عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
اپنے دن رات تڑپنے کی جزا مانگی ہے
ہم نے اِس بار بھی مرنے کی دُعا مانگی ہے

زندگی تلخ تُو اتنی بھی نہیں تھی لیکن
تُجھ کو ہر حال میں جینے کی سزا مانگی ہے

ہم نے اِک بُت کو تراشا ہے خُداؤں جیسا
اور پھر اُس سے خُداؤں سی وفا مانگی ہے

داغ رکھتے ہیں نگاہیں اے مقدر تُجھ پر
اُن گلی کُوچوں کی ہم نے جو گھٹا مانگی ہے

کیا کہیں کتنا تڑپتے ہیں یہاں ہم صاحب
اور اغیار نے ہنسنے کی ادا مانگی ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اُس کے در سے اُٹھائے جاتے ہیں
لو کہ ہم بھی مٹائے جاتے ہیں

خاک ہی تو نصیب تھی اپنا
خاک میں ہی ملائے جاتے ہیں

ہم ہیں نوحہ گری پہ مائل اور
لوگ نغمے سُنائے جاتے ہیں

ہم سے مظلوم اے جہاں والو
ظلم اپنے پہ ڈھائے جاتے ہیں

اُن کو ہم سے وفا کی ہے اُمید
ہم کہ خُود کو بُھلائے جاتے ہیں

اک تعلق کے واسطے یارو
تُم سے دامن چُھڑائے جاتے ہیں

دل نوازی کا اُن کی کیا کہنا
اپنا شیدا بنائے جاتے ہیں

ہم ہی ضدی تھے دار تک پہنچے
ورنہ غنچے جلائے جاتے ہیں

یُوں فقیروں کے بھیس میں صاحب
بادشاہوں سے پائے جاتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ کچھ اشعار اچھے نکالے ہیں عظیم نے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
تو غالب کا مصرع ہے!!
یہ دو اشعار سمجھ میں نہیں آ سکے
ہم ہی ضدی تھے دار تک پہنچے
ورنہ غنچے جلائے جاتے ہیں

یُوں فقیروں کے بھیس میں صاحب
بادشاہوں سے پائے جاتے ہیں
 

عظیم

محفلین
بابا پہلے میر کا پورا شعر اب غالب کا مصرع o_O
ویسے شکر ہے اس میں تهوڑا سا فرق نکلا - ان کو ہم سے وفا کی ہے امید -
 

عظیم

محفلین
زلفِ جاناں کا خَم نکلتا ہے
ہم سے مجنوں کا دَم نکلتا ہے

دِل کو جتنا بھی چِیر کر دیکھو
آپ کا ہی تو غم نکلتا ہے

اُن کی یہ چھیڑ چھاڑ ہے ہم سے
ہم غریبوں کا دَم نکلتا ہے

ہم جو خُوشیوں کا نام لیتے ہیں
مُنہ سے اِک لفظ غم نکلتا ہے

زندگی دم ہی بھر کی دی ہوتی
دم بھی تو ایک دم نکلتا ہے

مرنے والا کہاں ہے یہ صاحب
آج کل گھر سے کم نکلتا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اے دِلِ ناشاد اب جانے بھی دے
مت کر اُن کو یاد اب جانے بھی دے

لُٹ چُکی دُنیا ہماری ، مِٹ چُکے
ہو گئے برباد اب جانے بھی دے

کب تلک روئیں مقدر کو بتا
بن گئے اُستاد اب جانے بھی دے

رہ گئی حسرت وصالِ یار کی
ہو چُکی فریاد اب جانے بھی دے

ہم ہیں خُود وابستگی سے آشنا
کیا خُدا کی یاد اب جانے بھی دے

جب کہا صاحب نگاہیں کیجئے
کہہ دِیا بے داد اب جانے بھی دے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، مطلع بدل دو، دو لخت لگتا ہے
زلفِ لیلیٰ کا خَم نکلتا ہے
اور مجنوں کا دَم نکلتا ہے
کیسا رہے گا؟
 

عظیم

محفلین
آپ کی یاد کے ستائے ہیں
ہم تو محشر میں بِن بُلائے ہیں

جن کی قامت کا تذکرہ کیجئے
وہ مری رُوح میں سمائے ہیں

لاکھ درجہ عنایتیں ہوں گی
ہم بھی کب آپ سے پرائے ہیں

یہ محبت پھر اُس پہ پاگل پن
کیا غضب آسماں نے ڈھائے ہیں

اُس تغافل پسند کے نخرے
ناز کیا کیا نہ ہم اُٹھائے ہیں

اپنی صورت کو دیکھئے کیسے
کس حسیں ہاتھ کے بنائے ہیں

وہ نہ آئے ہمیں سے جب ملنے
لوگ کس واسطے کو آئے ہیں

اُن بُتوں سے عظیم کہہ دینا
ہم خداؤں کے آزمائے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ترے غم کا خزانہ چاہئے تها
کہ جینے کا بہانا چاہئے تها

لئے ہی مر گئے زخم جگر ہم
زمانے کو دکهانا چاہئے تها

بنا ڈالا عبث عاشق کا دل آپ
کوئی پتهر بنانا چاہئے تها

انہیں جن چار دن کا یاد رکها
بهلانے کو زمانہ چاہئے تها

وہ کیا جانیں کسی کی بیقراری
انہیں تو بس ستانا چاہئے تها

اے دل ہم جانتے ہیں یوں نہیں تجھ
کسی بت سے لگانا چاہئے تها

کہا مرتا ہوں آئے دفن کرنے
رقیبوں کو بہانہ چاہئے تها

دیا سوز جگر صاحب تو بولے
تجهے کچھ عاشقانہ چاہئے تها
 

عظیم

محفلین
چاک سینے کے کیا دکھاؤں میں
کیوں کلیجا نہ چِیر کھاؤں میں

راز اِس بیخودی کا جانُوں کُچھ
تو کسی غیر کو بتاؤں میں

اے مسیحا مری دوا لاحول
ہائے اپنے خُدا سے پاؤں میں

جاں پہ میری عذاب اُترا ہے
اور تیرا کرم بتاؤں میں

اے ستم ساز تُجھ وفا خاطر
خُود سے کیونکر وفا نبھاؤں میں

آہ صاحب کسے کروں ہم راز
اپنے دُکھڑے کسے سُناؤں میں
 

عظیم

محفلین
کرم کی اتنہا ہونے لگی ہے
اُنہیں مُجھ سے وفا ہونے لگی ہے

لگے جیسے وہ جھانکیں چلمنوں سے
کہ مستانی ہوا ہونے لگی ہے

خُدا جانے حقیقت بندگی کی
ہمیں پہ کب یہ وا ہونے لگی ہے

نظر میں نُور اُترا جائے میرے
مقدر میں حیا ہونے لگی ہے

کوئی بڑھ کر تسلی دو خُدارا
مری ہستی فنا ہونے لگی ہے

نہیں معلوم صاحب کیا خطا تھی
خبر کیا کیا خطا ہونے لگی ہے
 
Top