منصور مکرم
محفلین
اکبر بگٹی ( ڈاکووں) کو مارنے کے بعد ہاتھ سے نکلتا ہوا بلوچستان
ملا ڈیزل کا ایک قصہ ذرداری کے ایک سابق ڈرائیور نے سنایا تھا۔ اس کے بعد سے میں اس ملا کی عظمت کا قائل ہوگیا تھا۔۔
آپکے اطلاع کیلئے یہ ایک خبر
گولیاں تینوں کو لگی ہیں۔ شازیہ کی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہونے کی اطلاع بھی مجھے ایک اعلی سرکاری عہدیدار نے فراہم کی تھی۔اور حکومت کے باتوں پر اعتماد کا یہی بدلہ تو ملنا تھا۔گولیاں ملالہ اور شازیہ کو لگی تھیں۔ شازیہ بھی سی ایم ایچ میں ہے۔ اور آپ نے غلط بیانی سے کام لیا تھا اور کہا تھا کہ شازیہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہے۔ اور جہاں تک کائنات کا تعلق ہے تو سرکاری ہسپتال میں اسے کیوں نہیں لے جاتے، کم از کم علاج تو شروع ہو۔
میں نے ایک دو انٹرویو سنے تھے اسکے جب اسے ایوارڈ ملا تھا شایدآپ سب لوگ یہ بتائیے کہ اس واقعہ سے پہلے ملالہ کو کون جانتا تھا؟؟؟؟
میں نے تو اس بچی کے متعلق ٹی وی پر ہی سنا ہے پہلی مرتبہ۔۔
بلکہ اس واقعے سے پہلے ٹی وی پر بھی کبھی اس کا تذکرہ ہوتے نہیں دیکھا یا سنا۔۔۔
آپ "پاکستانی 2 نمبر " رکھوا لیںمیں کیا کہہ سکتا ہوں شاید کوئی پاکستانی کے نام سے پہلے ہیں
دھاگے کا عنوان دیکھ لیجئے۔۔۔قوم کی دھمالجب بھی دیکھتا ہوں یہی اسی دھاگے پر گفتگو ہورہی ہوتی ہے۔کمال ہے
ویسے عاطف بھائی نے عنوان بھی زبردست رکھا ہےدھاگے کا عنوان دیکھ لیجئے۔۔۔ قوم کی دھمال
بہت ہی خوبصورت بات کی ہے آپ نے ساجد بھائی مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے لوگ بحث برائے بحث کے شوق میں یہ سوچے سمجھے بغیر باتیں کرتے چلے جاتے ہیں کہ ان باتوں کا کوئی نتیجہ بھی نکلنا ہے یا نہیں۔ کسی کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہو نہ ہو مگر بات ضرور کرنی ہے۔ حسیب نے پانی میں مدھانی والی بات بالکل ٹھیک کہی ہے۔عزیزانِ من ، کوئی بین الاقوامی معاملہ ہو یا ملکی مسئلہ اس پر ہماری رائے میں اختلاف پایا جانا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ دراصل اختلافِ رائے ہی متعلقہ معاملے میں ہماری دلچسپی اور اس کے حل کی ہماری خواہش کا عکاس ہوتا ہے۔ لہذا جب ہم کسی معاملے کو آپس میں زیرِ گفتگو لائیں تو اختلافِ رائے برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کر لیا کریں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے جو بد اعتمادی تک جا پہنچتا ہے۔
اس پوری بحث میں اب تک جو دیکھا گیا وہ یہی ہے کہ اختلاف رائے کرنے والوں کو طالبان کا حمایتی یا کم از کم ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے کہا گیا۔
دوستانِ گرامی ،صحافت اور میڈیا کی سیاست میں دلچسپی رکھنا الگ بات ہے لیکن اس کے اندر جھانک کر دیکھیں تو بین الاقوامی و ملکی امور کے جامِ جہاں نما میں ، آج کے وقت کی ڈرامائی سیاست کے کردار اپنی اصل سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر روزانہ 4 سے 6 گھنٹے ان ڈراموں کا مشاہدہ کرتا ہوں اور ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ سرسری سیاسی مشاہدہ ہمیں کبھی بھی اس "وار آن ٹیرر" اور ملالہ پر ہونے والے حملے کو سمجھنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے روزانہ کی بنیاد پر بین الاقوامی سیاست کا گہرا مطالعہ اور اہم ممالک کے پارلیمانی و عوامی رویوں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہاں نہ تو کوئی طالبان کی حمایت کر رہا ہے اور نہ ہی ملالہ پر حملے کا دفاع کر رہا ہے ، جو کہ اچھی بات ہے۔ ہاں اگر اس حملے کی علت و اسباب میں اختلاف کر رہا ہے تو اسے طالبان کا حامی نہیں کہا جا سکتا۔