موسم بھی نہیں غم کا مگر ٹوٹ رہا ہے

نیرنگ خیال

لائبریرین
موسم بھی نہیں غم کا مگر ٹوٹ رہا ہے
کس حبس میں آنکھوں سے ثمر ٹوٹ رہا ہے

جیسے کسی ٹہنی پر لرزتے ہوئے پتے
اے موسم ہجراں میرا گھر ٹوٹ رہا ہے​
سہمے ہوئے نکلے ہیں پرندے بھی میرے ساتھ
آندھی سے میرے گھر کا شجر ٹوٹ رہا ہے

یہ خون کے قطرے میرے چلنے کا صلہ ہیں
یا پاؤں سے چپکا ہوا در ٹوٹ رہا ہے

میں خواب کی سرحد پر کھڑا دیکھ رہا ہوں
مجھ جیسا کوئی شخص ادھر ٹوٹ رہا ہے

نکلے ہیں جنازوں کی طرح لفظ قلم سے
تخلیق کے پردے میں ہنر ٹوٹ رہا ہے

اک جلتی ہوئی کشتی سمندر میں رکی ہے
موجوں میں تذبذب ہے، بھنور ٹوٹ رہا ہے

یہ خواب قبیلہ کہیں آنکھوں سے نہ بہ جائے
ساحل سا پس دیدہ تر ٹوٹ رہا ہے​
(نامعلوم)​
 
Top