سیدنا طلحہ بن عبید الله رضی الله عنہ

ام اویس

محفلین
معرکۂ بدر حق و باطل کے درمیان وہ پہلا معرکہ تھا جس میں فتح کے بعد اسلام کی گونج پورے عرب میں سنائی دینے لگی۔ کفار مکہ کے بڑے بڑے جنگجو سردار اس معرکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اپنی اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایک سال بعد ہی وہ لاؤ لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔کفر و اسلام کا دوسرا معرکہ احد پہاڑ کے دامن میں برپا ہوا۔
تاریخِ اسلام میں غزوہ احد کی بہت اہمیت ہے اور غزوہ احد کا ذکر طلحہ بن عبید الله کے بغیر نامکمل ہے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی فوج احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھے صف آرا تھی۔ پہاڑ کے ایک درے پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن پیچھے سے اسلامی لشکر پر حملہ نہ کردے۔ لڑائی شروع ہوئی تو تھوڑی ہی دیر میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہوگیا اور فتح کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ درے پر متعین صحابہ نے جب کفار کو میدان چھوڑ کر بھاگتے دیکھا تو ان میں سے چالیس افراد اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے اتر آئے۔ کفار کا ایک دستہ خالد بن ولید کی سربراہی میں موقع کی طاق میں تھا ۔ انہوں نے درے پر موجود دس مسلمانوں کو شہید کیا اور بلند آواز سے نعرے لگاتے اسلامی لشکر پر حملہ آور ہو گئے۔ نعرے سُن کر بھاگتا ہوا دشمن بھی پلٹ آیا اور مسلمان چکی کے دو پاٹوں کی طرح کفار کے نرغے میں آ گئے۔جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اسلامی لشکر کی صفحیں درہم برہم ہو گئیں اور مسلمان منتشر ہو گئے۔ میدانِ جنگ میں مسلم فوج کا پرچم مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں تھا جو قد کاٹھ اور ڈیل ڈول میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے۔ ان کے شہید ہوتے ہی میدانِ جنگ میں یہ شور برپا ہوگیا کہ (خدا نخواستہ) رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے ہیں ۔
ان حالات میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا ، مسلمانوں میری طرف آؤ۔ مسلمانوں کی نسبت اس وقت مشرکین آپ کے زیادہ قریب تھے۔ انہوں نے آ پ کی آواز سنی تو حملے کے لیے آپ کی طرف دوڑ پڑے ۔ اس وقت، آپ کے ساتھ سات انصاری اور صرف دو مہاجر صحابی وہاں موجود تھے۔
آپ نے فرمایا: جو ان(حملہ آوروں) کو مجھ سے دور کرے گا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا۔ باری باری ساتوں انصاری آپ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اب آپ کے ساتھ طلحہ بن عبید الله رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ سعد دشمن پر تیر چلاتے تھے، آپ نے ان کے لیے اپنے ترکش کے تیر نکال کر پھیلا دئیے اور کہا کہ تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
طلحہ بن عبید الله نے اس روز گیارہ افراد کے برابر لڑائی لڑی ۔انہوں نے آپ کو اپنی اوٹ میں لے لیا اور آپ کی طرف منہ کرکے اپنی پشت پر دشمن کے وار سہتے رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھوں کو بطور ڈھال پیش کردیا۔ ہاتھوں پر بے شمار زخم آئے ، انگلیاں سن ہوگئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہے۔ وہ آپ کی طرف آنے والے تیر اپنے ہاتھ پر روکتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بچاتے ہوئے آپ کا ایک ہاتھ زندگی بھر کے لیے بے کار ہوگیا۔ جس وقت انگلیاں زخمی ہوئیں تو ”سی “ کہا۔ آپ نے فرمایا اگر تم بسم الله کہتے تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے، اس سے درجات کی بلندی بھی مراد ہے
اسی دوران نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو پتھر سے ٹھوکر لگی اور آپ ایک گڑھے میں گر گئے، آپ کا ہونٹ زخمی ہوا اور نیچے والا دانت ٹوٹ گیا۔ کفار نے آپ پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا، سر مبارک پر پہنا ہوا خود ٹوٹ گیا اور تلوار کی ضرب سے رخسار کی ہڈی میں کھب گیا۔ کندھے پر بھی تلوار کی چوٹ لگی، اگرچہ دوہری زرہ کٹ نہ سکی لیکن ایک ماہ تک درد ہوتا رہا۔ اسی دوران دوسرے صحابہ ؓ بھی مدد کے لیے آپہنچے۔مشرکین کا زور کسی قدر کم ہوا تو آپ ایک چٹان پر چڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ زخموں اور دو زرہوں کی وجہ سے آپ چڑھ نہ سکے۔ اس پر طلحہ رضی اللہ عنہ زخمی ہونے کے باوجود، آگے بڑھ کر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھک گئے، آپ ان کی کمر پر سوار ہو کر چٹان پرچڑھ گئے، اس وقت آپ نے فرمایا: "طلحہ نے اپنے لیے جنت واجب کر لی۔“درباررسالت سے اسی جان بازی کے صلہ میں “خیر" کا لقب بھی عطا ہوا۔
ابو بکر رضی الله تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ احد کا دن طلحہ بن عبید الله کا دن تھا۔ حضرت عمر انہیں ”صاحبِ احد“ کہا کرتے تھے۔ حضرت طلحہ بھی احد کے واقعات کا ذکر فخر و انبساط سے کرتے تھے۔
ان کا مکمل نام طلحہ بن عبید اللہ تھا ابومحمد کنیت،فیاض اورخیرلقب،والد کا نام عبید اللہ اوروالدہ کا نام صعبہ تھا، ان کے دادا کا نام عثمان تھا جو کعب بن مرہ کے بیٹے تھے، یعنی کعب تک پہنچ کر حضرت طلحہ کا نسب، نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا تھا۔ طلحہ رضی الله عنہ السابقون الاولون ہیں اور عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں یعنی وہ دس افراد جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔
سیدنا طلحہ رضی الله عنہ کا چہرہ حسین اور بال گندم گوں تھے۔ مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور سب سے اولاد ہوئی۔ ان کی چار بیویاں، چار امہات المؤمنین کی بہنیں تھیں یعنی آپ چار طرف سے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہم زلف تھے۔
ان بیویوں کے نام یہ ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ کی بہن ام کلثوم بنت ابى بكر
ام المؤمنين زينب بنت جحش کی بہن حمنہ بنت جحش
ام المؤمنين ام حبيبہ کی بہن فارعہ بنت ابى سفيان
ام المؤمنين ام سلمہ کی بہن رقيہ بنت ابي امیہ ۔
حضرت طلحہ بن عبید الله نہایت عمدہ اخلاق کے مالک اور انتہائی سخی تھے۔ دل خشیت الہی سے معمور تھا۔رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شدید محبت کرتے تھے۔ ان کا پیشہ تجارت تھا، مدینہ پہنچ کر زراعت کے شعبے میں بھی طبع آزمائی کی اور خوب کشائش پائی۔ ان کا شمار مالدار مسلمانوں میں ہوتا تھا۔ الله کی رضا کے لیے اپنا مال، غریبوں اور مسکینوں میں بے دھڑک خرچ کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جنگی اخراجات کے لیے ایک بہت بڑی رقم پیش کی اور دربارِ رسالت سے ”فیاض“ کا لقب پایا۔
جب سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا مفہوم ہے کہ الله سے کیا گیا عہد پورا کرنے میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کی۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: طلحہ تم بھی ان لوگوں میں ہو جنہوں نے اپنی نذر پوری کی۔ سیدنا طلحہ، نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تمام غزوات میں پیش پیش رہے۔ وہ بیعتِ رضوان میں بھی شامل تھے۔ سیدنا طلحہ رضی الله عنہ چونسٹھ سال کی عمر میں جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔
رضی الله عنھم و رضوا عنہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
IMG-8254.jpg
 
Top