عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
نہیں @عظیم، یہ تو بس تک بندی لگتی ہے
کرم کی اتنہا ہونے لگی ہے
اُنہیں مُجھ سے وفا ہونے لگی ہے
۔۔درست لیکن کوئی خاص نہیں

لگے جیسے وہ جھانکیں چلمنوں سے
کہ مستانی ہوا ہونے لگی ہے
۔۔روانی بہتر نہیں

خُدا جانے حقیقت بندگی کی
ہمیں پہ کب یہ وا ہونے لگی ہے
÷÷+یہ وا‘ میں یہ بھرتی کا ہے

نظر میں نُور اُترا جائے میرے
مقدر میں حیا ہونے لگی ہے
۔۔دو لخت؟؟

کوئی بڑھ کر تسلی دو خُدارا
مری ہستی فنا ہونے لگی ہے
۔۔دست، کوءی خاص بات نہیں

نہیں معلوم صاحب کیا خطا تھی
خبر کیا کیا خطا ہونے لگی ہے
سمجھ میں نہیں آیا، خبر کا خطا ہونا؟؟؟؟
 

عظیم

محفلین
جی بابا : )
خبر کیا - کیا خطا ہونے لگی ہے -
نظر میں نور اترا جائے - میرے ..
بابا "زور آزمائی" : )
 

عظیم

محفلین
اِک نظر دید کرا دو کہ مٹا جاتا ہُوں
بیچ کا پردہ ہٹا دو کہ مٹا جاتا ہوں

مُجھ کو کیا دِین سے فرصت ہے غرض دُنیا سے
آخری بار بتا دو کہ مٹا جاتا ہوں

اِس سے پہلے کہ مٹا دے یہ زمانہ مُجھ کو
اپنے ہاتھوں سے مٹا دو کہ مٹا جاتا ہوں

کُچھ تو اے پاس رکھو اپنی وفا کا تُم بھی
ایک وعدہ تو نبھا دو کہ مٹا جاتا ہوں

مٹ چُکے تُجھ سے اے صاحب جہاں میں کیا کیا لوگ
تُم بھلے گا کے سُنا دو کہ مٹا جاتا ہوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جب کبھی ہم سکون پاتے ہیں
اُس دِل افروز پر لٹاتے ہیں

اُن کی خاطر میں کیا قیامت تُو
جو ازل سے ستائے جاتے ہیں

اپنی پہچان بُھول جاتی ہے
عشق میں وہ مقام آتے ہیں

کس طرح اِس زبان سے کہہ دیں
وہ مرا ضبط آزماتے ہیں

ہم نہ دُشمن تلاش پائے اور
لوگ یاروں کو ڈھونڈ لاتے ہیں

ایک مجنوں ہیں داستاں اپنی
ہم تمہیں دشت کی سناتے ہیں

خواب جانے ہیں کونسے صاحب
جو ہمیں رات بھر جگاتے ہیں
 

عظیم

محفلین
دل پہ اپنے کُچھ اختیار نہیں
کون کہتا ہے مُجھ کو پیار نہیں

تیرے بارے میں سُنتا آیا ہُوں
اے صنم تُجھ پر اعتبار نہیں

اِس ذرا جان پر ستم اتنے
دُشمنی ہے ، کہیں کا پیار نہیں

منتظر آپ کا ہُوں جب سے مَیں
مُجھ کو اپنا بھی انتظار نہیں

ہُوں خطاوار اے زمانے لیک
اب وہ پہلے سا داغدار نہیں

مُجھ سے پھولوں کا تذکرہ کیسا
میری جھولی میں اِک شرار نہیں

آہ ، مر ہی نہ جاؤں صاحب مَیں
جو مُجھے زندگی سے پیار نہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چلو اُن کو بُھلا کر دیکھتے ہیں
قیامت سی اُٹھا کر دیکھتے ہیں

یہ شان اُس شان والے کی ہے کافر
جسے ہم بُت بنا کر دیکھتے ہیں

لحاظہ آئینوں میں قید ہیں ہم
جو خُود میں یُوں سما کر دیکھتے ہیں

ہمیں جلوے حسینوں کے گریزاں
کسی بُت کو خُدا کر دیکھتے ہیں

کبھی تُم بھی پلٹ کر ہم پکارو
تمہیں تُم تُم صدا کر دیکھتے ہیں

عظیم اپنے ہمارے خواب سارے
زمانے کو دِکھا کر دیکھتے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اے خُدا مُجھ کو آزمانا کیا
امتحاں دے گا یہ دِوانہ کیا

مَیں کہ رُسوا ہُوں تیری گلیوں میں
میری نظروں میں ہے زمانہ کیا

تیری جانب چلا جو آتا ہُوں
تیری جانب تھا مُجھ کو جانا کیا

حال اِس بیخودی کا کہنا کیوں
عشق کرنا تو پھر بتانا کیا

رازِ حق آشکار ہو تُجھ پر
مُجھ دعا دوں بھی ظالمانہ کیا

شعر کہنا کہاں کہ ہم صاحب
شوق رکھتے ہیں شاعرانہ کیا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اُنہیں واپس بُلاؤ
اجی محفل سجاؤ

سُنو نا ہو چُکا رُوٹھ
خُدارا مان جاؤ

کرو تشریح غم کی
مری دُرگت بتاؤ

دوا دارُو کرو کچھ
ذرا کُچھ غم بٹاؤ

چلے بھی آؤ کافر
زمانے کے خُداؤ

لگی ایسی ہے دِل کی
بجھا کر تُم دکھاؤ

کہو اپنے خُدا سے
اِنہیں مت آزماؤ

اے صاحب ہو چُکا جو
اُسے تُم بھول جاؤ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ لیکن
چسنو نا ہو چُکا رُوٹھ
خُدارا مان جاؤ
روٹھ بطور اسم استعمال ہوا ہے، جو غلط ہے
 

الف عین

لائبریرین
بھائی کوئی یہاں بھی کیڑے نکال دِیا کرو ! اللہ آپ کا بھلا کرے ۔
میں ہوں نا!!!
مُجھ دعا دوں بھی ظالمانہ کیا
یار عظیم، ہر جگہ میر کی زبان میں تجھ مجھ مت کیا کرو۔ یہاں تو غلط ہی ہے، سیدھا سادا ’میں ‘کہنے میں کیا حرج ہے؟
 

عظیم

محفلین
دِل میں اِک سوز پال رکھتے ہیں
جو تمہارا خیال رکھتے ہیں

آہ کیا جانئے کہ صاحب آپ
اپنے آگے سوال رکھتے ہیں

کب ہے مرنے کی ہم کو فرصت ، کام
یہ بھی ہم کل پہ ٹال رکھتے ہیں

کہہ چُکیں تیری بندگی میں کُچھ
ہم کب ایسی مجال رکھتے ہیں

کیوں گلا چِیرتے ہیں روز و شب
کِس سُخن پر کمال رکھتے ہیں

اُن کو ہے لاحقہ کوئی دِل کا
ہم کہ دِل میں ملال رکھتے ہیں

جانے کِس ضبط کی ستائش پر
وہ یُوں صاحب نڈھال رکھتے ہیں
 

عظیم

محفلین
اُنہیں واپس بُلاؤ
اجی محفل سجاؤ

سُنو نا ہو چُکا اب
خُدارا لوٹ آؤ

کرو تشریح غم کی
مری دُرگت بتاؤ

دوا دارُو کرو کچھ
ذرا کُچھ غم بٹاؤ

چلے بھی آؤ کافر
زمانے کے خُداؤ

لگی ایسی ہے دِل کی
بجھا کر تُم دکھاؤ

کہو اپنے خُدا سے
اِنہیں مت آزماؤ

یہ صاحب سن چکے سب
نئے مضمون لاؤ
 

عظیم

محفلین
آپ کی چاہتوں میں جیتے ہیں
ہم بڑی راحتوں میں جیتے ہیں

وصل کی آرزو نہ کی جائے
قُرب کی ساعتوں میں جیتے ہیں

ہیں خُود اپنی خُودی سے ہم بیخود
چین سے آفتوں میں جیتے ہیں

مانگتے ہیں ہم آپ کی قربت
بس اِنہی چاہتوں میں جیتے ہیں

ہم کہ مُشتاقِ وصلِ یاراں تھے
ہجر کی غارتوں میں جیتے ہیں

تُم کو صاحب نہ راس آئیں پر
سب اِنہی راحتوں میں جیتے ہیں
 
Top