نثری نظم کا عہدِ موجود

اگر وہ بیچارے ہیں تو پھر میں غنڈہ ہوا۔ :terror:
ایک بار پیشی پر آئے ہوئے ایک ریسکیورسے ہمارے آفیسر نے پوچھا "تم بدمعاش ہو؟"
ریسکیورنے کمال معصومیت سے جواب دیا"نہیں سر میرا بڑابھائی بدمعاش ہے"

اب وہ بیچارے ہمارے ہی منتخب کردہ ہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں ہم :)
 

فرقان احمد

محفلین
معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے ہنوز ۔۔۔

1) اگر یہ نظم ہے تو پھر اس کے اصول و قواعد کیا ہیں؟
2) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟ یا پھر نثم میں اور 'رواں دواں نثر' میں کیا بڑا فرق ہے؟
 
آخری تدوین:
) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟
نثر کے لئے بدصورت ہونا ضروری ہے؟ روانی نثر میں بھی روا رکھی جا سکتی ہے اور رکھی گئی ہے۔
اس کو نثر کہنے میں کیا امر مانع ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
1) اگر یہ نظم ہے تو پھر اس کے اصول و قواعد کیا ہیں؟
2) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟

صاحب! یہی تو میرے سوالات ہیں نثری نظم یا نثم کہنے والوں سے!!! یہ جواب مل جائیں تو کم از کم میری تشفی ہو جائے گی۔
 
نثم مجھے کچھ امریکی نما لگی ہے۔ جو اصلا نا افریقی ہے نا یورپی۔ کچھ کہتے ہیں اینگلو ہے۔ کچھ افریقی کہنے پہ مصر ہیں کچھ یورپی۔ بہتر ہے اسے اظہار خیال، ابلاغ کا ذریعہ مانا جائے۔ اس کے وجود سے یکسر انکار ممکن نہیں۔ اسے ادب اور سخن کے محلے میں رہنے دیں۔ رہی اس کی ذات تو اسے نثم پکارا جانا کافی معقول ہے۔ نثری نظم کہنے سے خود اسے ایک الگ حیثیت سے پہچان نہیں ملے گی۔
 
معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے ہنوز ۔۔۔

1) اگر یہ نظم ہے تو پھر اس کے اصول و قواعد کیا ہیں؟
2) اگر یہ نثر ہے تو پھر خوب صورت اور رواں دواں نثر کو 'نثری نظم' یا 'نثم' کیوں نہ کہا جائے؟
چلیے اگر یہاں ذاتیات شروع نہ ہوجائے تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔ آپ کے خیال میں ایک صنف جو نہ مکمل نظم ہواور نہ ہی نثر اس کے قواعد کس طرح مرتب کیے جاسکتے ہیں ؟ اگر کسی صنف کے قواعدمرتب نہ کیے گئے ہوں تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟ اردو کا تو اپنارسم الخط تک نہیں، چلیں کچھ حروف کو شامل بھی کر لیں تو پنجابی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ اسے زبان قرار نہ دیا جائے؟ کیا آپس میں بحث کرنے کے بجائے کسی بڑے شاعر یا جامعہ کا رخ نہ کیا جائے تا کہ کسی مستند مدرس سے اس پر بات کی جائے ؟ اگر بات اسے محض نظم مان کر ہی آگے بڑھانے کی ہے تو اسے آزاد نظم سے ایک قدم آگے تصور کر لیجیے جو آزاد نظم جتنی پابندیوں میں بھی نہیں جکڑی جا سکتی۔یوں سمجھئے کہ اسے بحور کی پابندیوں سے آزاد قرار دے دیا گیا ۔ چونکہ یہ نظم و نثر دونوں کا مرقع ہے اس لیے اس میں تجربات جیسا کہ افسانے اور ناول میں کیے گئے مثلا میجک رئیلزم، ڈاڈازم، سیرلزم، ایبسٹریکٹزم وغیرہ کا وسیع امکان موجود ہے۔ میرے خیال میں تو اس کے جواز کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں نثر جیسے تجربات کیے جاسکتے ہیں اور شعریت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ شعریت سے مراد یہاں محض موزوں شعریت ہی نہ لی جائے۔ مائیکرو فکشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، تمام اعتراضات بیچاری نثری نظم پر ہی کیوں؟ حالانکہ اسے ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے، با آسانی کسی بھی زبان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کم از کم غزل سے تو یہ اس حوالے سے بہتر ہی ہے۔ مختلف زبانوں کی نثموں کو با آسانی اردو ترجمہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ سہولت آپ کو کوئی اور صنفِ نظم مہیا کرتی ہے؟ یاد رکھیے ترجمے سے زبانوں کا دامن وسیع ہوتاہے، نئے تجربات کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔(یہ محض میرے خیالات ہیں ، اس حوالے سے اس کے بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں تو اس پر کام کر چکنے والے ڈاکٹر صاحبان سے رابطے کی کوشش کی جائے گی انشا اللہ)۔ دوسرے سوال کا جواز ایسی نثر کےکسی عملی نمونے سے مشروط ہے۔مثلا آبِ حیات کا کوئی اقتباس لے لیجیے پھر اس پر بات ہوگی۔
 
تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟
یہ ایک غلط فہمی ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ کسی نے ابھی تک اس کو ادب سے باہر کرنے کی بات نہیں کی۔ صرف نظم کہنے پر اعتراض ہے۔ نثر کہنے پر کسی کا اعتراض مجھے نظر نہیں آیا۔ بلکہ یہی کہا جا رہا ہے کہ اس کا شمار نثر میں کیا جائے، نہ کہ نظم میں۔
 

فرقان احمد

محفلین
چلیے اگر یہاں ذاتیات شروع نہ ہوجائے تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔ آپ کے خیال میں ایک صنف جو نہ مکمل نظم ہواور نہ ہی نثر اس کے قواعد کس طرح مرتب کیے جاسکتے ہیں ؟ اگر کسی صنف کے قواعدمرتب نہ کیے گئے ہوں تو کیا وہ صنف ِ ادب ہی نہیں قرار دی جائے گی؟ اردو کا تو اپنارسم الخط تک نہیں، چلیں کچھ حروف کو شامل بھی کر لیں تو پنجابی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ اسے زبان قرار نہ دیا جائے؟ کیا آپس میں بحث کرنے کے بجائے کسی بڑے شاعر یا جامعہ کا رخ نہ کیا جائے تا کہ کسی مستند مدرس سے اس پر بات کی جائے ؟ اگر بات اسے محض نظم مان کر ہی آگے بڑھانے کی ہے تو اسے آزاد نظم سے ایک قدم آگے تصور کر لیجیے جو آزاد نظم جتنی پابندیوں میں بھی نہیں جکڑی جا سکتی۔یوں سمجھئے کہ اسے بحور کی پابندیوں سے آزاد قرار دے دیا گیا ۔ چونکہ یہ نظم و نثر دونوں کا مرقع ہے اس لیے اس میں تجربات جیسا کہ افسانے اور ناول میں کیے گئے مثلا میجک رئیلزم، ڈاڈازم، سیرلزم، ایبسٹریکٹزم وغیرہ کا وسیع امکان موجود ہے۔ میرے خیال میں تو اس کے جواز کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں نثر جیسے تجربات کیے جاسکتے ہیں اور شعریت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ شعریت سے مراد یہاں محض موزوں شعریت ہی نہ لی جائے۔ مائیکرو فکشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، تمام اعتراضات بیچاری نثری نظم پر ہی کیوں؟ حالانکہ اسے ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے، با آسانی کسی بھی زبان کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ کم از کم غزل سے تو یہ اس حوالے سے بہتر ہی ہے۔ مختلف زبانوں کی نثموں کو با آسانی اردو ترجمہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ سہولت آپ کو کوئی اور صنفِ نظم مہیا کرتی ہے؟ یاد رکھیے ترجمے سے زبانوں کا دامن وسیع ہوتاہے، نئے تجربات کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔(یہ محض میرے خیالات ہیں ، اس حوالے سے اس کے بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں تو اس پر کام کر چکنے والے ڈاکٹر صاحبان سے رابطے کی کوشش کی جائے گی انشا اللہ)۔ دوسرے سوال کا جواز ایسی نثر کےکسی عملی نمونے سے مشروط ہے۔مثلا آبِ حیات کا کوئی اقتباس لے لیجیے پھر اس پر بات ہوگی۔

بلاشبہ آپ نے اہم نکات اٹھائے ہیں۔ اس پر تفصیلی جواب کے منتظر رہیے گا۔ شکریہ محمد خرم یاسین بھائی!
 
بلاشبہ آپ نے اہم نکات اٹھائے ہیں۔ اس پر تفصیلی جواب کے منتظر رہیے گا۔ شکریہ محمد خرم یاسین بھائی!

اس سلسلے میں جو صاحب فی الوقت رابطے میں آ سکتے ہیں وہ نصیر احمد ناصر صاحب ہیں۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے۔
https://www.facebook.com/naseer.nasir.3?fref=ts
میں نے انہیں قواعد کے حوالے سے سوال بھیج دیا ہے۔ آپ بھی ان سے بات کر سکتے ہیں۔

حصول برکت کے لیے گلزار صاحب کی ایک نثری نظم شئیر کر رہا ہوں وہ سامنے موجود نہیں ورنہ انہیں یہ مشورہ بھی دیتا کہ حضرت ہیلمٹ پہن لیجیے کہیں کوئی پتھر نہ آ لگے :)

http://www.urdumaza.org/urdu-poetry/view-urdu-poetry/839/87/Gulzar/khhandar.html
 
میں اس گفتگو کا حصہ بننے سے دانستہ گریز کر رہا تھا مگر اب چونکہ یہ بحث چل ہی نکلی ہے تو چند باتوں کی طرف توجہ دلانی ضروری خیال کرتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے خدا جانے پی ایچ ڈی فرمائی ہے یا ایم بی بی ایس۔ مگر دونوں صورتوں میں بریں عقل و دانش بباید گریست۔ ان کی گفتگو تناقض اور لایعنی ادعاؤں سے ایسی لبریز ہے کہ مجھے حیرت ہے اس مضمون کو چھاپا کس نے اور نقل کرنے والوں نے نقل کیوں کیا۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:
شاعری میں عروضی پابندی لازمی ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ نثری نظم کو اتنی رعایت دے دینی چاہیے کہ اسے شاعری کے اقلیم سے باہر نہ نکالا جائے چاہے اس کے گلے میں بحر کی مالا ہو یا نہ ہو۔
ڈاکٹر صاحبہ کو لازمی کے معنیٰ لغت میں دوبارہ دیکھنے چاہئیں۔ اگر شاعری میں عروض کی پابندی کو وہ خود بھی لازم خیال کرتی ہیں تو اس رعایت کی سفارش کر کے انھوں نے اپنی لیاقت کو سخت مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:
نظم تحت الشعور میں ہوتی ہے اور نثری نظم لا شعور میں جا کرتی ہے۔
اف اللہ!
ڈاکٹر صاحبہ، تحت الشعور اور لاشعور کا مطلب بھی پتا ہے آپ کو؟ یہ کس حکیم نے آپ کو بتلایا کہ نظم تحت الشعور سے پھوٹتی ہے اور نثری نظم لاشعور سے؟ لاحول و لاقوۃ۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:
نثری نظم کے حامی یہ بات ماننے کو ہر گز تیار نہیں کہ شعر کلام موزوں ہے اور نثر کلام نا موزوں۔
نثری نظم کا کوئی حامی آج تک اس بات کا انکار کرتا نہیں سنا گیا کہ نثر کلامِ ناموزوں ہے۔ حذر، حذر!
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا:
جو لوگ نظم اور نثر کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں ان کو کولرج کی فکر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے کہا تھا کہ شاعری کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔
قلتِ مطالعہ اور نتائج اخذ کرنے میں عجلت ایسی ہی لغویات کو جنم دیتی ہے۔
شعر کو اگر ہئیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کا متضاد نثر ہے۔ اگر مواد کے اعتبار سے نظر کی جائے تو حکمت یا سائنس۔ موخرالذکر کی وجہ یہ ہے کہ شعر قوتِ متخیلہ کی پیداوار ہوتا ہے سو اس کا نقیض وہ کلام ہو گا جو منطق اور عقل کے مصادر سے پیدا ہو۔
یہ بات کولرج کے حوالے سے تو میرے علم میں نہیں مگر کلاسیک مشرقی ادبیات میں یہ خیال جابجا نقل ہوتا آیا ہے۔ کیا غضب ہے کہ نثری نظم کے معاملے میں جو بحث دراصل شعر کی ہئیت سے متعلق ہے اس میں ایسی دریدہ دہنی سے ایک غیرمتعلق بات اپنی پلپلی رائے کے حق میں نقل کر دی جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو یا تو ہئیت اور مواد کے فرق کا علم نہیں۔ یا وہ دانستہ قاری کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔ یا پھر ان کا مقصود فقط اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا ہے۔ تینوں صورتوں میں وہ اس لائق نہیں کہ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
 
آخری تدوین:
میں اس گفتگو کا حصہ بننے سے دانستہ گریز کر رہا تھا مگر اب چونکہ یہ بحث چل ہی نکلی ہے تو چند باتوں کی طرف توجہ دلانی ضروری خیال کرتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے خدا جانے پی ایچ ڈی فرمائی ہے یا ایم بی بی ایس۔ مگر دونوں صورتوں میں بریں عقل و دانش بباید گریست۔ ان کے گفتگو تناقض اور لایعنی ادعاؤں سے ایسی لبریز ہے کہ مجھے حیرت ہے اس مضمون کو چھاپا کس نے اور نقل کرنے والوں نے نقل کیوں کیا۔

ڈاکٹر صاحبہ کو لازمی کے معنیٰ لغت میں دوبارہ دیکھنے چاہئیں۔ اگر شاعری میں عروض کی پابندی کو وہ خود بھی لازم خیال کرتی ہیں تو اس رعایت کی سفارش کر کے انھوں نے اپنی لیاقت کو سخت مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔

اف اللہ!
ڈاکٹر صاحبہ، تحت الشعور اور لاشعور کا مطلب بھی پتا ہے آپ کو؟ یہ کس حکیم نے آپ کو بتلایا کہ نظم تحت الشعور سے پھوٹتی ہے اور نثری نظم لاشعور سے؟ لاحول و لاقوۃ۔

نثری نظم کا کوئی حامی آج تک اس بات کا انکار کرتا نہیں سنا گیا کہ نثر کلامِ ناموزوں ہے۔ حذر، حذر!

قلتِ مطالعہ اور نتائج اخذ کرنے میں عجلت ایسی ہی لغویات کو جنم دیتی ہے۔
شعر کو اگر ہئیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کا متضاد نثر ہے۔ اگر مواد کے اعتبار سے نظر کی جائے تو حکمت یا سائنس۔ موخرالذکر کی وجہ یہ ہے کہ شعر قوتِ متخیلہ کی پیداوار ہوتا ہے سو اس کا نقیض وہ کلام ہو گا جو منطق اور عقل کے مصادر سے پیدا ہو۔
یہ بات کولرج کے حوالے سے تو میرے علم میں نہیں مگر کلاسیک مشرقی ادبیات میں یہ خیال جابجا نقل ہوتا آیا ہے۔ کیا غضب ہے کہ نثری نظم کے معاملے میں جو بحث دراصل شعر کی ہئیت سے متعلق ہے اس میں ایسی دریدہ دہنی سے ایک غیرمتعلق بات اپنی پلپلی رائے کے حق میں نقل کر دی جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو یا تو ہئیت اور مواد کے فرق کا علم نہیں۔ یا وہ دانستہ قاری کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔ یا پھر ان کا مقصود فقط اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا ہے۔ تینوں صورتوں میں وہ اس لائق نہیں کہ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

راحیل بھائی نجانے یہ اردو ویب کو کیا ہوگیا ہے جو کچھ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا وہ میرے ساتھ منسوب ہو گیا ہے۔ بار بار خرم یاسین نے کہا لکھا آرہا ہے ۔ :)
 
حصول برکت کے لیے گلزار صاحب کی ایک نثری نظم شئیر کر رہا ہوں وہ سامنے موجود نہیں ورنہ انہیں یہ مشورہ بھی دیتا کہ حضرت ہیلمٹ پہن لیجیے کہیں کوئی پتھر نہ آ لگے :)

http://www.urdumaza.org/urdu-poetry/view-urdu-poetry/839/87/Gulzar/khhandar.html
کئی مصرعے بر وزن فعول فعلن موزوں ہیں۔ اسے کیسے نثری قرار دیا جائے؟؟
 

عباد اللہ

محفلین
مجھے تو یہ آزاد نظم دکھائی پڑی ہے تاہم اس میں چند غلطیاں ہیں میں اسے ریختہ پر دیکھتا ہوں شاید وہاں درست شکل میں مل جائے​

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں​

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ہاتھوں کی روشنی جل کے بُجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کُھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں​

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں
زندگی کے معنی گرے ہیں اور گِر کے
کھو گئے ہیں​
 
Top