نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

میر انیس

لائبریرین
ماشااللہ مہوش صاحبہ نے متعہ کے حق میں‌بہت خوب دلائل پیش کیے اور اب یہ مسئلہ روز روشن کی طرح‌عیاں‌ہوگیا
اللہ انہیں‌خوش رکھے بہت بہترین ترجمانی کی
اب ذرا اس طرف بھی رہنمائی فرمادیں کہ پاکستان میں‌متعہ کو فروغ‌دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں‌گے
اور ہاں‌متعہ کے لیے اگر کچھ فضائل بھی روایات میں‌موجود ہوں‌تو وہ بھی ہمیں ضرور ‌بتائیں تاکہ کچھ ترغیب پیدا ہو ہمارے دل میں‌

آپ سب نے اسی طرح کی جاہلانہ باتیں شروع کردیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب قران اور احادیث سے کوئی جواب نہ دے پائے تو گھٹیا باتوں پر اتر آئے جو آپ لوگوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے ۔ ویسے آپکو مشورہ ہے کہ آپ اپنے فرقہ کہ عقیدہ کے مطابق عقدِ مسیار کرلیں اگر ضرورت پڑ رہی ہے تو۔
 
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں تھوڑی وضاحت کر دوں تاکہ یہ غلط فہمی دور ہو۔

1۔ عقد متعہ میں نکاح والی تمام تر شرائط موجود ہیں، سوائے مقررہ وقت پر طلاق ہو جانے کے، جیسا کہ اوپر تمام دلائل پیش کیے گئے ہیں۔

سب تفسیروں سے بہتر تفسیر کس کی ہے؟
[ayah]25:33[/ayah] [arabic]وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا[/arabic]
اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب (احسن و بہتر تفسیر) بھیج دیتے ہیں

متعہ ( فائیدہ ) کس معانی میں‌قرآن حکیم میں استعمال کیا گیا؟
[ayah]2:36[/ayah] [arabic]فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَّلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ [/arabic]
پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لئے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہے

متع یعنی فائیدہ ؟؟؟؟
[ayah]2:196[/ayah] [arabic]وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَ۔َذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ [/arabic]
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا: اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لئے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے

عورتوں کو فائیدہ دینا یعنی ان کو متعوھن کیا ہے؟ مہر یا اس کے کچھ حصہ کی ادائیگی۔
[ayah]2:236[/ayah] [arabic]لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ [/arabic]
نہیں ہے کچھ گناہ تم پر اگر طلاق دے دو تم عورتوں کو قبل اس کے کہ چھوا ہو تم نے انہیں یا مقرر کیا ہو ان کے لیے مہر اور کچھ نہ کچھ ضرور دو انہیں۔ جو خوشحال ہو (وہ دے) اپنے مقدور کے مطابق اور تنگدست اپنے مقدور کے مطابق یہ دینا دستور کے مطابق ہو، لازم ہے یہ نیک لوگوں پر

کیا متع یعنی فائیدہ بیوہ عوتوں کا حق ہے؟؟؟
[ayah]2:240[/ayah] [arabic]وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ[/arabic]
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے


کیا متع یعنی فائیدہ مطلقہ عورتوں‌ کا حق ہے؟
[ayah]2:241 [/ayah] [arabic]وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ [/arabic]
اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے


[ayah]33:49 [/ayah][arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا [/arabic]
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو



شادی یا دائمی نکاح کی شرائط :
سب کے سامنے ایجاب و قبول کی بنیاد۔
1۔ پسند کی عورت سے نکاح یعنی شادی
[ayah]4:3 [/ayah][arabic]وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ [/arabic]
اور اگر اندیشہ ہو تم کو کہ نہ انصاف کرسکو تم یتیم (لڑکیوں) کے معاملے میں تو نکاح کر لوتم ان سے جو پسند آئیں تم کو عورتوں میں سے، دو دو ، تین تین، چار چار۔ پھر اگر خوف ہو تم کو یہ کہ نہ عدل کرسکو گے تو بس ایک یا پھر (لونڈی) جو تمہاری مِلک میں ہو۔ یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ بچ جاؤ تم ناانصافی سے۔

نکاح کے لئے عمر کی پختگی یعنی بلوغت کی شرط
[ayah]4:6[/ayah] [arabic]وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا [/arabic]
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ بالغ ہو کر نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے


مہر کی ادائیگی
[ayah]4:4[/ayah] [arabic]وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا [/arabic]
اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ ۔

دائمی شادی، پاکدامنی :
[ayah]4:24 [/ayah] [arabic]وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [/arabic]
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو شوہر والی بنانے کے لئے نہ کہ وقتی شہوت بہانے کے لئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

عفت مآبی، شوہر والی بننے کے لئے نہ کہ عارضی طور پر شہوت بہانے والیاں۔
[ayah]4:25[/ayah] [arabic]وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [/arabic]
اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

[ayah]5:5[/ayah] [arabic]الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ [/arabic]
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) شوہر والی بنانے والے قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (بہادینے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا


اب تک یہ واضح ہوچکا ہے کہ شادی کی شرائط میں‌ عورت کو محصنین یعنی دائمی بیوی بنانا مقصد ہے نہ کہ وقتی طور پر بہانا مقصد ہے۔ مرد کا فرض ہے کہ وہ دائمی شوہر بنے نہ کہ وقتی بہادینے والا بنے۔

دائمی نکاح کی یہ شرط --- عارضی نکاح یعنی شہوت کے لئے بہادینے سے پوری نہیں ہوتی۔

عارضی نکاح کا بھانڈا پوری طرح طلاق کی شرائط میں پھوٹتا ہے :
طلاق کی شرط جو عارضی ایک مہینے کے نکاح میں پوری نہیں ہوتی۔

طلاق یافتہ عورت کو اس کا حق دیا جائے، یہ مہر کے علاوہ ہے
[ayah]2:241[/ayah] [arabic]وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ [/arabic]
اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر فرض ہے

جو مرجائیں وہ بھی کم از کم ایک سال کا خرچہ کی وصیت کرکے جائیں اور گھر میں رہائش کا انتظام کی وصیت
[ayah]2:240 [/ayah][arabic] وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [/arabic]
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

جو طلاق دیں وہ بھی مہر بھی دیں، نہ چھوا ہو تو آدھا اور نان نفقہ یعنی خرچہ بھی دیں۔
[ayah]2:237 [/ayah][arabic]وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَن تَعْفُواْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلاَ تَنسَوُاْ الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [/arabic]
اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)، اور (اے مَردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بیشک اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے


طلاق یافتہ عورت اپنی رہائش کے گھر سے باہر نہیں نکالی جائے گی۔
[ayah]24:1[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا [/arabic]
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے


جس وقتی متع یا وقتی نکاح کی بات ہورہی ہے وہ نہ تو دائمی شادی کی شرط [arabic] أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ [/arabic] اور نہ ہی [arabic] وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ [/arabic] کی شرط پوری ہوتی ہے۔


اسی طرح اس وقتی متع سے نا تو احکام طلاق (‌جو بہت مختصر لکھے ہیں) کی شرائط پوری ہوتی ہے کہ ایک سال تک کا کم از کم خرچہ اور چار دیواری کا تحفظ۔ اور نہ ہی ادائیگی مہر کی شرائط اور نہ ہی نان نفقہ کی ادائیگی کی شرائط۔

اب مزید دیکھئے مرد کا چار ماہ تک قریب جانے کا حق متاثر ہوتا ہے۔
[ayah]2:226 [/ayah][arabic]لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [/arabic]
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے


اور عورت و مرد کا ایک دوسرے سے علیحدگی کا باہمی حق متاثر ہوتا ہے۔
[ayah]2:227[/ayah] [arabic]وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [/arabic]
اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہو تو بیشک اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے

اللہ تعالی طلاق کی بنا ناچاقی اور فریقین کی مرضی قرار دیتا ہے نہ کہ ایک معاہداتی میعاد؟؟؟؟
اللہ تعالی اس ناچاقی کو دور کرنے کی کوشش کی حوصلہ افزائی فرماتا ہے ۔ نہ کہ عارضی شادی کی ۔

[ayah]4:35 [/ayah][arabic]وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا [/arabic]
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے



شادی اور طلاق کے بنیادی احکامات و شرائط پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ واضح‌کیا جائے کہ شادی ایک دائمی معاہدہ ہے، جس سے وراثت جنم لیتی ہے۔ معاشرہ کے تانے بانے بنے جاتے ہیں ۔ عارضی شادی یا معاہداتی شادی یعنی ---- متع --- یعنی عورت سے عارضی فائیدہ اٹھانے کی شادی ---- کی حوصلہ افزائی کرنا اسلامی معاشری کے تانے بانے کو توڑنے کے مترادف ہے۔ اس تانے بانے کو توڑنے سے عورتوں‌کے ساتھ معاشرتی ناانصافی کا نا رکنے والا سیلاب جنم لیتا ہے۔ ایسا کوئی بھی نظریہ اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن کے بنیادی فریم ورک کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی شدید حکم عدولی ہے۔

اس سارے نظریہ کے بنیاد --- صرف ایک لفظ --- اسْتَمْتَعْتُم --- 4:24 ہے جبکہ یہاں صرف یہ واضح کیا گیا ہے کہ شادی کی صورت میں جو فائید تم اٹھاتے ہو اس پر عورتوں کو مہر ادا کرنا فرض ہے۔

متعہ حرام ہی نہیں بلکہ اللہ تعالی کے احکامات کی حکم عدولی ہے۔ اس سے کچھ لوگ کچھ عرصہ تک تو بے وقوف بن سکتے ہیں لیکن تمام لوگ ہمیشہ بے وقوف نہیں بن سکتے ہیں۔

والسلام
 

دوست

محفلین
الحمداللہ کل یہ سن کر خوشی بھی ہوئی اور یہ احساس بھی کہ عقل سلیم کسی کی میراث نہیں۔ کل ایک دوست سے بات کرتے ہوئے جب اس بحث کا ذکر آیا تو وہ کہنے لگا میرے دوستوں میں اہل تشیع موجود ہیں‌ جو اس فعل سے کراہت کا اظہار کرتے ہیں۔ الحمداللہ حق گوئی اور عقل سلیم کسی کی میراث نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دیکھئے یہی بات تو میں بھی کہنا چاہ رہا ہوں۔ مذہبی حوالوں سے قطع نظر گزشتہ رات جتنا کچھ بھی انٹرنیٹ پہ پڑھنے کو ملا اس سے یہی اندازہ ہوا کہ نکاح المتعہ کی چھوٹ کو یار لوگوں نے وقتی جنسی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اور بد قسمتی سے اس وقتی جنسی تسکین کو مذہب کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔
یہ محض ایک کھیل بن کے رہ گیا ہے۔ اور نکاح المتعہ ایمان کے بنیادی ارکان میں بھی شامل نظر نہیں آتا تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اس کے غلط استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کیا جائے اور اسے ممنوع قرار دیا جائے؟ اگر نکاح المتعہ کو ممنوع قرار دے بھی دیا جائے تو ایمان اور اسلام پر کوئی زد نہیں‌ پڑتی۔

میرا خیال ہے اگر آپ سب لوگ اس پہلو کو بھی بحث میں‌شامل کریں‌تو اچھا ہوگا۔

معذرت کہ پچھلے دنوں سے بالکل وقت نہیں مل رہا کہ اس گفتگو کی رفتار کے ساتھ رفتار ملا سکوں (اور شاید اگلے ہفتے تک یہی سلسلہ رہے)


سب سے پہلی بات کہ اہل تشیع کے نزدیک دین میں جمود نہیں بلکہ ہر لحظہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔

اسکی ایک مثال یہ دیکھئیے کہ ماضی کے 1300 سال تک صرف زبانی کلامی نکاح پڑھا جاتا تھا اور کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہوتا تھا۔ مگر پھر حالا کے تحت نکاح نامے وجود میں آئے۔
چنانچہ بنیادی اصول تو یہی رہا کہ اسلام میں بغیر تحریری دستاویزی ثبوت کے بھی نکاح ہو جاتا ہے، مگر وقت کے تقاضوں کے مطابق حکومت نے یہ چیز لازمی کر دی کہ نکاح کو تحریری طور پر رجسٹرڈ کروایا جائے۔

ایران میں حکومت نے قانون سازی کی ہے اور پہلے نکاح کے لیے تحریری طور پر لازمی قرار دیا کہ رجسٹرڈ کروائے جائیں۔ پھر یہی چیز نکاح المتعہ کے لیے لازمی کر دی ہے کہ رجسٹریشن کروانا لازمی ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازمی قرار دیا ہے کہ نکاح یا عقد المتعہ سے قبل دونوں میاں اور بیوی ایک ہفتے کے "میاں بیوی" کا کورس کریں جس میں انہیں میاں بیوی کے اسلامی تعلقات کے مسائل بتانے کے ساتھ ساتھ آجکل کے دور کے مسائل کے متعلق بتلایا جاتا ہے.
چنانچہ بنیادی اصول تو یہی ہے کہ عقد المتعہ میں گواہ لازمی نہیں اور جیسے اگر کوئی جوڑا ملک ایران سے باہر عقد المتعہ کرتا ہے تو اسے گواہ کی ضرورت نہیں، مگر جب وہ ایران میں داخل ہوں گے تو انہیں اس عقد المتعہ کو رجسٹر کروانا ہو گا۔

اب اس رجسٹریشن کے بعد کوئی بھی عورت صرف اور صرف 45 دن کا عدہ گذار کر ہی اس قابل ہو سکے گی کہ کسی دوسرے عقد کے لیے اپلائی کر سکے۔ اور اگر وہ کوئی طوائف ہے، اور غیر قانونی حالت میں پکڑی جاتی ہے تو اب وہ کسی قسم کا جھوٹ بول کر چھوٹ نہیں سکتی۔

*************​


اب آئیے ایک مرتبہ پھر کنیز کے مسئلے پر۔

یہ محض ایک کھیل بن کے رہ گیا ہے۔

کنیز عورت کے مسئلے پر سب سے بڑا کھیل ہوا کہ جس کے سامنے عقد المتعہ قریب قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ مگر اسکی وجہ سے اسلامی شریعت کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا۔

وجہ اسکی یہ ہے کہ اللہ نے معاشرے کے حالات کے تحت اور انسانی فطرت کے تقاضوں کے تحت بہترین اصول نازل فرمائے۔
دیکھئے اگر اللہ چاہتا تو شیطان ہی نہ ہوتا، اور اگر ہوتا تو وہ یہ طاقت ہی نہ رکھتا کہ لوگوں کو بہکا سکے، اور اللہ ایک ایسا مثالی نظام قائم کرتا جس میں کوئی کنیز عورت کے مسئلے کو کھیل نہ بنا سکتا۔
مگر اللہ کا ایک نظام ہے، اور اسی نظام کے تحت شیطان کو قوت ملی کہ وہ لوگوں کو بہکا سکے۔

اللہ کی ایک سنت ہے کہ اُس نے بنی نوع انسان کو ہمیشہ امتحان میں مبتلا رکھنا ہے۔

پھر اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ۔۔۔ اور تم اللہ کی سنت میں تبدیلی ہوتے نہیں دیکھو گے۔


اللہ کا پیغام واضح تھا کہ غلاموں اور کنیزوں سے اچھا سلوک کرو، انہیں اپنا جیسا انسان سمجھو، کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔۔۔۔۔ چنانچہ اُسوقت جب لوگوں نے یہ کام کیا اور جن کی تہدید میں یہ آیت نازل ہوئی، اُن پر کوئی حد جاری نہیں کی جاتی بلکہ قرآن فقط کردار کی اصلاح کے لیے نصیحت پر اکتفا کرتا ہے۔

اسکے بعد اب یہ انسان کا اپنا امتحان تھا کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہوا کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرتا اور نہ اسے ایسا کھیل بناتا کہ حرموں میں سینکڑوں کنیزوں کو جمع کر لیتا۔

بہرحال یہ سب کچھ ہوا، اور ملزم اب اسلامی شریعت نہیں، بلکہ بذات خود یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اس چیز کا misuse کیا اور 1300 سال تک اس سلسلے کو جاری رکھا۔

اور اللہ تعالی نے کنیزوں کے مسائل حل کرنے کا یہ طریقہ اس لیے رکھا تھا تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں واقعی اللہ کا ڈر ہے، وہ ان مسائل سے اچھے پاکیزہ اور حلال طریقے سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی ضروریات کو پورا کریں، مگر اسے کھیل نہ بنائیں۔

اسلامی شریعت ہو، یا پھر کسی بھی ملک کا کوئی قانون، اسکی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ بنیادی وجہ اسکے پیچھے یہ ہے کہ گناہگار چھوٹتا ہے تو چھوٹ جائے، مگر کبھی کسی بے گناہ کو غلط سزا نہ ملے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال اسلام میں زنا کے لیے 4 ایسے عینی گواہوں کی شرط ہے کہ جن کی گواہی میں تنکا برابر فرق نہ ہو۔ چنانچہ جہاں شک ہوا، اسکا فائدہ ملزم کو پہنچے گا۔

اسلام کو ایک اور بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے جائز تقاضوں کو پورا کرتا ہے، چاہے اس عمل میں کچھ لوگ چیزوں کا misuse ہی نہ کریں۔ چنانچہ اس misusage کے مقابلے میں جائز تقاضوں کو اولیت و فضیلت حاصل ہے۔

**************​

اب آپ ان دو چیزوں کا فرق کریں۔

1۔ شقی القلب۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہر حال میں گناہ و زنا کرنا ہی ہے اور انکے دلوں میں اللہ کا کوئی ڈر نہیں۔
2۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر تو ہے، مگر پھر بھی انسانی فطرت کے تحت انہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے۔


اوپر ایرانی معاشرے کے متعلق آپ نے ویڈیو پیش کی ہے۔ میری درخواست ہے کہ اس ویڈیو کو اب اس زاویے سے بھی دیکھئے:

1۔ اس میں جو دو خواتین آپ نے دیکھی ہیں، کیا انکے دلوں میں آپ کو اللہ کا کوئی خوف نظر آیا ہے؟

2۔ کیا آپکے خیال میں اگر یہ دو خواتین پاکستانی یا عربی معاشرے میں ہوتیں تو زناکاری سے باز آ جاتیں؟
صرف اس ایک بات کا جواب آپ سب لوگ اپنے دلوں سے پوچھ لیں۔


3۔ پھر یہ دیکھیں کہ ایک بوڑھا شخص ان میں سے ایک عورت کو کہتا ہے کہ اس سے 6 ماہ کے لیے عقد المتعہ کرنا چاہتا ہے۔ اور پہلے مہینے کے لیے وہ کہتا ہے کہ وہ اسے سپورٹ کرے گا، وہ ڈرگز کو چھوڑ دے اور پاک ہو جائے تو اس ایک مہینے کے بعد وہ اس سے عقد المتعہ کر لے گا۔

یہ عقد المتعہ کچھ عرصے چلتا ہے۔ اس دوران یہ خاتون زناکاری چھوڑ کر باقاعدہ طور پر محصنین کی قید میں آ جاتی ہے اور ایک چانس بہرحال اسکو ملتا ہے کہ حلال طریقے سے وہ معاشرے میں واپس آ کر اپنا مقام بنائے۔

یہ بتلائیے کہ کیا پاکستانی یا کسی عربی معاشرے میں یہ ممکن ہے کہ ایسے حالات میں پھنسی کوئی عورت کو ایسا موقع مل سکے کہ وہ واپس باعزت طریقے سے معاشرے میں آ سکے؟
بہرحال، اس بوڑھے آدمی کے گھر میں چوری ہوتی ہے اور

4۔ پھر جب یہ ویڈیو بنانے والی خاتون دوسری دفعہ آتی ہیں تو انہیں پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ایک عورت کا پھر سے باقاعدہ عقد المتعہ ہو گیا ہے اور وہ پچھلے 6 ماہ سے باقاعدہ ایک گھر میں اچھی زندگی گذار رہی ہے۔ وہ محصنین کی قید میں تھی، اور اگر اس عورت کے دل میں واقعی خدا کا خوف ہوتا تو یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنا اور اپنے بچے کا مستقبل محفوظ بنا سکتی۔

۔۔۔۔۔ لیکن اگر اُس کے دل میں خدا کا خوف نہیِں، اور وہ شقی القلب لوگوں کے گروہ میں سے ہے، تو پھر اسکا الزام عقد المتعہ پر رکھنا حد درجہ ناانصافی ہے، اور ہمارے یہ بھائی مستقل اور مسلسل طور پر یہی ناانصافی ہمارے ساتھ کیے جا رہے ہیں کہ وہ ان شقی القلب خدا کے خوف سے عاری لوگوں کا گناہ مسلسل عقد المتعہ اور ہماری جھولی میں ڈالے جا رہے ہیں۔ تو کیا پاکستانی و عربی معاشروں میں جو مسلم عورتیں اور مرد زناکاری کر رہے ہیں اس کے ذمہ دار یہ اور اسلام ہے؟ کیا پچھلے 1300 سال تک کنیزوں کے ساتھ شقی القلب لوگوں نے جو کھیل کھیلا اس پر بھی مطعون مسلمان اور اسلام ٹہرا؟؟؟

ہمارے یہ بھائی مستقل طور اس چیز کو نظر انداز کر کے پھر بھی توپوں کا رخ فقط عقد المتعہ کی طرف رکھیں گے۔ بہرحال یہ معاملہ ہم انکے اور اللہ کے مابین سپرد کرتے ہیں۔

******************

چنانچہ بنیادی طور پر ہمارا سلسلہ یہ ہے کہ:

1۔ عقد المتعہ ہو یا نہ ہو، ایرانی معاشرے میں زناکاری بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے کیونکہ وہاں اسلام مخالف طبقہ بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے جو کہ ایسا شقی القلب ہے کہ جان بوجھ کر وہ ہر وہ کام کرے گا جو اسلام کے خلاف ہو گا۔

2۔ شقی القلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے، مگر اصل مسئلہ اُن مردوں کا ہے جو دل میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں، مگر حالات اور فطرت کے تقاضوں کے تحت انہیں ڈر ہے کہ ان سے گناہ نہ سرزد ہو جائے، اور انکی معاشی حالت ایسی نہیں کہ یہ پورے گھر کی ذمہ داریاں اٹھا سکیں (مثلا مغربی ممالک میں آنے والے طالبعلم و نوجوان مزدور طبقہ۔۔۔)

پھر دوسرا مسئلہ ایسی بیوہ و طلاق یافتہ خواتین کا ہے جن کے کئی بچے ہیں، اور معاشرے میں کوئی اُن سے دوسرا نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ۔۔۔۔۔ یا پھر ان کے پچھلے شوہر انکے لیے اور انکے بچوں کے لیے زمین جائیداد چھوڑ کر مرے ہیں اور یہ خواتین معاشرے میں بذات خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتی ہیں۔

اسی طرح تیسرامسئلہ اُن مرد اور اُن خواتین کا ہے جن کے دلوں میں اللہ کا خوف تو ہے، مگر اپنی کسی غلطی کی وجہ سے، یا پھر حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے زناکاری میں مبتلا ہو گئے، مگر دل سے اسکو بُرا جانتے ہیں اور اس چیز سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی عملی طور پر ایک دروازہ کھلا رہنا چاہیے (برادران اہلسنت کے فقہ میں ایسے لوگوں سے نکاح کر کے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے، جبکہ اہل تشیع فقہ میں نکاح کے ساتھ ساتھ عقد المتعہ کا راستہ بھی کھلا ہے اور Practical دنیا میں عقد المتعہ اس سلسلے میں کہیں زیادہ کامیاب ہے۔


افسوس کہ لوگوں تک فقط یکطرفہ ویڈیوز اور کہانیاں پہنچتی ہیں۔ کاش کہ اُن کہانیوں کو بھی فروغ ملے جس میں لوگوں کے لیے عقد المتعہ نے واقعی اللہ کی رحمت کا کردار ادا کیا ہے اور وہ گناہ و برائی سے خود کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایسے بہت سے لبنانی و عربی اہل تشیع خود میں یہاں دیکھ چکی ہوں، اور سب سے بڑا ثبوت اسکا خود رسول اللہ ص کے دور میں صحابہ کا کردار ہے کہ جب سب نے نہیں، مگر انہوں نے ضرور اس اجازت (رخصت) سے فائدہ اٹھایا کہ جنہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا۔ اور یہ اجازت، یہ رخصت اُس زمرے میں آتی ہے کہ جب اللہ کا رسول ص فرماتے ہیں کہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کرو۔

******************​

ایران میں صدر رفسنجانی کے دور میں عقد المتعہ کو حکومتی سطح پر پہلی مرتبہ پذیرائی ملی۔ پھر خاتمی دور میں آہستہ آہستہ گورنمنٹ انسٹیٹوٹز نے فعال ہونا شروع کیا اور اب باقاعدہ ایک نظام ترتیب دیا جا رہا ہے جس کے بعد یہ شقی القلب لول اللہ کی اس رحمت کو misuse نہیں کر سکیں گے۔

کم از کم ہمارے پاس اس صورت میں ایک حلال پاکیزہ راہ موجود ہے کہ معاشرے کو برائی سے روکا جائے۔

جبکہ مخالف فریق کے پاس سوائے بلند بانگ تخیلاتی دعوؤں کے علاوہ کچھ اور نہیں اور انہیں ایران میں موجود تمام تر برائیاں عقد متعہ کی پیداوار نظر آنے لگیں، مگر کیوں ایسا ہے کہ انہیں اپنے معاشرے میں ہونے والی زناکاریاں نظر آئیں اور نہ مغربی معاشرے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان پاکستانی و عربی زناکاری میں مبتلا نظر آئے، نہ انہیں انٹرنیٹ کا پاکستان میں استعمال نظر آیا، نہ فحش ویڈیوز اور سینما نظر آئے، نہ قوم لوط کا فعل ہوتا نظر آیا، نہ مدارس میں بچوں کے ساتھ گھناؤنا سلوک نظر آیا۔۔۔۔۔۔ اور اگر آیا بھی تو انکے پاس اسکا کوئی ایسا حل نہیں کہ جسے یہ بطور مثال پیش کر سکیں۔
دیکھئے، ہم سے تو ہر ہر قدم پر مطالبہ کیا گیا کہ عملی مثال پیش کریں، تو جناب ذرا اب آپ بھی پچھلے 1400 سال سے موجود ایسے دو چار معاشروں کی مثال پیش کر دیں کہ جہاں آپ نے اپنے ان بلند بانگ تخیلاتی دعوؤں کی مدد سے ان برائیوں پر قابو پایا ہو؟ پاکستانی، مراکشی، تیونسی، ترکی معاشروں وغیرہ کو چھوڑیں، عربی معاشرے کو لیں، اور ان میں بھی خالص سعودی عرب کے معاشرے کو لے لیں۔۔۔۔ کیا یہاں آپ کو مسیار شادی ہوتی نظر آئی اور سعودی مرد انڈونیشی خواتین کو دھوکے دیتے نظر آئے؟

آپ انسانی فطرت کو ٹھکرانے کے لیے ہزار ہا اپنے تخیلاتی دعوے کر سکتے ہیں، مگر اسی فورم میں میں نے ایک تھریڈ شروع کیا تھا جہاں حج کے موقع پر ایسے بدبخت شقی القلب لوگوں کا ذکر تھا جو خواتین کے ساتھ حج کے دوران مجمع میں بیہودہ حرکتیں کرتے ہیں۔

اس تھریڈ میں گواہیاں ممبران کی درج ہیں۔ اگر یہاں پر عقل رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو ہر چیز کو فرقہ وارانہ اختلاف نہیں بناتے، تو اُن کے لیے اس میں سبق پورا موجود ہے۔
 

سویدا

محفلین
آپ کے دوست کی عقل سلیم نہیں‌ہے
جب محفل پر یہ بات ثابت کردی گئی ہے تو خدا را اب آپ ایسے دوستوں کے اقوال مت نقل کریں‌یہاں :)
 

مہوش علی

لائبریرین
ذیل میں‌ چند مزید حوالے ہیں جن سے کہ پتہ چلتا ہے کہ متعہ اور نکاح‌ ایک جیسے نہیں فرق ملاحظہ کریں۔

21- و بهذا الإسناد عن أحمد بن علي عن الباقر (ع) قال قال رسول الله (ص) لما أسري بي إلى السماء لحقني جبرئيل فقال يا محمد إن الله عز و جل يقول إني قد غفرت للمتمتعين من النساء
A woman who lets a man do Mutah with her will have all her sins pardoned. It is narrated by Imam

Baqir that the Prophet said, “When I was being taken to Heaven during the Miraj (ascension),

Jibraeel met me and told me, ‘O Muhammad, Allah has promised to forgive all the sins of those women

who practise Mutah.’”

22- و بهذا الإسناد عن أحمد بن محمد عن موسى بن علي بن محمد الهمداني عن رجل سماه عن أبي عبد الله (ع) قال ما من رجل تمتع ثم اغتسل إلا خلق الله من كل قطرة تقطر منه سبعين ملكا يستغفرون له إلى يوم القيامة و يلعنون متجنبها إلى أن

تقوم الساعة و هذا قليل من كثير في هذا المعنى
For every shower you take after doing Mutah, you will be blessed. For every Mutah you do, you will

get a lot of reward.”

http://www.al-shia.org/html/ara/books/lib-hadis/behar100/b19.htm

فضائل کی بحث

شوکت بھائی،

ابھی تک ہماری حلال و حرام پر موجود نصوص پر گفتگو ختم ہی نہیں ہوئی مگر آپ سب حضرات اللہ کی طرف سے نازل کردہ ان نصوص کو چھوڑ کر عقلی گھوڑے کبھی دوڑاتے ہیں، اور پھر فضائل پر پہنچ جاتے ہیں۔
معذرت، مگر کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کا یہ اسلامی طریقہ ہرگز نہیں ہے اور سوائے باتیں الجھانے اور کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔

فضائل والی روایات کا مقام سب سے آخر میں ہے اور اس سے کسی مسئلے کے حلال یا حرام ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ فضیلت والی یہ روایت غلط ہے، ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ۔

آپ اپنے فقہاء کی کتب اٹھا کر دیکھ لیں، فقہ پر بات کرتے وقت وہ کبھی فضائل کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہوتے۔

اور اپنے علماء کی کتب میں آپ کو مل جائے گا کہ فضائل سب سے آخری چیز ہے اور اس میں "ضعیف" احادیث تک درج کر دی جاتی ہیں۔

********************​

بہرحال فی الحال جوابا صرف ایک یا دو مثالیں آپکی کتابوں سے، اور بقیہ پر بحث گفتگو کے آخر میں۔

"جب مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ پیار سے کھیلتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں اسکا اجر دیتا ہے، اور اسکے پیار کے کھیل کی وجہ سے اللہ انہیں رزق حلال دیتا ہے۔
کنز الاعمال، جلد 16، کتاب النکاح حدیث 44404


اور آپکی اپنی حدیث کتب کے مطابق عورت کےساتھ ہمبستری عبادت ہے اور اس عبادت کے فضائل بے شمار ہیں۔ اس عبادت پر تفصیلی تو بعد میں، فی الحال فقط یہ ایک روایت:

"اور جب کوئی مرد کسی عورت سے جماع کرے تاکہ وہ حاملہ ہو جائے تو اس شخص کو اتنا روحانی ثواب ملتا ہے جو کہ ایسے شخص کے برابر ہے جو پوری رات اللہ کی عبادت کرتا رہا ہو، اُس شخص کے برابر ثواب جو پورا دن روزہ رکھتا رہا ہو، اور اُس مجاہد کے برابر ثواب جو پورے دن خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہو۔ ۔۔۔۔
اور جب مرد اپنی بیوی کو شہوت کی نیت سے ہاتھوں میں لے تو اللہ اسکا اجر اسکے کھاتے میں لکھنا ہے، جب وہ اُسے جپھی ڈالے تو اللہ دس اچھے کاموں کے ثواب کا اجر لکھتا ہے، اور جب وہ عورت سے جماع کرے تو اسکی قیمت اس کائنات اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس سے زیادہ ہے۔ اور پھر جب وہ پاک ہونے کے لیے نہاتا ہے، تو پانی اسکے کسی بال تک نہیں پہنچتا جبتک اُس کو ایک اچھے کام کا اجر نہ مل جائے، اور اسکا ایک گناہ معاف نہ ہو جائے اور اسے ایک درجہ فضیلت نہ مل جائے۔ اور جو کچھ اس غسل سے ملتا ہے اسکی قدر و قیمت اس کائنات اور اس میں پائے جانی والی تمام تر چیزوں سے افضل ہے۔ اللہ اسکی فضیلت اپنے فرشتوں سے فخر کے ساتھ بیان فرماتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ دیکھو، میرے اس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ آدھی رات کو اٹھا ہے کہ اپنی گندگی (جنابت) کو غسل کر کے دور کرے۔ تو اسے یقین ہے کہ میں ہی اسکا رب ہوں، چنانچہ گواہ رہو کہ میں نے اس شخص کو بخش دیا۔
حوالہ: غنیۃ الطالبین، جلد 1، صفحہ 119 تا 120، الباز پبلشنگ INC

اب اگر کوئی انصاف پسند شخص موجود ہے تو وہ یقینا محسوس کرے گا کہ "یکطرفہ پروپیگنڈہ" اور الزامات کا طومار کوئی اور چیز ہے اور کسی چیز سے انصاف کرنا کوئی اور چیز۔
 

مہوش علی

لائبریرین
تو جناب اگر انتہا یٔ ضرورت اور خا ص حالات میں اگر متعہ کی اجازت ہے اور افضلیت ہر حا ل میں دایٔمی نکاح کو ہے تو یہ کیا ہے؟؟؟؟؟
6

6

6

6



اس فضیلت کا آپ کے پاس کویٔ جواب ہے؟؟؟



تو ابنِ حسن بھا یٔ یہ کیا ہے ۔ بقول "ہم سب امید سے ہیں" کے، کیا یہ کھلا تضا د نہیں ہے؟؟؟؟

6


غور کرنے کی با ت ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور معاشرے کو کس طریقے سے سدھار رہے ہیں؟؟؟


نقوی بھائیِ

ہیں تو آپ ہمارے دینی بھائی، مگر جن لوگوں سے مواد لے کر بغیر تحقیق کے آپ نے ہمارا استہزاء اڑایا ہے، تو وہ لوگ تو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ ان دونوں نے تو اپنے نام سے یہ اسلام مخالف چیزیں لکھی تھیں، مگر آپ نے جن لوگوں سے مواد لیا ہے یہ تو جھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کا چوغا پہنچ کر دھوکہ دینے کی انتہا پر پہہنچے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انکی مکاریوں کے سامنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین تو پانی بھی نہیں بھرتے، تو پھر بھلا آپکو کیا ضرورت پیش آئی کہ اس معاملے میں ایسے گھٹیا مکار چالبازوں کے ساتھ اُنکی صف میں جا کھڑے ہوئے؟

چنانچہ آپ سے بہت دست بستہ گذارش ہے اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ ان دجالی کذابوں سے منہ موڑ کر اسلامی روش کی طرف واپس لوٹ آئیں کہ آپ ہمارے محترم اہلسنت بھائی ہیں اور یہ ناصبی روش آپ پر نہیں ججتی۔

********************

ان دجالی کذابوں کی ایک مثال لازمی مجھے یہاں دینا ہے۔

عرصہ دراز سے۔۔۔۔۔ (یہ عرصہ دراز صدیوں کے طویل عرصے پر محیط ہے) انہوں نے ایک جھوٹ ہمارے خلاف باندھا ہوا ہے۔ خدا کے لیے ہمارے اور ان دجالی کذابوں کے مابین انصاف کر دیجئے۔
ذیل کی روایت ملاحظہ کریں جس کا پروپیگنڈہ صدیوں سے ہمارے خلاف کیا جا رہا ہے:

"جس عورت نے ایک مرتبہ متعہ کیا وہ فضیلت میں اس متعہ کے عوض امام حسین تک پہنچ جائے گی اور دو بار متعہ کرنے سے اسکا مرتبہ امام حسن تک اور تین بار کرنے سے امام علی کے مرتبے تک اور چار مرتبہ کرنے سے رسول اللہ کے مرتبے تک پہنچ جائے گی۔"

صدیوں سے شیعہ علماء ان سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ روایت ہماری کونسی کتاب کی ہے؟
تو جواب میں کبھی جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ اصول کافی کی روایت ہے، اور جب جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کتاب "منہاجین الصادقین" میں موجود ہے۔


چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اور اب اس عیاری و افتراء کو کئی سو سال گذر چکے ہیں اور ختم ہونے کی بجائے یہ چیز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ یہودی پروپیگنڈہ ان کذابوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چیز یکطرفہ نہیں "دو طرفہ" ہے اور دونوں سائیڈوں پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو غلط باتیں ایک دوسرے سے منسوب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ، چاہے انکا تعلق کسی گروہ سے ہو، ان سب کے اس طرز عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور یہی چیز انصاف کے قریب ہے۔
 

دوست

محفلین
اوریا مقبول جان کا یہ کالم جس میں لذت پرست مغرب کے آج کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ پڑھنے کے لائق ہے۔
1100813720-2.gif
 

دوست

محفلین
اوریا مقبول جان کا یہ کالم جس میں لذت پرست مغرب کے آج کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ پڑھنے کے لائق ہے۔
1100813720-2.gif
 

دوست

محفلین
اور یہ کچھ اعتراضات کا جواب۔
1100817525-2.gif

اللہ نہ کرے میں متعہ جیسے حیلوں کے جال میں پھنس کر لذت پرست بن جائیں۔ اسلامی معاشروں میں رنڈی بازی موجود ہے اور جو متعہ جیسے حیلوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے معاشروں میں بھی موجود ہے۔ لیکن متعہ کی موجودگی میں خاندانی نظام کا جو حشر ہوگا اس پر توبہ ہی کی جاسکتی ہے اور اللہ کی پناہ ہی مانگی جاسکتی ہے۔ اللہ ہمیں کسی بھی ایسے وقت سے بچائے کہ اہل اسلام متعہ جیسے حیلوں میں آکر لذت پرستی کی راہ پر چل پڑیں۔ اور ہماری خواتین غربت و افلاس سے تنگ آکر پیشہ کرنے لگیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ابھی تک ہماری حلال و حرام پر موجود نصوص پر گفتگو ختم ہی نہیں ہوئی مگر آپ سب حضرات اللہ کی طرف سے نازل کردہ ان نصوص کو چھوڑ کر عقلی گھوڑے کبھی دوڑاتے ہیں، اور پھر فضائل پر پہنچ جاتے ہیں۔
معذرت، مگر کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کا یہ اسلامی طریقہ ہرگز نہیں ہے اور سوائے باتیں الجھانے اور کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔

فضائل والی روایات کا مقام سب سے آخر میں ہے اور اس سے کسی مسئلے کے حلال یا حرام ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ فضیلت والی یہ روایت غلط ہے، ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ۔

فضائل بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک عورت جو کہ چار میں سے نہیں طلاق بھی نہیں پاتی اور ترکہ بھی نہیں بلکہ کرائے والی عورت ہے ۔ مستاجرۃ ہے ۔(بحوالہ الکافی) اس کے درجات اتنے بیان کئے گئے ہیں کہ جتنے منکوحہ مستقلہ کے بھی نہیں او راتنی ترغیب کے باوجود متعہ کو قبول عام کسی دور میں نہ ہو سکا یہ خود اس کا ثبوت ہے کہ یہ من جانب اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی دور میں بھی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اس قابل نہ ہو سکے کہ متعہ اپنی صحیح شکل میں رائج کر سکتے۔

اور جہاں تک آپ نے فضائل بیان کئے ہیں منکوحہ کے متعلق تو یہ بہت ہی کم ہیں کیونکہ نکاح شیطان کے لئے سب سےزیادہ تکلیف دہ فعل ہے اور طلاق سب سے پسندیدہ فعل۔ اور اللہ سبحان و تعالٰی کے ہاں سب سے نا پسندیدہ فعل طلاق ہی ہے۔ (یہاں طلاق سے مراد شوہر بیوی میں جدائی لی جائے تو دیکھیں متعہ میں خود بخود شیطان کی خوشی کا سامان ہو جاتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لی جاتی ہے کہ جدائی کی گھڑی پہلے سے طے کر لی جاتی ہے) اس لئے نکاح کی جتنی بھی ترغیب دی جائے کم ہے ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ، مستقلہ ہے ۔ اور نبی کا ہر فعل من جانب اللہ ہوتا ہے بطور نمونہ اپنے امتیوں کے لئے ۔ تو امتیوں کا کام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح سنت پر عمل کریں نہ کہ مبہم اور غیرواضح امورکے پیچھے بھاگتے پھریں۔

اور بیواؤں کے متعلق تو ہمارے سامنے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے کہ ان کے ساتھ نکاح کیا جائے نہ کہ متعہ ۔ اپنے امتیوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی بھی فکر مند نہیں تھا اور نہ ہو سکتا ہے ۔ روز محشر جب انبیاء بھی نفسی ، نفسی ، نفسی پکار رہے ہوں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم امتی ، امتی ، امتی پکار رہے ہوں گے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ گیارہ امہات المومنین میں سے صرف ایک باکرہ تھیں ۔ تو کیوں نہ جو طریقہ ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھا یا اس پر عمل کرتے ہوئے بیواؤں سے نکاح کیا جائے اور انہیں وہ سارے حقوق دیئے جائیں جو کہ انہیں اللہ اور اسکے رسول نے دیئے ہیں۔ نہ کہ انہیں وقتی ضرورت پوری کرنے کے لئے استعمال میں لایا جائے ، اور معاشرے میں انکی حیثیت کو مزید کمتر کرتے ہوئے ایک لونڈی کی سطح سے بھی نیچے گرا دیا جائے۔

ضرورت ہے کہ بیواؤں سے نکاح کی ترغیب دی جائے فضائل کے لئے سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی متواتر اور مستقل سنت موجود ہے پھر کوئی اور راستہ تلاش کرنے کی ضرورت کیوں ہے کچھ سمجھ سے بالاتر ہے ؟؟؟ اور فرض کریں اگر یہ اتنی ہی ضروری بات ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایسی مثال کیوں نہ چھوڑی اور کیوں نہ کسی عورت سے متعہ اور پھر نکاح کر کے امت کو اس کی ترغیب دی۔گیارہ امہات المومنین میں ہم باکرہ اور بیوہ ، اور لونڈی کو تو دیکھتے ہیں کہ جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کرکے ہمارے لئے راستہ متعین کیا مگر کوئی ایسی مثال نہ چھوڑی جو آپکے مؤقف کے حق میں دلیل ہوتی۔

اور جمہور صحابہ ، تابعین و تبع تابعین اور علمائے امت النساء کی آیت ۲۴ کی جو تفسیر بیان کرتے ہیں اس کی گیارہ (۱۱) عملی تفسیریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تو النساء کی آیت ۲۴ کی جو تفسیر آپ کر تی ہیں اسکی عملی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی میں کہاں ہے ؟؟؟

جبکہ ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کی ہر ہر آیت کی عملی تفسیر ہے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شوکت کریم بھائی،

آپ پھر مستقل طور نصوص کو چھوڑ کر فقط عقل کے گھوڑے پر سوار ہیں۔
رسول اللہ ص نے عقد المتعہ نہیں کیا، مگر یہ بھی رسول اللہ ص کی سنت ہے کہ انہوں نے ایسے صحابہ کو جنہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، اجازت (اور کچھ روایت میں حکم) دیا کہ وہ عقد المتعہ کریں کہ انسان کو وقت و حالات کے تحت پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے ہے۔

اور یہ عقد المتعہ وہ چیز ثابت ہوا جس نے شیطانی راہ کو بالکل روک دیا اور شیطان اس پر بہت سٹپٹایا۔ اب بتلائیے کہ آپکے عقلی گھوڑے الٹا آپ ہی کے قیاسات کو روندنا شروع کر دیں گے۔

نہ وقت ہے اور نہ میں ضرورت محسوس کرتی ہوں کہ آپکو بار بار یاد دھانیاں کرواتی پھروں کہ آپ ہمارے دلائل پر غور نہیں کر رہے ہیں۔ شاید آپ کو برا لگا جب میں نے لکھا تھا کہ ہمارے دلائل سے آپکی نظریں پھسل رہی ہیں، تو بھائی جی ہو سکتا ہے کہ میں نے ٹھیک طریقے سے بات کو آپ تک نہ پہنچایا اور آپ کو میرا انداز برا لگا اور اس پر معذرت مگر بات میں نے حقیقت ہی لکھی ہے۔ اگر آپ نے دیکھ لیا ہوتا کہ صحابہ کو اجازت یا حکم دینا بھی سنت رسول ہے جس سے شیطانی راہ بند ہو رہی ہے تو پھر آپ یہ استدلال پیش نہ کرتے۔

اور جہاں تک مستاجرت کی بات ہے تو میں نے تو آپ کو پہلے ہی جواب دے دیا تھا یہ چیز رسول اللہ ص کے زمانے میں بالکل ایسے ہی رائج تھی اور ہم نے اس میں اپنی طرف سے کوئی اضافے نہیں کیے ہیں (یعنی یہاں مستاجرت کا لفظ اس طرف اشارہ کرنے کی طرف استعمال ہوا ہے کہ نکاح المتہ والی عورت کو رسول اللہ ص نے زوجہ ہی کہا ہے اور ان سے تزویج ہی ہے مگر اسکے باوجود یہ 4 نکاح دائمی والی ازواج میں شامل نہیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ آپکی فقہ میں کنیزوں سے مباشرت کرنے کے باوجود وہ ان 4 دائمی ازواج میں شامل نہیں ہوتیں چاہے ان سے بچے ہی کیوں نہ ہو جائیں اور چاہے ان کنیزوں کی تعداد ہزاروں تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

لسان نبوت نے عقد المتعہ کے لیے "نکاح" کا لفظ استعمال کیا ہے یا پھر "تتزوج (زوجہ)" کو کہ پھر نکاح کو ظاہر کرتا ہے۔ تو اب ہم لسان نبوت کی گواہی کو چھوڑ کر آپکے عقلی گھوڑوں پر کیوں سوار ہوں؟

صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ‏
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح (ازدواج) کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

اب آپ سے مطالبہ ہے کہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی بجائے ہمیں نص سے ثابت کر کے دکھائیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں کیے جانے والے نکاح المتعہ میں زن ممتوعہ اُن 4 نکاح دائمی والی بیویوں میں شامل ہوتی تھی۔
یہ چیز تو آپکو نہیں مل سکے گی، مگر اسکا الٹ اگر آپ کو اپنی فقہ و حدیث کی کتب میں مل جائے تو میرا مشورہ آپ کو یہی ہو گا کہ نصوص کو نظر انداز کر کے عقلی گھوڑے کی سواری نہ کریں۔


***************​

اور شوکت بھائیِ
آپ نے دعوی کیا تھا کہ مغرب میں ہمارے نوجوان طالبعلم و مزدور طبقہ پانچ چھ سالوں تک فرشتوں کی طرح زندگی گذار لے گا۔
ابھی تک آپ نے ایسا مغربی معاشرہ بطور مثال پیش نہیں کیا جہاں ہزاروں لاکھوں پاکستانی و بنگالی و عربی مسلمان موجود ہیں اور وہ ان برائیوں سے محفوظ ہوں؟ بھائی جی یقین کریں آپکو مغربی کا بالکل اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگر پتا ہوتا تو یہ بات نہ کہتے۔ مزدور طبقے کو رہنے دیں، طالبعلموں میں بھی شاید 10 تا 15 فیصد سے زیادہ ایسے لوگ نہ ہوں گے جو خود کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھ پاتے ہوں، ورنہ بقیہ اسی پچاسی فیصد تو آپکو لڑکیوں کے پیچھے ڈسکو میں بھاگتے ہی نظر آئیں گے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہاں پر وہی شخص شریف ہے جو ایسا بودا ہے کہ کوشش کرنے کے باوجود بھی کسی لڑکی کو نہ پھنسا پایا (اس میں مزدور طبقہ اور سٹوڈنٹ دونوں ہی شامل ہیں)۔ یعنی کوشش ہر کوئی کر رہا ہوتا ہے مگر کچھ کو کامیابی نہیں ہوتی، تو ایسوں کو شریف کہنا شرافت کی تذلیل ہو گی۔

اور چھوڑئیے، ہمارے پاکستانی بزرگ جو آج بہت شریف بنے ہوئے ہیں اور مسجدیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں، ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جنکی جوانیاں یہاں زناکاریوں میں گذری ہیں۔ اب بتلائیے آپکے ان بلند دعوؤں کی حقیقت کے سامنے کیا حیثیت ہے کہ جب آپ ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتے بلکہ ہر مثال آپکے عقلی دعوؤں کی نفی کر رہی ہے۔

کاش کہ آپ نے ایک قرآن کی گواہی کو کافی جانا ہوتا جس میں اللہ تعالی نے شادی شدہ صحابہ کے 30 راتوں میں خیانت کرنے کی گواہی دی ہے اور پھر انسانی فطرت کیوجہ سے اللہ تعالی نے ان پر اپنا خاص کرم فرمایا اور انہیں باقاعدہ طور پر اجازت / رخصت؟؟؟؟ دی کہ وہ اپنی بیویوں سے مباشرت کر لیا کریں۔ اس چیز کو آپ حکم میں رکھیں گے یا رخصت میں؟


**********************

چلیں ان مغربی ممالک کے معاشروں کو چھوڑیں، آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ پچھلے 1400 سالوں میں وجود میں آنے والے کسی ایک ایسے مسلم معاشرے کی مثال ہی دے دیں جو ان برائیوں سے پاک ہو؟

اور یقین کریں "آج" کے دور میں یہ برائی کئی گنا مضبوط ہو چکی ہے اور اسے سہارا مل چکا ہے میڈیا اور ٹیکنالوجی کا کہ جہاں ہر طرف میوزک بجتا ہے اور ڈش انٹینا چلتا ہے، ہر سڑک پر ویڈیو سنٹر موجود۔

سب کچھ چھوڑیں، میں نے اپنی اولین مراسلوں میں بی بی سی کی خبر کا ایک لنک بھیجا تھا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے انٹرنیت پر جانے والی پینتالیس 45 فیصد ٹریفک کا براہ راست رخ انٹرنیٹ پر موجود فحش سائٹوں کی طرف ہوتا ہے۔براہ مہربانی پوری خبر بی بی سی کی ویب سائیٹ پر پڑھیے



پاکستان میں انٹرنیٹ ٹریفک 100 فیصد ہے تو اس میں خواتین بھی شامل ہوں گی جنکے متعلق امید ہے کہ وہ ان فحش سائٹوں پر نہیں جاتی ہوں گی (کم از کم انکی بڑی اکثریت)، ایک بڑی تعداد ایسے مرد حضرات کی ہو گی جو کہ پچیس تیس سال سے زائد ہیں اور شادی شدہ ہیں اور وہ بھی ان فحش سائٹوں کا رخ نہیں کرتے ہوں گے، اور پھر آفیسز میں ہر جگہ انٹرنیٹ استعمال ہوتا ہے اور وہاں بھی لوگ فحش سائٹوں پر نہیں جا سکتے۔۔۔۔۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ 45 فیصد کون ہیں؟ تو آپ خود اب خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ45 فیصد وہی نوجوان طبقہ ہے کہ جسکی پچیس تیس سال تک شادیاں نہیں ہوئی ہیں اور پھر فطرت کے تقاضوں کے تحت وہ گناہ میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

تو مغربی ممالک تو ایک طرف، اپنے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی حالت یہ ہے تو پھر آپ کے ان بلند دعوؤں کو کیا حیثیت دی جائے؟

کاش کہ آپ علی ابن ابی طالب کے قول کی گہرائی کو سمجھ سکیں کہ:

1۔ عقد المتعہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت تھی۔
2۔ اور اگر اسے منع نہ کر دیا جاتا تو کوئی زنا نہ کرتا سوائے شقی القلب لوگوں کے کہ انکے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں۔

*****************​

شاکر،

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے اوریا جان مقبول کا مضمون عقد المتعہ کے حوالے سے کیوں پیش کیا ہے۔

سوال: کیا مغربی معاشرے میں مغربی لوگ ایسے ہیں کہ جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے؟

(بلکہ شوکت کریم بھائی نے بھی عجیب و غریب استدلال پیش کیا تھا کہ جب انہیں اسلامی معاشرے میں موجود برائی و زناکاری دکھائی گئی تو انکا استدلال تھا کہ مغربی ممالک میں تو سیکس پر پابندی نہیں تو پھر وہاں کیوں طوائفیں اور چکلے موجود ہیں)

مغرب مذہب کی قید سے نکل کر بالکل مادر پدر ننگا ہو گیا ہے اور یہ Atheist رویہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ فقط اپنے "عقلی گھوڑوں" پر گذارا کریں۔ انکی زندگی جانوروں سے بدتر ہو گئی ہے اور کوئی Morals باقی نہیں بچے ہیں اور جیسا جانوروں کو کھانے پینے اور پھر سیکس کرنے کے علاوہ کوئی اور چیز ذہن میں نہیں ہوتی، تو مغرب کے یہ لوگ بھی اس معاملے میں جانور بن گئے ہیں اور ہر قسم کے سیکس کے طریقوں کو آج عبادت کے طور پر بجا لاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کا اسلامی نکاح یا متعہ کی قیود و شرائط یا دلوں میں اللہ کے خوف سے کیا تعلق؟

اگر آپ کو مثال دینی تھی تو کوئی اسلامی مثال دی ہوتی۔ اور سب سے بڑھ کر مثال خود رسول اللہ اور صحابہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے کہ جہاں دلوں میں اللہ کا خوف تو تھا مگر پھر بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ۔۔۔۔ اور اس پر رسول اللہ ص ان سے کہہ رہے ہیں کہ پاکیزہ طیبات حلال چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو۔ پس ان اصحاب رسول کے ایک گروہ نے عقد المتعہ کے ذریعے خود کو گناہ سے محفوظ رکھا وگرنہ شرطیہ، لازمی، بالضرور انتہائی خطرہ و چانسز تھے کہ وہ کوئی نہ کوئی گناہ کر بیٹھتے۔

**********************​

خیر اوریا جان مقبول کے کالم پر پلٹتے ہیں۔ چند اہم باتیں:

1۔ آجکے مغرب میں آبادی میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
شاکر دعوی کر رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ سیکس کر سکتے ہیں اس لیے انہیں بچوں کی خواہش نہیں ہوتی۔

یہ عجیب و غریب دعوی ہے کیونکہ پچھلی کئی صدیوں تک ایسے معاشرے موجود رہے کہ جہاں سیکس کھلے عام ہوتا تھا اور کنیزیں عام تھیں، عورتوں کی بڑی تعداد مردوں کے مقابلے میں موجود ہوتی تھی کیونکہ پہلے ہر وقت جنگیں جاری رہتی تھیں اور مرد بڑی تعداد میں مارے جاتے تھے، چنانچہ سیکس کھل کر ہوتا تھا، کنیزیں بازاروں میں بکتی تھیں۔۔۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود کثرت سے بچے پیدا ہوتے تھے اور جان بوجھ کر بچے پیدا کیے جاتے تھے کہ وہ بڑے ہو کر کام آئیں۔


2۔ خود پچھلے 1300 سال کی اسلامی تاریخ میں کنیزوں سے بڑے پیمانے پر سیکس ہوتا رہا اور ان کا حصول بہت آسان تھا اور ان سے سیکس کرنا بہت آسان تھا اور انکے کوئی جھنجھٹ بھی نہ تھے کہ جب دل بھر گیا تو آگے بیچ کر نئی کنیز خرید لی۔۔۔۔۔

افسوس کہ شاکر کو یہ سب چیزیں نظر نہیں آئیں اور وہ فقط عقد المتعہ کے پیچھے ہی پڑے ہیں۔

اور شاکر سے قبل شوکت کریم بھائی نے یہی اعتراض اٹھایا تھا کہ جب عقدالمتعہ کی صورت آسانی پیدا ہو گی تو لوگ نکاح کا روگ نہیں پالیں گے وغیرہ وغیرہ، اور میں نے انہیں تفصیلی جواب دیا تھا کہ عقد المتعہ اُس وقت ہے ہی نہیں جب آپکی نکاح والی بیویاں موجود ہیں، اور فقط سفر وغیرہ میں ہے یا پھر جب آپکے پاس نکاح دائمی والی بیویاں موجود نہیں ہے تب ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نکاح المتعہ کی بات تو بہت بعد میں جا کر آتی ہے اور پھچلے 1300 سال تک کنیزیں اتنے عام طور پر میسر تھیں کہ بجائے آزاد عورت کو حق مہر دینے کے کنیز عورت کو خرید لو، اسکا نہ کوئی خرچہ اور نہ کوئی نخرہ، سیکس کرو، اور پھر جب دل بھر جائے تو آگے بیچ کر نئی خرید لو۔۔۔۔۔۔ چنانچہ یہ سب چیزیں، یہ سب آسانیاں موجود تھیں، مگر پھر بھی اسلامی معاشرے میں مسلسل آزاد عورتوں سے نکاح دائمی جاری رہا اور اسکی اہمیت میں کوئی کمی کبھی نہ پیش آئی۔

افسوس کہ آپ لوگوں کے تخیلاتی اعتراضات کی دوڑ فقط عقد المتعہ تک ہوتی ہے اور جب آپ پر کاؤنٹر سوال کیے جاتے ہیں تو آپ مسلسل ہمارے دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی پرانے اعتراضات دہرائے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ برا نہ مانیے گا اگر میں پھر یہ جوابی اعتراض کروں کہ ہمارے دلائل سے نظریں پھسل جاتی ہیں، کیونکہ میں ققط حقیقت بیان کر رہی ہوں اور ثبوت ساتھ پیش کر رہی ہوں۔


3۔ سوال: آج کے مغربی ممالک میں بچے پیدا نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
یہ بالکل غلط دعوی ہے کہ آزادانہ سیکس کی وجہ سے انہوں نے بچے پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔
یہ آزادانہ سیکس تو پچھلی صدیوں میں بھی انہیں کسی نہ کسی شکل میں میسر تھا۔

اصل مسئلہ "معاشی" اور "ضرورت" کا ہے۔

آج یورپ کے مغربی ممالک "معاشی" طور پر بہت زیادہ آگے پہنچ گئے ہیں اور یہاں کے لوگ "ضرورت" ہی محسوس نہیں کرتے کہ بڑھاپے میں بچے انکا سہارا بنیں۔

جی ہاں، بچے پیدا نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ "ضرورت" نہ ہونا ہے۔ یہاں کا سوشل سسٹم ایسا ہے کہ لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ جب وہ بوڑھے ہوں گے تو حکومت انکی دیکھ بھال کرے گی۔ چنانچہ نہ یہ لوگ بچے پیدا کرتے ہیں، اور نہ ہی یہ لوگ کبھی زیادہ پیسہ جوڑتے ہیں، بلکہ یہ اپنی زندگی انجوائے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مرنے سے قبل سارا پیسہ یہیں سیر و تفریح میں گذار دیا جائے بجائے اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کے۔

اب ان مغربی لوگوں کی یہ سوچ ٹھیک ہے یا غلط، یہ الگ مسئلہ ہے، مگر بچے نہ پیدا کرنے کی یہ بنیادی وجہ ہے نہ کہ سیکس کی آزادی۔

اور اگر یہی حالات یہاں تبدیل ہو جائیں، اور ان سے یہ سکیورٹی یہ اطمنان چھین لیا جائے کہ بڑھاپے میں حکومت انکی نگہداشت کرے گی، تو پھر یہی لوگ بچے پیدا کر کے اسے اپنے بڑھاپے کے لیے بطور انشورنس استعمال کریں گے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے غیر مسلم ممالک بھی ہیں کہ جہاں سیکس کی تو آزادی ہے، مگر پھر بھی انکی شرح آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ وہاں پر مغرب کے امیر ملکوں جیسا سوشل سسٹم نہیں ہے اور وہاں بھی بچوں کو بڑھاپے کے لیے بطور انشورنس دیکھا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر والدین کی نگہداشت کریں گے۔

ہمارے اپنے گاؤں اور دیہات میں بچے پیدا کرنے کی شرح شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ۔۔۔ کیا اسکا مطلب ہے کہ ہمارے شہروں میں آزادانہ سیکس زیادہ ہے جس کی وجہ سے بچے پیدا نہیں کیے جاتے؟؟؟ یہ ایک احمقانہ آرگومینٹ ہو گا، اور اصل وجہ اسکی یہ ہے کہ گاؤں میں لوگ بچوں کی کثیر تعداد کو اپنے بڑھاپے کے لیے بطور انشورنس دیکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچے کھیتوں مٰیں کام کریں گے تو زیادہ پیسہ گھر آئے گا۔

چنانچہ اس آبادی کے مسئلے میں عقد المتعہ کو بیچ میں گھسیٹ لانا فقط اس بات کی نشانی ہے کہ کوئی مرغی بھی کہیں مری ہوئی ملے گی تو اسکا الزام بھی اب عقد المتعہ پر لگنا ہے۔

نوٹ:
آبادی اور اس بنیاد پر یورپ میں مسلمانوں کا اکثریت میں آنا الگ موضوع ہے۔
مگر پاکستان کی آبادی 18 کڑوڑ ہو جانے کی وجہ سے بیروزگاری، ماحولیات کی تباہی، غربت جیسے ایسے مسائل لائی ہے کہ جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں اب خود کش بمبار پیدا ہو رہے ہیں۔
حکومت پاکستان ہزار لاکھ کوششیں کر لے مگر وہ آبادی پر کنٹرول نہیں کر سکتی کیونکہ یہاں عوام کا بنیادی مسئلہ "بڑھاپے" کی انشورنس کا ہے۔ یہاں لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں (اور بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں) کہ جب وہ بوڑھے ہوں گے تو کوئی حکومت انکی نگہداشت نہ کر رہی ہو گی اور انکا فقط ایک آسرا ہو گا اور وہ ہے انکے جوانی میں پیدا کیے گئے اور پالے گئے بچے جو انکے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔

چنانچہ اس جوجو افیکٹ کے باعث ہماری آبادی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جائے گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
متعہ پر یہ خبر کافی عرصہ پہلے بی بی سی اردو پر پڑھی تھی۔ یہ صرف ایک عکس ہے جبکہ حالات اس سے بھی سنگین ہونگے۔ ماشاءاللہ ایران میں معقول تعداد میں ایسے بچے ہونگے اب جن کے اباؤں کا کسی کو پتا نہیں ہوگا۔

شاکر،
آپ نے پہلے ہی انکار کر دیا تھا کہ آپ کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، مگر پھر اپنی اسی بات کی مخالفت میں آپ چیزیں یہاں پیش کر رہے ہیں۔
میں نے پہلے آپ سے درخواست کی تھی کہ اگر آپ کو دلائل و جوابی دلائل کی بحث میں نہیں الجھنا تو اس ڈورے سے علیحدہ ہو جائیں۔

بہرحال، آپ نے میری بات پر توجہ نہیں دی۔ خیر۔


1۔ بی بی سی لکھتا ہے اور جسے آپ نے بھی بحث کا بنیادی جزو بنایا ہے:

ملک میں پہلے ہی ہزاروں بچے ایسے ہیں جو کہ عارضی شادیوں سے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں اس لیے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے کہ ان کے والد یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچے ہیں۔

۔ کیا بچے صرف عقد المتعہ میں پیدا ہوتے ہیں، یا پھر زناکاری جو ایران بلکہ آپکے اپنے ملک میں پھیلی ہوئی ہے، اس میں بھی بچے پیدا ہوتے ہیں؟

۔ کیا آپکو اپنے ملک خدادداد میں زناکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کا اندازہ ہے؟

۔ ایران میں عقد المتعہ تو ابھی تک فروغ نہ پا سکا، مگر زناکاری انتہا پر تھی اور یہ زناکاری وہ بنیادی چیز ہے جس میں بے نسب بچے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ عقد المتعہ۔ عیاری یہ ہے کہ زناکاری سے پیدا ہونے والے نامعلوم باپوں کے بچوں کو بھی عقد المتعہ کی گود میں ڈالا جا رہا ہے۔

عقد المتعہ میں بچوں کی ذمہ داری

پہلے عقد المتعہ کی مختلف اقسام سمجھئے۔
عقد المتعہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں جسمانی تعلق ہوتا ہے، مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں شرط ہوتی ہے کہ یہ عقد المتعہ فقط کچھ عرصے کے لیے محرم بننے کے لیے کیا جا رہا ہے مگر اس میں مباشرت نہ ہو گی۔

ائمہ اہلبیت کے فرامین کی روشنی میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ چاہے نکاح ہو یا عقد المتعہ، مگر گواہوں کو کر لیا جائے، اور بہت خاص طور پر تب جب لمبا عرصہ ساتھ گذارنا ہو اور ڈر ہو کہ اس مدت میں ایسے ایام بھی آئیں گے جب بچہ پیدا ہو سکتا ہے۔

خیر اگر کوئی مسافر ہے اور وہ عقد متعہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد آگے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ اپنا مکمل اتا پتا بتلا کر جائے (پچھلی ایک پوسٹ میں میں اسکا حوالہ دے چکی ہوں)۔

چنانچہ اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ پر واجب ہے کہ وہ اسکی مکمل ذمہ داری قبول کرے اور اس سلسلے میں بے تحاشہ روایات موجود ہیں۔

سوال: عقد المتعہ میں باپ اپنے بچے کی ذمہ داری کیوں قبول کرنے لگا؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ عقد المتعہ کرے گا ہی صرف اور صرف وہ شخص جس کے دل میں خدا کا خوف ہے۔
اور اگر شخص ایسا ہے جس کے دل میں خدا کو خوف ہی نہیں، تو پھر وہ تو سیدھا سادھا جا کر زناکاری کرے گا کہ نہ اس میں اُسے عورت کے پاک ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، نہ اور کوئی حدود و قیود کا خیال رکھنا پڑے گا۔

مثال کے طور پر گرائیں صاحب نے ایرانی معاشرے پر اوپر ویڈیو پیش کی ہے۔ اس میں جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا کوئی خوف نہیں، انہوں نے تو سیدھا سادھا جا کر رات دو رات کے لیے ان دونوں عورتوں کے ساتھ زناکاری کی۔
مگر اسکے برعکس، دو اشخاص ان میں ایسے تھے جن کے دلوں میں اللہ کا کچھ خوف تھا، چنانچہ انہوں نے پہلے ان خواتین کو پاک کروایا، پھر ان سے عقد المتعہ کیا اور انہیں محصنین کی قید میں لے آئے۔ چنانچہ اگر ایسے اشخاص کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے بچے کا انکار کر دیں گے؟

(اور یقین کریں اگر ان دو اشخاص کے پاس عقد المتعہ کا راستہ نہ ہوتا تو وہ بھی ان خواتین سے عقد المتعہ کرنے کی جگہ کئی اور خواتین کے ساتھ جا کر زناکاری کر رہے ہوتے)

چنانچہ بنیادی سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عقد المتعہ میں یہ مسائل اس لیے پیدا نہیں ہوتے کیونکہ یہ کرتا ہی صرف وہ شخص ہے کہ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔

اور آج ایرانی قانون میں عقد المتعہ کو رجسٹریشن کروانے کی شق کے بعد تو یہ سلسلہ اور بالکل ختم ہو جائے گا۔



کاؤنٹر سوال: کنیزوں سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب


شاکر،
آپ کا طریقہ کار ابتک یہ رہا ہے کہ آپ اعتراض کرتے ہیں اور پھر کاؤنٹر سوال پر آپکا جواب آ جاتا ہے کہ آپ بحث نہیں کرنا چاہتے۔ مگر انصاف یہ ہے کہ آپ اگر اعتراض کریں تو جوابی اعتراضات کا بھی سامنا کرنے کی آپ میں سکت ہونی چاہیے ہے۔

چنانچہ، اگر انصاف کی بات کرنا چاہتے ہیں تو آپکو کنیزوں سے پیدا ہونے والے بچوں کے نسب کےمتعلق اپنی حدیث اور فقہ کی کتابوں سے بھی جواب دینا ہو گا۔

فرض کریں کہ پرانا زمانہ ہے۔ بازار لگا، سوداگر آئے، انہوں نے کنیز عورت کو بیچا اور پھر آگے روانہ ہو گئے۔ نئے مالک نے کنیز کے استبرائے رحم کا انتظار کیا تو پتا چلا کہ وہ حاملہ ہے۔ اب بتلائیے اس ہونے والے بچے کا کیا بنے گا؟

میں تو شروع سے یہ سوال پیش کر رہی ہوں مگر آپ کی نظر فقط عقد المتعہ پر اعتراضات کرنے پر لگی ہوئی ہے۔
پرانے زمانے میں بھی قاعدہ یہی تھا کہ جن سواگروں یا پرانے مالک سے کنیز کو خریدا جاتا تھا تو اُن سے انکا اتا پتا پوچھ لیا جاتا تھا کہ ایسی صورت میں انہیں مطلع کیا جائے۔ یہ چیز آج ہمیں جتنی بھی بُری لگے، مگر اُس وقت کے حالات کے مطابق اسکا اسکے علاوہ کوئی اور حل موجود ہی نہیں تھا۔ اور اسلام کو اس وجہ سے مطعون نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسکے علاوہ کوئی اور راستہ موجود ہی نہیں تھا اور اسلام کے علاوہ جتنے بھی طریقے اُس وقت اس کنیزوں کے مسئلے سے نپٹنے کے لیے موجود تھے وہ اس سے کہیں بڑھ کر بدتر اور بُرے تھے۔

میں نے شوکت کریم صاحب کے اس اعتراض کے جواب میں کنیزوں سے پیدا ہونے والے بچوں کے نسب کے متعلق کافی تفصیل سے لکھا تھا، مگر حسب معمول مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ اُسے نظر انداز کر گئے اور آپکے تمام تر اعتراضات فقط عقد المتعہ کے لیے ہیں۔

کاؤنٹر سوال:معاشرے کی "قبولیت عام" میں مالک اپنی کنیز باندی سے پیدا شدہ بچے کا نسب ٹھکرا سکتا ہے اور اسے اپنے بیٹے کی جگہ اپنا غلام بنا سکتا ہے

شوکت کریم برادر،
معذرت کہ مجھے یہ مثال دینا پڑ رہی ہے اور ہم یہاں صحیح یا غلط کی بحث نہیں کر رہے مگر آپ معاشرے کی "قبولیت عام" کی بات کرتے ہیں تو دیکھئے کہ معاشرے نے تو اس بات کو بھی قبول کیا کہ ایک شخص اپنی کنیز باندی سے ہمبستری کرتا ہے اور وہ حاملہ ہو جاتی ہے تب بھی بچے کا نسب اُس وقت تک باپ سے نہیں جڑے گا جبتک کہ وہ مالک (باپ) خود اس نسب کو قبول نہ کرے، وگرنہ دوسری صورت میں بچہ غلام بن جائے گا اور کوئی قاضی کوئی عدالت اس مالک (باپ) کو مجبور نہی کر سکتی کہ وہ اس بچے کے نسب کو قبول کرے۔

امام احمد بن حنبل کے بیٹے (محمد بن حنبل) فقہی حکم بیان فرماتے ہیں:
وولد أم الولد ثابت من المولى ما لم ينفه لأنها فراش له وقال عليه الصلاة والسلام الولد للفراش ولكن ينتفي عنه بمجرد النفي عندنا
ترجمہ: یعنی ایک کنیز باندی کا بچہ کا نسب اُسوقت تک مالک سے جوڑا جائے گا جبتک کہ وہ مالک اسکا انکار نہیں کرتا۔ ۔۔۔ہمارے نزدیک بچے کا نسب مالک سے نہیں جڑتا اگر وہ اسکا انکار کر دیتا ہے۔
حوالہ: کتاب المبسوط، جلد 2، صفحہ 152

یہی بات فقہ کی مستند کتاب "فتح القدیر شرح ہدایہ" جلد 10، صفحہ 329 پر موجود ہے:

أم الولد بسبب أن ولدها ، وإن ثبت نسبه بلا دعوة ينتفي نسبه بمجرد نفيه ، بخلاف المنكوحة لا ينتفي نسب ولدها إلا باللعان .
یعنی کنیز باندی کا بچہ، جس کی ولدیت اگر بغیر کسی ثبوت کے بھی ثابت ہو سکتی ہو، مگر اگر مالک اسکا انکار کر دے تو بچے کا نسب جاری نہ ہو گا اور یہ حکم (آزاد عورت سے کیے گئے) نکاح کے برخلاف ہے جہاں ایک بچے کی ولدیت سے اُسوقت تک انکار نہیں کیا جا سکتا جبتک کہ "لعان" کی منزل نہ طے کر لی جائے۔

اور امام شوکانی نے اپنی مشہور کتاب نیل الاوطار، جلد 7، صفحہ 77 پر فرماتے ہیں:
وروي عن أبي حنيفة والثوري وهو مذهب الهادوية أن الأمة لا يثبت فراشها إلا بدعوة الولد ولا يكفي الإقرار بالوطئ ، فإن لم يدعه كان ملكا له
یعنی ابی حنیفہ سے مروی ہے اور الثوری سے بھی اور یہ ھادویہ مذہب ہے کہ کنیز باندی کے بچے کا نسب باپ (مالک) کے دعوے کے بغیر ثابت نہیں ہوتا، اور فقط ہمبستری کر کے وطی کرنا کافی نہیں ہے۔ اور اگر وہ (مالک باپ) نسب کا دعوی نہیں کرتا تو پھر وہ بچہ اُس (مالک باپ) کے لیے غلام بن جائے گا۔
حوالہ: نیل الاوطار از امام شوکانی، جلد 7، صفحہ 77 [آنلائن لنک]

چنانچہ آپ عقد المتعہ اور ہم پر طعن کرتے ہیں، تو کیا اب ان کنیزوں اور انکے بے نسب بچوں کی وجہ سے آپ اپنے اوپر اور اسلام پر طعن نہیں نہیں کریں گے؟

آپ دیکھیں گے کہ آپکے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو گا کہ یا تو اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کر دیں، ورنہ پھر فاروق صاحب کی طرح منکر حدیث اور بالکل آنکھیں بند کر کے پچھلے 1400 سال کی تاریخ کے انکار کر دیں۔ چوائس آپکی اپنی ہے۔ آپ لوگوں سے فارغ ہو کر فاروق صاحب کی منکر حدیث روش کا جواب ابھی دینا ہے مگر ابھی وقت اور موقع نہیں مل رہا۔

آخری نتیجہ میں آپکو ان الفاظ میں دے رہی ہوں کہ اگر کوئی شخص عقد المتعہ کرے گا تو پھر بھی بہت چانسز ہیں کہ عورت گواہوں کی شرط رکھ دے یا پھر وہ خود اللہ کے خوف کے تحت بچے کو قبول کر لے، مگر اگر اس پر یہ عقد المتعہ کا راستہ بند ہو گیا تو وہ سیدھا سادھا جا کر زناکاری کرے گا اور اس زناکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا بہرحال نسب کے کوئی چانسز ہرگز ہرگز نہ ہوں گے۔
اور اسکی مثال آج مغرب میں ایسے کیسز ہیں کہ جہاں مسلمانوں نے جا کر عورتوں کے ساتھ زناکاریاں کی، ان سے بچے پیدا ہوئے مگر وہ اپنی ان اولادوں کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ زناکاری میں مصروف ہو گئے یا پھر پاکستان جا کر کسی پاکباز پاکستانی لڑکی سے شادی کر آئے۔

ڈاکٹر شہلا حائری ایک ایرانی ہیں اور ان کا تحقیقی مقالہ پڑھنے کے لائق ہے۔

ڈاکٹر شہلا حائری کی اس کتاب میں ایسی انہوں نے کون سی اسلامی بات کہی ہے کہ جس پر اچھلا جائے؟
یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی مسلمان کو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین وغیرہ کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دے۔

شہلا حائری صاحبہ کو تو یہ بھی علم نہیں کہ متعہ کی مخالف کر کر کے ایران سوسائٹی میں اس قدر زناکاری پھیلی کہ پہلے اسلامی رجحانات کی جو ویمن تنظیمیں بھی عقد المتعہ کی مخالفت کرتی تھیں، وہ اس تباہ کاری کو دیکھ کر آج خود زور دے رہی ہیں کہ معاشرے میں عقد المتعہ کو فروغ دیا جائے تاکہ انکے اپنے باپ، بھائی اور بیٹے جو زناکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اس سے بچ سکیں۔

شہلا حائری صاحبہ نے اپنی کتاب میں وہی کام کیا ہے کہ ہر چیز کا گناہ عقد المتعہ کی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، مگر ان کو ایرانی معاشرے میں پھیلی زناکاری کا دور دور تک احساس نہیں ہوتا کہ جو کہ عقد المتعہ کی نسبت کئی گنا زیادہ پھیلی ہوئی ہے اور معاشرے کو دیمک کی طرح کاٹتی چلی جا رہی ہے۔

لوگوں کا سارا زور ایسے استہزاء پر ہے کہ ملا حضرات عقد المتعہ سے پیسہ بناتے ہیں، تو ایسا تو ہمارے ہاں نکاح میں بھی ہوتا ہے کہ نکاح خوان کو تھوڑا بہت پیسہ بطور ہدیہ دیا جاتا ہے۔ اور پھر اب ایرانی حکومت نے تو باقاعدہ حکومت کی نگرانی میں ادارے قائم کیے ہیں جہاں یہ تھوڑا بہت ہدیہ دینے کی بھی ضرورت ختم ہو گئی۔
پھر اس پر ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی ہے تو کیا آج تک ہمارے ہاں نکاح پر کوئی ٹیکس لگا؟ کیسے عجیب اعتراضات ہے جو کہ خیالی پلاؤ کی طرح پکائے تو جاتےہیں مگر کھائے نہیں جا سکتے۔

اور اب آخری طعن کہ ایک گھنٹے کے لیے ہوٹل جا کر عقد المتعہ کر لیجئے۔۔۔ تو ایسے عقد تو ہو جائے گا مگر رجسٹریشن کی شرط کے بعد عورت کو اس سے پہلے کم از کم دو حیض (جو کم از کم 45 دن بنتے ہیں) کی عدت گذارنی ہو گی، اور اس ایک گھنٹے کے بعد بھی دو حیض گذارنے ہوں گے۔ چنانچہ جو شقی القلب لوگ جھوٹ بولتے ہوئے عقد المتعہ کے نام کا غلط استعمال کرنا چاہیں گے اور اسکی آڑ میں زناکاری کرنا چاہیں گے تو اب انکے لیے یہ راستہ بھی بند ہو گیا ہے۔ اسکے بعد نہ کوئی عدت کی شرط سے بچ سکے گا اور نہ بچے کے نسب سے انکار کرنے سے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں تھوڑے تذبذب میں ہوں کہ فاروق صاحب کے مراسلے کا جواب دینا شروع کروں یا پھر پہلے آپکے پچھلے مراسلوں و اعتراضات کا جواب دوں۔ پھر سوچتی ہوں پہلے آپ لوگوں سے فارغ ہو کر فاروق صاحب کے مراسلے کی طرف جایا جائے۔

از شوکت کریم:
اللہ تعالیٰ سورۃ‌ النور میں‌ فرماتے ہیں۔

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ سورۃ النور ۳۳

اور اگر کوئی پھر بھی اپنے مولا کے دربار میں بہترین رتبہ نہیں‌ چاہتا تو ۔۔۔

اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر وہ نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے۔ یہ باندی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور یہ بات کہ صبر کرو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ سورۃ النساء ۲۵

مگر بہتر صبر ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے آپ سے پہلے آپکی خدمت میں عرض کی تھی کہ یہ صبر آزاد عورت سے عقد المتعہ کرنے کی صورت میں نہیں تھا۔ آج اس سلسلے میں کچھ اور ثبوت پیش کر رہی ہوں جس سے غلط فہمیاں اور دور ہو جائیں گی۔
بہرحال پہلے وہ کچھ جو میں نے پچھلے مراسلے میں بطور جواب پیش کیا تھا:

اور اوپر آپ سے ایک کاؤنٹر سوال کیا گیا تھا کہ آپ مسلسل سورۃ النور کی آیت اور سورۃ النساء کی آیت 25 نقل کر رہے تھے کہ صبر کرو۔ اور سوال یہ تھا کہ پھر رسول اللہ ص نے ان صحابہ کو صبر کیوں نہیں کروایا بلکہ انہیں عقد المتعہ کرنے کا پھر حکم کیوں دیا تھا؟
آپکی طرف سے تو اسکا جواب نہیں آیا۔ مگر ادھر غور سے سورۃ النساء کو دیکھیں:

آیت 24: ۔۔۔۔ اس میں اللہ تعالی نکاح المتعہ کا حکم دے رہا ہے۔۔۔
آیت 25: اور جو نہ رکھتا ہو تم میں سے قدرت اس بات کی کہ نکاح کرسکے آزاد مومن عورتوں سے تو ان سے جو تمہاری مِلک میں ہوں، کنیزیں ایمان والی اور اللہ خُوب جانتا ہے تمہارے ایمان کا حال، تم سب ایک دوسرے میں سے ہو، سو نکاح کرو ان کنیزوں سے، اجازت سے ان کے مالکوں کی۔ اور ادا کرو انہیں ان کے مہر دستور کے مطابق (تاکہ وہ) قیدِ نکاح میں محفوظ رہنے والیاں ہوں۔ نہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھُپے یارانہ گانٹھنے والیاں۔ پھر جب وہ قیدِ نکاح میں محفوظ ہوجائیں تو اگر ارتکاب کریں بدکاری کا تو ان کے لیے ہے نصف اس سزا کا جو ہے آزاد عورتوں کے لیے مقّرر ہ سزا۔ یہ اس کے لیے ہے۔ جسے ڈر ہو بد کاری میں مُبتلا ہونے کا تم میں سے اور یہ کہ صبر سے کام لو تم۔ یہ بہتر ہے تمہارے لیے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

چنانچہ جب رسول اللہ ص نے صحابہ کو بجائے صبر کرنے کے نکاح المتعہ کا حکم دیا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ:

1۔ متعہ بھی "نکاح" کی ہی ایک قسم ہے
2۔ ان آزاد خواتین سے نکاح المتعہ کا حکم آیت نمبر 24 میں آ گیا ہے۔
3۔ اسکے بعد پھر آیت 25 میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر تم میں آزاد عورتوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں (یعنی نہ تم ان سے نکاح دائمی کر سکتے ہو اور نہ نکاح المتعہ) تو پھر تم کنیز عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہو۔
4۔ چنانچہ یہ صبر کا حکم کنیز باندیوں کے ساتھ مباشرت اور نکاح (جو بذات خود عارضی تعلق ہے) سے مخصوص ہے نہ کہ آزاد عورت سے نکاح دائمی یا نکاح المتعہ کے ساتھ، اور یہی وہ واحد وجہ نظر آتی ہے جسکی وجہ سے رسول اللہ ص نے صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا۔

آپکی طرف سے اس کاؤنٹر سوال کا جواب نہیں آیا۔
بہرحال، اب میں اس سلسلے میں مزید مواد پیش کر رہی ہوں جس کے بعد غلط فہمیاں انشاء مکمل طور پر دور ہو جائیں گی اور مکمل طور پر یقین ہو جائے گا کہہ یہ صبر یہاں پر فقط "آزاد عورت کو چھوڑ کر کنیز عورت سے نکاح" کرنے کے متعلق ہے۔

پہلے ان دو چیزوں کا فرق سمجھیں کہ اسلام میں کنیز عورت سے تعلقات کے دو طریقے ہیں:

1۔ پہلا طریقہ یہ کہ کنیزیں آپکی "ملکیت" میں ہوں۔ آپ بذات خود ان سے پھر مباشرت کر سکتے ہیں، چاہے انکی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو۔

2۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اتنے نادار ہیں کہ آزاد عورت سے کسی صورت نہ نکاح دائمی کر سکتے ہیں اور نہ عقد المتعہ، تو پھر اس صورت میں آپ کسی دوسرے شخص سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی کنیز کا نکاح آپ سے کر دے۔ مگر اس صورت میں کنیز عورت اپنے پرانے مالک کی ملکیت ہی رہتی ہے۔

اس دوسرے سلسلے میں کچھ ایسی قباحتیں ہیں جنکی وجہ سے اسلام نے ناپسند فرمایا ہے کہ آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح یا عقد المتعہ کو چھوڑ کر دوسرے کی کنیز عورت سے نکاح کیا جائے۔ اس ضمن میں ذیل کی روایات میں تفسیر در المنثور (از حافظ جلال الدین سیوطی) سے پیش کر رہی ہوں:

1۔ امام عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، اور ابن جریر نے حضرت حسن بصری سے روایت نقل کی ہے کہ حصور ص نے اس چیز سے منع کیا کہ پہلے آزاد عورت سے شادی کی ہو پھر لونڈی سے نکاح کرے۔ تاہم لونڈی سے نکاح پہلے کیا ہو تو آزاد عورت سے پھر نکاح کرنا جائز ہے۔ اور جو آزاد عورتوں سے شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ لونڈی سے شادی نہ کرے (حوالہ: تفسیر طبری زیر آیت 25 سورۃ النساء)

2۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ ان سے اس آزاد آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو لونڈی سے نکاح کرتا ہے تو آپ نے فرمایا اگر طاقت رکھتا ہو تو پھر جائز نہیں۔ ان سے کہا گیا اگر اسکے دل میں لونڈی کی محبت رچی بسی ہو۔ فرمایا اگر بدکاری کا ڈر ہو تو اس سے شادی کر لے (حوالہ: تفسیر طبری، زیر آیت 4:25)
ایسی ہی روایت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (حوالہ: ایضا)

3۔ امام ابن ابی شیبہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ اس امت کو اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی رخصت دی گئی ہے، مگر اہل کتاب کی لونڈیوں سے نکاح کی رخصت نہیں دی گئی۔ (حوالہ: مصنف ابی ابی شیبہ، جلد ۳، صفحہ 476، روایت 16182)

4۔ امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے حضرت عباس سے روایت نقل کی ہے کہ آزاد آدمی صرف ایک لونڈی سے عقد نکاح کر سکتا ہے۔ (حوالہ: مصنف ابی ابی شیبہ، جلد ۳، صفحہ 476، روایت 16067)

5۔ امام ابن ابی شیبہ نے حضرت قتادہ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی نے صرف ایک لونڈی سے عقد نکاح کی اجازت دی ہے جسے زنا کا خوف ہو اور آزاد عورت سے شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو (حوالہ: مصنف ابی ابی شیبہ، جلد ۳، صفحہ 476، روایت 16070)

6۔ امام ابن منذر نے حضرت عکرمہ سے روایت نقل کی ہے کہ لونڈی سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے تاہم وہ تم پر حلال ہیں کیونکہ انکی اولاد غلام ہو گی (یعنی لونڈی کے مالک کی ملکیت ہو گی نہ کہ باپ کی)
امام ابن جریر الطبری اور ابن ابی حاتم نے آیت کی تفسیر میں حضرت سدی رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ہے کہ تو صبر کرے اور لونڈی سے نکاح نہ کرے تو یہ بہتر ہے کیونکہ نکاح کی صورت میں تیری اولاد غلام ہو گی۔ (حوالہ: تفسیر طبری، تفسیر آیت 4:25)


میرے خیال میں اب بات بالکل واضح ہو چکی ہے اور کسی اگر مگر کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور اس آیت میں صبر کرنے کی یہ تاکید صرف کسی دوسرے شخص کی کنیز عورت سے نکاح کرنے کی حد تک محدود ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
حسب سابق لمبائی زیادہ اور گہرائی کم
کوئی بھی مسلمان اپنے ماں بہن بیٹی کے لئے متعہ سوچنا تو دور کی بات ۔غیر محرم کو چہرہ دکھانا بھی نہیں چاہے گا۔

یہی سوال میں آپ سے کروں تو یقینا مجھ پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوجائے گی
 

دوست

محفلین
محترمہ چودہ سو سال کی نہیں آج کی بات کیجیے۔ غلامی کب کی ختم ہوچکی دنیا سے چناچہ اس کا کھیڑا چھوڑیں اور موجودہ حالات کی بات کریں۔
خوف خدا جس کی آنکھ میں ہوگا وہ متعہ کرے گا ہی نہیں۔ متعہ وہی کرے گا جس کی جوانی اس سے سنبھالی نہیں‌ جارہی اور اس میں وہی عورت آئے گی جو پہلے سے پیشہ کرتی ہے۔
کتابی باتیں نہ کریں حقیقت کی بات کریں۔ آپ جس 45 دن کے حیض، رجسٹریشن، مسافر کا نام پتا کی بات کرتی ہیں یہ کتابی باتیں ہیں۔ جب ایک بندے نے اپنی رات کالی کرلی اس کو کیا ضروت ہے اپنا نام پتا بتا کر مفت کا اولاد کا ڈھول گلے میں‌ ڈلوائے؟ اور وہ عورت جس کا کام ہی پیشہ کرنا ہے، یا آپ کے الفاظ میں جو کرائے پر چلے والی عورت ہے اسے کاہے کی ضرورت پڑی ہے کہ وہ 45 دن تک حیض کا انتظار کرے۔ محترمہ جو کرپشن ہمارے معاشروں میں‌ ہوتی ہے وہ کبھی بھی متعہ کو جس کی حقیقت پہلے ہی مشکوک ہے اور جسے آپ انتہائی نیک مقصد کے لیے پیش کررہی ہیں، اسے ویسی ہی نیک نیتی سے معاشرے میں نافذ کردے۔
مجھ سے احادیث کی بات مت کیجیے، اہل تشیع کی کتب احادیث اہلسنت کی کتب کے بعد وجود میں آئی ہیں اور ان میں موجود متعہ کی احادیث اکثر ہوبہو صحیح‌ مسلم اور صحیح‌ بخاری سے نقل کی ہوئی لگتی ہیں۔ آپ کو متعہ کے حلال کرنے کی احادیث نظر آجاتی ہیں لیکن انھیں‌ کتابوں‌سے متعہ کے حرام ہونے کی احادیث دکھائی نہیں دیتیں۔ سچ ہے ہم ایک سبجیکٹو دنیا میں‌ رہتے ہیں ہماری آنکھوں‌پر لگی عینک صرف ہمیں ہرا ہرا ہی دکھاتی ہے دنیا چاہے نیلی نیلی ہو۔
اور قرآن سے ثبوت کی تو بات ہی نہ کیجیے ایک ایسی بات جس ثابت کرنے کے لیے آپ کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ فلاں‌ فلاں صحابی فلانی آیت کو ایسے پڑھتے رہے ہیں چناچہ یہ متعہ والی آیت ہے۔ یہ چیز تو پورے قرآن کو مشکوک کردیتی ہے کل کوئی اور اٹھ کر کہدے فلاں صحابی فلانی آیت کو ایسے پڑھتا رہا ہے ہمارا تو سارا قرآن گیا نا جی۔ جبکہ یہی قرآن ہے جسے چودہ سو سال سے سند قبولیت حاصل رہی ہے تو پیچھے بات ہی نہیں رہ جاتی۔
میں‌ پھر عرض کروں‌ گا کہ کتابی باتیں‌ نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ متعہ اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہے اور ایک عام میرے جیسا آدمی اس کے نفاذ کے بعد اپنے آپ کو ایسا سانڈ خیال کرے گا جس کی رسی کھول دی گئی ہو اور وہ سب کچھ کرنے کے لیے آزاد ہے۔
ویسے بھی نویں‌ دسویں صدی ہجری میں نو مسلموں کے لیے جاری ہونے والی اس وقتی رخصت کو جواز بنا کر اسے واجب کردینا کوئی اسلام نہیں ہے۔ یہ اتنی ہی ضروری بات تھی تو اسے غزوہ بدر، احد، خندق یا ان مہمات میں بھی نافذ کیا جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مدینے سے باہر بھیجی تھیں۔ اکابر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعہ ثابت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی متعہ نہیں‌ کیا ہم ان نومسلموں کی تقلید میں اپنی زندگیاں جہنم نہیں بنا سکتے جو پتا نہیں چڑھتے سورج کو دیکھ کر مسلمان ہوئے تھے اور جنھوں نے حنین جیسے غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ تیروں کی ایک باڑھ سے ڈر کر چھوڑ دیا تھا۔
مبہم تاریخی حقائق، قرآن کریم سے زبردستی کے ثبوت، ایک دوسرے کا رد کرتی ہوئی روایات کے بل پر میں تو متعہ کو نہیں‌ مانوں‌ گا۔ قرآن صدا لگا لگا کر تھک گیا "ہے کوئی غور کرنے والا" اور آپ کا کہنا ہے کہ عقل سے نہ دیکھیں اس معاملے کو۔ جب ایک چیز اپنی بنیاد سے ہی غلط لگتی ہے تو پیچھے بات ہی کیا رہ جاتی ہے۔ آپ اجتہاد کی بات کرتی ہیں، میں‌ یہ اجتہاد کرتا ہوں کہ معتہ حرام ہے، فعل مکروہ ہے، زناکاری پر مذہب کا لیبل ہے۔ اور اس کا فروغ معاشرے کی تباہی ہے۔ نکاح‌ جیسے ادارے پر ڈاکہ ہے۔ خاندانی نظام میں نقب ہے۔ مردوں کو اسلام کے نام پر کھلے سانڈ کا درجہ دینا ہے۔ جہاں کی آپ بات کرتی ہیں وہاں شاید غیرت کا تصور کم کم ہے۔ میں تو کبھی برداشت نہ کروں کہ میری بہن کوئی کرائےپر چلنے والی عورت بن جائے۔ میں مر نہ جاؤں اس وقت۔ اور ایک بیوہ یا ایسی عورت جس کا کوئی کمانے والا ہی نہیں جب وہ دیکھے گی کہ اس کے پاس ایک آسان ذریعہ ہے تو وہ متعہ کی آڑ میں پیشہ ور بن جائے گی۔ اور اس پیشہ وری کی آڑ میں وہ 45 دن جیسی کسی چیز کا بھی خیال نہیں‌ رکھے گی۔ پتا نہیں‌ کونسے تقوے کی بات کرتی ہیں آپ محترمہ۔ حقائق بہت تلخ ہیں، ویسے مجھے امید ہے کہ ایران میں باقاعدہ متعہ کورس کروائے جاتے ہونگے تاکہ مومنین حدود میں رہ کر یہ فعل کریں۔ آگ سے کھیلیں‌ بھی اور اپنا آپ جلائیں بھی نا۔
متعہ برائی کا لائسنس ہے۔ اب جو کام ڈھکے چھپے ہوتا ہے وہ کل علی الاعلان ہوگا اور اس کے نتائج وہی ہونگے جو محدود پیمانے پر رنڈی بازی کے ہیں۔ آپ کی بات بجا ہے کہ پچاسی فیصد تک طالب علم جنس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ اس پچاسی فیصد میں سے زنا کرنے والے آدھے سے بھی کم ہونگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں موقع نہں ملتا چناچہ وہ جبر کرلیتے ہیں، یا خود لذتی کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ فحش فلم دیکھنا، خود لذتی کرنا اور زنا کرنا دو مختلف چیزیں‌ ہیں۔ اول الذکر سے نہ ناجائز بچے پیدا ہونگے اور نہ خاندان کی بدنامی ہوگی۔ جبکہ متعہ کے نام پر جب نوجوان زنا کریں گے تو اس کے بعد زنا والے سارے نتائج پیش آئیں‌ گے۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ کام پورا ہونے کے بعد اولاد کا ڈھول گلے لٹکائے پھروں، میں تو انکار کردوں‌ گا کہ پتا نہیں‌کس کا گناہ میرے سر منڈھ رہی ہے۔ میں جو ابھی طالب علم ہوں، خاندان نہیں چلا سکتا ایویں‌ ایک بچہ اٹھائے پھروں جو جائز بھی نہیں ہے۔
تو خاتون آپ کے متعہ کے بڑے فوائد ہیں‌ لیکن کتابی فوائد نہیں‌ عملی فوائد کی بات کیجیے عملی سطح پر یہ نقصان ہی نقصان ہے۔ اور آج کے معاشرے میں اس کا نفاذ سادہ الفاظ میں‌ رنڈی بازی اور زنا کاری کو اسلامی شکل دینا ہے۔ اور وللہ میں ایسے اسلام سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس وقت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‌ جب ان نیم اسلامی معاشروں میں ایسی اسلامی زنا کاری کو فروغ حاصل ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ میری ہی سوچ نہیں مومن بھائیوں‌ میں‌ بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی مذہبی تربیت کے باوجود اس فعل سے کراہت کا اظہار کرتے ہیں۔
وما علینا الا البلاغ
 

پاکستانی

محفلین
26218692.jpg

معذرت کے ساتھ ایک گف پیش خدمت ہے۔
یہ گف مجھے کہیں سے ملی تو سوچا اسے ممبران سے شیئر کر لیا جائے۔ برائے مہربانی اسے فرقہ ورانہ رنگ سے نہ دیکھا جائے
 

دوست

محفلین
اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوگی کہ متعہ جیسا "انقلابی" تصویر اسلام نے دیا اور دور جاہلیت کے عرب میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھیں۔
اور مجھے ساری عمر اس بات پر حیرت رہے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نسخہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں زنا کو ختم کرنے کے لیے لاگو کیوں نہ کردیا جبکہ کئی ایک زنا کے کیسز آج بھی روایات میں موجود ہیں۔ آخر آج بھی ایران میں اسے زنا کو ختم کرنے کے لیے ہی فروغ دیا جارہا ہے۔
اور فاروق سرور خان صاحب اگر آپ متعہ کے ان احکامات کی تفاصیل، جو محترمہ اتنی تفصیل بتا رہی ہیں، قرآن کریم سے فراہم کرسکیں ویسی ہی تفصیل جیسی قرآن نکاح، طلاق کے بارے میں فراہم کرتا ہے۔
وسلام
 

میر انیس

لائبریرین
مہوش بہن
آپ کے اتنے تفصیلی اور جامع دلائل کے بعد میرے خیال میں اب مذید اس بحث کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ فریقِ مخالف کی طرف سے کوئی بھی دلیل قران اور احادیث کے حوالے سے نہیں آرہی ہے بلکہ یہ لوگ آدھے آدھے بٹ چکے ہیں ایک گروپ تو بہت طریقہ سے بحث کر رہا ہے پر وہ بھی کوئی مناسب دلیل نہیں دے سکا بلکہ ہمیشہ کی طرح بلاوجہ اعتراضات کا سہارا لے کر عقدِ متعہ کا انکار کیئے جارہا ہے ۔ جبکہ دوسرا گروہ بہت ہی عامیانہ قسم کی باتیں کرکے اور وہی روش جو اہلِ تشیع کے لیئے ہمیشہ سے اختیار کی جاتی ہے کہ نہ تو انکی باتوں کو سننی ہے نا سمجھنا ہے نہ ہی سننے دینے اور سمجھنے دینا ہے صرف اور صرف طعنہ اور تشنہ کا بازار گرم رکھنا ہے یہ لوگ یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ انکے سامنے ایک خاتون ہے تو ذرا بات کرتے ہوئے تھوڑا سا خیالرکھا جائے۔ بہر حال اب میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو جو پیغام پنہچانا تھا اور جتنے دلائل دینے تھے وہ آپ نے دے دیئے ہیں اور اب اس موضوع کو ختم ہوجانا چاہیئے تاکہ اپ کسی اور جگہ وقت دے کر اپنے علم اور معلومات کا دریا بہا سکیں شاید ووہاں لوگ آپ سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس دھاگے کی فرمائش میں نے ہی آپ سے کی تھی اور میں سمجھا تھا کہ محفل کے سمجھدار اور با علم لوگ آپ کی تحاریر سے عقدِ متعہ کے بارے میں جو ان لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوسکیں گیں۔ پر میرا خیال غلط ثابت ہوا لوگ باتوں کو الجھادیتے ہیں اور جو باتیں صدیوں سے انکے دلوں میں ہیں وہ مضبوط سے مضبوط دلائل کے باوجود نہیں نکل سکتیں ۔ اصل بات دراصل یہ ہے کہ انہوں نے جب ایک فرقہ کو ہمیشہ سے ہی نہایت نفرت سے دیکھا ہے اور اس فرقہ کے بارے میں انکو شروع ہی سے نجانے کیا کیا پڑہایا گیا ہے تو وہ یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ انکے فرقہ میں ایک بات قران اور حدیث کے مطابق ہورہی ہوگی اور ہمارے فرقہ نے صدیوں سے جن موضوعات پر ان کو قابل نفرت سمجھا ہوگا ان میں سے ایک عین قران و سنت کے مطابق نکل آئے گا ۔ اور آپ کو تو پتا ہی ہے کہ پرانے زمانے میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جو اہلِ تشیع کے خلاف زبان زد عام تھیں بلکہ میں نے اپنے بچپن تک بہت سے ایسے بہتان سنے جو ہمارے لیئے پھیلائے گئے تھے پر اب اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اہلِ سنت بھائیں کو حقائق کا پتا چلا اور اب وہ خود ہی ان سب باتوں کو محض اہلِ تشیع پر بہتان ہی سمجھتے ہیں ۔ جہاں ایسی بہت سی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آگیئں باقی بھی ایک نا ایک دن وہ سچ مان ہی لیں گے پر میرے خیال میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ ابھی اتنی وسعتِ قلبی نہیں پیدا ہوئی کہ دوسرے کے بھی سکون سے سنا جائے اور اسکی بات پر خود سے بھی فرقہ واریت اور تعصب سے بلند ہوکر توجہ دی جائے۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ چکی ہونگیں
 

dxbgraphics

محفلین
26218692.jpg

معذرت کے ساتھ ایک گف پیش خدمت ہے۔
یہ گف مجھے کہیں سے ملی تو سوچا اسے ممبران سے شیئر کر لیا جائے۔ برائے مہربانی اسے فرقہ ورانہ رنگ سے نہ دیکھا جائے

بہت شکریہ شیئر کرنے کا
اجتماعی متعہ دوریہ پڑھ کر تو بہت ہی افسوس آرہا ہے ان لوگوں پر کہ اس کو تو حلال کرنے کے لئے دلائل پیش کرتے ہیں لیکن اگر ان سے انہی کی آل کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید سیخ پا ہوجائیں۔
اللہ ہر مسلمان ماں بہن بیٹی کو اس شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top