عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
زندگی ہم تجهے کس طور بسر کر جائیں
اتنی ہمت بهی نہیں ہے کہ ہمیں مر جائیں

بابا ہمیں بطور ہم ہی -
میں سمجھ تو گیا تھا مگر پڑھنے والے شک بھی کر سکتے ہیں۔
مخمور نے اچھا کر دیا ہے مطلع بھی۔
مقطع تمہارا بہتر ہے جو اب کہا ہے
 

عظیم

محفلین
زندگی موت بنتی جاتی ہے
یُوں مُجھے آگہی ستاتی ہے

اِک خُوشی سی ہے میرے اِس دل میں
جو مجھے رات دن رُلاتی ہے

دیکھنا چاہتا ہُوں میں تُجھ کو
تیرگی راستے میں آتی ہے

اب بھلا اور کیا ہو میری چاہ
تیری خواہش مُجھے جگاتی ہے

کیوں تماشا بناؤ گے میرا
ایسی حالت دِکھائی جاتی ہے

ختم کر دو یہ بے رُخی مُجھ سے
اب تو دُنیا بھی ظلم ڈھاتی ہے

کاش خوابوں میں تُم چلے آؤ
میں یہ دیکھوں کہ نیند آتی ہے

حسن پردہ نشیں ہوا صاحب
آج بے پردگی بتاتی ہے
 

عظیم

محفلین
کوئی مستانا جانیں
ہمیں دیوانہ جانیں

یہ کیا اپنا کہیں جن
وہی بیگانہ جانیں

ہماری کم نصیبی
جہاں میخانہ جانیں

کوئی ہو کیوں ہمارا
کسے اپنانا جانیں

نہ مر جائیں کہیں ہم
ہمیں دفنانا جانیں

تُم اپنی چال بدلو
کہ ہم اترانا جانیں

کِیا ہے عشق ہم نے
بھلا بتلانا جانیں

اُڑیں ہم خاک ہو کر
اگر اُڑ جانا جانیں

کہو اِن واعظوں سے
ہمیں سمجھانا جانیں

تغافل اسقدر کیوں
کہ ہم شرمانا جانیں

کہیں کیا اِس جہاں سے
یہ سب ہرجانا جانیں

نہیں بہلا کبھی دل
مگر بہلانا جانیں

عظیم اب تک ہیں زندہ
اجی مر جانا جانیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جانے کس جرم کی سزا دی ہے
زندگی جو مجھے عطا کی ہے

تُم ہو اِک بُت مگر تمہارے میں
ایک خوبی مِرے خُدا سی ہے

کون جانے کیوں آہ بھرتا ہوں
میں نے کس واسطے دعا کی ہے

زہر دیتے ہیں روز مُجھ کو وہ
اور یہ کہتے ہیں کب دوا دی ہے

ہم نہ سمجھیں گے تُجھ سے اے ناصح
ہم نے ساری سمجھ گنوا لی ہے

سانس آتا نہیں ہمیں پل کو
ہم سے کیا دشمنی ہوا کی ہے

مست نظروں کی مے انہیں صاحب
پوچھئیے آپ نے بھی کیا پی ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تُم نہ آئے نہ تُم نے آنا تھا
دُوریوں کا تو بس بہانہ تھا

آج خُود کو نہیں میسر میں
میرے قدموں تلے زمانہ تھا

کاش پہلے بتا دِیا ہوتا
بیچ رستے میں چھوڑ جانا تھا

کُچھ تو کرتے مری مسیحائی
تُم کو اپنا رقیب جانا تھا

اپنا گھر بار چھوڑ آیا ہوں
خواب کا اک نگر بسانا تھا

امتحاں کِس لئے رکھا میرا
تُم نے مُجھ کو جو آزمانا تھا

مر گیا جان سے گیا صاحب
بھول جائیے کہ اک دوانہ تھا
 

عظیم

محفلین
بھلا کیوں مسکرائیں تُم بتا دو
تمہارا غم بُھلائیں تُم بتا دو

کِیا خُود کو جو ہم نے آپ رُسوا
کسے تہمت لگائیں تُم بتا دو

بُلائیں وہ ہمیں تو ہم رقیبو
تڑپتے کیوں نہ جائیں تُم بتا دو

کہ دُنیا ہم تمہاری چاہتوں میں
یہ جیون کیوں بِتائیں تُم بتا دو

دِئیے جو زخم تُم نے اے ستمگر
کسے جاکر دِکھائیں تُم بتا دو

نہ کیوں کھو جائیں اپنی بیخودی میں
خُودی کو ڈُھونڈ لائیں تُم بتا دو

تُمہاری بے رُخی کی وجہِ کامل
ہم ایسے جان پائیں تُم بتا دو

کہو صاحب جُنوں کا حال تُم کے
تمہیں کیا ہم بتائیں تُم بتا دو
 

عظیم

محفلین
تیری چاہت میں مرنے والے ہیں
ہم بھی حد سے گُزرے والے ہیں

کوئی وعدہ وفا کِیا ہوتا
ہم نہ کہتے مکرنے والے ہیں

کیا مقدر سنوارتے پھریے
کب مقدر سنورنے والے ہیں

یُوں تو کوئی خفا نہیں ہوتا
خُود سے پردہ سا کرنے والے ہیں

ہم ہی تنہا ہوں وحشتوں میں کیوں
لوگ تُجھ سے بھی ڈرنے والے ہیں

یاد پھر سے اُنہیں کرو صاحب
زخم سینے کے بھرنے والے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یہ گلہ ہے آسماں سے مجھے عشق ہو گیا ہے
کہوں کیا میں اِس جہاں سے مجھے عشق ہو گیا ہے

تری آرزو نے مُجھ کو در در ہے یُوں پھرایا
کہ چلا ہوں لامکاں سے مجھے عشق ہو گیا ہے

اے غرورِ ظل الہی مجھے خاک سے تھی نسبت
جو گِرا ہُوں آسماں سے مُجھے عشق ہو گیا ہے

دئیے لاکھ جگ نے تعنے کِیا ظالموں نے رسوا
پہ نہیں کہا زُباں سے مجھے عشق ہو گیا ہے

یہ عجائبوں کی دنیا یہ خرافتوں کا جنگل
مجھے کیا غرض یہاں سے مجھے عشق ہو گیا ہے

تمہیں راستہ دکھانا کہ بھٹک چُکا ہوں صاحب
کہا مُڑ کے پاسباں سے مُجھے عشق ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جانے کس جُرم کی سزا دی ہے
زندگی جو مجھے عطا کی ہے

تُم ہو اِک بُت مگر تمہارے میں
ایک خوبی کسی خدا سی ہے

کوئی جانے کیوں آہ بھرتا ہُوں
مَیں نے کِس واسطے دُعا کی ہے

زہر دیتے ہیں روز وہ مُجھ کو
اُس پہ کہتے ہیں کب دوا دی ہے

ہم نہ سمجھیں گے تُجھ سے اے ناصح
ہم نے ساری سمجھ سجھا لی ہے !

سانس آتا نہیں ہمیں پل کا
ہم سے کیا دُشمنی ہوا کی ہے

مست نظروں کی مئے اُنہیں صاحب
پوچھئے تو کبھی ذرا پی ہے !؟
 

عظیم

محفلین
تُم نہ آئے نہ تُم کو آنا تھا
دُوریوں کا تو بس بہانہ تھا

آج خُود کو نہیں میسر میں
میرے قدموں تلے زمانہ تھا

کاش پہلے بتا دِیا ہوتا
بیچ رستے میں چھوڑ جانا تھا

کُچھ تو کرتے مِری مسیحائی
تُم کو اپنا رقیب جانا تھا

اپنا گھر بار چھوڑ آیا ہُوں
خواب کا اک نگر بسانا تھا

اِمتحاں کس لئے رکھا میرا
تُم نے مُجھ کو جو آزمانا تھا

مر گیا خاک ہو گیا صاحب
بھول جائیں کہ اِک دوانہ تھا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

عظیم

محفلین
ہم سے اس حال میں جدائی ہے
تم نے اچهی وفا نبهائی ہے

حق ہے ان کو جہاں کہیں رکهیں
آپ کے ہاتھ میں خدائی ہے

صلح صادق کہ واسطے تیرے
خود سے اب تک مری لڑائی ہے

خون بیچا ہے ہم غریبوں نے
تب یہ من کی مراد پائی ہے

بهول بیٹهے ہیں روزِ محشر کو
جب سے اُس بُت کی یاد آئی ہے

دل لگانے کی تهی سزا صاحب
ہم نے جو زندگی بتائی ہے
 
شعر
بهول بیٹهے ہیں روزِ محشر کو
جب سے اُس بُت کی یاد آئی ہے

غالب کے اس شعر کا نیا رنگ ہے

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

بہت خوب جدت طرازی ہے۔
 

عظیم

محفلین


حال جو کہ تمہارے دیں کا ہے
اس سے ابتر مرے یقیں کا ہے

کیوں مقدر کو پیٹتا ہوں میں
غم تو ان کی نہیں نہیں کا ہے

دل کے بدلے میں جاں گئی ہوتی
دل کا جانا بهی اب کہیں کا ہے

اے خدا تو ہی مجھ کو بتلا کیا
حق مری گهس چکی جبیں کا ہے

یہ جو فتنہ ہے عشق کا برپا
آسماں کا ہے یا زمیں کا ہے

کیونکہ صاحب شکایتیں جگ سے
آخرش تو بهی تو یہیں کا ہے



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
سرِ رہ قیامتوں تک تِرا انتظار کرتے
اگر اپنی زندگی کا ذرا اعتبار کرتے

تُو نظر نہیں ملائی پہ نہیں تھے ہم بھی کافر
جو بُھلا کے راہ تیری سفر اِختیار کرتے

اے خُدائے اہلِ دانِش اے کلیمِ کُل زمانہ
کِسے حالِ دِل سُناتے کِسے رازدار کرتے

یہ کہاں تھی اپنی قسمت کہ دُکھوں کو بانٹ لیتے
کوئی نقد بیچ آتے کِسے کا اُدھار کرتے

رہے یاد بھی کیا اُن کو وہ ہماری بیخودی اب
جو بلا کے تھک چُکے ہیں ہمیں بیقرار کرتے

تھا نصیب کا ہمارے یہ جو غم ہمیں ملا ہے
غمِ آگہی نہ رکھتے غمِ روزگار کرتے

یُونہی کٹ چلی ہے صاحب کوئی ڈور چاہتوں کی
جو نہ خُود پتنگ ہوتے بڑی لُوٹ مار کرتے
 
آخری تدوین:
Top