میرے بلاگ پر شائع کی گئی ایک پرانی تحریر:
آداب، دوستو۔
کل کا روزِ سعید سب کو مبارک!
بچپن سے میری ایک عادت رہی ہے۔ میں بزرگوں، اور بعض اوقات اپنے قابل اور لائق ہم عمروں کے لیے بھی کرسی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔ میری عمر کوئی سات برس ہو گی کہ ایک روز ابو جان گھر آئے۔ میں عادتاً کھڑا ہو گیا۔ ابو شاید میری کسی بات پر ناراض تھے۔ فرمانے لگے:
کرسی چھوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ احترام اور قدر حقیقی نیکی ہے۔ اس سے محروم ہو تو کرسی چھوڑنے کی کیا ضرورت؟
میں آج بھی لوگوں کے لیے عادتاً کرسی چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر واللہ کم ہی ایسا ہوا ہو گا کہ میں نے کسی ایسے شخص کے لیے جگہ خالی کی ہو جس کی قدر میرے دل میں نہ ہو اور مجھے یہ بات یاد آ کے دل میں کانٹے کی طرح نہ چبھی ہو۔
مگر کیا کریں؟ کرنا پڑتا ہے۔ اور تو اور عیدوں پہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کرسی چھوڑنا تو ایک طرف، قربانی کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ کہاں روحِ ابراہیمی اور کہاں ہماری جاں نثاریاں؟ کون کہ سکتا ہے کہ ابوالانبیا علیہ السلام کی سنت ہم زندہ کر رہے ہیں؟ اللہ میاں تو فرماتے ہیں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرو۔ ابراہیم علیہ الصلواۃ و سلام کو بیٹا سب سے پیارا تھا۔ دے دیا۔
کیا ہمیں واقعی دنیا میں سب سے پیارا اپنا بکرا ہوتا ہے، صاحبو؟
کیسی قربانی، کہاں کی جانثاری؟ کون سی حق پرستی؟ کیا کر رہے ہیں ہم؟ کرسی چھوڑ رہے ہیں بس!
کیا کریں؟ مجبوری ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
ہمیں واقعی دنیا میں سب سے پیارا اپنا بکرا ہوتا ہے،
سو اسے ہی قربان کر دیتے ہیں ۔
اور یقین کر لیتے ہیں پچھلے سال کے گناہ معاف ہوئے ۔
اگلی عید پر اس سال کے معاف ہوجائیں گے ۔
ھذا من فضل ربی کا بورڈ لگا رشوت ذخیرہ اندوزی ملاوٹ سب سے مستفید ہوتے ہیں ۔۔۔
یہی چلن ہے ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک سچی تحریر جو آئینہ دکھا رہی ہے ہمیں ۔۔
اللہ سوہنا ہم پر رحم فرمائے آمین
ڈھیروں دعائیں
 
Top