بات سے جزوی طور پر متفق ہوں۔ دیکھئے بات سلیقے کی ہے اور یہ بھی کہ شعر (یا چلئے نظم بھی اس میں شامل کر لیجئے) کا موضوع کیا ہے۔ اگر آپ سلیقے کے ساتھ الفاظ لا سکتے ہیں تو ضرور لائیے، مگر اُن پر یا اردو شاعری پر جبر مت کیجئے۔ ملٹن کی مشہور نظم ’’پیراڈائز لَوسٹ‘‘ کا منظوم ترجمہ ’’فردوسِ گم گشتہ‘‘ از شوکت واسطی، اس لحاظ سے بھی قابلَ ذکر ہے کہ اس میں بہت مشکل لاطینی یونانی نام اردو نظم میں یوں سمو دیے گئے ہیں کہ ثقالت کا ذرہ بھر احساس نہیں ہوتا۔

یار زندہ صحبت باقی! ۔۔۔ مزید کو آئندہ پر چھوڑتے ہیں۔
 
بہت خوب فرمایا حضور محمد یعقوب آسی صاحب۔
استاد تو آپ یقیناً ہیں کیونکہ یقیناً علم و تجربے میں مجھ سے بہت زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ آپ یقیناً میرے والد محترم سے بھی زیادہ بڑے ہیں عمر میں۔
اور میں آپ کے بچوں سے بھی چھوٹا ہوں عمر فقط بیس برس ہے اور طفل مکتب ہوں۔
بات در اصل یہ ہے کہ جدت میں اور بدعت میں بہت فرق ہے۔ اب اس سے بڑی اور کیا بات ہوگی کہ اردو ادب کو جاننے کا دعوی آج کل وہ حضرات کرتے ہیں جو رباعی اور قطعہ میں فرق تک نہیں بتا سکتے۔ شاعری ایک مستقل ہنر ہے، اور کوئی ہنر محض قدرت کی عطا نہیں ہوا کرتا۔ مصور کو مصوری سیکھنا پڑتی ہے کوئی فرشتہ مصور کو قلم پکڑنا نہیں سکھاتا۔ اسی طرح شاعری بھی سیکھنے کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ زبان و بیان، معانی و استعارہ و تشبیہات، صرف و نحو، علم قافیہ و ردیف، بحر و اوزان یہ سب سیکھنا یا کم از کم شود بود رکھنا تو بے حد ضروری ہے۔ یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے اور شاعری کو فرشتے یا خدا کی دین سمجھ کر کچھ سیکھنے، سمجھنے، جاننے کو محض بکواس سمجھا جاتا ہے۔
میں ذاتی طور پر اس معاملے میں بہت کٹر ہوں جو ان حیلوں کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔
نثری شاعری، غیر عروضی شاعری، قطعات کو رباعی سمجھنا اور کہنا یہ محض جہالت اور کم فہمی اور علم سے بیزاری کی نشانیاں۔ اس دور میں یقیناً سب نے راہ فرار اختیار کرلی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے لوگ ہیں جو غلط اور صحیح کی تمیز رکھتے ہیں۔ اور آخر تک رہینگے۔ باقی آپ کی باتوں سے کافی کچھ معلومات حاصل ہوئی جس کے لئے تہہ دل سے شکرگذار ہوں۔
 

اسد قریشی

محفلین
جناب بسمل صاحب سب سے پہلے تو آپ کو سالگرہ کی مبارکباد! بہت خوش رہیئے، صحت و زندگی کے ساتھ اللہ کی رحمتیں نصیب ہوں۔

آپ کا اور محترم آسی صاحب کے بیحد ممنون و متشکر ہوں کہ آپ احباب کی علمی گفتگو سے بہت فیض حاصل ہوا۔ گستاخی معاف! اگر اب اس غزل کا فیصلہ بھی فرما دیں تو عین نوازش ہوگی۔

اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جناب آسی صاحب اور بسمل صاحب سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا "یک قافیہ" غزل کا وجود ہے یا عروض کے اعتبار سے یہ جائز ہے؟

جواب کا منتظر

احقر اسد قریشی!
 
جناب بسمل صاحب سب سے پہلے تو آپ کو سالگرہ کی مبارکباد! بہت خوش رہیئے، صحت و زندگی کے ساتھ اللہ کی رحمتیں نصیب ہوں۔

آپ کا اور محترم آسی صاحب کے بیحد ممنون و متشکر ہوں کہ آپ احباب کی علمی گفتگو سے بہت فیض حاصل ہوا۔ گستاخی معاف! اگر اب اس غزل کا فیصلہ بھی فرما دیں تو عین نوازش ہوگی۔

اس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے جناب آسی صاحب اور بسمل صاحب سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا "یک قافیہ" غزل کا وجود ہے یا عروض کے اعتبار سے یہ جائز ہے؟

جواب کا منتظر

احقر اسد قریشی!

بہت شکریہ مبارکباد کے لئے۔ خوش رہیں۔ :)
حضور آپ کی غزل کے حوالے سے تو میرا موقف نہیں بدلا۔ اس کے حوالے سے خدائے سخن میر تقی میرؔ کے کلام سے مثالیں بھی پیش کر دی ہیں۔ اور میرے حساب سے یہ غزل ہر لحاظ سے درست ہے۔ اسی حوالے سے یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ عروض کی کوئی کتاب، کوئی قاعدہ، یا کوئی اصول آپ کی غزل کے قافیہ کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر دلی تسلی کے لئے آپ اس میں تبدیلی کریں تو یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی غزل کے قوافی درست نہیں۔ :)

دوسری بات یہ کہ اردو شاعری میں اس وقت سب سے زیادہ جس صنف کو برتا جاتا ہے وہ غزل ہے۔ اور غزل یک قافیہ ہی ہوا کرتی ہے، قصائد، نعت، حمد وغیرہ سب یک قافیہ ہی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک صنف ”مسمط“ جو پہلے مستعمل تھی اب تو ناپید ہے اس کی آٹھ اقسام ہیں مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معشر ان میں ایک سے زیادہ اقسام کے قوافی یعنی قافیہ جداگانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ مسدس حالی کو دیکھ سکتے ہیں۔ یا دیگر شعرا کا کلام جس میں اقبال کا طلوع اسلام بھی ہے قافیہ جدا گانہ ہے۔
تو حاصل کلام یہ ہے کہ اردو شاعری اب تو در اصل یک قافیہ ہی رہ گئی ہے، اور آپ کا الٹا کر دیا جائے تو اردو کے لئے زیادہ بہتر ہے ;)
ہاں انگریزی میں اس کے برعکس یک قافیہ نظم کا رواج بہت کم ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بھئی میں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں عروض کا اکسپرٹ نہیں، عملی طور پر جو ممکن ہوتی ہے، اور جو سمجھ میں آتی ہے، اسے مان لیتا ہوں۔ اس رو سے مجھے تو یہ قوافی گڑبڑ ہی نظر آتے ہیں۔ بسمل بے شک اکسپرٹ ہیں، لیکن ان کی بات دل کو نہیں لگ رہی۔

میری سوئی اس ایک بات پر اٹکی ہے کہ دائرہ اور ماورا قافیہ نہیں ہوسکتے۔ ہرگز نہیں ہوسکتے اگر دائرہ کے ء پر زیر ہے، جو یقینا ہے۔ لیکن قافیے کی اس غلطی کا معاملہ اب اختلافی ہوچکا ہے سو اس معاملے میں اسد قریشی صاحب کو اپنی ہی صوابدید پر چلنا ہوگا اور معنوی اعتبار سے یہ غزل اگر اچھی ہے تو اس کو رد نہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی، کیونکہ اگر قافیے نہیں ملتے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہاجائے گا کہ یہ غزل غزل کہلانے کی حقدار نہیں، لیکن اگر اس کا ہر شعر اپنی جگہ اپنے آپ کو منوا سکتا ہے تو یہ تخلیق پھر غزل کے ٹائٹل کی محتاج بھی نہیں ہے۔۔ علامہ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہ فلسفیانہ عنوانات پر لکھتے تھے جو اس وقت (اور شاید اب بھی) غزل کی حدود میں نہیں آتے تھے، سو وہ اپنی غزلیات کے نیچے لکھتے تھے : فلاں موقعے پر لکھے گئے ۔ یعنی وہ ان کی نظر میں اشعار تھے، محض اشعار۔ غزل نہیں تھے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں اگر وہ غزل نہیں ہے تو غزل تو کوئی چیز ہی نہیں ہے جس پر محنت کی جائے۔
 

اسد قریشی

محفلین
بہت شکریہ بسمل صاحب اور بقول اعجاز صاحب کے، عروض پر آپ کی گرفت بہتر ہے اس لیے آپ کے فیصلے کو حتمی تصور کرتے ہوئے ہم اس غزل کو مکمل قرار دیتے ہیں۔ تمام احباب کا بہت شکریہ!
 
Top