میرے
’’لفظوں کی بنت اور معنوی آہنگ‘‘ ماپنے کے وہ کون سے پیمانے ہیں جن پر کوئی تحریر پورا اترے تو وہ افسانہ، افسانچہ، انشائیہ، تمثیل سے ماورا ہوکر ’’نثم‘‘ کا پیرہن زیب تن کر لیتی ہے؟؟؟ کیا یہ اصول کہیں مدون کئے گئے ہیں؟؟؟
’’لفظوں کی نفسیاتی حرکت‘‘ کیا ہوتی ہے؟ اس کی جامع تعریف کہاں سے ملے گی؟؟
میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، داغؔ، ولیؔ، نسیمؔ، اصغرؔ، اخترؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ ۔۔۔ کسی نے خود کو ’’ناثم‘‘ نہیں کہلوایا بلکہ شاعر کہلائے جانے پر ہی بضد رہے! گویا یہ سب بھی ’’افاعیلی علائم کے زندانی‘‘ تھے جن کے یہاں ’’داخلی ادبی شعور‘‘ عنقا تھا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی مراسلہ سمجھنے کے لئے فرہنگِ آصفیہ کا مطالعہ جاری ہے ۔۔۔ تاہم اصل سوال اب بھی جواب طلب ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ جو کچھ بھی اس ’’نثم‘‘ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔۔ اس کو روایتی نثر کی ہئیت میں لکھنے سے کیا امر مانع ہوتا ہے؟؟؟ اور وہ ایسی کون سی معنویت ہے جو ان جملوں کی ’’رینڈم‘‘ تکسیر کے بغیر برآمد نہیں ہوسکتی؟؟؟
جزاک اللہ،
میرے نزدیک اسے صرف نثر اس لئے نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ یہ زبور کی ہیئت میں ہے۔
اگر میں اسے تورات کے باب پیدائش کی ہیئت میں لکھتا۔۔۔تو یہ کہانی یا افسانہ ہوتا۔
رہی بات شاعر کہلوانے کی۔۔۔تو آپ نے میرا جواب غور سے نہیں پڑھا۔ ورنہ فرہنگ آصفیہ کھنگالنے کی ضرورت نہ پڑتی۔۔۔خوش قسمت ہیں آپ ۔۔۔!
جو آپ کے پاس فرہنگ آصفیہ موجود ہے۔میرے پاس تو فیروز اللغات بھی نہیں۔
نثری نظم لکھنے والا شاعر نہیں کہلا سکتا۔
میرا یہی نظریہ ہے۔
نثری نظم لکھنے والا ۔۔۔ تخلیق کار،ناثم۔۔۔یا نثری نظم لکھنے والا کہلاتا ہے۔
اور اگر نثم کے تناظر میں دیکھیں تو۔۔۔!
نثری نظم لکھنے والا۔۔۔ناثم۔
نثری نظم کی لائنیں۔ نثمیہ مصرعے
نثری نظم کے حرفوں کا آہنگ۔۔۔نثمیہ حرف و معانی کی روانی کہلاتی ہے۔
نثمیہ تعریف۔
جن لفظوں کے سینے میں اساطیر دلفریبی سے دھڑکتی ہو۔۔۔وہ نثری نظم یا نثم کہلاتی ہے۔
اس میں سماجی نفسیات کے ساتھ ادبی شعور ہونا لازمی ہے۔ بصورت دیگر وہ ایک پیرا گراف بن کر رہ جائے گا۔