سقوطِ ڈھاکہ اور "قومی ترانہ"

جاسم محمد

محفلین
اور "باقی ماندہ" پورے ملک میں اصغر خان مرحوم کے علاوہ اور کوئی دوسرا لیڈر نہیں تھا جس نے مطالبہ کیا ہو کہ بھٹو کو اقتدار دینے کی بجائے ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں۔
اصغر خان مرحوم نے تو ۱۹۹۰ کے الیکشن کو بھی عدالت میں چیلنج کیا تھا جس کا کئی دہائیوں بعد عدالت عظمی نے فیصلہ سنایا کہ یہ الیکشن بھی دھاندلی زدہ تھے۔
1990 election was rigged, rules SC - Pakistan - DAWN.COM

باقی ماندہ پاکستان میں اگر الیکشن ہو جاتے تو عین ممکن تھا کہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمپین میں سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کو نمایاں کرتی اور یوں بھٹو الیکشن ہار جاتے۔ بہرحال سقوط ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ کے بعد ایک ایسے قومی لیڈر کی اشد ضرورت تھی جو باقی ماندہ پاکستان کو متحد رکھ سکے اور ملک کو مزید توڑ پھوڑ سے بچائے۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی فی الفور نیا آئین منظور کر وایا اور بلوچستان و صوبہ سرحد میں جاری باغیوں کی کاروائیوں کو ختم کیا۔
البتہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ملنے کے باوجود انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا احتساب نہیں کیا کیونکہ اس میں وہ خود بھی ملوث تھے۔ یوں ملک میں اجتماعی این آر او دینے کی بنیاد بھی جمہوری انقلابی بھٹو نے ہی ڈالی۔
 

بابا-جی

محفلین
شراب و قومی ترانہ سپلائی کر کے اقتدار کے منصفانہ انتقال سے روکا
اور وُہ رُک گئے۔

جنرل یحیی کا قصور یہ تھا کہ وہ جمہوری انقلابی بھٹو کی باتوں میں آکر مجیب الرحمان سے کئے گئے وعدہ کا پاس نہ رکھ سکا۔
ہائے بے چارہ مجبُور جنرل!
 

جاسم محمد

محفلین
اور وُہ رُک گئے۔
ہائے بے چارہ مجبُور جنرل!
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ قانون کی نظر میں رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مجرم ہیں۔
اگر بھٹو ووٹ کو عزت دینے والے جمہوری انقلابی لیڈر ہوتے تو ۱۹۷۰ کے الیکشن نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بخوشی سنبھالتے۔ ادھر تم ادھر ہم، اگر کوئی اسمبلی اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا کے نعرے نہ مارتے پھرتے۔
 

سیما علی

لائبریرین
آج پاکستان کا بہت بڑا جمہوری انقلابی طبقہ سمجھتا ہے کہ بھٹو کو ناحق سزا ملی۔ جس شخص نے ۱۹۷۰ کے الیکشن نتائج تسلیم نہ کر کے سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھی اور اس سے اگلے الیکشن میں منظم دھاندلی کی، اس کیلئے پھانسی تو بہت معمولی سزا ہے۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
 

سیما علی

لائبریرین
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ قانون کی نظر میں رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مجرم ہیں۔
اگر بھٹو ووٹ کو عزت دینے والے جمہوری انقلابی ہوتے تو ۱۹۷۰ کے الیکشن نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بخوشی سنبھالتے۔ ادھر تم ادھر ہم، اگر کوئی اسمبلی اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا کے نعرے نہ مارتے پھرتے۔
تو نواسا کتنے کورے کھائے لاہوریوں نے نہ کہہ رہے ہوتے:):):):) پہلے بھٹو صاحب کے جوائی قوم کی ایسی تیسری کرتے رہے اور اب کورے (کوڑے) نواسے صاحب دکھا رہے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
تو نواسا کتنے کورے کھائے لاہوریوں نے نہ کہہ رہے ہوتے:):):):) پہلے بھٹو صاحب کے جوائی قوم کی ایسی تیسری کرتے رہے اور اب کورے (کوڑے) نواسے صاحب دکھا رہے ہیں :)
بھٹو خاندان میں شاید خود بھٹو کے علاوہ اور کسی کی اردو ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے ۹۰ کی دہائی میں بینظیر کہا کرتی تھی کہ میں اپنی تقریر ختم کر رہی ہوں کیونکہ آذان بج رہا ہے :)
 

سیما علی

لائبریرین
البتہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ملنے کے باوجود انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا احتساب نہیں کیا کیونکہ اس میں وہ خود بھی ملوث تھے۔ یوں ملک میں اجتماعی این آر او دینے کی بنیاد بھی جمہوری انقلابی بھٹو نے ہی ڈالی۔


دسمبر کے مہینہ میں عجیب غم کا احساس ہوتا ہے، موسم کی شدت اپنی جگہ پر، لیکن ہم پر تو اس مہینہ دو ایسے سانحہ گزرے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے، پہلے سقوط ڈھاکہ 1971 ء اور پھر سانحہ اے پی ایس جو 2014 ء میں رونما ہوا۔

فیض احمد فیض، نصیر ترابی اور حبیب جالب کا شکریہ انھوں نے شاعری لکھی، جس میں وہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو بیان کرتے رہے اور قوم فیض اور نصیر کی شاعری کو عاشق اور محبوب کا کلام سمجھتی رہی اس سے ہماری ذہنی پسماندگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جالب کیونکہ عوامی شاعر تھے اس لئے انھوں نے اجنبی اور ہمسفر والی بات نہیں کی کھل کے بات کی اور فرمایا کہ راستہ کٹ رہا ہے اور منزل کھوئی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

سقوط ڈھاکہ اور ہم - ہم سب
 

جاسم محمد

محفلین
دسمبر کے مہینہ میں عجیب غم کا احساس ہوتا ہے، موسم کی شدت اپنی جگہ پر، لیکن ہم پر تو اس مہینہ دو ایسے سانحہ گزرے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے، پہلے سقوط ڈھاکہ 1971 ء اور پھر سانحہ اے پی ایس جو 2014 ء میں رونما ہوا۔

فیض احمد فیض، نصیر ترابی اور حبیب جالب کا شکریہ انھوں نے شاعری لکھی، جس میں وہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو بیان کرتے رہے اور قوم فیض اور نصیر کی شاعری کو عاشق اور محبوب کا کلام سمجھتی رہی اس سے ہماری ذہنی پسماندگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جالب کیونکہ عوامی شاعر تھے اس لئے انھوں نے اجنبی اور ہمسفر والی بات نہیں کی کھل کے بات کی اور فرمایا کہ راستہ کٹ رہا ہے اور منزل کھوئی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

سقوط ڈھاکہ اور ہم - ہم سب
جب جمہوری انقلابی ووٹ کو عزت دینے والے بھٹو سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھ رہے تھے :(
A1-BEAF61-1-E50-42-B6-8566-0-C4-D267-E2788.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
بھٹو خاندان میں شاید خود بھٹو کے علاوہ اور کسی کی اردو ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے ۹۰ کی دہائی میں بینظیر کہا کرتی تھی کہ میں اپنی تقریر ختم کر رہی ہوں کیونکہ آذان بج رہا ہے :)
اور بھی پتہ نہیں کیا کیا بولتی تھیں عرفان حیدر عابدی صاحب بات کررہے تھے تو فرمانے لگیں ۔ کہ مریسآ کیوں پڑھ رہے ہیں یہ؟؟؟ ۔۔۔(مرثیہ) ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جب جمہوری انقلابی ووٹ کو عزت دینے والے بھٹو سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھ رہے تھے :(
A1-BEAF61-1-E50-42-B6-8566-0-C4-D267-E2788.jpg
پروفیسر غفور صاحب مرحوم ہمارے والدکے بہت دیرینہ دوستوں میں سے تھے ۔۔۔جو سلوک ان حضرت نے اُنکے ساتھ اور اُنکے خاندان سے روا رکھا وہ انتہائی اُفسوسناک تھا ۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے انتہائی شریف النفس لوگوں میں شمار ہوتا تھا اُنکا۔۔یہ ووٹ کو عزت دیں گے انسان کو تو عزت دے دیں۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
پروفیسر غفور صاحب مرحوم ہمارے والدکے بہت دیرینہ دوستوں میں سے تھے ۔۔۔جو سلوک ان حضرت نے اُنکے ساتھ اور اُنکے خاندان سے روا رکھا وہ انتہائی اُفسوسناک تھا ۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے انتہائی شریف النفس لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔۔یہ ووٹ کو عزت دیں گے انسان کو تو عزت دے دیں۔۔۔۔
یہاں جمہوری انقلابی بھٹو ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران ملک کی اکثریت یعنی بنگالیوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں، سور کے بچے ہیں :(
یہ وہی گھٹیا زبان ہے جو آجکل اپنے جلسوں میں جمہوری انقلابی پی ڈی ایم استعمال کر رہی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں جمہوری انقلابی بھٹو ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران ملک کی اکثریت یعنی بنگالیوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں، سور کے بچے ہیں :(
یہ وہی گھٹیا زبان ہے جو آجکل اپنے جلسوں میں جمہوری انقلابی پی ڈی ایم استعمال کر رہی ہے
یہاں جمہوری انقلابی بھٹو ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران ملک کی اکثریت یعنی بنگالیوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں، سور کے بچے ہیں :(
یہ وہی گھٹیا زبان ہے جو آجکل اپنے جلسوں میں جمہوری انقلابی پی ڈی ایم استعمال کر رہی ہے
پیپلز پارٹی کے جیالے آج تک وہی زبان بول رہے ہیں جنکی کاشت چالیس سے پچاس سال پہلے شروع کی گئی تھی پتہ نہیں یہ آپکے علم میں ہے کہ نہیں کہ ان صاحب نے سول سرونٹ کی فائل پر Extension یہ لکھ کے کی تھی
Let the Bastard die on chair
یہ ان لوگوں کی زبان ہے باتیں کرتے عزت کی۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستانی تاریخ کا سب سے تکلیف دہ واقعہ ہے یہ۔

بہت شکریہ وارث بھائی کے آپ نے اپنے مطالعے میں ہمیں شریک کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ قانون کی نظر میں رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مجرم ہیں۔
اگر بھٹو ووٹ کو عزت دینے والے جمہوری انقلابی لیڈر ہوتے تو ۱۹۷۰ کے الیکشن نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بخوشی سنبھالتے۔ ادھر تم ادھر ہم، اگر کوئی اسمبلی اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا کے نعرے نہ مارتے پھرتے۔
اس اقتدار کے کھیل میں "تین ہاتھوں" سے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ جنرل یحییٰ کسی طور اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، حتیٰ کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی وہ کہتا رہا کہ مجھے کیوں نکالا جا رہا ہے، میں نے کیا کیا ہے؟

دوسری طرف شیخ مجیب اور بھٹو کے متعلق ایک ستم ظریف گورے مبصر نے یہ تبصرہ کر رکھا ہے کہ مجیب اور بھٹو دونوں ہی وزیرِ اعظم بننا چاہتے تھے، اب ایک ملک میں دو وزیرِ اعظم تو ہو نہیں سکتے سو انہوں نے دو الگ ملک بنا لیے اور دونوں ہی وزیرِ اعظم بن گئے!
 

سید عمران

محفلین
اس اقتدار کے کھیل میں "تین ہاتھوں" سے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ جنرل یحییٰ کسی طور اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، حتیٰ کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی وہ کہتا رہا کہ مجھے کیوں نکالا جا رہا ہے، میں نے کیا کیا ہے؟

دوسری طرف شیخ مجیب اور بھٹو کے متعلق ایک ستم ظریف گورے مبصر نے یہ تبصرہ کر رکھا ہے کہ مجیب اور بھٹو دونوں ہی وزیرِ اعظم بننا چاہتے تھے، اب ایک ملک میں دو وزیرِ اعظم تو ہو نہیں سکتے سو انہوں نے دو الگ ملک بنا لیے اور دونوں ہی وزیرِ اعظم بن گئے!
ہاتھیوں کی لڑائی میں جنرل پس گیا۔ بے چارہ!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
دوسری طرف شیخ مجیب اور بھٹو کے متعلق ایک ستم ظریف گورے مبصر نے یہ تبصرہ کر رکھا ہے کہ مجیب اور بھٹو دونوں ہی وزیرِ اعظم بننا چاہتے تھے، اب ایک ملک میں دو وزیرِ اعظم تو ہو نہیں سکتے سو انہوں نے دو الگ ملک بنا لیے اور دونوں ہی وزیرِ اعظم بن گئے!

لیکن شیخ مجیب کو اکثریت حاصل تھی سو وہ حق پر ہوئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن شیخ مجیب کو اکثریت حاصل تھی سو وہ حق پر ہوئے۔
جی نظریاتی طور پر آپ درست کہتے ہیں۔ لیکن شیخ جی کے چھ نکات بھی بس یوں سمجھیے کہ مشترکہ پاکستان کا خاتمہ ہی تھا، شاید کچھ بعد میں ہوجاتا۔ اور ہاں شاید اس صورت میں فوج کی وہ جگ ہنسائی نہ ہوتی جو کہ ہوئی۔ لیکن یہ بھی ایک "سازشی نظریہ" اب تک گردش میں ہے کہ اس سارے کھیل کا مقصد ہی فوجی شکست اور اس کی جگ ہنسائی تھا اور اسی لیے 16 دسمبر سے پہلے کئی بار سیز فائر کی کوشش ناکام بنائی گئی۔
 

بابا-جی

محفلین
بنگالی ہم سے بوجوہ بددِل ہو چُکے تھے مگر وُہ ہندوستان کا حِصہ نہیں بنے جو ثابت کرتا ہے کِہ یِہ جنگ اپنے حقوق حاصل کرنے کی تھی جِس میں وُہ کامیاب ہو گئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی نظریاتی طور پر آپ درست کہتے ہیں۔ لیکن شیخ جی کے چھ نکات بھی بس یوں سمجھیے کہ مشترکہ پاکستان کا خاتمہ ہی تھا، شاید کچھ بعد میں ہوجاتا۔ اور ہاں شاید اس صورت میں فوج کی وہ جگ ہنسائی نہ ہوتی جو کہ ہوئی۔ لیکن یہ بھی ایک "سازشی نظریہ" اب تک گردش میں ہے کہ اس سارے کھیل کا مقصد ہی فوجی شکست اور اس کی جگ ہنسائی تھا اور اسی لیے 16 دسمبر سے پہلے کئی بار سیز فائر کی کوشش ناکام بنائی گئی۔

ویسے مشرقی اور مغربی پاکستان میں لسانی اور ثقافتی دوری اپنی جگہ ایک حقیقت تھی اور ان دو باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بہترین حل یہی ہوتا کہ دونوں بطورِ ریاست انتظام ِ مملکت سنبھالتی اور وفاقی کے درجے پر ایک دوسرے سے جُڑی رہتیں۔ اور آپس میں باہمی اتفاق سے معاملات طے کر لیے جاتے۔

لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اسے مخلص لوگ (بالخصوص لیڈر) بہت ہی کم ملے۔ اور جو مخلص نہ ہو اُ س سے کسی بھلائی کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔
 
Top