جی قبلہ، بہت محنت کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ لفظ "ماورا" کی بنت ما + ور+ ا، پر ہے اور لفظ "دائرہ" کی ترکیب دا+ئر+ا ہے یعنی مطلع پابند ہوجاتا ہے کہ تمام قوافی میں "ر" بل فتحہ ہو۔ اس لحاظ سے باقی کے قوافی یعنی "کھرا، ہرا، بھرا، ترا اس سے علاقہ نہیں رکھتے۔
میں یہ سب کچھ اس لیے یہاں رقم کر رہا ہوں کہ میرے جیسے دوسرے دوست بھی میرے تجربہ سے مصتفید ہوں اور قوافی کی ترکیب کو سمجھ سکیں۔
میرے اُستادِ محترم، اللہ پاک اُن کو صحت و تندرستی، فراخیِ رزق، دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، اپنی کتاب "نِکات ِشاعری و آسان عروض" میں فرماتے ہیں کہ " دو الفاظ اُس وقت ہم قافیہ کہے جاتے ہیں جب اُن میں سے کم سے کم ایک حرف مشترک ہو اور وہ اِن الفاظ کا حرفِ آخر بھی ہویا بہ منزلہِ حرفِ آخر لیا جاسکے، نیز اس حرفِ آخر سے پہلے جو حرکت (زَبر، زِیر، پیش) آئے وہ دونوں مقامات پر موجود ہو۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اگر پہلے لفظ میں مذکورہ حرفِ آخر سے قبل زَبر،(زیر یا پیش) آئے تو دوسرے لفظ میں بھی حرفِ آخر سے قبل زَبر (یا زیر یا پیش) ہی آئے۔ پہلے لفظ میں مذکورہ جگہ پر ایک حرکت(مثلا" زَبر) اور دوسرے لفظ میں اُس کے مقابل دوسری حرکت (مثلا" پیش) آسکتی ہے گویا ان مقامات پر حرکت کا ہونا ضروری ہے ان کی مطابقت ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر غم، سِتَم، دَم ہم قافیہ الفاظ ہیں کیونکہ ان میں میم آخری حرف کے طور پر مشترک ہے اور اس کا ماقبل(عین، تے، دال) زَبر سے متحرک ہے۔ چونکہ قافیوں کے مشترک حرفِ آخر کے ماقبل کی حرکت مختلف ہوسکتی ہے اس لئے:غم، سِتَم، دَم کا قافیہ دُم، گُم، رِم جھِم ہوسکتے ہیں البتہ: جُرم، شَرم، نَرم، گرم: ان الفاظ کے ہم قافیہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ہر چند کہ ان سب میں میم حرفِ آخر کے طور پر مشترک ہے لیکن اس کے ماقبل پر پہلے گروہ میں زَبر، زیر یا پیش (یعنی ایک حرکت) ہے جبکہ جُرم، شَرم، گرم میں رے ساکن ہے"
محترم اسد صاحب اسلام و علیکم:
بہت اچھا ہوا کہ آپ نے کتاب کے حوالے سے یہ بات یہاں لکھ دی۔ اب چند باتیں میری بھی ملاحظہ ہوں۔
پہلی بات۔ محترم استاد سرور عالم راز صاحب نے علم قافیہ کے حوالے سے بہت بڑا دھوکہ کھایا ہے جس کا ازالہ بہت مشکل ہے لیکن بہر حال اللہ انہیں محنت کا پھل عطا فرمائے۔
دو الفاظ اُس وقت ہم قافیہ کہے جاتے ہیں جب اُن میں سے کم سے کم ایک حرف مشترک ہو اور وہ اِن الفاظ کا حرفِ آخر بھی ہویا بہ منزلہِ حرفِ آخر لیا جاسکے، نیز اس حرفِ آخر سے پہلے جو حرکت (زَبر، زِیر، پیش) آئے وہ دونوں مقامات پر موجود ہو۔
استاد محترم کے مطابق ایک حرفِ مشترک قافیہ ہے جو الفاظ کے آخر میں ہو۔ یہاں بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور ایک ایک سوال ایسا جو قافیہ کی اس تعریف رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
۱۔ مثلاً! اگر میں ”کہنا“ اور ”دھونا“ قافیہ کرتا ہوں تو مذکورہ بالا تعریف کے مطابق یہ درست ہوگا۔ کیونکہ ”الف“ مشترک ہے۔ اور اس سے پہلے حرکت بھی موجود ہے۔ مگر ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہ قافی جائز نہیں۔ کیونکہ یہی ایطائے جلی ہے جو اس تعریف کی بنا پر جائز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یا اگر میں ”تشنگی“ اور ”زندگی“ کو قافیہ کروں تو بھی اس تعریف کے مطابق صحیح ہے کیونکہ ”ی“ دونوں میں مشترک ہے اور پہلے اسکے حرکت بھی موجود ہے۔ مگر یہ قافیہ بالکل درست نہیں۔
صاحب کتاب استاد سرور صاحب کو جو دھوکہ ہوا
وہ یہ کہ وہ اپنی اس تعریف میں یہ نشاندہی کرنا بھول گئے کہ ”مشترک حرف“ کا بذاتِ خود ساکن ہوگا ضروری ہے اور اس سے پہلے ایک متحرک ہوگا۔
مثلاً دم، رم، خم، بم وغیرہ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعریف قطعاً اس قابل نہیں کہ اس پر شاعری کے تمام قوافی کا اطلاق ہوسکے۔
حضور نے قافیہ کا صرف ایک پہلو بیان کیا ہے اور اس میں بھی خطا کر گئے ہیں۔
۲۔ کیونکہ اس سے پہلے کی حرکت میں مطابقت کو ضروری نہیں جانتے حالانکہ یہ بہت بڑا عیب ہے اور عیوبِ قافیہ کے تمام عیوب میں سب سے پہلے اسی کا ذکر آتا ہے۔ اصطلاح میں اسے ”اِقواء“ کہا جاتا ہے جس سے مراد توجیہہ میں اختلاف کردینا۔ جیسے گھر اور در کا قافیہ سُر کرنا، گُل کا قافیہ مِل کردینا، دم کا قافیہ خُم کرنا، دلدل کا قافیہ بیدل یا اسی طرح اور جگہ ”ساکن روی“ سے پہلے کی حرکت میں اختلاف کر دینا یہ عیب ہے۔ لیکن استاد محترم اسے جائز ٹھہرا گئے جو انکی غلطی ہے اور اسی وجہ سے قافیہ کی یہ تعریف قابل رد ہے، بلکہ رد ضروری ہے بہر حال۔
۳۔ اسکے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ قافیہ کی اس کے علاہ بھی بہت صورتیں ہیں جو اس تعریف میں بیان کی گئی ہیں۔ جیسے دام کا قافیہ کام۔ خار کا قافیہ تار۔ یہ قوافی درست ہیں اور بہت مستعمل ہیں مگر قافیہ کی اس تعریف کے مطابق واضح نہیں۔ کیونکہ اگر ہم آخری حرف ”مشترک حرف“ کو لیں تو خار اور تار میں آخری حرف کے طور پر ”ر“ ساکن مشترک ہے مگر اس سے پہلے والے حرف پر کوئی حرکت نہیں کیونکہ وہ بھی ساکن ہے۔ اور اگر الف ساکن کو مشترک مانیں تو یہ حرف آخر نہیں ۔ اسی طرح یہ تیسری وجہ ہوئی جو بتائی گئی تعریف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے کہ قافیہ کی ایک نہیں بلکہ متعدد اقسام ہیں۔
مزید یہ کہ آپ کی غزل پر بھی یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ کیونکہ آپ کے قوافی میں بھی الف آخر حرف بھی ہے، مشترک بھی اور ساکن بھی ہے۔ اور اس سے پہلے کی حرکت میں اختلاف ممکن ہے ہی نہیں کہ الف ساکن سے پہلے متحرک صرف زبر کے ساتھ ہی آتا ہے۔
اختلاف ”ر“ سے پہلے کی حرکت پر ہے مگر ”ر“ آپ کی غزل میں ایک تو ساکن نہیں اور دوسرا حرف آخر بھی نہیں۔