صرف سچ بیتیاں

سید عاطف علی

لائبریرین
میں نے ایک بار جنات کی شادی میں بن بلائے مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ کیا محفلین اس سچ بیتی پر یقین کریں گے؟۔
ساجد بھیا !!! غالبا" یہ بابا جی نے یہ دھاگہ سچ بیتیوں کے ناپ سے موسوم کیا ہے۔ آپ نے تو واقعے کے عنوان پر ہی اکتفا کر لیا ۔۔۔۔۔۔ذ را وہ "سچ" تو بیان کریں کہ آپ پر اس شرکت میں" بیتا" کیا کیا ؟؟؟ اگر آپ نے تعاون نہ کیا تو بابا جی اپنے جنات کو اشارہ نہ کردیں ۔:LOL:
 

باباجی

محفلین
میں ایک بار پھر یہ واضح کردوں کہ کسی بھی نوعیت کا واقعہ ہو لیکن سچا ہو
افسانہ نگاری سے پرہیز کیا جائے پلیز
 

باباجی

محفلین
یوسف ثانی بھائی کی نقل کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا
یہ سنہ 2000 کی بات ہے میں فرسٹ ایئر میں ہوتا تھا آئی۔کام کے تو جناب تقریباً پورا سال مین کالج گیا نہیں گھامنے پھرنے میں لگا رہا سال کے آخر میں میرے ایک دوست جناب فیصل نواز کا پیغام آیا کہ فراز صاحب کالج میں حاضر ہوجاؤ ورنہ آپ کو بورڈ کے پیپرز میں بیٹھنے نہیں دیں گے کالج
والے ۔
تو جناب ہم پہنچے کالج ، کچھ دن تو جان پہچان میں گزرگئے کچھ نصاب کور کرنے مین گزرگئے۔
اتنے میں بورڈ کے پیپرز سے پہلے کالج والوں نے سالانہ ٹیسٹ کا اعلان کردیا اور جناب میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کیا کریں کچھ آتا ہی نہیں ہے
خیر جناب ٹیسٹ شروع ہوا تو جیسے تیسے تیاری کرکے تمام سبجیکٹس کے ٹیسٹ دیئے لیکن ایک سبجیکٹ (اکاؤنٹنگ) کا بالکل بھی نہیں پتا تھا ۔
تو جناب مقررہ دن پہنچے کالج اور ٹیسٹ شروع ہوا تو میرے دوست فیصل نواز نے اپنی خدمات پیش کی اور مجھے پورا پیپر کر وادیا اکاؤنٹنگ کا ۔ کچھ دن
بعد رزلٹ آیا تو میرے اکاؤنٹنگ میں سیکنڈ ہائیسٹ مارکس آئے تھے اور فیصل بیچارے کے مجھ سے 12 نمبر کم تھے ۔
اس دن کے بعد میں نے اور فیصل نے کسی کو بھی نقل کروانے سے توبہ کی :)۔
(بعد میں میرے اکاؤنٹس کے استاد نے میرا الگ سے ٹیسٹ لیا اور میں پکڑا گیا، اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں شک تھا کہ میں نے نقل کی ہے کیونکہ میں
پورا سال تو کالج نہیں آیا تو اکاؤنٹس جیسے مشکل مضمون میں میرے 82 مارکس کیسے آگئے)
o_O
 

باباجی

محفلین
ساجد بھیا !!! غالبا" یہ بابا جی نے یہ دھاگہ سچ بیتیوں کے ناپ سے موسوم کیا ہے۔ آپ نے تو واقعے کے عنوان پر ہی اکتفا کر لیا ۔۔۔ ۔۔۔ ذ را وہ "سچ" تو بیان کریں کہ آپ پر اس شرکت میں" بیتا" کیا کیا ؟؟؟ اگر آپ نے تعاون نہ کیا تو بابا جی اپنے جنات کو اشارہ نہ کردیں ۔:LOL:
سید عاطف علی
بھائی صاحب آپ کی شرکت کا متمنی ہوں
 
واقعات تو بیشمار ہیں۔۔۔بچپن کی شرارتیں، لڑکپن کے قصے، عشق و محبت کی حکایتیں;) ، سبق آموز تجربات،۔۔۔کسے سنائیں اور کسے نہ سنائیں۔ یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے :) لہٰذا خاموشی بہتر ہے :-P
 

باباجی

محفلین
واقعات تو بیشمار ہیں۔۔۔ بچپن کی شرارتیں، لڑکپن کے قصے، عشق و محبت کی حکایتیں;) ، سبق آموز تجربات،۔۔۔ کسے سنائیں اور کسے نہ سنائیں۔ یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے :) لہٰذا خاموشی بہتر ہے :-P
آپ سے گزارش ہے کہ پلیز کچھ نہ کچھ شیئر ضرور کریں
خاص طور سے اپنے تجربات
 
ہر واقعہ اپنے اندر کوئی سبق لیکر آتا ہے۔ اور کبھی کبھی کسی ایک سبق یا کسی ایک اصول کے حوالے سے زندگی میں کئی واقعات پیش آتے ہیں جن سے انسان کو اس سبق یا اس اصول پر پختہ یقین حاصل ہوجانا چاہئیے (یہ الگ بات ہے کہ انسان پھر بھی بے یقینیوں میں ہی گرفتار رہے)۔۔۔میری تجویز ہے کہ اس حوالے سے سب لوگ کچھ نہ کچھ شئیر کریں۔۔۔یعنی کوئی ایسی بات جو زندگی میں ایک سے زیادہ تجربات کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہو۔۔اسے ضرور شئیر کریں :)
 
جنات کی دنیا کے قصے ہیں ،
عملیات کے مشاہدے ہیں۔
جیب کترے سے لیکر پکی دیوار میں سن لگانے والوں کی کہانیاں ہیں ۔
اک عمر گنوا کر تہی دامن ٹھہرے ۔ اب کیا سنائیں شرافت بھری کہانی
ہم شدّت سے منتطر ہیں۔۔۔کچھ شئیر کیجئے ان واقعات میں سے :)
 

عاطف بٹ

محفلین
حضور، میں آچکا ہوں مگر مجھے ایک اسکرپٹ مکمل کرنا ہے اور اس کی وجہ سے بہت الجھا ہوا ہوں۔ اصل میں یہ اسکرپٹ تھوڑا لمبا اور پیچیدہ ہے تو اس سلسلے وقت زیادہ لگ رہا ہے۔
میں فارغ ہوکر جلد ہی کوئی واقعہ شئیر کرتا ہوں۔
 

باباجی

محفلین
حضور، میں آچکا ہوں مگر مجھے ایک اسکرپٹ مکمل کرنا ہے اور اس کی وجہ سے بہت الجھا ہوا ہوں۔ اصل میں یہ اسکرپٹ تھوڑا لمبا اور پیچیدہ ہے تو اس سلسلے وقت زیادہ لگ رہا ہے۔
میں فارغ ہوکر جلد ہی کوئی واقعہ شئیر کرتا ہوں۔
ارے بٹ جی
بے فکر ہو کر کام کیجیئے
آپ بھی یہاں میں بھی یہاں اور یہ دھاگہ بھی یہاں:)
 

نایاب

لائبریرین
واقعات تو بیشمار ہیں۔۔۔ بچپن کی شرارتیں، لڑکپن کے قصے، عشق و محبت کی حکایتیں;) ، سبق آموز تجربات،۔۔۔ کسے سنائیں اور کسے نہ سنائیں۔ یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے :) لہٰذا خاموشی بہتر ہے :-P

ہم شدّت سے منتطر ہیں۔۔۔ کچھ شئیر کیجئے ان واقعات میں سے :)
محترم بھائی
" خاموشی بہتر ہے '" یہ مقولہ تو مجھ جیسے آوارگی کے حامل پر لاگو ہوتا ہے ۔
کبھی جب لاہور باغوں کا شہر کہلاتا تھا تو " شاہدرے " کا علاقہ " شاہدرہ باغ " کہلاتا تھا ۔ یہ بات ہے 1972 کی جب میں لاہور کی فضاء سے مانوس ہو رہا تھا ۔ شاہدرہ باغ اک قدیم جگہ کا نام ہے جو کہ شیخوپورہ کا علاقہ بساتے ہوئے مغلوں نے بسایا ۔ یہاں ہندوؤں کے شمشان گھاٹ بھی کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ اب تو نشان بھی مٹ گئے ۔ پیپل اور بوہڑ کے بڑے قدیم درخت بھی موجود رہے ہیں یہاں ۔ میرے والد مرحوم نے یہاں اک پلاٹ خریدا ۔ تو جاننے والوں نے اس پلاٹ بارے بہت عجیب و غریب باتیں بتائیں کہ یہاں درختوں سے آگ کی لپٹیں نکلتی ہیں ۔ ۔ والدہ بتاتی ہیں کہ والد صاحب نے کہا کہ اک تو یہ جگہ سستی مل رہی ہے ۔ دوسرے یہ جگہ ان درختوں کے بدنام ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ویران ہے ۔ اگر اب میں اس زمین کو نہیں لیتا تو اس زمین کے بارے یہ سب باتیں مزید پختہ ہو جائیں گی کہ ضرور کچھ ایسا ویسا ہے جس کی وجہ سے شاہ صاحب بھی ڈر گئے ۔ میں تو یہیں گھر تعمیر کروں گا ۔ گھر تعمیر ہو گیا ۔ ہم اس گھر میں رہنے لگے ۔ ہمارے گھر کے بالکل دیوار کے ساتھ اک کھجور کا درخت تھا ۔ بہت اچھی کھجور لگتی تھی اس پر ۔ مگر لوگ سانپ اور جن بھوت کے بسیرے کی باعث اس درخت کے قریب نہ جاتے تھے ۔ اک دن رات دیر گئے میری والدہ نے والد صاحب کو ذرا بلند آواز سے پکارا ۔ ان کی آواز سے ہم سب ہی اٹھ گئے ۔ انہوں نے والد صاحب کی توجہ کھجور کے درخت کی جانب مبذول کرائی ۔ اس کی شاخوں سے رہ رہ کر اک روشنی سی پھوٹتی تھی ۔ جیسے آگ کا شعلہ بھڑکتا ہے ۔ میرے والد صاحب نے یہ سارا منظر دیکھا ۔ اور کہنے لگے کہ یہ کوؤں کی شرارت ہے ۔ اس میں بالکل نہ ڈرو ۔ اور اگر ڈر لگتا ہی ہے تو آیت الکرسی پڑھ لو اور بچوں پہ بھی پھونک دو ۔ یہ کوئی جن بھوت نہیں ہے ۔ دو چار دن یہ منظر نظر آیا اور اس کے بعد آگ دکھنی بند ہو گئی ۔ والدہ نے رات ہوتے ہی آیت الکرسی پڑھ سب بچوں پہ پھونکنا اور ساتھ ساتھ سب سے سنا بھی کرنی ۔ کھجور پک چکی تھی ۔ اک غریب مسکین نے سوچا کہ میں کھجور اتار کر بازار میں بیچ دیتا ہوں ۔ وہ کھجور اتارنے کے لیئے جب اپنی کمر پر رسا باندھنے لگا تو سب دیکھنے والوں نے اسے سمجھایا کہ یہ کھجور بھاری ہے ۔ تو اس پر سے پھل اتارنے کی کوشش نہ کر ۔ نقصان ہو جائے گا ۔ وہ نہ مانا اور کھجور پر چڑھ اس کے گوشے کاٹ کر اتارنے لگا ۔ جب ساری کھجور اتار چکا تو زمین پر بیٹھ کھجور کو اک بوری میں بھرنے لگا ۔ اچانک اک بہت موٹی شاخ کھجور کے درخت سے گری اور اس کی پیشانی کے اوپر کی جانب پیوست ہو گئی ۔ کھجور کی شاخ پر بہت بڑے سخت کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔ وہ کھجور جمع کرنی بھول چیخنے چلانے لگا ۔ بہت مشکل سے اس کے سر سے کانٹا نکالا ۔اس کی مرہم پٹی کی ۔ وہ بیچارہ اس قدر ڈر گیا کہ کھجور کی بوری بھی نہ اٹھائے ۔ وہاں جمع لوگوں نے کہا کہ اس غریب نے اتنی مشقت سے کھجور اتاری ہے ۔ اسے بازار پہنچا دو ۔ کوئی خرید لے تو اس کی قیمت اس کے گھر پہنچا دو ۔ شام ہوئی والد صاحب آئے سارا قصہ انہیں سنایا ۔ والد صاحب نے اس کی اپنی غلطی سے کوئی شاخ کٹی ہو گی اور ہوا کی وجہ سے گر پڑی ہو گی ۔ کسی نے یقین کیا کسی نے نہ کیا ۔ وقت گزرتا رہا ۔ میری آوارگی مجھے جنات کی دوستی کی جانب ابھارنے لگی ۔ سوچ آئی گھر کے ساتھ ہی جنات کا بسیرا ہے چلو ان سے دوستی کرتے ہیں ۔ گرمی کی سخت دوپہروں میں چھت پر چڑھ جانا ۔ درخت کے سامنے بیٹھ جن بھائی مجھ سے دوستی کر لو ۔ کبھی روٹی کبھی چاول غرض کہ گھر میں جو پکنا ۔ وہ جن بھائی کی دوستی کے لالچ میں درخت کی نظر کر آنا ۔ مگر جی جن بھائی تو بہت مغرور تھے ۔ نہ کوئی جن بھائی نہ کوئی جننی بہن ہمیں کسی نہ گھاس ہی نہ ڈالی ۔ ڈائجسٹوں میں چھپنے والے سلسلے " انکا و اقابلا ، ہمزاد " پڑھ پڑھ کر جن بھائی کو قصے سنانے لالچ دینا ۔ مگر لا حاصل ۔
اک دن والد صاحب نے دیکھ لیا ۔ ہنسنے لگے ۔ کہنے لگے تو سمجھتا ہے کہ جنات ہیں اس پر ۔ نہیں بیٹا یہ جنات نہیں ۔ اس درخت پر کوؤں نے اپنے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔ اور ان گھونسلوں میں کچھ ایسی ہڈیاں موجود ہیں جو کہ ان کوؤں نے جمع کر رکھی ہیں ۔ اور جن راتوں میں اوس کی زیادتی ہوتی ہے ۔ یہ ہڈیاں فاسفورس کی وجہ سے شعلہ سا پیدا کرتی ہیں ۔
دوسرے دن جب والد والدہ اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر چلے گئے ، بڑی بہنیں سکول ۔ ہم نے چھت پر چڑھ وہاں سے کھجور کے درخت کی تلاشی لینے کی سوچی ۔ بہ ہزار دقت ہزار بہانے کر کے اک دوست کو ساتھ ملا قریبی پڑوسیوں سے لکڑی کی سیڑھی مانگ کر چھت پر چڑھائی ۔ سیڑھی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگایا ۔ میرا دوست بھی میرا ہم عمر ہی تھا عمر ہماری یہی کوئی تیرہ چودہ کے قریب ہو گی ۔ اس سے کہا کہ تو نیچے ٹھہر ۔ میں اوپر جاتا ہوں ۔ تو بھی آیت الکرسی پڑھتا رہ ۔ اور خود آیت الکرسی پڑھتا سیڑھی پر چڑھ گیا ۔ شاخوں کو ادھر ادھر کرکے دیکھا تو واقعی وہاں گھونسلے اور ہڈیاں تھیں ۔ بہت کانٹے چھبے مجھے مگر ان تمام گھونسلوں کو بمعہ ہڈیوں اور انڈوں کے نکال باہر پھینکا ۔ جہاں ہاتھ نہ پہنچا وہاں لکڑی سے گھونسلے گرا دیئے ۔ ساتھ ساتھ جن بھائی کی صدا بھی جاری رہی کہ مجھ سے دوستی کر لو ۔ سب صفائی کر کے جب نیچے اترا تو میرا دوست غائب تھا ۔ اب سیڑھی اتارنی اور واپس کرنا تھی ۔ سو اس کے گھر گیا ۔ تو اس والدہ نے مجھے صلواتیں سنانا شروع کر دیں ۔ " تسی تے شاہ او تہانوں کج نیں ہوندا ۔ میرے بچے نوں تے تاپ چڑھ گیا " شام کو والد والدہ جب گھر آئے تو ان تک یہ میرا کارنامہ پہنچا ۔ والدہ نے بہت ڈانٹا ۔ مگر والد صاحب نے صرف اتنا کہا کہ اگر گر جاتا تو بیٹا کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جاتی ۔ پھر انیوں نے ان گھونسلوں میں سے نکلی ہڈیوں کو کمرے میں اندھیرا کر کے دکھایا کہ کیسے چمکتی ہیں ۔ اور رطوبت کے باعث کیسے شعلہ سا نکلتا ہے ۔ ہم گھر والوں پر سے تو اس کھجور کے بھاری ہونے کا ڈر دور ہو گیا ۔ لیکن سن 1998 تک اس کھجور کے باعث کسی کو یہ پلاٹ لینے کی جرائت نہیں ہوئی ۔ پھر اک مشنری سکول والوں نے وہ جگہ خریدی اور وہاں سکول کی عمارت بنا لی ۔
یہ تھا جنات کی دنیا میں ہمارا پہلا قدم ۔ پھر یہ قدم جو سن 1977 میں اٹھا تھا میرے مستقبل کو برباد کرتے 1991 میں سعودی عرب پہنچ کر رکا ۔
 

باباجی

محفلین
محترم بھائی
" خاموشی بہتر ہے '" یہ مقولہ تو مجھ جیسے آوارگی کے حامل پر لاگو ہوتا ہے ۔
کبھی جب لاہور باغوں کا شہر کہلاتا تھا تو " شاہدرے " کا علاقہ " شاہدرہ باغ " کہلاتا تھا ۔ یہ بات ہے 1972 کی جب میں لاہور کی فضاء سے مانوس ہو رہا تھا ۔ شاہدرہ باغ اک قدیم جگہ کا نام ہے جو کہ شیخوپورہ کا علاقہ بساتے ہوئے مغلوں نے بسایا ۔ یہاں ہندوؤں کے شمشان گھاٹ بھی کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ اب تو نشان بھی مٹ گئے ۔ پیپل اور بوہڑ کے بڑے قدیم درخت بھی موجود رہے ہیں یہاں ۔ میرے والد مرحوم نے یہاں اک پلاٹ خریدا ۔ تو جاننے والوں نے اس پلاٹ بارے بہت عجیب و غریب باتیں بتائیں کہ یہاں درختوں سے آگ کی لپٹیں نکلتی ہیں ۔ ۔ والدہ بتاتی ہیں کہ والد صاحب نے کہا کہ اک تو یہ جگہ سستی مل رہی ہے ۔ دوسرے یہ جگہ ان درختوں کے بدنام ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ویران ہے ۔ اگر اب میں اس زمین کو نہیں لیتا تو اس زمین کے بارے یہ سب باتیں مزید پختہ ہو جائیں گی کہ ضرور کچھ ایسا ویسا ہے جس کی وجہ سے شاہ صاحب بھی ڈر گئے ۔ میں تو یہیں گھر تعمیر کروں گا ۔ گھر تعمیر ہو گیا ۔ ہم اس گھر میں رہنے لگے ۔ ہمارے گھر کے بالکل دیوار کے ساتھ اک کھجور کا درخت تھا ۔ بہت اچھی کھجور لگتی تھی اس پر ۔ مگر لوگ سانپ اور جن بھوت کے بسیرے کی باعث اس درخت کے قریب نہ جاتے تھے ۔ اک دن رات دیر گئے میری والدہ نے والد صاحب کو ذرا بلند آواز سے پکارا ۔ ان کی آواز سے ہم سب ہی اٹھ گئے ۔ انہوں نے والد صاحب کی توجہ کھجور کے درخت کی جانب مبذول کرائی ۔ اس کی شاخوں سے رہ رہ کر اک روشنی سی پھوٹتی تھی ۔ جیسے آگ کا شعلہ بھڑکتا ہے ۔ میرے والد صاحب نے یہ سارا منظر دیکھا ۔ اور کہنے لگے کہ یہ کوؤں کی شرارت ہے ۔ اس میں بالکل نہ ڈرو ۔ اور اگر ڈر لگتا ہی ہے تو آیت الکرسی پڑھ لو اور بچوں پہ بھی پھونک دو ۔ یہ کوئی جن بھوت نہیں ہے ۔ دو چار دن یہ منظر نظر آیا اور اس کے بعد آگ دکھنی بند ہو گئی ۔ والدہ نے رات ہوتے ہی آیت الکرسی پڑھ سب بچوں پہ پھونکنا اور ساتھ ساتھ سب سے سنا بھی کرنی ۔ کھجور پک چکی تھی ۔ اک غریب مسکین نے سوچا کہ میں کھجور اتار کر بازار میں بیچ دیتا ہوں ۔ وہ کھجور اتارنے کے لیئے جب اپنی کمر پر رسا باندھنے لگا تو سب دیکھنے والوں نے اسے سمجھایا کہ یہ کھجور بھاری ہے ۔ تو اس پر سے پھل اتارنے کی کوشش نہ کر ۔ نقصان ہو جائے گا ۔ وہ نہ مانا اور کھجور پر چڑھ اس کے گوشے کاٹ کر اتارنے لگا ۔ جب ساری کھجور اتار چکا تو زمین پر بیٹھ کھجور کو اک بوری میں بھرنے لگا ۔ اچانک اک بہت موٹی شاخ کھجور کے درخت سے گری اور اس کی پیشانی کے اوپر کی جانب پیوست ہو گئی ۔ کھجور کی شاخ پر بہت بڑے سخت کانٹے بھی ہوتے ہیں ۔ وہ کھجور جمع کرنی بھول چیخنے چلانے لگا ۔ بہت مشکل سے اس کے سر سے کانٹا نکالا ۔اس کی مرہم پٹی کی ۔ وہ بیچارہ اس قدر ڈر گیا کہ کھجور کی بوری بھی نہ اٹھائے ۔ وہاں جمع لوگوں نے کہا کہ اس غریب نے اتنی مشقت سے کھجور اتاری ہے ۔ اسے بازار پہنچا دو ۔ کوئی خرید لے تو اس کی قیمت اس کے گھر پہنچا دو ۔ شام ہوئی والد صاحب آئے سارا قصہ انہیں سنایا ۔ والد صاحب نے اس کی اپنی غلطی سے کوئی شاخ کٹی ہو گی اور ہوا کی وجہ سے گر پڑی ہو گی ۔ کسی نے یقین کیا کسی نے نہ کیا ۔ وقت گزرتا رہا ۔ میری آوارگی مجھے جنات کی دوستی کی جانب ابھارنے لگی ۔ سوچ آئی گھر کے ساتھ ہی جنات کا بسیرا ہے چلو ان سے دوستی کرتے ہیں ۔ گرمی کی سخت دوپہروں میں چھت پر چڑھ جانا ۔ درخت کے سامنے بیٹھ جن بھائی مجھ سے دوستی کر لو ۔ کبھی روٹی کبھی چاول غرض کہ گھر میں جو پکنا ۔ وہ جن بھائی کی دوستی کے لالچ میں درخت کی نظر کر آنا ۔ مگر جی جن بھائی تو بہت مغرور تھے ۔ نہ کوئی جن بھائی نہ کوئی جننی بہن ہمیں کسی نہ گھاس ہی نہ ڈالی ۔ ڈائجسٹوں میں چھپنے والے سلسلے " انکا و اقابلا ، ہمزاد " پڑھ پڑھ کر جن بھائی کو قصے سنانے لالچ دینا ۔ مگر لا حاصل ۔
اک دن والد صاحب نے دیکھ لیا ۔ ہنسنے لگے ۔ کہنے لگے تو سمجھتا ہے کہ جنات ہیں اس پر ۔ نہیں بیٹا یہ جنات نہیں ۔ اس درخت پر کوؤں نے اپنے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔ اور ان گھونسلوں میں کچھ ایسی ہڈیاں موجود ہیں جو کہ ان کوؤں نے جمع کر رکھی ہیں ۔ اور جن راتوں میں اوس کی زیادتی ہوتی ہے ۔ یہ ہڈیاں فاسفورس کی وجہ سے شعلہ سا پیدا کرتی ہیں ۔
دوسرے دن جب والد والدہ اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر چلے گئے ، بڑی بہنیں سکول ۔ ہم نے چھت پر چڑھ وہاں سے کھجور کے درخت کی تلاشی لینے کی سوچی ۔ بہ ہزار دقت ہزار بہانے کر کے اک دوست کو ساتھ ملا قریبی پڑوسیوں سے لکڑی کی سیڑھی مانگ کر چھت پر چڑھائی ۔ سیڑھی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگایا ۔ میرا دوست بھی میرا ہم عمر ہی تھا عمر ہماری یہی کوئی تیرہ چودہ کے قریب ہو گی ۔ اس سے کہا کہ تو نیچے ٹھہر ۔ میں اوپر جاتا ہوں ۔ تو بھی آیت الکرسی پڑھتا رہ ۔ اور خود آیت الکرسی پڑھتا سیڑھی پر چڑھ گیا ۔ شاخوں کو ادھر ادھر کرکے دیکھا تو واقعی وہاں گھونسلے اور ہڈیاں تھیں ۔ بہت کانٹے چھبے مجھے مگر ان تمام گھونسلوں کو بمعہ ہڈیوں اور انڈوں کے نکال باہر پھینکا ۔ جہاں ہاتھ نہ پہنچا وہاں لکڑی سے گھونسلے گرا دیئے ۔ ساتھ ساتھ جن بھائی کی صدا بھی جاری رہی کہ مجھ سے دوستی کر لو ۔ سب صفائی کر کے جب نیچے اترا تو میرا دوست غائب تھا ۔ اب سیڑھی اتارنی اور واپس کرنا تھی ۔ سو اس کے گھر گیا ۔ تو اس والدہ نے مجھے صلواتیں سنانا شروع کر دیں ۔ " تسی تے شاہ او تہانوں کج نیں ہوندا ۔ میرے بچے نوں تے تاپ چڑھ گیا " شام کو والد والدہ جب گھر آئے تو ان تک یہ میرا کارنامہ پہنچا ۔ والدہ نے بہت ڈانٹا ۔ مگر والد صاحب نے صرف اتنا کہا کہ اگر گر جاتا تو بیٹا کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جاتی ۔ پھر انیوں نے ان گھونسلوں میں سے نکلی ہڈیوں کو کمرے میں اندھیرا کر کے دکھایا کہ کیسے چمکتی ہیں ۔ اور رطوبت کے باعث کیسے شعلہ سا نکلتا ہے ۔ ہم گھر والوں پر سے تو اس کھجور کے بھاری ہونے کا ڈر دور ہو گیا ۔ لیکن سن 1998 تک اس کھجور کے باعث کسی کو یہ پلاٹ لینے کی جرائت نہیں ہوئی ۔ پھر اک مشنری سکول والوں نے وہ جگہ خریدی اور وہاں سکول کی عمارت بنا لی ۔
یہ تھا جنات کی دنیا میں ہمارا پہلا قدم ۔ پھر یہ قدم جو سن 1977 میں اٹھا تھا میرے مستقبل کو برباد کرتے 1991 میں سعودی عرب پہنچ کر رکا ۔
بہت خوب شاہ جی
یہ وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے سادہ لوح لوگ نام نہاد جھوٹے پیروں اور بابوں کے ہاتھوں
بے وقوف بنتے ہیں ۔
 
Top