نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

S. H. Naqvi

محفلین
مہوش بہن آپ مجھے نہیں یقین تھا کہ آپ اتنی سطحی نظر رکھتی ہیں کہ میرے سوال کو سمجھے بغیر آپ نے اتنا بچگا نہ جواب دے دیا ۔ خیر شوکت بھا یٔ نے اس کی نشاندہی کر دی ہے کہ
مثال آپ کچھ دے رہی ہیں اور واقع کچھ ہے جن اختیارات کا آپ نے ذکر کیا وہ حاکم وقت کو حاصل ہوتےہیں مگر اس مثال کو آپ جس واقعے کی طرف دے رہی ہیں وہ حاکم وقت کے اختیار سے باہر ہے ۔ وہ مسئلہ ہے حرام و حلال کا ۔ حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا اور حلال وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا۔ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی کا مختار نہیں
اس چیز کو آپ کیوں نہیں پک کر رہی؟؟؟؟ یا آپ کے پا س کویٔ دلیل نہیں ہے؟ یہ سوال میں نے اس لیے اٹھایا کے قرآن کے حوالے سے کٔی صا حب علم اسی جگہ بے تحاشہ دلا ٔل دے چکے ہیں اور یہ سیدھا سا دہ ایک عقلی سوال ہے کے جب جناب علی، جو ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتے ہیں نے جناب عمر کی تایٔد کی، سوأے چند ایک بوسیدہ رایتوں کے، تو ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟؟؟
دوسرا آپ نے بوکھلاہیٹ میں ایک انتیا یٔ غلط بات کی کہ:
 چنانچہ اب پھر عمران بن حصین کی روایت پر پلٹتے ہیں اور کاؤنٹر سوال برقرار ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر آپکو ماننا پڑے گا کہ قرآنی آیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چنانچہ اب ہزار حضرت عمر ہوں یا ہزار حضرت علی، مگر اگر قرآن کی آیت کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو وہ ان دونوں کو کسی صورت معاف نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آپ پھر کیسے یہ کہہ کر مطمئین ہو سکتے ہیں کہ چونکہ علی ابن ابی طالب نے تلوار نہ اٹھائی تو اس قرآنی آیت کی خلاف ورزی صحیح ہو گئی؟

اس عقلی دلیل کا آپ نے انتہا یٔ غلط سوالیہ جواب دے کرظلم عظیم کیا ہے۔ ہمارا تو بطور مسلمان عقیدہ ہے کہ علی حق ہیں اور علم کا شہر ہیں ان سے زیادہ کون قرآن کو جانتا ہے اور اگر، آپ کی عقل کے مطا بق
انہوں نے قر آن کی خلاف ورزی کی لیکن ہمارا ایمان ہے ہماری عقل، ہماری تشریع غلط ہو سکتی ہے مگر مولا علی کی تشریح کبھی غلط نہیں ہو سکتی اور اگر ان کے عمل سے ایک آیت کا "نا" ہو اور ہمارا تمھارا علم اسے " ہان" ثا پت کرتا رہے تب بہھی علی کامل ہیں وہی تشریع قرآن ہیں اور انہی کی زندگی عملی قرآن ہے۔۔۔


دوسرا یہ تصویریں دینے اور فضا ٔل متعہ کو بتا نے کا مقصد یہ تھا کے آپ کے اس جملے کا جواب دیا جاۓ کہ:
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
اور اس کا بھی جواب آپ الجھا گیٔں کہ فضا یٔل کا ذکر بعد میں آۓ گا۔
منہا ج الصادقین کے حوالے کو آپ نے غلط کہا تو میں نے آپ کی دیگر چار کتب سے حوالے نکا ل کر آپ کو د کھا دیے، تو بتانا پسند کریں گی کہ اگر نکا ع دأمی کو فوقیت ہے اور متعہ صرف انتہا ضرورت کا فعل ہے تو آپ کی ہر کتاب اس کی فضیلتوں اور ثوابات سے کیوں بھری ہویٔ ہے؟ جبکہ "نکاح دائمی" کے کیہں بھی اتنے فضا ٔل نہیں بیان کیے جاتے اور روایتوں سے ہٹ کر دیکھیں تو ہمیں ہرجگہ " النکا ع من سنتی" کی
حدیث ہی نظر آتی ہے چہ جا یٔکہ" المتعہ من سنتی"۔ یعنی متعہ کی اتنی فضیلت پر کر عقل سو چتی ہے نا کہ اگر یہ اتنا ہی افضل عمل تھا تو ہادیٔ دو عا لم صل اللہ علیہ و آلہ و اصحاب و سلم " المتعہ من سنتی" کہے کر ججگڑا کیوں نا ختم کر دیا یا کو یٔ اور اس طرع کا واضح حکم کیوں نا دے کہ جس سے فرضیت بھی نا ہوتی اور متعہ کے "ثواب بے بہا" سے محرومی بھی نا ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔!
 
یہ بحث اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اس بحث کا ا یک فائدہ یہ ہوا کہ متعہ کا حسن وقبیح لوگوں پر خوب واضح ہوتا جارہا ہے۔انشاءاللہ اپنے وقت پر جو رہی سہی غلط فہمیاں ہوں گئی وہ بھی یہاں اسی فورم پر دور کر دی جائیں گئی۔
گو کہ اس وقت مداخلت کا کوئی خاص ارادہ نہ تھا تاہم ایک چیز میں مہوش سے دریافت کرنا چاہوں گا مہوش نے کہا ہے کہ

چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اور اب اس عیاری و افتراء کو کئی سو سال گذر چکے ہیں اور ختم ہونے کی بجائے یہ چیز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ یہودی پروپیگنڈہ ان کذابوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چیز یکطرفہ نہیں "دو طرفہ" ہے اور دونوں سائیڈوں پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو غلط باتیں ایک دوسرے سے منسوب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ، چاہے انکا تعلق کسی گروہ سے ہو، ان سب کے اس طرز عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور یہی چیز انصاف کے قریب ہے۔

37002245um8.jpg


یہ ملا فتح کاشانی کی منہج الصادقین متعلقہ صفحہ ہے ذرا بتائیے تو کہاں اس میں انہوں نے اس روایت کو مجھول کہا ہے؟
اس ایک ہی صفحے میں‌ متعہ کے کئی فضائل موجود ہیں
1۔جس نے ایک دفعہ متعہ کیا وہ خدا کے غصے سے نجات پا گیا جو شخص دو بار متعہ کرے گا اس کا حشر ابرار کے ساتھ ہوگا اور جو تین مرتبہ متعہ کرے گا وہ میرے ساتھ (یعنی آنحضرت کے ساتھ) جنت میں داخل ہوگا

2۔ پھر وہی حدیث کہ ایک مرتبہ متعہ کرنے پر حضرت حسین دو دفعہ پر حضرت حسن تین دفعہ پر حضرت علی اور چار دفعہ کرنے پر آنحضرت کا درجہ
یہ حدیث پہلے عربی میں نقل کی گئی ہے پھر اس کا فارسی میں ترجمہ ہے اس کے فورا بعد شیخ صدوق ایک اور حدیث بیان کر رہے ہیں کہ جو شخص دنیا میں متعہ نہ کرے گا وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے کان ناک کٹے ہوئے ہو گئے۔ جبکہ آپ فرما رہی ہیں کہ


اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔

اب بتائیے یہ کہاں وہ فرما رہے ہیں اس کے برخلاف تو وہ دھڑا دھڑ ایک کے بعد دوسری حدیث متعہ کے فضائل کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں؟؟

دوسری بات یہ کہ اہل تشیع کی کتابوں میں متعہ کو ایک بہت ضروری فعل بتایا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت جعفر صادق نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے دور کے دوبارہ پلٹنے اور متعہ کے حلال ہونے پر یقین نہ رکھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(من لا یحضرہ الفقیہ جلد سوم ص 282)

اور یہی نہیں بلکہ ایسی بے شمار رویات ہیں لیکن ان پر بعد میں بات کریں گئے

اور ذرا ایک اور بات صاف کر دیجئے کہ آپ فرما رہی ہیں کہ متعہ ایران میں باقاعدہ رجسٹرد ہوتے ہیں لیکن شیخ صدوق تو کچھ اور ہی فرما رہے ہیں

10053366.jpg


pagesfrommanlayadharulfq.jpg


اب آپ بتائیے کہ کہاں آپ متعہ کو رجسٹرڈ کروانے کی بات کر رہی ہیں لیکن یہاں تو معاملہ بالکل ہی دوسرا ہے؟

اس صفحے کے آخر میں ایک اور بڑی عبرت ناک روایت موجود ہے جس کو بعد ازاں نقل کروں گا۔

واضح رہے کہ یہ روایات اہل تشیع کی کتب اربعہ میں سے ایک کتاب کی ہیں کسی چھوٹی موٹی کتاب کی نہیں۔

علاوہ ازیں مہوش ایک بار پھر آپ سے عرض کروں گا کہ آپ بالکل مایوس نہ ہوں جو دلائل اب تک آپ دے چکی ہیں جلد ہی ایک ایک بات کا آپ جواب بھی پائیں گی۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بھا یٔ گرافکس عرض ہے کہ آپ کی باتیں ٹھیک ہیں اور بارہ سال امام بارگاہ کی ہمسا یٔگی اور مشا ہدہ بھی اپنی جگہ ، مگر یہاں ایک علمی، عقلی اور منطقی بحث ہو رہی ہے تو براہ مہربانی ایسے حوالہ جات نہ دیں مبادا کہ تھریڈ کلوز ہی نا کر دیا جائے، اس بحث کو ایک منطقی انجام تک پہو چنے دیں۔

تو مہوش پہن اب کیا فرما یٔں گی بیچ اس مسلئے کے، آپ نے منہاج ا لصادقین کے حوالے کو غلط کہا تو ابن حسن بھایٔ نے اصل نکا ل کر دکھا دیا اس کے علاوہ دیگر چار کتب صحیہ میں سے بھی میں حوالہ جات دکھا چکا
تو براۂ مہربانی میری اس سے پچھلی پوسٹ کے جوابات ٹو دی پوا نٔٹ دیں تا کہ فضو لیات سے بچا جا سکے۔

اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد
 
اور فاروق سرور خان صاحب اگر آپ متعہ کے ان احکامات کی تفاصیل، جو محترمہ اتنی تفصیل بتا رہی ہیں، قرآن کریم سے فراہم کرسکیں ویسی ہی تفصیل جیسی قرآن نکاح، طلاق کے بارے میں فراہم کرتا ہے۔
وسلام

بھائی دوست، سلام

آج تک میرے علم میں متعہ کے بارے میں کوئی بھی آیت نہیں ۔ حتی کہ وہ آیت جو متع کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے وہ بھی متع یعنی وقتی فائیدہ کی جگہ ۔ محصنین بنانے کا ---- اور مسافحین نہ بنانے کا حکم دیتی ہے۔

اللہ کے فرمان ، قرآن کا نکاح کا فریم ورک اور طلاق کا فریم ورک بہت مظبوط اور مکمل ہے۔ بلکہ دیگر مذاہب سے کئی درجہ بہتر ہے ۔ متعہ کا اگر فریم ورک مجھے ملا ہوتا تو انتہائی ایمانداری سے اس کو سب سے شئیر کرتا، چھپاتا نہیں۔


متعہ، باندیوں کو بناء شادی کے استعمال کرنا اور عورتوں کے زبردستی وارث بن بیٹھنے کی قرآن حکیم سے مخالفت ملتی ہے ۔۔۔ خدا جانے عورتوں‌کا استحصال کرنے کی روایات کی بنیاد کیا ہے۔

والسلام
 
ش

شوکت کریم

مہمان
حکومت وقت یا حاکم وقت کو صرف اور صرف "معاملات" میں اجازت ہے کہ حالات کے مطابق تبدیلی کر سکیں۔
مگر جب بات آتی ہے عبادات کی تو اس میں کوئی حکومت وقت یا حاکم وقت مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

چنانچہ عقد المتعہ کے معاملے میں ہمارا حضرت عمر سے فقط اتنا اختلاف ہے کہ ہم انکی ذاتی رائے کو غلطی مانتے ہیں، جبکہ "متعہ الحج" کے معاملے میں ہمیں انتہائی بڑا اعتراض ہے کیونکہ یہ "عبادات" کا معاملہ ہے اور اس میں حاکم کو دخل دینے کا ہرگز کوئی حق نہیں۔ چنانچہ اس مسئلےمیں آپ کو حضرت علی کی مخالفت بالکل صاف نظر آ جائے گی۔

اب اس پر کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا! لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

یہ تو نہایت عام فہم سی بات ہے کہ بقول آپلے متعہ کو اللہ تعالٰی نے حلال کیا، اور اس کا نسخ بھی قرآن و حدیث‌ میں نہیں پھر جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالٰی کے حلال کئے ہوئے کو حرام کیا اور آپ کہہ رہی ہیں یہ معاملات کا معاملہ تھا۔ اجی یہ حلال و حرام کا معاملہ تھا اور ہے پورے معاشرے کو تہہ و بالا کرنے والی بات‌ ؟؟؟

ملاحظہ کیجئے بہار انوار جلد 4 سے امام باقر رح کا قول کہ وہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے۔

ou4lyt.jpg
 

مہوش علی

لائبریرین
مثال آپ کچھ دے رہی ہیں اور واقع کچھ ہے جن اختیارات کا آپ نے ذکر کیا وہ حاکم وقت کو حاصل ہوتےہیں مگر اس مثال کو آپ جس واقعے کی طرف دے رہی ہیں وہ حاکم وقت کے اختیار سے باہر ہے ۔ وہ مسئلہ ہے حرام و حلال کا ۔ حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا اور حلال وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا۔ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی کا مختار نہیں۔
دوسرے لفظوں میں‌ آپ کہنا چاہتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلال عورت کو حرام کیا۔ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اختیار میں نہیں تھا اور نہ انہوں نے کیا۔ اور اگر آپ کے نزدیک ایسیا ہوا تو تمام صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟؟؟

شوکت بھائی،
آپ کو پہلے "حرام کرنے" اور "منع کرنے" کا فرق پتا ہونا چاہیے۔ حضرت عمر نے کچھ چیزوں سے بطور حاکم منع کیا تھا، مگر کبھی انہیں رسول اللہ ص کی طرف منسوب کر کے حرام نہیں قرار دیا تھا (جیسا کہ بعد میں آنے والوں نے کیا ہے)

۔ اور اب یہ سمجھیں کہ میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے جو کہ آپکی کتب سے ایسی مصدقہ طور پر ثابت ہے کہ جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے۔ تو جب آپکے لیے ممکن نہ ہو سکا کہ انکا براہ راست جواب دے سکیں، تو اب آپ اپنی قیاسی عذر پیش کر کے ان حقائق کو جھٹلانا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے۔

1۔ چنانچہ سب سےپہلے آپ کو اس حقیقت کے متعلق ہاں یا ناں میں جواب دینا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں یہ دو روایات پیش کی تھیں:
Sahih Muslim, Book 007, Number 2816:

Sa'id b. al-Musayyab reported that 'Ali and 'Uthman (Allah be pleased with them) met at 'Usfan; and Uthman used to forbid (people) from performing Tamattu' and 'Umra (during the period of Hajj), whereupon 'Ali said: What is your opinion about a matter, which the Messenger of Allah (may peace be upon him) did but you forbid it? Thereupon Uthman said: You leave us alone, whereupon he ('Ali) said: I cannot leave you alone. When 'Ali saw this, he put on Ihram for both of them together (both for Hajj and 'Umra).

Sahih Bukhari, Volume 2, Book 26, Number 640

Narrated Said bin Al-Musaiyab:
'Ali and 'Uthman differed regarding Hajj-at-Tamattu' while they were at 'Usfan (a familiar place near Makka). 'Ali said, "I see you want to forbid people to do a thing that the Prophet did?" When 'Ali saw that, he assumed Ihram for both Hajj and 'Umra
اب صحابی عمران بن حصین کی گواہی دیکھیں:
حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

اگر آپ اس روایت کو عقد المتعہ کے لیے مانیں تو بات ایسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اصرار کریں کہ یہ متعہ الحج کے متعلق ہے تو پھر بھی یہ روایت آپکا گلا چھوڑنے والی نہیں اور آپکو بتلانا ہو گا کہ قرآن کی یہ مخالفت کی گئی اور پھر اس صحابی عمران بن حصین نے تلوار نہیں نکالی؟ کیوں؟
روایت آپکی مگر اس کیوں کا جواب کبھی آپ نہیں دیتے اور الٹا ہم پر برس پڑتے ہیں کہ ہم جواب دیں۔ اور ہم جو جواب دیں اس کا آپ استہزاء کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ یہ تمام تر Tactics استعمال کر سکتے ہیں، مگر اپنی جان پھر بھی ان روایتوں سے نہیں چھڑا سکتے اور بہرحال آپکو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہوا اور صحابہ نے قرآن کی مخالفت ہوتے دیکھی مگر اس پر فورا تلوار نکال کر قتل عام شروع نہیں کر دیا، بلکہ ایسی حالت میں انہوں نے صرف زبان سے ان قرآن مخالف چیزوں کی مخالفت کی اور یہ مخالفت مستقل جاری رکھی اور یہی اسلام کے مفاد میں بہترین تھا بجائے تلواریں نکال کر اسلامی سلطنت میں خانہ جنگی پیدا کرنے کے۔

اور اب ذیل میں ایک اور روایت آپکے لیے، جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اپنی رائے سے ان قرآنی احکامات میں تبدیلی کر رہے ہیں اور صحابہ انکے خلاف تلوار اٹھا کر قتل عام نہیں شروع کر دیتے:
Sahih Muslim, Book 007, Number 2814
Abu Musa, (Allah be pleased with him) reported that he used to deliver religious verdict in favour of Hajj Tamattu'. A person said to him: Exercise restraint in delivering some of your religious verdicts, for you do not know what the Commander of Believers has introduced in the rites (of Hajj) after you (when you were away in Yemen). He (Abu Musa, ) met him (Hadrat Umar) subsequently and asked him (about it), whereupon 'Umar said: I know that Allah's Apostle (May peace be upon him) and also his Companions did that (observed Tamattu'), but I do not approve that the married persons should have intercourse with their wives under the shade of the trees, and then set out for Hajj with water trickling down from their beads.​

تو اب دکھلائیے کہ کہاں صحابہ تلوار نکال کر خون بہانا شروع کر رہے ہیں؟ آپ جو مرضی Tactics کھیل لیں، مگر اس روایت سے فرار ممکن نہیں کہ ایک طرف اس حقیقت کو بھی آپ قبول کریں یہ واقعہ ہوا، اور پھر دوسری طرف تلوار کا عذر پیش کر کے اسکا انکار بھی کر دیں۔

عبداللہ ابن عمر کی تلوار نکالنے کی بجائے اپنے والد کی زبانی مخالفت
کاش کہ آپ عبداللہ ابن عمر سے ہی کچھ سیکھ لیں، مگر اسکے لیے آپ کو اپنے قیاسی عذروں سے توبہ کر کے نصوص کی طرف توجہ دینا پڑی گی، اور ابتک آپ انہی نصوص سے بھاگتے چلے جا رہے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ رَجُلاً، مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلاَلٌ ‏.‏ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا ‏.‏ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ‏.‏ [/FONT]
ترجمہ:
"عبداللہ ابن عمر سے پوچھا گیا کہ وہ حج کے متعہ کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: یہ حلال ہے۔اس پر سوال پوچھنے والے نے کہا: مگر آپکے والد (حضرت عمر ابن الخطاب) تو اس سے منع کیا کرتے تھے (منع اور حرام میں فرق کیجئے)۔ اس پر عبداللہ ابن عمر نے جواب دیا: اگر میرا باپ کسی چیز سے منع کرے مگر اللہ کا رسول ص اس کا حکم دے تو مجھے پھر کس کی پیروی کرنی چاہیے ہے؟ کیا میں رسول اللہ ص کے حکم کو مانوں یا پھر اپنے باپ کی بات کو؟ اس پر وہ شخص بولا: بے شک پھر (صرف) اللہ کے رسول ص کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔
حوالہ: آنلائن سنن ترمذی، حدیث 832

دیکھا آپ نے کہ صحابی عبداللہ ابن عمر اللہ اور اسکے رسول کے قول کو اولین ترجیح دے رہے ہیں اور حضرت عمر یعنی اپنے والد کی رائے کو اسکے مقابلے میں قبول نہیں کر رہے۔ کاش کہ آپ لوگ بھی یہ رویہ اپنا سکیں اور حضرت عمر کا نام آتے ہی جذباتی ہونے کی بجائے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے قرآن وسنت نبوی کے پیمانے پر چیزوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے ناپ سکیں۔

علامہ ابن قیم الجوزیہ بھی اسی اپنی کتاب زاد المعاد میں یہی روایت نقل کرتے ہیں:
وقال عبد الله بن عمر لمن سأله عنها وقال له : إن أباك نهى عنها : أأمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أحق أن يتبع أو أمر أبي ؟

یعنی کسی نے عبداللہ ابن عمر سے متعہ کے متعلق سوال کیا کہ آپکے والد تو اس سے منع کرتے ہیں، تو اس پر عبداللہ ابن عمر نے اُسے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ص کا حکم اس بات کا زیادہ حق نہیں رکھتا کہ اسکی پیروی کی جائے یا پھر میرے باپ کے حکم کی؟
حوالہ: زاد المعاد، جلد 2، صفحہ 176

اور یہی عبداللہ ابن عمر تھے کہ جب ان سے عورتوں کے ساتھ عقد المتعہ کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو یہ پھر سے غضبناک ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ص کے زمانے میں زناکار نہیں تھے:
حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبيد الله بن إياد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏إياد يعني ابن لقيط ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي ‏ ‏قال ‏
‏سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
‏قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]

تو اب دکھلائیے کہاں ہے وہ تلوار اور کہاں ہے وہ کشت و خون؟ مگر کیا آپکو یہ زبان سے مخالفت نظر آ رہی ہے کہ نہیں؟

حضرت عمر کی اپنی گواہی کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں دو متعہ رائج تھے جنہیں وہ اپنی رائے سے منع کر رہے ہیں

[FONT=times new roman(arabic)] عن عمر قال‏:‏ متعتان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم انهى عنهما واعاقب عليهما‏:‏ متعة النساء، ومتعة الحج‏.‏ [/FONT]​
[FONT=times new roman(arabic)] ‏(‏أبو صالح كاتب الليث في نسخته، والطحاوي‏)‏‏.‏ [/FONT]​
ترجمہ: حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں دو طرح کے متعہ رائج تھے، مگر میں ان دونوں کی ممانعت کرتا ہوں، اور یہ دو ہیں متعہ النساء اور متعہ الحج۔
حوالہ: آنلائن کنزالاعمال، حدیث 45715
مزید حوالے:
آنلائن احکام القرآن الجصاص، سورۃ النساء، باب المتعہ
تفسیر الکبیر، از امام فخر الدین کبیر رازی، صفحہ 42 اور 43

اور مسند امام احمد بن حنبل میں موجود ہے:
حدثنا ‏ ‏بهز ‏ ‏قال ‏ ‏وحدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏قالا حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏حدثنا ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أبي نضرة ‏ ‏قال قلت ‏ ‏لجابر بن عبد الله ‏
‏إن ‏ ‏ابن الزبير ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏ينهى عن المتعة وإن ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏يأمر بها قال فقال لي على يدي جرى الحديث تمتعنا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏عفان ‏ ‏ومع ‏ ‏أبي بكر ‏ ‏فلما ولي ‏ ‏عمر ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏خطب الناس فقال ‏ ‏إن القرآن هو القرآن وإن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏هو الرسول وإنهما كانتا متعتان على عهد رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إحداهما متعة الحج والأخرى متعة النساء ‏

ترجمہ: ۔۔۔ جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو ایک خطبہ دیا: یہ قرآن وہی قرآن ہے اور رسول ص وہی رسول ص ہیں۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں دو طرح کے متعہ رائج تھے، ایک متعہ النساء اور ایک متعہ الحج۔
حوالہ: آنلائن مسند احمد بن حنبل، جلد 1، حدیث 347

اب حضرت عمر کی اپنی گواہی کے بعد آپ کہاں جائیں گے؟ یا پھر ابھی بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑاتے پھریں گے؟
روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر کی نظر میں کچھ وجوہات آ گئی تھیں کہ جن کی بنا پر انہوں نے رسول اللہ ص کے رائج کردہ ان دونوں متعوں سے منع کر دیا (متعہ الحج میں حضرت عمر کو یہ پسند نہ آیا کہ حج اور عمرے کے دوران لوگ اپنی بیویوں سے مباشرت کریں، اور متعہ النساء سے انہوں نے اپنی رائے سے اُس وقت منع کیا جب عمرو بن حریث کا واقعہ پیش آیا کہ جس کا ذکر آگے تفصیل سے آئے گا)۔
چنانچہ ہمارا اختلاف حضرت عمر سے فقط اتنا ہی ہے کہ جتنا کہ حضرت علی نے کیا اور وہ یہ کہ ہم ان دونوں معاملات میں انکی رائے کو صحیح نہیں مانتے۔ اور حضرت عمر کے مقابلے میں بعد میں آنے والوں سے ہمارا اختلاف زیادہ بڑا ہے کیونکہ انہوں نے کھل کر رسول اللہ ص پر جھوٹ باندھنا شروع کر دیا ہے کہ رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام کیا۔ جبکہ حضرت عمر نے ایسا کوئی جھوٹ نہیں بولا بلکہ انہوں نے صاف صاف اس ممانعت کو اپنی ذاتی رائے قرار دیا۔

حضرت علی کی مخالفت
از شوکت کریم:
۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟؟؟
میں نے بلاوجہ تو اس پر احتجاج نہیں کیا تھا کہ آپکی نظریں مسلسل ہمارے دلائل سے پھسل جاتی ہیں۔ خود تو آپ کی طرف سے دلیل آتی نہیں (سوائے قیاسات کے)، اور اگر ہم پیش کریں تو وہ آپکی نظر میں کوئی وقعت ہی نہیں رکھتی، تو اب خود بتلائیں کہ یہ بحث کیسے آگے بڑھے؟
اہل تشیع کی کتب کو چھوڑئیے، خود آپکی اپنی کتابوں میں حضرت علی کے متعلق صاف صاف لکھا ہے کہ آپ عقد المتعہ کو اللہ کی رحمت سمجھتے تھے اور حضرت عمر سے اس معاملے میں اختلاف کرتے تھے۔حضرت علی کے متعلق صاف صاف طور پر ہم یہ روایت پہلے پیش کر چکے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
اس روایت کے راوی حضرات: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)

اب آپ لوگ جواب میں دلیل لانے کی بجائے اپنے قیاسات لاتے پھریں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
جی ہاں، دلیل کیا پیش کرنی، ایک گھڑی ہوئی جھوٹی روایت پیش کر دی جاتی ہے کہ حضرت علی نے ابن عباس کو کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے خیبر کے روز عقد متعہ کو تاقیامت منع کر دیا تھا۔ جی ہاں، بالکل جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے اور حضرت علی پر جھوٹ ہے۔

سوال: اگر علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو واقعی خیبر میں متعہ کی رسول اللہ ص سے حرمت کا بتلا دیا تھا تو پھر ابن عباس اپنی زندگی کے آخر تک متعہ کے جواز کا فتوی کیوں دیتے رہے؟

انسان چالیں چلتا ہے، مگر اللہ سب سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے۔
بہت سے صحابہ نے گواہیاں دیں کہ وہ رسول اللہ ص، پھر حضرت ابو بکر اور پھر اسکے بعد جناب عمر کی خلافت کے نصف یا آخر تک عقد متعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد اس کی ممانعت کر دی۔

اس پر بھائی لوگوں نے جھوٹا عذر گھڑا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی حرمت صحیح اور مکمل طور پر نہیں پہنچائی اس لیے یہ جانے انجانے میں ان تمام سالوں تک عقد المتعہ کے نام پر غلط کاری کرتے رہے۔

مگر انکا یہ بہانہ الٹا ان کے گلے صدیوں سے پڑا ہوا ہے کہ آپکا تو دعوی ہے کہ حضرت علی نے خصوصی طور پر عبداللہ ابن عباس کو رسول اللہ ص کی اس حرمت کا بتلایا تھا کہ خیبر میں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام کر دیا تھا۔ تو اب آپ ابن عباس کی "لاعلمی" کا کونسا بہانہ بنا سکتے ہیں؟

آپکی روایات کا اب ایک جم غفیر ہے جو ثابت کر رہا ہے کہ ابن عباس نے طویل زندگی پائی اور اپنی زندگی کے آخر تک (جب وہ نابینا ہو گئے) کسی ایسی رسول اللہ ص سے مروی حرمت کا دور دور تک پتا نہیں، اور اس لیے وہ مسلسل عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے۔

بے شک و بلا شبہ تاریخ ایک ایسا TOOL ہے جو ایسی بہت سے جھوٹے اور گھڑے ہوئے قصوں کا قصہ ہی تمام کر دیتی ہے۔ (اسی لیے شاید بھائی لوگ سب سے زیادہ اس سے الرجک ہیں)

اب ذرا آنکھیں کھول کر پڑھئیے اپنی ہی کتاب کی صحیح روایت:

آنلائن لنک: صحیح مسلم، کتاب النکاح
و حدثني ‏ ‏حرملة بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏ابن وهب ‏ ‏أخبرني ‏ ‏يونس ‏ ‏قال ‏ ‏ابن شهاب ‏ ‏أخبرني ‏ ‏عروة بن الزبير ‏
‏أن ‏ ‏عبد الله بن الزبير ‏ ‏قام ‏ ‏بمكة ‏ ‏فقال ‏ ‏إن ناسا أعمى الله قلوبهم كما أعمى أبصارهم يفتون ‏ ‏بالمتعة ‏ ‏يعرض برجل فناداه فقال إنك لجلف جاف فلعمري لقد كانت ‏ ‏المتعة ‏ ‏تفعل على عهد إمام المتقين ‏ ‏يريد رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فقال له ‏ ‏ابن الزبير ‏ ‏فجرب بنفسك فوالله لئن فعلتها لأرجمنك بأحجارك ‏ ‏قال ‏ ‏ابن شهاب ‏ ‏فأخبرني ‏ ‏خالد بن المهاجر بن سيف الله ‏ ‏أنه بينا هو جالس عند ‏ ‏رجل ‏ ‏جاءه رجل فاستفتاه في ‏ ‏المتعة ‏ ‏فأمره بها فقال له ‏ ‏ابن أبي عمرة الأنصاري ‏ ‏مهلا قال ما هي والله لقد فعلت في عهد إمام المتقين قال ‏ ‏ابن أبي عمرة ‏ ‏إنها كانت رخصة في أول الإسلام لمن اضطر إليها كالميتة والدم ولحم الخنزير ثم أحكم الله الدين ونهى عنها ‏
ترجمہ:
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن زبیر مکہ میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ کچھ لوگوں (ابن عباس) کے دلوں کو اللہ نے اسی طرح اندھا کر دیا ہے جس طرح انکی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے کہ وہ متعہ کے جواز حق میں فتوی دیتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بزرگ (ابن عباس) جوابا کہنے لگے کہ (اے ابن زبیر) تو بدمعاش مفسدہ پرواز ہے۔ اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں متعہ تمام متقیوں کے پیشوا اور امام یعنی رسالت مآب ﷺ کے سامنے کیا جاتا تھا۔ اس پر ابن زبیر کہنے لگا کہ اچھا ایک دفعہ تو یہ تجربہ اپنے اوپر تو کر اور پھر دیکھ میں اس متعہ کرنے پر تجھے کیسے سنگسار کرتا ہوں۔

تمام علماء متفق ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس اپنی زندگی کے آخری دور میں جا کر نابینا ہوئے تھے۔ مثلا دیکھئے البدایہ و النہایہ جس میں ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس نے سن 68 ہجری (یعنی رسول اللہ ص کی وفات کے 58 سال بعد) وفات پائی اور آپ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے
حوالہ: البدایہ و النہایہ (اردو ترجمہ)، جلد 8، صفحہ 1291، سن 68 کے حالات

چنانچہ کیا کوئی عقل اور تدبر و تفکر کرنے والا شخص اس جھوٹ پر اب یقین کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے "نصف صدی" سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد (58 سال) کے بعد بھی ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی، جنہیں آپ خود حبر الامت اور ترجمان القران کا لقب دیتے ہیں انہیں اپنی زندگی کے آخر تک علی ابن ابی طالب کی خبیر والی حرمت کا پتا ہوتا ہے اور نہ دور دور تک کسی اور حرمت کا؟؟؟
چنانچہ ابن عباس کا رسول ص کی وفات کے 58 سال بعد تک عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دے رہے ہیں جو اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ یہ خیبر و فتح مکہ والی روایات مکمل طور پر جھوٹی روایات ہیں اور ابن عباس کی وفات کے وقت تک انکا وجود تک نہ تھا بلکہ اُن کے بہت بعد میں لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کرنا شروع کر دیں۔
(نوٹ: ابن عباس اور ابن زبیر کے مابین اس جھگڑے کے متعلق اور بہت سی روایات ہیں جو وقت آنے پر پیش ہوں گی)

ابن عباس پر مزید جھوٹ کا باندھے جانا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا
اب مرتے کیا کرتے کہ ایسے بُرے پھنسے تھے کہ دم نکلا جا رہا تھا۔
چنانچہ جھوٹ کا یہ تیر آگے آگے بے دریغ چلایا جاتا رہا،۔۔۔۔ مگر انسان چالیں چلتا ہے مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

چنانچہ آخری حربے کے طور پر ابن عباس پر جھوٹ باندھا گیا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نقل کرنے یا جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا بستر مرگ پر ابن عباس کے پاس وہ کونسی نص ہاتھ آ گئی جو کہ رسول اللہ ص کی وفات کے پورے 58 سال تک انکے پاس نہ آئی تھی؟
یہ ایسی گھٹیا حرکت تھی کہ خود اہلسنت کی بہت سے علماء اس جھوٹ پر احتجاجا چیخ اٹھے۔ مثلا:
علامہ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]قال ابن بطال‏:‏ روى أهل مكة واليمن عن ابن عباس إباحة المتعة، وروي عنه الرجوع بأسانيد ضعيفة وإجازة المتعة عنه أصح، وهو مذهب الشيعة‏.‏
[/FONT]ترجمہ: ابن بطال کہتےہیں: اہل مکہ اور اہل یمن ابن عباس سے اباحت کا قول روایت کرتے ہیں۔ اور یہ روایت کمزور ضعیف سند رکھتی ہے کہ ابن عباس نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا، جبکہ اسکے مقابلے میں عقد المتعہ کی اجازت دینے والی روایت صحیح ہے، اور یہ مذہب ہے شیعہ کا بھی۔
آنلائن فتح الباری، جلد 9، کتاب النکاح

مرقاۃ جو مستند سمجھے جانی والی شرح ہے المشکوۃ کی، اس میں ملا علی قاری لکھتے ہیں:
ولا تردد في أن ابن عباس هو الرجل المعرض به وكان قد كف بصره فلذا قال ابن الزبير كما أعمى أبصارهم وهذا إنما كان في حال خلافة عبد الله بن الزبير وذلك بعد وفاة على كرم الله وجهه فقد ثبت أنه مستمر القول على جوازها ولم يرجع

ترجمہ:
اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ ابن عباس کا مضحکہ اڑایا گیا کیونکہ وہ نابینا تھے، چنانچہ اسی پر ابن زبیر نی کہا تھا کہ جن کی آنکھیں اندھی ہیں، اور یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب عبداللہ ابن زبیر علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلیفہ بنا تھا، اور یہ بات ثابت ہے کہ ابن عباس مستقل طور پر اسکے بعد عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے اور انہوں نے کبھی اس سے رجوع نہیں کیا
حوالہ: مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
اور فتح القدیر جو فقہ کی کتاب الھدایہ کی مستند شرح ہے، اس میں ہے:
"اور ابن عباس کا عقد المتعہ کے جواز میں قول ثابت ہے انکی زندگی کے آخری دن تک"

اور مولانا مودودی لکھتے ہیں اپنی کتاب رسائل و مسائل، جلد 3، صٖفحہ 53 پر کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آیا ابن عباس نے اپنے آخری وقت میں عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا؟ اس پر مودودی صاحب جواب دیتے ہیں:
"اس مسئلےپر مجھ سے پہلے کے اہل علم کی آراء میرے سامنے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے اور اس باب میں جو روایات میں نے دیکھی ہیں اُن کے مطابق ابن عباس نے کبھی عقد المتعہ سے رجوع نہیں کیا، بلکہ اسکے بالکل برخلاف آپ اسکے جواز میں فتوی دیتے رہے۔۔۔ اور پھر فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی نے مکہ شہر کے روایوں سے نقل کیا ہےکہ: "اہل مکہ نے ابن عباس سے جو فتوی نقل روایت کیا ہے وہ صرف متعہ کے جواز کا ہے، اگرچہ اسی روایات بھی ہیں جہاں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا، مگر انکی سندیں کمزور ہیں، جبکہ صحیح روایات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ اسکے جواز میں باقی رہے۔ بعد میں ابن حجر قبول کرتے ہیں کہ اس کے رجوع کرنے والی روایات میں اختلاف ہے۔

ابن عباس کے بعد انکے شاگرد، جو بلند پایہ تابعین ہیں، اُنکا عقد المتعہ پر قائم رہنا
اس ابن عباس کے عقد المتعہ سے رجوع کرنے والے جھوٹ کا سب سے بڑا دھڑم تختہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں ابن عباس کے جو بلند پایہ شاگرد تابعین ہیں، وہ سب کے سب عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہتے ہیں اور مسلسل اسکے حق میں فتوے دیتے ہیں۔
یہ بھی وہی چیز ہوئی کہ انسان نے اپنی چال چلی مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا تھا اور جھوٹ حق بات کے سامنے پاؤں نہیں جما سکا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:

التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير < الصفحة

قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }
ترجمہ:
امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔ تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔
اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی، اور شرح موطا امام مالک میں علامہ زرقانی لکھتے ہیں:

قال ابن عبد البر‏:‏ أصحاب ابن عباس من أهل مكة واليمن على إباحتها
ترجمہ: ابن عبدالبر کہتے ہیں:"ابن عباس کے اصحاب جو کہ مکہ اور یمن سے تھے، وہ عقد المتعہ کی اباحت میں یقین رکھتے تھے۔"
اور تفسیر مظہری میں ہے:
متعہ کی حلت کا فتوی تابعین کی ایک جماعت نے دیا ہے جن میں سے ابن جریح، طاؤس، عطاء، اور حضرت ابن عباس کے شاگرد اور سعید بن جبیر اور فقہاء مکہ بھی تھے۔
تفسیر مظہری، جلد 3، صفحہ 19

تفصیل کا وقت نہیں، اس لیے مختصرا ان بلند پایہ شاگردوں کا تعارف کہ جو ابن عباس کی وفات کے بعد بھی مستقل طور پر عقد المتعہ کے حق میں فتوی دیتے تھے کیونکہ انکے زمانے تک بھی یہ خیبر و فتح مکہ و اوطاس و حجۃ الوداع پر متعہ کو حرام کرنے والی جھوٹی گھڑی ہوئی روایات نہیں پہنچی تھیں، بلکہ یہ اُنکے بھی بعد گھڑی گئیں۔

طاؤس:
انکی وفات 106 ہجری میں ہوئی۔
انکی 85 روایات صحیح بخاری اور 78 روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

سعید بن جبیر:
انکی وفات سن 94 یا 95 ہجری میں ہوئی ہے۔
انکی 147 روایات صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ اور صحیح مسلم میں انکی 78 روایات موجود ہیں۔

عطاء:
انکی وفات 114 یا 115 ہجری میں ہوئی ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں انکی سو سے زیادہ روایات نقل ہیں۔

سوال: ابن عباس، طاؤس، عطاء، سعید ابن جبیر نے مرتے دم عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیا، تو پھر انہوں نے اس مسئلے پر صرف علمی مخالفت کی جنگ ہی کیوں جاری رکھی اور کیوں نہیں انہوں نے آپکی شرائط کے مطابق تلوار اٹھا کر قتل و خون شروع کر دیا؟

ابن عباس کے متعلق روایات تو بہت زیادہ ہیں، مگر مختصر وقت میں ممکن نہیں کہ ہر ہر چیز کا احاطہ کیا جائے، اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اعتراضات اور الزامات کو طومار بھرا پڑا ہے۔ بس اللہ سے استقامت کی دعا ہے اور انشاء اللہ جلد تمام مسائل پر گفتگو انجام کو پہنچنے والی ہے۔

اختتام پر ابن عباس کی ایک روایت:

امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]
 

دوست

محفلین
لو جی مجھے مرتے دم تک حیرت رہے گی کہ اللہ کریم نے یہ رحمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں کیوں کی۔ اس سے پہلے جو معاشرے میں زنا ہوتا رہا ہے اس کو روکنے کے لیے پہلے ہی متعہ کیوں نہ جاری کردیا گیا۔ شاید اللہ سائیں انتظار کررہے تھی مسلمان ذرا بالغ نظر ہوجائیں پھر متعہ جو جاری فرمایا جائے تاکہ مسلمان اس کی حقانیت کی سمجھ سکیں اور اس میں موجود بے پایاں رحمت کو محسوس کرسکیں۔ پر مسلمان بڑے ہی ناقص العقل ہیں آج بھی اسے رحمت نہیں زحمت اور ذلت خیال کرتے ہیں۔
العیاذ باللہ
 
ش

شوکت کریم

مہمان
شکریہ بہنا آپ نے اچھی محنت کی اور معاملے کو مزید صاف کر دیا۔ فی الحال تو دو اعتراضات کے جواب قبول فرمائیے ۔۔

شوکت بھائی،
آپ کو پہلے "حرام کرنے" اور "منع کرنے" کا فرق پتا ہونا چاہیے۔ حضرت عمر نے کچھ چیزوں سے بطور حاکم منع کیا تھا، مگر کبھی انہیں رسول اللہ ص کی طرف منسوب کر کے حرام نہیں قرار دیا تھا (جیسا کہ بعد میں آنے والوں نے کیا ہے)

اس سلسلے میں آپ بے شک میری قیاسی دلیلوں‌ پر نہ جائیے بلکہ اوپر والی پوسٹ میں صاحب بہار انوار کا لکھا ہوا مناظرے کا پورا واقعہ پڑھ لیجئے ۔۔۔

جی ہاں، دلیل کیا پیش کرنی، ایک گھڑی ہوئی جھوٹی روایت پیش کر دی جاتی ہے کہ حضرت علی نے ابن عباس کو کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے خیبر کے روز عقد متعہ کو تاقیامت منع کر دیا تھا۔ جی ہاں، بالکل جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے اور حضرت علی پر جھوٹ ہے۔

یہ تو بہت آسان ہے ضعیف ہے گھڑی ہوئی ہے‌؟؟؟ کسی محنت اور کسی قابلیت کی ضرورت نہیں بس کہہ دیا گھڑی ہوئی ہے ؟؟؟ چلیں‌ ایسے ہی سہی ذرا یہ تو دیکھئے ؟؟؟

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

106df8l.jpg
 
ش

شوکت کریم

مہمان
گذشتہ سے پیوستہ وہ گھڑی ہوئی روایت ہے تو یہ سب کیا ہے آپ ہی کی معتبر کتابیں اس گھڑی ہوئی روایت کی تصدیق کر رہی ہیں۔

( حرم رسول الله صلى الله عليه وآله يوم خيبر لحوم الحمر الأهلية ونكاح المتعة) انظر (التهذيب 2/186)، (الاستبصار 2/142) ، (وسائل الشيعة 14/441).

Amirul Mua'minin (as) said: Prophet (s.a.w) forbidden on the day of khaiber the

meat of donkeys and the mut'ah marriages.
(At-tahdheeb 2/186, Al-Istbsaar 2/142 & Wasael Al-Shia 14/144)​

امیری المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گدھے کے گوشت اور متعہ النساء کی ممانعت کر دی تھی۔


عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها) (بحار الأنوار 100/318).

It was narrated by Abdullah Bin Senan said : I asked Abu Abdullah about Mut'ah

and he said: "Don't filthy (defile) your self with it"
(Bihaar Al-Anwar 100/318).
عبداللہ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ سے متعہ کے بارے میں پوشھا تو انہوں نے کہا مت گندہ کرو اپنے نفس کو اس سے۔


عن عمار قال: قال أبو عبد الله عليه السلام لي ولسليمان بن خالد: (قد حرمت عليكما المتعة) (فروع الكافي 2/48)، (وسائل الشيعة 14/450).

Narrated by A'maar: Abu Abdullah said to me and to Suliman Bin Khaled: "I made

Mut'ah Haram on you"
(Furoo AlKafi 2/48 & Wasaeel Shia 14/450).​

وكان عليه السلام يوبخ أصحابه ويحذرهم من المتعة فقال: أما يستحي أحدكم أن يرى موضع فيحمل ذلك على صالحي إخوانه وأصحابه؟ (الفروع 2/44)، (وسائل الشيعة 1/450).

Also he (Abu Abdullah) used to rebuke and warn his companions against mut'ah ……

(Furoo 2/44), (Wasael Alshia 1/450)​





ولما سأل علي بن يقطين أبا الحسن عليه السلام عن المتعة أجابه:

( ما أنت وذاك؟ قد أغناك الله عنها ) (الفروع 2/43)، الوسائل (14/449).

Ali bin Yaqteen asked Aba Hassan about Mut'ah and he answered : "What is that

and You (In Arabic it means what has that got to do with you) Allah had

compensated you with something much better" (he meant legal marraige) (Furoo

2/43), (Wasael Al-shia 14/449).

عبد الله بن عمير قال لأبي جعفر عليه السلام (يسرك أن نساءك وبناتك وأخواتك وبنات عمك يفعلن؟ -أي يتمتعن- فأعرض عنه أبو جعفر عليه السلام حين ذكر نساءه وبنات عمه) (الفروع

2/42)، (التهذيب 2/186)

Abdullah Bin Umair said to Abi Ja'far (as) :Is it acceptable to you that your

women, daughters, sisters, daughters of your aunties do it (Mut'ah)? Abu Ja'far

rebuked him when he mentioned his women and daughters of his aunties.
(Al-Furoo 2/42 & At-tahdheeb 2/186)​
 

مہوش علی

لائبریرین
از شوکت کریم:
حدیث نمبر : 6814
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، کہا ہم کو یونس نے خبردی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رجم کا حکم دیا اور انہیں رجم کیاگیا۔ وہ شادی شدہ تھے۔

حدیث نمبر : 6824
مجھ سے عبداللہ بن الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہاہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب حضرت ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا غالباً تو نے بوسہ دیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا دیکھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہم بستری ہی کرلی ہے؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔

صحیح بخاری کتاب المحارمین

book 17. Punishments prescribed by islam.
Hadith 4196. (shahi muslim)
abu huraira reported that a person from amongst the muslims came to allah's messenger (may
peace be upon him) while he was in the mosque. He called him saying: Allah's messenger. I have
committed adultery. He (the holy prophet) turned away from him, he (again) came round
facing him and said to him: Allah's messenger, i have committed adultery. He (the holy
prophet) turned away until he did that four times, and as he testified four times against his own
self, allah's messenger (may peace be upon him) called him and said: Are you mad? He said: No.
He (again) said: Are you married? He said: Yes. Thereupon allah's messenger (may peace be upon
him) said: Take him and stone him. Ibn shihab (one of the narrators) said: One who had heard
jabir b. 'abdullah saying this informed me thus: I was one of those who stoned him. We stoned
him at the place of prayer (either that of 'id or a funeral). When the stones hurt him, he ran away.
We caught him in the harra and stoned him (to death). This hadith has been narrated through
another chain of transmitters.


Book 17. Punishments prescribed by islam.
Hadith 4198. (shahi muslim)
jabir b. Samura reported: As he was being brought to allah's apostle (may peace be upon him) i
saw ma'iz b. Malik a short-statured person with strong sinews, having no cloak around him. He
bore witness against his own self four times that he had committed adultery, whereupon allah's
messenger (may peace be upon him) said: Perhaps (you kissed her or embraced her). He said: No.
By god, one deviating (from the path of virtue) has committed adultery. He then got him
stoned (to death), and then delivered the address: Behold, as we set out for jihad in the cause of
allah, one of you lagged behind and shrieked like the bleating of a male goat, and gave a small
quantity of milk. By allah, in case i get hold of him, i shall certainly punish him.

Book 17. Punishments prescribed by islam.
Hadith 4199. (shahi muslim)
jabir b. Samura reported that there was brought to allah's messenger (may peace be upon him) a
short-statured person with thick uncombed hair, muscular body, having a mantle around him and
he had committed adultery. He turned him away twice and then made pronouncement about
him and he was stoned. Then allah's messenger (may peace be upon him) said: We set out for
jihad in the cause of allah and one of you lagged behind and shrieked like the bleating of a male
goat and one of then (goats' gave a small quantity of milk. In case allah gives me power over one
of them, i will punish him (in such a way that it may have a deterrent effect upon others). In
another narration transmitted on the authority of sa'id b jubair (the words are), that he (the holy
prophet) turned him away four times."

book 17. Punishments prescribed by islam.
Hadith 4202. (shahi muslim)
abu sa'id reported that a person belonging to the clan of aslam, who was called ma,iz b. Malik,
came to allah's messenger (may peace be upon him) and said: I have committed immorality
(adultery), so inflict punishment upon me. Allah's apostle (may peace be upon him) turned him
away again and again. He then asked his people (about the state of his mind). They said: We do
not know of any ailment of his except that he has committed something about which he thinks that
he would not be able to relieve himself of its burden but with the hadd being imposed upon him.
He (ma'iz) came back to allah's apostle (may peace be upon him) and he commanded us to stone
him. We took him to the baqi' al-gharqad (the graveyard of medina). We neither tied him nor dug
any ditch for him. We attacked him with bones, with clods and pebbles. He ran away and we ran
after him until he came upon the stone ground (al-harra) and stopped there and we stoned him
with heavy stones of the harra until he became motionless (lie died). He (the holy prophet) then
addressed (us) in the evening saying whenever we set forth on an expedition in the cause of allah,
some one of those connected with us shrieked (under the pressure of sexual lust) as the bleating
of a male goat. It is essential that if a person having committed such a deed is brought to me, i
should punish him. He neither begged forgiveness for him nor cursed him.

Book 41. The mudabbar.
Hadith 002. (maliks muwatta)
ab that a man from the aslam
tribe came to abu bakr as-siddiq and said to him, "i have committed adultery." abu bakr said
to him, "have you mentioned this to anyone else?" he said, "no." abu bakr said to him, "then
cover it up with the veil of allah. Allah accepts tawba from his slaves." his self was still unsettled,
so he went to umar ibn al-khattab. He told him the same as he had said to abu bakr, and umar
told him the same as abu bakr had said to him. His self was still not settled so he went to the
messenger of allah, may allah bless him and grant him peace, and said to him, "i have committed
adultery," insistently. The messenger of allah, may allah bless him and grant him peace,
turned away from him three times. Each time the messenger of allah, may allah bless him and
grant him peace, turned away from him until it became too much. The messenger of allah, may
allah bless him and grant him peace, questioned his family, "does he have an illness which affects
his mind, or is he mad?" they said, "messenger of allah, by allah, he is well." the messenger of
allah, may allah bless him and grant him peace, said, "unmarried or married?" they said,
"married, messenger of allah." the messenger of allah, may allah bless him and grant him peace,
gave the order and he was stoned.

www.hadithonline.com

مندرجہ بالا حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دی گئ زنا کی سزا سے متعلق ہیں۔ جن کو پڑھ کر ذہن میں‌ چند سوال اٹھتے ہیں‌ ؟؟؟

1۔ بقول آپکے جب متعہ کی اجازت تھی تو ان صحابہ نے زنا کیوں کیا ؟؟؟؟

2۔ یہ حضرات شقی القلب میں بھی نہیں آتے کیوں‌ کہ انہوں‌ نےخود اپنے گناہ کا اقرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے کیا ؟؟؟
قارئین سب سے پہلے یہ چیز نوٹ کر لیں کہ:

1۔ شوکت بھائی صاحب نے اوپر جتنی روایات نقل کی ہیں، وہ صرف اور صرف ایک صحابی کے متعلق ہیں جسکا تعلق قبیلہ اسلم سے ہے اور انکا نام ماعز ہے۔

2۔ رسول اللہ ص کے پورے دور میں زنا کے شاید دو یا تین کیسز ہی ہوئے ہیں جہاں حد جاری کی گئی ہے، اور ان میں سے بھی شاید تمام تر کیسز وہ تھے جن میں غلطی کرنے کے بعد جب غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے خود آ کر سزا طلب کی۔ چار گواہوں کے ذریعے کسی کو حد اگر جاری کی گئی ہے تو براہ مہربانی یہاں ہم سے یہ معلومات شیئر فرمائیں۔

محترم شوکت بھائی صاحب،

آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ اس وقت بال کی کھال نکال رہے ہیں۔ قرآن کی آیات ہوں یا پھر حضرت علی کا قول جیسی چیزیں، انہیں بہرحال بالکل "مطلق" معنوں میں نہیں لیا جاتا اور ان میں یقینا تخصیص پائی جا سکتی ہے۔ مثلا قرآن ایک جگہ بیوی کے وراثت کے قوانین بتلاتا ہے، مگر اس میں رسول ص کی قول کے مطابق کچھ جگہوں پر تخصیص پائی جاتی ہے جنکا ذکر میں اپنے پہلے مراسلوں میں کر چکی ہوں۔ چنانچہ یہ باتیں ایک اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور اکثریت کے متعلق بات ہوتی ہے۔

اب جو یہ صحابی ماعز ہیں، انکے حالات کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ کیا وجوہات ہوئیں۔ ہو سکتا ہے انکے پاس مالی استطاعت ہی نہ ہو کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح یا عقد المتعہ کر پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ انکے پاس یہ بھی استطاعت نہ ہو کہ کسی دوسرے کی کنیز عورت سے نکاح کر پاتے۔ چنانچہ ان سے صبر نہ ہو سکا ہو اور وہ غلطی کر بیٹھے ہوں یہ سفر میں تھے یا حضر میں۔ اور پھر ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار شیطان بُرے وقت میں بہکا دیتا ہے کہ جس سے شادی شدہ شخص بھی دل میں خوف رکھتے ہوئے وقتی طور پر غلطی کر سکتا ہے۔

بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو، مگر اس قیاس و ظن کو بنیاد بناتے ہوئے آپ رسول اکرم ﷺ کے اس حدیث کو نہیں جھٹلا سکتے کہ جب آپ نے ایسے صحابہ کو عقد المتعہ کی اجازت دی کہ جنہیں بیویوں سے جدائی کے باعث گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا۔ انسان کی یہ فطرت آج تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ جو انسانی فطرت کے تقاضے اُس غزوے کے دوران تھے، وہی انسانی فطرت آج تک جوں کی توں موجود ہے۔ باقی آپ اپنے قیاسی گھوڑے دوڑانے میں بہرحال آزاد ہیں۔

اور ہمارے لیے تو رسول اللہ ص کی گواہی اور یہ واقعہ کافی ہے کہ اگر 100 فیصد نہیں تب بھی بہت سے ایسے تھے جنہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا مگر عقد المتعہ کی وجہ سے وہ گناہ سے بچ نکلے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قسم ہے رب کعبہ کی سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی میں آج تک کسی اہل تشیع نے متعہ کا اقرار بھی نہ کیا ؟؟؟ اور اکثر ایسا لگا کہ اگر میں زیادہ اصرار کروں گا تو یہیں شیعہ سنی فساد شروع ہو جائے گا۔ اس سے پہلے صرف سنتے تھے۔ یہ تو اس صدی کی ایجاد کمپیوٹر اور پھر نیٹ کی ضو افشانیاں ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ فقط اردو یا انگلش یا عربی میں متعہ لکھ کر سرچ کریں اور پھر دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکی زندگی ختم ہو جائے گی۔ مواد ختم نہیں ہوگا۔
اور خیر سے اب تو متعہ میچ میکر سائٹس بھی بن گئ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لگتا ہے کہ نبی کا فرمان پورا کرنے کا سامان کیا جارہے۔ کہ جب تک زنا اتنا عام نہ ہو جائے کہ دیکھنے والا یہ کہے کہ بھائی کسی کنارے چلے جاو بیچ چوراہے پر تو یہ کام نہ کرو قیامت برپا نہ ہو گی۔
لیکن دوستوں کے لئے اچھی خبر ہے کہ اتنی پبلسٹی کے باوجو متعہ میچ میکر پر صرف 3 خواتین وہ بھی مغربی علاقوں کے سوا کسی نے اپنے کو پیش نہیں‌ کیا ؟؟؟
مرد حضرات خیر سے 103 ہیں ۔۔۔۔۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اور یقین ہے ہمارے معاشرے سے کبھی کوئی عورت اس میچ میکر پر رجسٹرڈ ہو۔ اور جب ہو تو پھر حضرات سمجھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہ رب کائنات ہم سے مایوس ہو چکا ۔۔۔۔۔ پھر انتظار ۔۔۔۔۔۔۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ لوگ دوسرے کی تو چھوٹی سی خطا بخشنے کے لیے تیار نہیں مگر اپنے آپ پر ہزار خون معاف رکھتے ہیں۔
آج آپ اپنی 1300 سالہ تاریخ سے مفرور ہو رہے ہیں، اپنی کتابوں میں کنیز عورتوں کے جو مسائل لکھے ہیں اُن کا انکار کر رہے ہیں، ۔۔۔ مگر یہ ایک ناممکن چیز ہے اور انصاف کے کسی ترازو میں پوری نہیں اترتی سوائے Double Standards کے میزان پر۔

اگر محصنین کی قید میں کیے گئے عقد المتعہ کے عارضی تعلق آپ کے نزدیک زناکاری ہے، تو پھر کنیزوں سے کیے گئے عارضی تعلق اور پھر آگے بیچ دینے والے فعل کو کسی طرح آپ زناکاری سے نہ جدا نہیں کر سکتے (سوائے اُس وقت جب ناانصافی کی انتہا پر پہنچ کر آپ ایسے دو رخے ہو جائیں کہ بس دوسروں کے گریبانوں میں جھانکتے پھریں اور اپنا گریبان دیکھنے کی کبھی زحمت نہ کریں۔
اگر محصنین کی قید میں کیے گئے عارضی تعلقات (چاہے وہ عقد المتعہ میں ہوں یا کنیز عورت کی صورت میں) واقعی زناکاری ہے، تو پھر جو کچھ آپکے سلف پچھلے 1300 سالہ تاریخ میں کر گئے ہیں اور جسطرح انکی کنیزیں ہوتی تھیں، تو یقین رکھئیے قیامت بہت پہلے آ چکی ہوتی۔

بہرحال، ہم تو آپکے اس الزام کے جواب میں عبداللہ ابن عمر اور رسول اللہ ص کی گواہی پیش کر کے محمد و آل محمد پر صلوۃ بھیجتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

حضرت عمر کے اپنے بیٹے کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں

جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبيد الله بن إياد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏إياد يعني ابن لقيط ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي ‏ ‏قال ‏
‏سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
‏قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]

رسول ص کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں بلکہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے

جو لوگ ابن عمر کی گواہی کے باوجود نکاح متعہ کو زنا قرار دیتے ہیں، وہ یقینا رسول اللہ ص کی اس گواہی کو بھی کسی نہ کسی بہانے جھٹلا دیں گے کہ جہاں اللہ کا رسول ص خود گواہی دے رہا ہے کہ عقد متعہ پاکیزہ طیبات میں سے ہے۔​
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
کیا لسان نبوت کی اس گواہی کے بعد بھی کوئی ہے ایسا جو اپنے قیاس و ظن کی بنیاد پر نص کو ٹھکرا کر عقد متعہ کو زنا کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟

اللھم صلی اللہ محمد و آل محمد۔
 

ملنگ

محفلین
کیا حدیث میں گواہوں کی شرط کے متعلق بیان ہوا؟

اور حیرت کی بات ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں بھی آپ کو بخاری و مسلم و دیگر کتب میں کئی کئی جگہ نکاح کی دیگر شرائط مل جائیں گی، مگر نکاح میں گواہ کی شرط آپ کو بخاری میں ملے گی نہ مسلم میں، اور نہ پھر انکے بعد صحاح ستہ کی کسی کتاب میں۔۔۔۔ اور پھر صحاح ستہ کے ساتھ نمبر آتا ہے امام مالک کی موطا ء اور مسند احمد بن حنبل کا، مگر ان میں بھی کہیں ڈھونڈننے سے آپ کو نکاح میں گواہ کی شرط نظر نہیں آئے گی۔ انکے بعد کی کسی کتاب میں جا کر اہلسنت برادران کو پھر گواہ والی کوئی روایت ملتی ہے۔
نوٹ: ابھی نیٹ گردی کرتے وقت ایک روایت سامنے آئی ہے جسکے مطابق گواہ کے متعلق ایک روایت اور موجود ہے جو کہ مسند احمد بن حنبل میں پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس مکمل طور پر اس روایت کا متن موجود ہو تو براہ مہربانی یہاں پر شیئر کریں۔


جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1094 حدیث مرفوع مکررات 0
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْکِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ رَفَعَ عَبْدُ الْأَعْلَی هَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ وَأَوْقَفَهُ فِي کِتَابِ الطَّلَاقِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ

یوسف بن حماد، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، جابر بن زید، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زانی عورتیں وہ ہیں جو گواہوں کے بغیر نکاح کرتی ہیں یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے یہ حدیث تفسیر کے باب میں مرفوع اور کتاب الطلاق میں موقوف نقل کی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ تو بہت آسان ہے ضعیف ہے گھڑی ہوئی ہے‌؟؟؟ کسی محنت اور کسی قابلیت کی ضرورت نہیں بس کہہ دیا گھڑی ہوئی ہے ؟؟؟ چلیں‌ ایسے ہی سہی ذرا یہ تو دیکھئے ؟؟؟
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

106df8l.jpg

محترم بھائی صاحب،
یہ بات ایسی ہی نہیں کہی دی ہے، بلکہ ثبوت و دلائل آپکے سامنے رکھ کر بات کی گئی ہے۔ شیعہ کتب میں ہزاروں ایسی روایات ہیں جس کے راوی غیر شیعہ ہیں (اس روایت کے دو راوی غیر شیعہ ہیں)۔

کیا آپ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جو شیعہ روایت آپ نے یہاں پیش کی ہے، یہ وہی روایت ہے جو کہ آپکی اپنی کتب میں موجود تھی، اور اس روایت کا جو جواب آپکی صحیح روایت پر مشتمل ہے وہ دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔۔۔ یعنی آپکا عذر ہوتا ہے کہ جو صحابہ حضرت عمر کے دور تک عقد المتعہ کرتے رہے انہیں اسکے حرام ہونے کا علم نہ تھا۔ مگر دوسری طرف آپ خود دعوی کر رہے ہیں کہ ابن عباس کو مولا علی نے اس حرمت کا بتلا دیا تھا۔ مگر پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عباس نصف صدی بعد تک اپنی زندگی کے آخری دن تک عقد المتعہ کے جواز کا فتوی دیتے ہیں۔
اگر اکیلے ابن عباس ہوتے تو بھی تسلیم کیا جا سکتا تھا کہ اُن سے غلطی ہو گئی ہو شاید، مگر یہاں تو اور صحابی اور تابعی بھی شامل ہیں جنہیں نصف صدی گذرنے کے باوجود خیبر میں عقد المتعہ حرام ہونے کا علم نہیں۔ مثلا ابو نضرہ کو کچھ علم نہیں۔ اور پھر وہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھتے ہیں کہ تقریبا نصف صدی گذرنے کے بعد عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن زبیر عقد المتعہ پر لڑ رہے ہیں، تو اسکی حقیقت کیا ہے۔ اس پر جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ ص کا ذکر کرتے ہیں اور نہ خیبر اور نہ فتح مکہ کا، بلکہ وہ سیدھا سادھا جواب دیتے ہیں کہ وہ اور دیگر صحابہ رسول اللہ ص کے دور میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے دور میں، اور پھر حضرت عمر کی خلافت کے نصف یا آخر تک برابر عقد المتعہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد عقد المتعہ کی ممانعت کر دی، اور اسکے بعد ہم پھر عقد المتعہ پر نہیں پلٹے۔

یاد رہے ابو نضرہ اور جابر بن عبداللہ انصاری کا یہ واقعہ بھی نصف صدی بعد کا ہے کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کی لڑائی ہوئی تھی۔

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔

اور خیبر والی اس روایت پر تو خود اہلسنت علماء نے شدید تنقید کی ہے، تو پھر بھلا آپ اسے کس طرح بطور حجت ہمارے خلاف پیش کر رہے ہیں۔ مثلا
وقال ابن عبد البر وذكر النهي عن المتعة يوم خيبر غلط وقال السهيلي النهي عن المتعة يوم خيبر لا يعرفه أحد من أهل السير ورواة الأثر
ترجمہ: ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ متعہ کی ممانعت خیبر والے دن ہوئی۔ السھیلی خیبر میں متعہ کی ممانعت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ راویوں اور اہل سیر (مؤرخین) میں سے کسی نے اس چیز کو نقل نہیں کیا۔
حوالہ: عمدۃ القاری، جلد 8، صفحہ 311

اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنها
ترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201


کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟

اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔

غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا
انسان اپنی چالیں چلتا ہے، مگر بلا شک و شبہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اور جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس احمق نے غزوہ خیبر پر متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت گھڑی ہے، اُس کے جھوٹ کا پول کھول دینے کا پورا انتظام اللہ تعالی نے کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ سن 7 ہجری میں غزوہ خیبر تک اہل کتاب کے ساتھ نکاح یا کسی بھی قسم کے عقد کی اجازت ہی نہ تھی۔
علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد ، جلد 3، صفحہ 183 میں اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے تحریر فر ماتے ہیں:
وأيضا : فإن خيبر لم يكن فيها مسلمات وإنما كن يهوديات وإباحة نساء أهل الكتاب لم تكن ثبتت بعد إنما أبحن بعد ذلك في سورة المائدة بقوله ۔۔۔
ترجمہ:
"غزوہ خیبر میں صحابہ کرام کے ساتھ کوئی مسلمان عورت نہیں گئی تھی، اور خیبر میں صرف یہودی عورتیں تھیں اور اُس وقت تک اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کرنے کی اجازت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کی اجازت غزوہ خیبر کے بعد سورۃ المائدہ میں نازل ہوئی۔"

نوٹ: یاد رکھئیے کہ سورۃ المائدہ اور سورۃ الفتح سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتیں تھیں۔

اسی لیے اللہ تعالی مسلمان کو غور و فکر اور تدبر اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ اور اگر انسان عقل رکھتا ہے اور پھر انصاف کرنے کا بھی قائل ہے، تو پھر اسے سیدھی راہ آرام سے ملتی جائے گی۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا حدیث میں گواہوں کی شرط کے متعلق بیان ہوا؟
اور حیرت کی بات ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں بھی آپ کو بخاری و مسلم و دیگر کتب میں کئی کئی جگہ نکاح کی دیگر شرائط مل جائیں گی، مگر نکاح میں گواہ کی شرط آپ کو بخاری میں ملے گی نہ مسلم میں، اور نہ پھر انکے بعد صحاح ستہ کی کسی کتاب میں۔۔۔۔ اور پھر صحاح ستہ کے ساتھ نمبر آتا ہے امام مالک کی موطا ء اور مسند احمد بن حنبل کا، مگر ان میں بھی کہیں ڈھونڈننے سے آپ کو نکاح میں گواہ کی شرط نظر نہیں آئے گی۔ انکے بعد کی کسی کتاب میں جا کر اہلسنت برادران کو پھر گواہ والی کوئی روایت ملتی ہے۔
نوٹ: ابھی نیٹ گردی کرتے وقت ایک روایت سامنے آئی ہے جسکے مطابق گواہ کے متعلق ایک روایت اور موجود ہے جو کہ مسند احمد بن حنبل میں پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس مکمل طور پر اس روایت کا متن موجود ہو تو براہ مہربانی یہاں پر شیئر کریں۔


جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1094 حدیث مرفوع مکررات 0
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْکِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ رَفَعَ عَبْدُ الْأَعْلَی هَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ وَأَوْقَفَهُ فِي کِتَابِ الطَّلَاقِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ

یوسف بن حماد، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، جابر بن زید، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زانی عورتیں وہ ہیں جو گواہوں کے بغیر نکاح کرتی ہیں یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے یہ حدیث تفسیر کے باب میں مرفوع اور کتاب الطلاق میں موقوف نقل کی ہے۔

شکریہ ملنگ بھیا۔
بہرحال شیعہ فقہ کے مطابق نکاح دائمی یا عقد المتعہ، ان میں گواہوں کی موجودگی مستحب اور تاکیدی ہے، مگر انکے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ اور اسکی کچھ مثالیں میں نے اہلسنت فقہ سے اپنی پچھلی پوسٹ میں درج کی تھیں۔ باقی اللہ بہتر جاننے والا ہے۔

ایک اور چیز جو تحقیق کے دوران ابھی میرے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ مولانا مودودی نے لکھا تھا کہ سورۃ النساء مدینے کے ابتدائی سالوں یعنی تین چار ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ مگر انکے مقابلے میں ابن عباس اور ابو سعید خدری کی دو روایات سامنے آئی ہیں جنکے مطابق آیت المتعہ سن 8 یا 9 ہجری میں اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی ہے (اوطاس فتح مکہ کے بعد پیش آیا)۔ چنانچہ مودودی صاحب کی رائے کی نسبت میرا رجحان یقینا ان دو اصحاب کی رائے کی طرف زیادہ ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ اس وقت بال کی کھال نکال رہے ہیں۔

کیا کیا جائے ہمارے سامنے متعہ 1400 سو سال بعد آیا ہے اور اس عرصے میں‌ اس بے چارے پہ اتنی بندشیں اور تنقید کی جاتی رہی کہ کھال تو رہی نہیں‌ بال ہی رہ گیا سو مجبوری ہے ؟؟؟

اب جو یہ صحابی ماعز ہیں، انکے حالات کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں کہ کیا وجوہات ہوئیں۔ ہو سکتا ہے انکے پاس مالی استطاعت ہی نہ ہو کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح یا عقد المتعہ کر پاتے۔

ہرحال وجہ جو بھی رہی ہو، مگر اس قیاس و ظن کو بنیاد بناتے ہوئے آپ رسول اکرم ﷺ کے اس حدیث کو نہیں جھٹلا سکتے کہ جب آپ نے ایسے صحابہ کو عقد المتعہ کی اجازت دی کہ جنہیں بیویوں سے جدائی کے باعث گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا
۔

جہاں ایک رومال کے عوض بھی متعہ کیا جا سکتا تھا وہاں رجم کے اییسے واقعات کا پیش آنا معنی خیز ہے ؟؟؟

جھٹلایا نہیں گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ایک مخصوص وقت میں مخصوص حالات میں‌ رخصت دی گئ تھی ایسے ہی جیسے مضطر کا شراب پینا یا خنزیر کھانا اور حرمت متعہ خیبر والے روز ثابت شدہ ہے۔ جس کی حدیث کا ثبوت میں وسائل الشیعہ اور اسی طرح‌ کی دوسری کتابوں سے دے چکا ہوں۔

اور آپ سنت اور حدیث میں‌ فرق ملحوظ خاطر رکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل سنت نہیں۔ سنت وہی ہے جس پر انہوں نے متواتر عمل کیا اور آخری عمل بھی وہی تھا۔

یوں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کھڑے ہو کر بھی پیشاب سے فراغت حاصل کی۔ مگر ہم دیکھتے ہییں کہ کوئی بھی اس کو سنت نہیں مانتا اور نہ ہی عمل کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ '

اسی طرح متعہ اگر ایک دو بار مخصوص‌ حالات میں رائج ہوا بھی تو اس سے کہیں یہ نہیں ثابت ہوتا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور آخری عمل ہے۔

اور روایات قرآن کی تابع ہیں اور قرآن روایات کے تابع نہیں۔ جو روایت قرآن اور روح قرآن سے متصادم ہو اس کی قبولیت بھی نہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
‏قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔

کاش آپ قرآن کو روایت کی روشنی میں‌ دیکھنے کے بجائے روایات کو قرآن کی روشنی میں‌ دیکھیں۔ اور دیکھتے وقت پورے قرآن کا خلاصہ ذہن میں رکھیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر اپنی پیش گئی دلیل میں لفظ عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم پر غور کریں ۔۔۔ اور یہ تو سب مانتے ہیں کہ اس وقت بہت ہی مخصوص حالات میں متعہ کی رخصت دی گئی تھی۔ مگر اس حوالے سے یہ کہاں‌ثابت ہوتا ہے کہ متعہ تا قیامت حلال ہے۔

اور لگتا ہے دلائل کے انبار ختم ہو رہے ہیں وہی پہلے دیئے ہوئے پھر سے دینے سے کیا اس طرح انکی قبولیت لازم ہو جائے گی ؟؟؟
اللہ سبحان و تعا لی نے ہم لوگوں کی راہنمانی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زنگی کےایک ایک گوشے کو محفوظ کیا ہوا اور یہ ایک معجزہ ہے کہ آج پیغمبروں میں سے اگر کسی پیغمبر کے حالات تفصیل و جزیات کے ساتھ مرتب ہیں تو وہ نبی کریم صلی الہ علیہ کے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم تمام ازدواج مطہرات، انکی لونڈیوں اور اولاد کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں چلیں کہیں سے بھی اپنی کتابوں سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ممتوعہ کا نام بتا دیں ؟؟؟؟

ورنہ سوال اٹھے گا یہ کیسا عمل ہے کہ جس کا حکم قرآن دے رہا‌ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح‌ نہیں کی اور امت کے لئے اپنی پاکیزہ زندگی میں سے کوئی مثال نہیں‌‌‌‌ چھوڑی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
سوال: اگر علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو واقعی خیبر میں متعہ کی رسول اللہ ص سے حرمت کا بتلا دیا تھا تو پھر ابن عباس اپنی زندگی کے آخر تک متعہ کے جواز کا فتوی کیوں دیتے رہے؟

علامنہ نیشاپوری لکھتےہیں۔
ان الناس لما ذکروا الاشعار فی فتیا ابن عباس فی المتعۃ قال قاتلھم اللہ الی ما افتیت با باحتھا علی الاطلاق لکنی قلت انھا تحل للمضطر کما تحل المیتۃ والدم ولحم الخنزیر۔
جب لوگوں نے ابن عباس کے فتویٰ کی وجہ سے ان کی ہجو میں اشعار کہے تو انہوں نے کہا، خدا ان کو ہلاک کرے،میں نے علی الاطلاق متعہ کی اباحت کا فتوی نہیں دیا، بلکہ میں نے کہا تھا کہ متعہ مضطر کے لیے حلال ہے جیسے مُردار،خنزیر اور خون کا حکم ہے۔
اسی روایت کو ابو بکر رازی الجصاص نے احکام القرآن جلد ۲ صفحہ ۱۴۷ اور ابن ہمام نے فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۳۸۶ اور صاحب روح المعانی نے جلد۵ صفحہ ۶ پر بیان کیا ہے۔
بقول علامہ نیشا پوری حضرت ابن عباس نے رجوع بھی کر لیا چنانچہ غرائب القرآن جلد ۵ صفحہ ۱۶ پر ہے
انہ رجع عن ذالک عند موتہ وقال انی اتوب الیک فی الصرف والمتعۃ
اور احکام القرآن جلد ۶ صفحہ ۱۴۷،۱۷۹ پر ہے۔ نزل عن قولہ فی الصرف و قولہ فی المتعۃ۔ حضرت ابن عباس نے صرف اور متعہ سے رجوع کر لیا تھا۔
اس کے علاوہ علامہ بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری جز ۱۷ صفحہ ۱۷ اور ۲۴۶ اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری جلد ۱۱ صفحہ ۷۷ پر متعہ سے رجوع کا بیان کیا ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
محترم بھائی صاحب،
یہ بات ایسی ہی نہیں کہی دی ہے، بلکہ ثبوت و دلائل آپکے سامنے رکھ کر بات کی گئی ہے۔ شیعہ کتب میں ہزاروں ایسی روایات ہیں جس کے راوی غیر شیعہ ہیں (اس روایت کے دو راوی غیر شیعہ ہیں)۔

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

سبحان اللہ ۔۔۔۔۔آپ اپنی کتاب میں‌ موجود روایت مان نہیں رہیں اور دلیل ہے کہ راوی غیر شعیہ ہیں توصحاح ستہ کی جو جو روایات آپ پیش کر رہی ہیں انکے راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟؟

اور آپ ہم سے یہ کیسے توقع رکھتی ہیں کہ آپ خود تو اپنی کتاب میں‌ موجود ایسی روایت جو آپکے موقف میں‌ نہیں نظر انداز کر دیں اور ہم پہ ہماری ہی روایت کو ٹھونسنا شروع کر دیں اور نا انصافی اورجانبداری کے الزامات کا بھی نشانہ بنائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اب تک جو روایات پیش کی ہیں وہ بھی ان ہزاروں‌ ہزاروں روایات میں شامل ہیں جن کے روایوں میں غیر سنی شامل ہیں ۔ اور جو روایات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے خلاف جو کہ انہوں‌ نے صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نافذ کرنے کے لئے کیا ہوں ہم نہیں مانتے۔ اور ایسی روایات بھی کہ جو نصوص قرآن سے متصادم ہوں۔

اور اب ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کرتا ہوں ۔

ابن ماجہ میں حضت علی کرم اللہ وجہہ کا خلافت سنھبالنے کے بعد خطبہ ہے کہ اللہ کے رسول نے متعہ کی تین دفعہ اجازت دی تھی اور پھر اس سے منع کر دیا۔ میں اللہ تعالٰی کی قسم کھاتا ہوں کہ کہ میں اس شخص کو 100 کوڑوں کی سزا دوں گا جو متعہ کرتا ہوا پایا گیا جب تک کہ وہ دو گواہ نہ لے آئے کہ جو گواہی دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع کرنے کے بعد رخصت دے دی تھی۔

اب سوال ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بقول آپکے متعہ پر پابندی لگائی تھی ۔۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اس کی تائید کیوں کی ؟؟؟

اور خلافت سنبھالنے کے بعد متعہ کو رائج کیوں نہ کیا ؟؟؟

دیجئے ایسی روایات جن سے پتہ چلے کہ احضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد متعہ کو نافذ کیا ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔

واقعی عقل اللہ کی طرف سے نبی نوع انسان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے ۔ مگر اس کواللہ تعالٰی کی دی ہوئی روشنی میں‌ استعمال کرنا اس سے بڑا عطیہ ہے ؟؟؟؟

اوپر دی ہوئی روایتوں کو آپ اس روایت کی منسوخی میں کیسے استعمال کر سکتی ہیں ۔ صورت تو ایک جیسی ہے اتنی ہی روایت ایسی بھی ہیں‌ کہ جن میں متعہ النسا کا بھی ذکر ہے۔ اور وہ غیر شیعہ لوگوں نے آپکی بے شمار کتابوں میں بھی شامل کر دی ہیں۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات وہی آ جاتی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی عقل کو اللہ کی دی ہوئی روشنی میں‌ استعمال کرنا اور نفس کی پیروی میں‌ استعمال نہ کرنا۔ تب ہی صحیح نتائج اخذ کئے جا سکتےہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top