صرف سچ بیتیاں

باباجی

محفلین
السلام و علیکم
یہ دھاگہ"صرف سچ بیتیاں" شروع کیا گیا ہے تاکہ آپ خود پر یا آپ کے عزیز و اقارب کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کو ہمارے ساتھ شیئر کریں ۔
میری آپ تمام اردو محفل کے اراکین سے تعاون کی درخواست ہے ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
السلام و علیکم
یہ دھاگہ"صرف سچ بیتیاں" شروع کیا گیا ہے تاکہ آپ خود پر یا آپ کے عزیز و اقارب کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کو ہمارے ساتھ شیئر کریں ۔
میری آپ تمام اردو محفل کے اراکین سے تعاون کی درخواست ہے ۔
وعلیکم السلام
بہت خوب دھاگہ شروع کیا ہے آپ نے شاہ جی۔
میں ابھی تو ایک جگہ ظہرانے کے لئے جارہا ہوں، واپس آکر میں بھی اس میں کچھ واقعات شئیر کروں گا! :)
 

یوسف-2

محفلین
وعلیکم السلام باباجی!
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اورلا جواب کر دے گا :)
امید ہے کہ حضرات (کم از کم یہاں:D ) ”لاجواب باتیں“ کرکے خواتین کی سچ بیتیوں کو مات دینے کی کوشش نہیں کریں گے :) بابا جی! آپ ہی پہل کیجئے نا تاکہ ”رنگِ محفل“ دیکھ کر دیگرخواتین و حضرات بھی حوصلہ پکڑیں:D
 

باباجی

محفلین
وعلیکم السلام!
مثلاََ آپ کوئی واقعہ تو شیئر کریں تاکہ اندازہ ہو کہ کس قسم کی سچ بیتیاں شیئر کرنی ہیں اور کس قسم کی نہیں؟ ;)
کوئی واقعہ جس سے آپ کو کوئی اہم سبق ملا ہو، ماورائی یا محیّرالعقول ہو یا جس سے آپ کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی آئی ہو
آپ کے دوستوں یا رشتے داروں کے ساتھ ایسا کچھ پیش آیا تو وہ بھی شیئر کر سکتے ہیں
 

نایاب

لائبریرین
کوئی واقعہ جس سے آپ کو کوئی اہم سبق ملا ہو، ماورائی یا محیّرالعقول ہو یا جس سے آپ کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی آئی ہو
آپ کے دوستوں یا رشتے داروں کے ساتھ ایسا کچھ پیش آیا تو وہ بھی شیئر کر سکتے ہیں
محترم بابا جی آپ کوئی واقعہ شریک محفل کرتے تو بہتر ہوتا ۔

سبق تو بہت سے واقعوں سے ملا کہ اگر ایسا کرتا تو بہتر تھا
زندگی میں نمایاں تبدیلی تو اک بار ہی آئی ۔
اور اس تبدیلی کے باعث کے لیئے دعاگوہ ہوں کہ وہ سدا میرے ساتھ آباد رہے ۔ آمین
باقی اک آوارہ کے پاس آوارگی سے بھرے قصے ہی ہوں گے ۔
جنات کی دنیا کے قصے ہیں ،
عملیات کے مشاہدے ہیں۔
جیب کترے سے لیکر پکی دیوار میں سن لگانے والوں کی کہانیاں ہیں ۔
اک عمر گنوا کر تہی دامن ٹھہرے ۔ اب کیا سنائیں شرافت بھری کہانی
 

یوسف-2

محفلین
کہتا ہوں سچ، گرچہ عادت نہیں مجھے :D
اسکول کی حد تک :D یہ احقر پوزیشن ہولڈرز میں سے ہونے کے ناطے اپنے اساتذہ کا نور نظر ہی رہا، ان سے پٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار، جی ہاں! صرف ایک بار ایسا پٹا کہ ساری ”عدم پٹائی“ اُس کے سامنے ہیچ ہے :D ہوا یوں کہ آٹھویں جماعت میں فارسی کا پیریڈ تھا۔ ایک لڑکا نیا نیا ہماری کلاس میں آیا تھا، گو کہ یہ بھی کلاس میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز میں سے تھا، مگر سابقہ اسکول میں اس کے پاس ”اختیاری عربی“ تھی لہٰذا فارسی میں بالکل کورا تھا، جبکہ میں اس کے مقابلہ میں آٹھویں کی نصابی فارسی کی حد تک کچھ نہ کچھ جانتا تھا۔
ہوا یوں کہ اُس دن ہمارے فارسی کے استاد کسی وجہ سے اسکول نہیں آئے تھے اورہماری میڈم نے خالی کلاس کو پُر کرنے کے لئے ایک ایسے اُستاد کو فارسی کا پیریڈ لینے بھیج دیا، جو ابھی نئے نئے اسکول میں آئے تھے، غالباً انہیں فارسی بھی نہیں آتی تھی اور اس نئے اسکول میں اپنا رعب جمانے کے لئے اپنے ہاتھ میں ہر وقت لوہے کے سریے جیسا سخت ”مولا بخش“ لئے پھرتے تھے۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کہاں تک سبق پڑھا ہے۔ ہمارے بتلانے پر انہوں نے (اپنی فارسی کی جہالت چھپانے کے لئے) کہا: آج ہم آپ کا ٹیسٹ لیں گے کہ آپ لوگوں نے جو اب تک پڑھا ہے، وہ یاد بھی ہے یا نہیں۔ پھر انہوں نے متعلقہ اسباق سے مشقی سوالات بورڈ پر لکھ دئے کہ ان کا جواب لکھیں۔ مجھے تو کچھ نہ کچھ آتا تھا، لہٰذا میں نے پرچہ فوراً حل کرلیا، جبکہ میرے ساتھ بیٹھا میرا دوست کہنے لگا کہ مجھے تو فارسی بالکل نہیں آتی۔ تم مجھے جواب لکھا دو ورنہ یہ سر بہت مارتے ہیں۔ میں نے ”ازراہِ ہمدردی“ پورا پرچہ نقل کروادیا۔ ہم نے پرچے سر کے پاس جمع کروا دئے۔ وہ ہمیں نقل کرتے، کرواتے تو پکڑ نہ سکے، لیکن ہم دونوں کے ”فوٹو کاپی“ جیسے پرچے دیکھ کردونوں کو کھڑا کیا۔ پہلے میرے دوست کی باری آئی تو اُسے مرغا بنا کر مولا بخش سے وہ پٹائی کہ کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ آخر اُس نے ”اقرار جرم“ کر ہی لیا کہ اُس نے میری نقل کی ہے۔ اس اقرار پر اُس کی مزید پٹائی ہوئی۔ پھر میری باری آئی اور مجھے یہ کہتے ہوئے دل کھول کر پیٹا کہ آخر تم نے نقل کروائی کیوں؟۔
سبق: اس واقعہ بلکہ سانحہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ ”نقل کروانا“ بہت بڑاجرم ہے، اور اس کی سزا میں سخت پٹائی ہوتی ہے۔ لہٰذا آئندہ کے تعلیمی ادوار میں کبھی بھی کسی ساتھی کو نقل نہیں کروائی ۔ اگر خود نقل کی ہو تو یہ الگ بات ہے کہ مجھے ”نقل کرنے“ پر کب سزا ملی تھی :D
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی یوسف ثانی ۔ بہت خوب یاد شریک محفل کی آپ نے ۔
پڑھ کو مجھے بھی اس سے ملتی جلتی یاد آگئی ۔
پانچویں جماعت کی امتحان نزدیک تھے ۔ اک بہت اہم مرحلہ درپیش تھا کہ سکول جایا جائے ،
اور کسی صورت نام دوبارہ درج کروایا جائے ۔
یہ یقین تو ہوتا تھا کہ والد مرحوم کے تعلقات سامنے رکھتے نام تو داخل ہوجائے گا مگر
سکول کی جانب جانا اور قریب پہنچتے ہی سوچوں میں الجھ کر راستہ بدل لینا کہ
سکول پہنچتے ہی میرے مشفق و مہربان استاد میری کیسی آؤ بھگت کریں گے ۔
ناصر صاحب ملے تو بالوں پر گھاس کاٹنے والی قینچی چلے گی ۔
اشرف صاحب ملے تو کان پکڑ کھیل کے میدان سمیت سارے سکول کی صفائی کرنا پڑے گی ۔
انور ورک صاحب ملے تو بہت بری ہوگی ۔ پہلے سکھ چین کے درخت پر چڑھا باریک سی شاخ تلاش کروائیں گے ۔
اس چھیل چھال اک دوبار لہرائیں گے ۔ پھر کان پکڑوا برسائیں گے ۔
امتحان کے دن قریب سے قریب تر ہو گئے ۔ اک دن دل کڑا کر کے سکول میں جو داخل ہوئے ۔
تو دیکھا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے کچھ بچوں کو بلا رکھا ہے ۔ میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب کو اک اک پرچہ دیا اور قطار میں بٹھا ان کے جواب لکھنے کا حکم دیا ۔
میں نے بھی کاپی کھول پرچہ حل کیا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پرچے جمع کیئے اور سب بچوں کو کلاس میں جانے کا کہا ۔
میں بھی ڈرتا ڈرتا کلاس تک پہنچا ۔ کلاس میں جھانکا تو اپنے بالوں پر انا للہ " پڑھ کلاس میں قدم رکھا ۔ ماسٹر ناصر صاحب
کلاس میں موجود تھے اور مجھے پتہ تھا کہ آج میری ٹنڈ ہو ہی جائے گی ۔
مجھے دیکھتے ہی فرمایا ۔
چلو شاہ جی ذرا ککڑ تے بن جاؤ ۔ اشارے کی دیر تھی میں ککڑ بن گیا ۔
ماسٹر صاحب ساری کلاس میں میری تعریف و توصیف بیان فرمانے لگے ۔
اب کیا لکھوں کہ کن شاندار الفاظ پر مشتمل تھی میری تعریف و توصیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر انہیں ترس آیا مجھے ککڑ سے دوبارہ انسان بننے کا حکم ہوا ۔
ابھی وہ مجھ سے پوچھ ہی رہے تھے کہ میری سزا کیا ہو کہ
اتنے میں مختار چاچا کلاس میں آئے اور اک کاغذ دیا ماسٹر صاحب کو
کہ ان بچوں کو الگ کر کے تیاری کروائیں ۔
حافظ فیض رسول
جاوید اقبال
تیسرا نام پڑھا
سید نایاب حسین ۔۔۔۔۔اور بے ساختہ زور سے بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوووووووووووو تیرا ناں کنج آیا ۔
تیرا تے ناں ای نیں رجسٹر اچ ۔
اور مجھے پکڑ ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے ۔ ان سے کہنے لگے کہ اس بچے کا تو نام کٹے اک عرصہ ہو چکا ہے ۔
یہ کیسے امتحان میں شریک ہوگا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مکمل رجسٹر چیک کیا ۔ اور کہنے لگے کہ درج کر لو ۔
شاید یہی سکول کی عزت رکھ لے ۔ ٹیسٹ میں سب سے بہتر رہا ہے ۔
میرے من میں لڈو کیا انار پھوٹ رہے تھے ۔ مگر چپ چاپ سن رہا تھا ۔ ماسٹر صاحب واپس کلاس میں آئے ۔
اور کہنے لگے کہ دیکھ تیرا نام وظیفے کے امتحان میں آ گیا ہے ۔ اب غیر حاضری نہیں کرنی ۔
وظیفے کے امتحان میں شرکت کا اعزاز پاکر میں تو سکول بھر میں اتراتا پھروں ۔
ایم سی مڈل سکول اسلام نگر کا سن1973 کلاس پنجم کا وظیفہ پایا ۔ اور یہی ہمارا پہلا اور آخری تعلیمی کارنامہ کہلایا ۔
جس پر اتراتے ہم نصابی کتب سے بے نیاز ہوتے میٹرک تک ہنچے
اور میٹرک کے امتحان کا تیسرا پیپر خالی صفا چٹ دے کر تعلیم سے بالکل محروم رہ گئے ۔
 

ساجد

محفلین
محترم بھائی ناممکن بھی نہیں ایسا ہونا ۔
شریک محفل کریں نا یہ یاد انوکھی ۔۔۔
آپ کہانی تو بیان کریں کہ کب اور کیسے شرکت کی تھی۔ یقین کرنا نہ کرنا قارئین کا کام ہے :D
جی صاحبان ، بالکل بیان کروں گا۔ ابھی تھوڑا مصروف ہوں ۔ رات کو لکھوں گا۔
 

باباجی

محفلین
یہ واقعہ آج سے تقریباً 20 سال پرانا ہے اس وقت ہم لوگ کراچی میں رہتے تھے فیڈرل بی ایریا میں ۔ میری عمر اُس وقت تقریباً 10 یا 11
ہوگی ۔
ہمارے علاقے میں ایک خبر بہت تیزی سے پھیلنا شروع کوئی کہ ایک مکان ہے اس میں لگے آم کے پیڑ سے رات کو ایک مخصوص وقت پتھر برسنا شروع ہوجاتے ہیں اور تقریباً دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک برستے رہتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے یہ منظر دیکھا میں اور میری چھوٹی بہن بھی ابّو اورانکلکے ساتھ یہ منظر دیکھ کر آئے، لیکن ہم نے وہاں پر کسی کو خوف زدہ نہیں دیکھا نہ ہے وہ پتھر کسی کو کوئی نقصان پہنچا رہے تھے ۔ جس گھر میں لگے درخت سے وہ پتھر برس رہے تھے وہاں رہنے والوں نے بتایا کے انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے نہ ہی کوئی جنات کا مسئلہ ہے ۔ خود ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہورہاہے۔ رفتہ رفتہ پتھر برسنے کم ہوگئے لیکن کبھی کبھی برستے تھے۔
ایک دن پتا چلا کہ پتھر برسنا رُک گئے ہیں اور اُن کے برسنے کی وجہ بھی سمجھ آگئی ہے۔ تو میری امّی نے پڑوس کے لڑکے سے کہا کہ پتا کر کے آؤ
کیا ماجرا تھا۔ اُس نے واپس آکے بتایا کہ ایک جس سڑک پر وہ گھر تھا۔ گھر کونے کا تھا ، تو اُس سڑک پر سے ایک بزرگ گزر رہے تھے اچانک وہ
رُک گئے ، پہلے انہوں نے گھر میں لگے پیڑ کی طرف غور سے دیکھا پھر اُس سمت میں گئے جس سمت میں پتھر برستے تھے ۔ پھر انہوں نے گھر والوں
کو کہا کہ کسی خاکروب کو بلوائیں۔ تو گھر والوں نے علاقے کے لوگوں کو جمع کیا اور خاکروب کو بلوایا اوراس جگہ گئے جہاں وہ پتھر گر کر غائب ہوجاتے
تھے۔ تو جناب وہاں واقعی ایک گٹر تھا ، جب اُسکا ڈھکنا اُٹھایا گیا تو اس میں ایک معصوم بچے کی لاش تھی ، اور حیرت کی بات یہ تھی لاش بالکل بھی
خراب نہ ہوئی تھی حالانکہ اس علاقے میں چوہے بکثرت ہوتے تھے ۔
جب ان بزرگ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ وہاں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ اس درخت پر سے کوئی نورانی صورت بزرگ پتھر برسا رہے ہیں اور چیخ چیخ کر لوگوں سے کچھ کہہ رہے ہیں لیکن ان کی آواز لوگوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ تو میں ان کہ قریب گیا تو انہوں نے
کہا کہ بد بخت لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ اس گٹر میں ایک معصوم بچے کی لاش ہے جسے کسی سفاک درندہ نما انسان نے بد فعلی کے بعد قتل کرکے
اس کی لاش اس گٹر میں پھینک دی ہے ۔ تو مجھے کہا کہ تو نے مجھے دیکھا میری آواز سنی لہٰذا تم یہ کام کردہ اور اس کی لاش نکلواکر اس کی تدفین
کر واؤ۔
بعد میں اس بات کی تصدیق بہت سے لوگوں نے کی ۔
تو حضرات یہ واقعہ مجھے آج تک یاد ہے ، اور اس کے ذریعے یہ بھی پتہ چلا کہ جن واقعات کو ہم محیّرالعقول کہتے ہیں ان میں بعض اوقات کوئی
نہ کوئی بات یا کسی بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔
 

باباجی

محفلین
محترم بابا جی آپ کوئی واقعہ شریک محفل کرتے تو بہتر ہوتا ۔

سبق تو بہت سے واقعوں سے ملا کہ اگر ایسا کرتا تو بہتر تھا
زندگی میں نمایاں تبدیلی تو اک بار ہی آئی ۔
اور اس تبدیلی کے باعث کے لیئے دعاگوہ ہوں کہ وہ سدا میرے ساتھ آباد رہے ۔ آمین
باقی اک آوارہ کے پاس آوارگی سے بھرے قصے ہی ہوں گے ۔
جنات کی دنیا کے قصے ہیں ،
عملیات کے مشاہدے ہیں۔
جیب کترے سے لیکر پکی دیوار میں سن لگانے والوں کی کہانیاں ہیں ۔
اک عمر گنوا کر تہی دامن ٹھہرے ۔ اب کیا سنائیں شرافت بھری کہانی
نایاب بھائی
پلیز شیئر کریں اپنے تجربات
بہت اچھا لگے گا بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا
 

نایاب

لائبریرین
تو حضرات یہ واقعہ مجھے آج تک یاد ہے ، اور اس کے ذریعے یہ بھی پتہ چلا کہ جن واقعات کو ہم محیّرالعقول کہتے ہیں ان میں بعض اوقات کوئی
نہ کوئی بات یا کسی بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔
مجھےاس واقعے کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ۔
بہت شکریہ شریک محفل کرنے پر
 
Top