وراء کے آئینے میں ماوراء ہے

اسد قریشی

محفلین
کچھ الفاظ جوڑ کر خیالات کو رقم کرنے کی کوشش کی ہے، احباب کی رائے اور راہنمائی کا خواہش مند ہوں۔​
وراء کے آئینے میں ماوراء ہے
یہی سب سے بڑا یک دائرہ ہے

مزاجِ عاجزی نے قفل کھولے
عیاں مجھ پر ہراک تحت الثریٰ ہے

مری تیرہ شبوں کا راز جانو
بدن میں نور سا میرے بھرا ہے

بساطِ زندگی میں مکر جیسے
سبھی کھوٹوں میں اک سکّہ کھرا ہے

مرے زخموں میں تھا اک زخمِ ہجرت
وہی اک زخم ہے اب تک ہرا ہے

مری واماندگی تیرے سبب سے
اسد میرا ہے جو کچھ سب ترا ہے
 

الف عین

لائبریرین
قوافی میں غلطی ہے، کئی جگہ ’را‘ سے پہلے کسرہ ہے، جب کہ زیادہ تر فتحہ۔ ماوَرا اور تِرا قوافی درست نہیں۔
 

اسد قریشی

محفلین
بہت نوازش!

اگر نشاندہی فرمائیں کہ کون کون سے غلط ہیں تو میرے لیے آسانی ہوگی، کیونکہ اپنی دانست میں تو میں نے قوافی درست باندھے ہیں۔
 
اپنے علم کے مطابق میری رائے:

اسکے تمام قوافی درست ہیں بلکہ ”ر“ کی پابندی بھی بے جا ہے اسکی بھی ضرورت نہ تھی لیکن بہر حال شاعر نے نبھا دیا تو کیا ہی کہنے۔
عام طور پر جو قافیہ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے یہ وہی ہے۔ جیسے:
ملا، کھلا، ترا مرا، خفا، جدا وغیرہ۔ سب کو قافیہ کیا جاسکتا ہے۔ آخری کا الف ساکن قافیہ ہوگا۔ کیونکہ اس میں روی ”الف“ ہے۔ تو اس سے پہلے کسی بھی حرف یا حرکت کی پابندی ضروری نہیں جیسا کہ کہا گیا ”ر“ کی پابندی بھی ضروری نہیں تھی۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں اس میں استاد محترم سے اتفاق کرتا ہوں کہ قوافی درست نہیں لگتے۔ عروض کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ زبر زیر کے حساب سے قافیہ غلط باندھا جائے تو غلط ہی ہوتا ہے جیسے اس غزل میں ہے: ماورا اور دائرہ کو دیکھا جائے جو مطلعے میں ہیں تو ماورا کے و پر زبر ہے اور دائرہ کے ء پر زیر ، قافیہ ملانے کی ایک یہی سبیل مجھے نظر آئی کہ ء اور و کا مقابلہ کیاجائے، تو میرے حساب سے یہ غلط ہے۔۔۔ یہی زبر زیر کی غلطی ہے اور یہاں قافیہ صوتی بھی نہیں ہے۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
قوافی میں غلطی ہے، کئی جگہ ’را‘ سے پہلے کسرہ ہے، جب کہ زیادہ تر فتحہ۔ ماوَرا اور تِرا قوافی درست نہیں۔


جی قبلہ، بہت محنت کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ لفظ "ماورا" کی بنت ما + ور+ ا، پر ہے اور لفظ "دائرہ" کی ترکیب دا+ئر+ا ہے یعنی مطلع پابند ہوجاتا ہے کہ تمام قوافی میں "ر" بل فتحہ ہو۔ اس لحاظ سے باقی کے قوافی یعنی "کھرا، ہرا، بھرا، ترا اس سے علاقہ نہیں رکھتے۔

میں یہ سب کچھ اس لیے یہاں رقم کر رہا ہوں کہ میرے جیسے دوسرے دوست بھی میرے تجربہ سے مصتفید ہوں اور قوافی کی ترکیب کو سمجھ سکیں۔


میرے خیال سے اتفاق کرنے کا بہت شکریہ لیکن میری اس تحقیق کے بعد آپ کی کیا رائے ہے، مجھے یہ جان کر زیادہ خوشی ہوگی۔

میرے اُستادِ محترم، اللہ پاک اُن کو صحت و تندرستی، فراخیِ رزق، دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، اپنی کتاب "نِکات ِشاعری و آسان عروض" میں فرماتے ہیں کہ " دو الفاظ اُس وقت ہم قافیہ کہے جاتے ہیں جب اُن میں سے کم سے کم ایک حرف مشترک ہو اور وہ اِن الفاظ کا حرفِ آخر بھی ہویا بہ منزلہِ حرفِ آخر لیا جاسکے، نیز اس حرفِ آخر سے پہلے جو حرکت (زَبر، زِیر، پیش) آئے وہ دونوں مقامات پر موجود ہو۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اگر پہلے لفظ میں مذکورہ حرفِ آخر سے قبل زَبر،(زیر یا پیش) آئے تو دوسرے لفظ میں بھی حرفِ آخر سے قبل زَبر (یا زیر یا پیش) ہی آئے۔ پہلے لفظ میں مذکورہ جگہ پر ایک حرکت(مثلا" زَبر) اور دوسرے لفظ میں اُس کے مقابل دوسری حرکت (مثلا" پیش) آسکتی ہے گویا ان مقامات پر حرکت کا ہونا ضروری ہے ان کی مطابقت ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر غم، سِتَم، دَم ہم قافیہ الفاظ ہیں کیونکہ ان میں میم آخری حرف کے طور پر مشترک ہے اور اس کا ماقبل(عین، تے، دال) زَبر سے متحرک ہے۔ چونکہ قافیوں کے مشترک حرفِ آخر کے ماقبل کی حرکت مختلف ہوسکتی ہے اس لئے:غم، سِتَم، دَم کا قافیہ دُم، گُم، رِم جھِم ہوسکتے ہیں البتہ: جُرم، شَرم، نَرم، گرم: ان الفاظ کے ہم قافیہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ہر چند کہ ان سب میں میم حرفِ آخر کے طور پر مشترک ہے لیکن اس کے ماقبل پر پہلے گروہ میں زَبر، زیر ےا پیش (یعنی ایک حرکت) ہے جبکہ جُرم، شَرم، گرم میں رے ساکن ہے"
 
جی قبلہ، بہت محنت کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ لفظ "ماورا" کی بنت ما + ور+ ا، پر ہے اور لفظ "دائرہ" کی ترکیب دا+ئر+ا ہے یعنی مطلع پابند ہوجاتا ہے کہ تمام قوافی میں "ر" بل فتحہ ہو۔ اس لحاظ سے باقی کے قوافی یعنی "کھرا، ہرا، بھرا، ترا اس سے علاقہ نہیں رکھتے۔

میں یہ سب کچھ اس لیے یہاں رقم کر رہا ہوں کہ میرے جیسے دوسرے دوست بھی میرے تجربہ سے مصتفید ہوں اور قوافی کی ترکیب کو سمجھ سکیں۔


میرے اُستادِ محترم، اللہ پاک اُن کو صحت و تندرستی، فراخیِ رزق، دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، اپنی کتاب "نِکات ِشاعری و آسان عروض" میں فرماتے ہیں کہ " دو الفاظ اُس وقت ہم قافیہ کہے جاتے ہیں جب اُن میں سے کم سے کم ایک حرف مشترک ہو اور وہ اِن الفاظ کا حرفِ آخر بھی ہویا بہ منزلہِ حرفِ آخر لیا جاسکے، نیز اس حرفِ آخر سے پہلے جو حرکت (زَبر، زِیر، پیش) آئے وہ دونوں مقامات پر موجود ہو۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اگر پہلے لفظ میں مذکورہ حرفِ آخر سے قبل زَبر،(زیر یا پیش) آئے تو دوسرے لفظ میں بھی حرفِ آخر سے قبل زَبر (یا زیر یا پیش) ہی آئے۔ پہلے لفظ میں مذکورہ جگہ پر ایک حرکت(مثلا" زَبر) اور دوسرے لفظ میں اُس کے مقابل دوسری حرکت (مثلا" پیش) آسکتی ہے گویا ان مقامات پر حرکت کا ہونا ضروری ہے ان کی مطابقت ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر غم، سِتَم، دَم ہم قافیہ الفاظ ہیں کیونکہ ان میں میم آخری حرف کے طور پر مشترک ہے اور اس کا ماقبل(عین، تے، دال) زَبر سے متحرک ہے۔ چونکہ قافیوں کے مشترک حرفِ آخر کے ماقبل کی حرکت مختلف ہوسکتی ہے اس لئے:غم، سِتَم، دَم کا قافیہ دُم، گُم، رِم جھِم ہوسکتے ہیں البتہ: جُرم، شَرم، نَرم، گرم: ان الفاظ کے ہم قافیہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ہر چند کہ ان سب میں میم حرفِ آخر کے طور پر مشترک ہے لیکن اس کے ماقبل پر پہلے گروہ میں زَبر، زیر یا پیش (یعنی ایک حرکت) ہے جبکہ جُرم، شَرم، گرم میں رے ساکن ہے"

محترم اسد صاحب اسلام و علیکم:

بہت اچھا ہوا کہ آپ نے کتاب کے حوالے سے یہ بات یہاں لکھ دی۔ اب چند باتیں میری بھی ملاحظہ ہوں۔

پہلی بات۔ محترم استاد سرور عالم راز صاحب نے علم قافیہ کے حوالے سے بہت بڑا دھوکہ کھایا ہے جس کا ازالہ بہت مشکل ہے لیکن بہر حال اللہ انہیں محنت کا پھل عطا فرمائے۔
دو الفاظ اُس وقت ہم قافیہ کہے جاتے ہیں جب اُن میں سے کم سے کم ایک حرف مشترک ہو اور وہ اِن الفاظ کا حرفِ آخر بھی ہویا بہ منزلہِ حرفِ آخر لیا جاسکے، نیز اس حرفِ آخر سے پہلے جو حرکت (زَبر، زِیر، پیش) آئے وہ دونوں مقامات پر موجود ہو۔
استاد محترم کے مطابق ایک حرفِ مشترک قافیہ ہے جو الفاظ کے آخر میں ہو۔ یہاں بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور ایک ایک سوال ایسا جو قافیہ کی اس تعریف رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
۱۔ مثلاً! اگر میں ”کہنا“ اور ”دھونا“ قافیہ کرتا ہوں تو مذکورہ بالا تعریف کے مطابق یہ درست ہوگا۔ کیونکہ ”الف“ مشترک ہے۔ اور اس سے پہلے حرکت بھی موجود ہے۔ مگر ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہ قافی جائز نہیں۔ کیونکہ یہی ایطائے جلی ہے جو اس تعریف کی بنا پر جائز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یا اگر میں ”تشنگی“ اور ”زندگی“ کو قافیہ کروں تو بھی اس تعریف کے مطابق صحیح ہے کیونکہ ”ی“ دونوں میں مشترک ہے اور پہلے اسکے حرکت بھی موجود ہے۔ مگر یہ قافیہ بالکل درست نہیں۔
صاحب کتاب استاد سرور صاحب کو جو دھوکہ ہوا وہ یہ کہ وہ اپنی اس تعریف میں یہ نشاندہی کرنا بھول گئے کہ ”مشترک حرف“ کا بذاتِ خود ساکن ہوگا ضروری ہے اور اس سے پہلے ایک متحرک ہوگا۔
مثلاً دم، رم، خم، بم وغیرہ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعریف قطعاً اس قابل نہیں کہ اس پر شاعری کے تمام قوافی کا اطلاق ہوسکے۔
حضور نے قافیہ کا صرف ایک پہلو بیان کیا ہے اور اس میں بھی خطا کر گئے ہیں۔
۲۔ کیونکہ اس سے پہلے کی حرکت میں مطابقت کو ضروری نہیں جانتے حالانکہ یہ بہت بڑا عیب ہے اور عیوبِ قافیہ کے تمام عیوب میں سب سے پہلے اسی کا ذکر آتا ہے۔ اصطلاح میں اسے ”اِقواء“ کہا جاتا ہے جس سے مراد توجیہہ میں اختلاف کردینا۔ جیسے گھر اور در کا قافیہ سُر کرنا، گُل کا قافیہ مِل کردینا، دم کا قافیہ خُم کرنا، دلدل کا قافیہ بیدل یا اسی طرح اور جگہ ”ساکن روی“ سے پہلے کی حرکت میں اختلاف کر دینا یہ عیب ہے۔ لیکن استاد محترم اسے جائز ٹھہرا گئے جو انکی غلطی ہے اور اسی وجہ سے قافیہ کی یہ تعریف قابل رد ہے، بلکہ رد ضروری ہے بہر حال۔
۳۔ اسکے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ قافیہ کی اس کے علاہ بھی بہت صورتیں ہیں جو اس تعریف میں بیان کی گئی ہیں۔ جیسے دام کا قافیہ کام۔ خار کا قافیہ تار۔ یہ قوافی درست ہیں اور بہت مستعمل ہیں مگر قافیہ کی اس تعریف کے مطابق واضح نہیں۔ کیونکہ اگر ہم آخری حرف ”مشترک حرف“ کو لیں تو خار اور تار میں آخری حرف کے طور پر ”ر“ ساکن مشترک ہے مگر اس سے پہلے والے حرف پر کوئی حرکت نہیں کیونکہ وہ بھی ساکن ہے۔ اور اگر الف ساکن کو مشترک مانیں تو یہ حرف آخر نہیں ۔ اسی طرح یہ تیسری وجہ ہوئی جو بتائی گئی تعریف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے کہ قافیہ کی ایک نہیں بلکہ متعدد اقسام ہیں۔

مزید یہ کہ آپ کی غزل پر بھی یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ کیونکہ آپ کے قوافی میں بھی الف آخر حرف بھی ہے، مشترک بھی اور ساکن بھی ہے۔ اور اس سے پہلے کی حرکت میں اختلاف ممکن ہے ہی نہیں کہ الف ساکن سے پہلے متحرک صرف زبر کے ساتھ ہی آتا ہے۔
اختلاف ”ر“ سے پہلے کی حرکت پر ہے مگر ”ر“ آپ کی غزل میں ایک تو ساکن نہیں اور دوسرا حرف آخر بھی نہیں۔ :)



 

اسد قریشی

محفلین
محترم جناب مزمل شیخ صاحب،

بہت نوازش آپ نے اس قدر زحمت فرمائی، حالانکہ میرا خطاب شاہد شاہنواز صاحب کے اُس نکتے سے تھا جہاں انھوں نے فرمایا تھا کہ زیر زبر سے قافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ جو تعریف میں نے قافیہ کی رقم کی ہے وہ بنیادی تعرف ہے قافیہ کا اور اس کی تفصیل کتاب میں آگے درج ہے، قوافی کی تمام اقسام، ترکیب ونقائص تمام تفصیل سے دئے گئے ہیں۔

اگر ممکن ہوتو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں کہ میرے لیے تمام مضمون یہاں رقم کرنا ممکن نہیں۔

نیز یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ استادِ محترم جناب سرور راز صاحب کے بیان میں کوئی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا علم ناقص ہے، یہ عین ممکن ہے کہ غلطی مجھ سے یہاں رقم کرنے یا از خود اس مضمون کو سمجنے میں ہی ہوئی ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ اس کو استادِ محترم کی غلطی نہ سمجھا جائے بلکہ میری کم علمی و ناقص العقلی سمجھا جائے۔۔بہت شکریہ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں تو زبر زیر والی اپنی بات پر قائم ہوں کہ دائرہ اور ماورا قافیہ نہیں ہوسکتا کہ و پر زبر اور ء پر زیر ہے۔۔۔
اسد صاحب کی رائے سے اتفاق ضرور کیا تھا جب انہوں نے اقتباس لکھا، لیکن میں اسے سمجھا نہیں ۔۔ بہرحال یہ ٹائپنگ مس ٹیک ہی لگتی ہے کیونکہ ویسے بھی کتاب سے دیکھ کر ٹائپ کرنا دقت طلب کام ہے۔۔۔ اور اسے ہم اسد قریشی کی کم عقلی یا نادانی سے زیادہ ٹائپنگ ایرر اور بے دھیانی قرار دے لیں تو بہتر ہوگا۔۔۔
 
محترم جناب مزمل شیخ صاحب،

بہت نوازش آپ نے اس قدر زحمت فرمائی، حالانکہ میرا خطاب شاہد شاہنواز صاحب کے اُس نکتے سے تھا جہاں انھوں نے فرمایا تھا کہ زیر زبر سے قافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ جو تعریف میں نے قافیہ کی رقم کی ہے وہ بنیادی تعرف ہے قافیہ کا اور اس کی تفصیل کتاب میں آگے درج ہے، قوافی کی تمام اقسام، ترکیب ونقائص تمام تفصیل سے دئے گئے ہیں۔

اگر ممکن ہوتو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں کہ میرے لیے تمام مضمون یہاں رقم کرنا ممکن نہیں۔

نیز یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ استادِ محترم جناب سرور راز صاحب کے بیان میں کوئی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا علم ناقص ہے، یہ عین ممکن ہے کہ غلطی مجھ سے یہاں رقم کرنے یا از خود اس مضمون کو سمجنے میں ہی ہوئی ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ اس کو استادِ محترم کی غلطی نہ سمجھا جائے بلکہ میری کم علمی و ناقص العقلی سمجھا جائے۔۔بہت شکریہ۔
حضور میں اس کتاب کا مطالعہ قریب تین ماہ قبل کافی غور و فکر کے ساتھ کر چکا ہوں۔ یہ عبارت جو آپ نے نقل کی وہ اس کتاب کے باب ہشتم صفحہ ۱۶۳ اور ۱۶۴ پر موجود ہے۔
بہر حال استاد محترم میرے لئے بھی اتنے ہی قابل احترام ہیں جتنے آپ کے لئے لیکن بہر حال غلطی تو ان سے ہوئی ہے اور ایک فاش غلطی ہے جسے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
باقی باتیں جو میں نے کہی ہیں ممکن ہے کہ آپ ان تک پہنچ کر اسے سمجھ نہ پائیں مگر کم از کم یہ بات جو انہو نے کہی کہ:

اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اگر پہلے لفظ میں مذکورہ حرفِ آخر سے قبل زَبر،(زیر یا پیش) آئے تو دوسرے لفظ میں بھی حرفِ آخر سے قبل زَبر (یا زیر یا پیش) ہی آئے۔ پہلے لفظ میں مذکورہ جگہ پر ایک حرکت(مثلا" زَبر) اور دوسرے لفظ میں اُس کے مقابل دوسری حرکت (مثلا" پیش) آسکتی ہے گویا ان مقامات پر حرکت کا ہونا ضروری ہے ان کی مطابقت ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر غم، سِتَم، دَم ہم قافیہ الفاظ ہیں کیونکہ ان میں میم آخری حرف کے طور پر مشترک ہے اور اس کا ماقبل(عین، تے، دال) زَبر سے متحرک ہے۔ چونکہ قافیوں کے مشترک حرفِ آخر کے ماقبل کی حرکت مختلف ہوسکتی ہے اس لئے:غم، سِتَم، دَم کا قافیہ دُم، گُم، رِم جھِم ہوسکتے ہیں

کھلی غلطی ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ جس بات کی سرخی سے نشاندہی کی اس میں سمجھ نہ آنے والی کوئی بات نہیں اور غم، سِتَم، دَم کا قافیہ دُم، گُم، رِم جھِم کسی صورت نہیں ہوسکتے ہیں :)
 
محترم جناب مزمل شیخ صاحب،

بہت نوازش آپ نے اس قدر زحمت فرمائی، حالانکہ میرا خطاب شاہد شاہنواز صاحب کے اُس نکتے سے تھا جہاں انھوں نے فرمایا تھا کہ زیر زبر سے قافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔

جی زبر زیر کے فرق سے قافیہ ضرور بدل جاتا ہے یہ حقیقت ہے۔ لیکن یہ آپ کی غزل کے قوافی درست ہیں کیونکہ اس میں زبر زیر کی کوئی غلطی ہی نہیں۔
روی الف ساکن ہے اور سب جگہ الف ساکن سے پہلے زبر ہی ہے۔ :) سو میں نے آپ کی غزل کے قوافی کو درست کہا۔
 

الف عین

لائبریرین
روی الف ساکن ہے اور سب جگہ الف ساکن سے پہلے زبر ہی ہے۔ :) سو میں نے آپ کی غزل کے قوافی کو درست کہا۔
اس پر مجھے شک ہے۔ واضح طور پر رَا یا رَیٰ یا رَاء قوافی ہیں، جو رَا روی کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ اس لئے سوال ان سے پہلے حرف کی حرکت پر ہونا چاہئے۔
 

نمرہ

محفلین
اگر یہاں مطلع میں 'ماورا' کے ساتھ 'بڑا' بطور قافیہ استعمال کیا جائے تو کیا یہ درست ہو گا؟
 
اس پر مجھے شک ہے۔ واضح طور پر رَا یا رَیٰ یا رَاء قوافی ہیں، جو رَا روی کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ اس لئے سوال ان سے پہلے حرف کی حرکت پر ہونا چاہئے۔

استاد محترم اگر ”ر“ کو بھی روی مان لیا جاتا ہے تب بھی قوافی درست ہیں۔ کیونکہ جب روی خود متحرک ہو تو اس سے پہلے والی حرکت کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
جیسے میر کی غزل کا مطلع:
کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

اور اسی غزل کا ایک اور شعر:
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے

ثابت ہوا کہ جب روی خود متحرک ہو تو اس کی حرکت میں تو مطابقت ضروری ہے مگر اس سے پہلے والے حرف میں مطابقت ضروری نہیں۔ اور عروض میں ایسا کوئی قانون بھی نہیں۔
ہاں روی اگر ساکن ہو تو ما قبل حرف کی حرکت کی مطابقت فرض ہے۔ اور یہ عروضی قانون بھی ہے۔

ایک اور غزل سے تین اشعار:

کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپ ہی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں

وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں

دل اب تو ہم سے ہے بد باز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں

اب اگر ”ر“ کو روی مانیں (جو کہ میرے مطابق روی نہیں) تو بھی درست ہے۔ اور الف ساکن کو روی مانیں تب بھی درست۔ کیونکہ ساکن روی سے پہلے حرکت میں تضاد جائز نہیں اور یہاں مطابقت موجود ہی ہے۔ اور متحرک روی سے پہلے حرکت میں مطابقت ضروری نہیں جیسا کہ مثالوں سے واضح ہوا۔
 
اس لاجک سے تو پھر مَ لا، کھ لاُ، کھِ لا، سب قوافی جائز ہوں گے؟؟

جی بالکل مِلا جُلا رُلا سِلا وغیرہ یہ قوافی جائز ہیں۔ بلکہ مستعمل بھی ہیں۔ اس سلسلے میں میں مزید مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔ اور ویسے عروضی مستند کتابیں جیسے بحر الفصاحت وغیرہ اس کو غلط نہیں بتاتی ہیں۔ بس روی متحرک ہو تو ما قبل حرکت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ بس روی کی حرکت میں مطابقت ہونا ضروری ہے۔ بلکہ یہ روی کی حرکت میں مطابقت بھی اردو میں واجب قرار دی گئی۔ ورنہ فارسی اور عربی میں تو اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا اکثر۔
 
Top