محمد خرم یاسین
محفلین
سرجی اب "بیچارے قانون سازوں" کوغنڈہ تو نہ کہیےجیسے پاکستان میں غنڈوں کو قانون ساز اسمبلی کا ممبر کہتے ہیں۔
سرجی اب "بیچارے قانون سازوں" کوغنڈہ تو نہ کہیےجیسے پاکستان میں غنڈوں کو قانون ساز اسمبلی کا ممبر کہتے ہیں۔
اگر وہ بیچارے ہیں تو پھر میں غنڈہ ہوا۔سرجی اب "بیچارے قانون سازوں" کو اب غنڈہ تو نہ کہیے
ایک بار پیشی پر آئے ہوئے ایک ریسکیورسے ہمارے آفیسر نے پوچھا "تم بدمعاش ہو؟"اگر وہ بیچارے ہیں تو پھر میں غنڈہ ہوا۔
نثر کے لئے بدصورت ہونا ضروری ہے؟ روانی نثر میں بھی روا رکھی جا سکتی ہے اور رکھی گئی ہے۔) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟
1) اگر یہ نظم ہے تو پھر اس کے اصول و قواعد کیا ہیں؟
2) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟
چلیے اگر یہاں ذاتیات شروع نہ ہوجائے تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔ آپ کے خیال میں ایک صنف جو نہ مکمل نظم ہواور نہ ہی نثر اس کے قواعد کس طرح مرتب کیے جاسکتے ہیں ؟ اگر کسی صنف کے قواعدمرتب نہ کیے گئے ہوں تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟ اردو کا تو اپنارسم الخط تک نہیں، چلیں کچھ حروف کو شامل بھی کر لیں تو پنجابی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ اسے زبان قرار نہ دیا جائے؟ کیا آپس میں بحث کرنے کے بجائے کسی بڑے شاعر یا جامعہ کا رخ نہ کیا جائے تا کہ کسی مستند مدرس سے اس پر بات کی جائے ؟ اگر بات اسے محض نظم مان کر ہی آگے بڑھانے کی ہے تو اسے آزاد نظم سے ایک قدم آگے تصور کر لیجیے جو آزاد نظم جتنی پابندیوں میں بھی نہیں جکڑی جا سکتی۔یوں سمجھئے کہ اسے بحور کی پابندیوں سے آزاد قرار دے دیا گیا ۔ چونکہ یہ نظم و نثر دونوں کا مرقع ہے اس لیے اس میں تجربات جیسا کہ افسانے اور ناول میں کیے گئے مثلا میجک رئیلزم، ڈاڈازم، سیرلزم، ایبسٹریکٹزم وغیرہ کا وسیع امکان موجود ہے۔ میرے خیال میں تو اس کے جواز کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں نثر جیسے تجربات کیے جاسکتے ہیں اور شعریت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ شعریت سے مراد یہاں محض موزوں شعریت ہی نہ لی جائے۔ مائیکرو فکشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، تمام اعتراضات بیچاری نثری نظم پر ہی کیوں؟ حالانکہ اسے ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے، با آسانی کسی بھی زبان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کم از کم غزل سے تو یہ اس حوالے سے بہتر ہی ہے۔ مختلف زبانوں کی نثموں کو با آسانی اردو ترجمہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ سہولت آپ کو کوئی اور صنفِ نظم مہیا کرتی ہے؟ یاد رکھیے ترجمے سے زبانوں کا دامن وسیع ہوتاہے، نئے تجربات کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔(یہ محض میرے خیالات ہیں ، اس حوالے سے اس کے بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں تو اس پر کام کر چکنے والے ڈاکٹر صاحبان سے رابطے کی کوشش کی جائے گی انشا اللہ)۔ دوسرے سوال کا جواز ایسی نثر کےکسی عملی نمونے سے مشروط ہے۔مثلا آبِ حیات کا کوئی اقتباس لے لیجیے پھر اس پر بات ہوگی۔معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے ہنوز ۔۔۔
1) اگر یہ نظم ہے تو پھر اس کے اصول و قواعد کیا ہیں؟
2) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟
یہ ایک غلط فہمی ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ کسی نے ابھی تک اس کو ادب سے باہر کرنے کی بات نہیں کی۔ صرف نظم کہنے پر اعتراض ہے۔ نثر کہنے پر کسی کا اعتراض مجھے نظر نہیں آیا۔ بلکہ یہی کہا جا رہا ہے کہ اس کا شمار نثر میں کیا جائے، نہ کہ نظم میں۔تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟
چلیے اگر یہاں ذاتیات شروع نہ ہوجائے تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔ آپ کے خیال میں ایک صنف جو نہ مکمل نظم ہواور نہ ہی نثر اس کے قواعد کس طرح مرتب کیے جاسکتے ہیں ؟ اگر کسی صنف کے قواعدمرتب نہ کیے گئے ہوں تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟ اردو کا تو اپنارسم الخط تک نہیں، چلیں کچھ حروف کو شامل بھی کر لیں تو پنجابی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ اسے زبان قرار نہ دیا جائے؟ کیا آپس میں بحث کرنے کے بجائے کسی بڑے شاعر یا جامعہ کا رخ نہ کیا جائے تا کہ کسی مستند مدرس سے اس پر بات کی جائے ؟ اگر بات اسے محض نظم مان کر ہی آگے بڑھانے کی ہے تو اسے آزاد نظم سے ایک قدم آگے تصور کر لیجیے جو آزاد نظم جتنی پابندیوں میں بھی نہیں جکڑی جا سکتی۔یوں سمجھئے کہ اسے بحور کی پابندیوں سے آزاد قرار دے دیا گیا ۔ چونکہ یہ نظم و نثر دونوں کا مرقع ہے اس لیے اس میں تجربات جیسا کہ افسانے اور ناول میں کیے گئے مثلا میجک رئیلزم، ڈاڈازم، سیرلزم، ایبسٹریکٹزم وغیرہ کا وسیع امکان موجود ہے۔ میرے خیال میں تو اس کے جواز کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں نثر جیسے تجربات کیے جاسکتے ہیں اور شعریت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ شعریت سے مراد یہاں محض موزوں شعریت ہی نہ لی جائے۔ مائیکرو فکشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، تمام اعتراضات بیچاری نثری نظم پر ہی کیوں؟ حالانکہ اسے ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے، با آسانی کسی بھی زبان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کم از کم غزل سے تو یہ اس حوالے سے بہتر ہی ہے۔ مختلف زبانوں کی نثموں کو با آسانی اردو ترجمہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ سہولت آپ کو کوئی اور صنفِ نظم مہیا کرتی ہے؟ یاد رکھیے ترجمے سے زبانوں کا دامن وسیع ہوتاہے، نئے تجربات کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔(یہ محض میرے خیالات ہیں ، اس حوالے سے اس کے بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں تو اس پر کام کر چکنے والے ڈاکٹر صاحبان سے رابطے کی کوشش کی جائے گی انشا اللہ)۔ دوسرے سوال کا جواز ایسی نثر کےکسی عملی نمونے سے مشروط ہے۔مثلا آبِ حیات کا کوئی اقتباس لے لیجیے پھر اس پر بات ہوگی۔
بلاشبہ آپ نے اہم نکات اٹھائے ہیں۔ اس پر تفصیلی جواب کے منتظر رہیے گا۔ شکریہ محمد خرم یاسین بھائی!
ڈاکٹر صاحبہ کو لازمی کے معنیٰ لغت میں دوبارہ دیکھنے چاہئیں۔ اگر شاعری میں عروض کی پابندی کو وہ خود بھی لازم خیال کرتی ہیں تو اس رعایت کی سفارش کر کے انھوں نے اپنی لیاقت کو سخت مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:شاعری میں عروضی پابندی لازمی ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ نثری نظم کو اتنی رعایت دے دینی چاہیے کہ اسے شاعری کے اقلیم سے باہر نہ نکالا جائے چاہے اس کے گلے میں بحر کی مالا ہو یا نہ ہو۔
اف اللہ!ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:نظم تحت الشعور میں ہوتی ہے اور نثری نظم لا شعور میں جا کرتی ہے۔
نثری نظم کا کوئی حامی آج تک اس بات کا انکار کرتا نہیں سنا گیا کہ نثر کلامِ ناموزوں ہے۔ حذر، حذر!ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:نثری نظم کے حامی یہ بات ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ شعر کلام موزوں ہے اور نثر کلام نا موزوں۔
قلتِ مطالعہ اور نتائج اخذ کرنے میں عجلت ایسی ہی لغویات کو جنم دیتی ہے۔ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:جو لوگ نظم اور نثر کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں ان کو کولرج کی فکر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے کہا تھا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔
میں اس گفتگو کا حصہ بننے سے دانستہ گریز کر رہا تھا مگر اب چونکہ یہ بحث چل ہی نکلی ہے تو چند باتوں کی طرف توجہ دلانی ضروری خیال کرتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے خدا جانے پی ایچ ڈی فرمائی ہے یا ایم بی بی ایس۔ مگر دونوں صورتوں میں بریں عقل و دانش بباید گریست۔ ان کے گفتگو تناقض اور لایعنی ادعاؤں سے ایسی لبریز ہے کہ مجھے حیرت ہے اس مضمون کو چھاپا کس نے اور نقل کرنے والوں نے نقل کیوں کیا۔
ڈاکٹر صاحبہ کو لازمی کے معنیٰ لغت میں دوبارہ دیکھنے چاہئیں۔ اگر شاعری میں عروض کی پابندی کو وہ خود بھی لازم خیال کرتی ہیں تو اس رعایت کی سفارش کر کے انھوں نے اپنی لیاقت کو سخت مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔
اف اللہ!
ڈاکٹر صاحبہ، تحت الشعور اور لاشعور کا مطلب بھی پتا ہے آپ کو؟ یہ کس حکیم نے آپ کو بتلایا کہ نظم تحت الشعور سے پھوٹتی ہے اور نثری نظم لاشعور سے؟ لاحول و لاقوۃ۔
نثری نظم کا کوئی حامی آج تک اس بات کا انکار کرتا نہیں سنا گیا کہ نثر کلامِ ناموزوں ہے۔ حذر، حذر!
قلتِ مطالعہ اور نتائج اخذ کرنے میں عجلت ایسی ہی لغویات کو جنم دیتی ہے۔
شعر کو اگر ہئیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کا متضاد نثر ہے۔ اگر مواد کے اعتبار سے نظر کی جائے تو حکمت یا سائنس۔ موخرالذکر کی وجہ یہ ہے کہ شعر قوتِ متخیلہ کی پیداوار ہوتا ہے سو اس کا نقیض وہ کلام ہو گا جو منطق اور عقل کے مصادر سے پیدا ہو۔
یہ بات کولرج کے حوالے سے تو میرے علم میں نہیں مگر کلاسیک مشرقی ادبیات میں یہ خیال جابجا نقل ہوتا آیا ہے۔ کیا غضب ہے کہ نثری نظم کے معاملے میں جو بحث دراصل شعر کی ہئیت سے متعلق ہے اس میں ایسی دریدہ دہنی سے ایک غیرمتعلق بات اپنی پلپلی رائے کے حق میں نقل کر دی جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو یا تو ہئیت اور مواد کے فرق کا علم نہیں۔ یا وہ دانستہ قاری کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔ یا پھر ان کا مقصود فقط اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا ہے۔ تینوں صورتوں میں وہ اس لائق نہیں کہ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
کئی مصرعے بر وزن فعول فعلن موزوں ہیں۔ اسے کیسے نثری قرار دیا جائے؟؟حصول برکت کے لیے گلزار صاحب کی ایک نثری نظم شئیر کر رہا ہوں وہ سامنے موجود نہیں ورنہ انہیں یہ مشورہ بھی دیتا کہ حضرت ہیلمٹ پہن لیجیے کہیں کوئی پتھر نہ آ لگے
http://www.urdumaza.org/urdu-poetry/view-urdu-poetry/839/87/Gulzar/khhandar.html
بھائی جان یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ مکمل نثر نہیں ہوتی، مکمل نظم بھی نہیں ہوتی ۔کئی مصرعے بر وزن فعول فعلن موزوں ہیں۔ اسے کیسے نثری قرار دیا جائے؟؟
مکمل موزوں ہے. آزاد نظم ہے.
جی بالکل مکمل موزوں ہے اور آزاد نظم ہے جوخرم بھائی نے شئیر کی ہے اس میں چند ایک غلطیاں ہیں!مکمل موزوں ہے. آزاد نظم ہے.