سقوطِ ڈھاکہ اور "قومی ترانہ"

یحییٰ خان کے یہ "لطیفے" سن کر آج بھی یقین نہیں آتا کہ اس قسم کا شخص پاکستان کا سربراہ رہا ہے ۔
ویسے اب تو اس الکحولک خبیث کے لطیفے بھی بھولتے جارہے ہیں کہ نئے لیڈرانِ کرام نے کچھ اور قسم کے تازہ ہی گل کھلائے ہیں ۔
قبلہ وارث صاحب اگر جنرل رانی کے بارے میں بھی کچھ جنرل نالج بہم پہنچا دی جائے تو نئی نسل کو کم از کم ان کا تعارف تو حاصل ہوگا۔
معذرت کے ساتھ ہم یہاں آپ سے اختلاف کی جرأت کریں گے ظہیرؔ بھائی۔ یحییٰ ایک الگ ہی لیول کا لیجنڈ تھا ۔۔۔ آپ سوچیے کہ سوشل میڈیا نہ ہوتے اور اخبارات و رسائل پر بدترین سینسرشپ کے ہوتے ہوئے بھی جس شخص کے قبیح کارناموں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہو ۔۔۔ اس نے خلوتوں میں اور کیا کیا گل نہ کھلائے ہوں گے!
 

محمد وارث

لائبریرین
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان آرمی کمانڈ میں "جبری" تبدیلی
(ان واقعات کی تفصیل مختلف کتابوں میں بکھری ہوئی ہے، جیسے جنرل گُل حسن کی کتاب، جنرل نیازی کی کتاب، جنرل مٹھا کی کتاب، جنرل خادم حسین راجا کی کتاب، بریگیڈیر ایف، بی علی کی کتاب، شجاع نواز کی پاکستان آرمی پر کتاب وغیرہ)۔

16 دسمبر 1971ء تک جنرل یحییٰ کا دعویٰ تھا کہ ہم پاکستان کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ 17ء دسمبر کو یحییٰ نے ڈھاکہ میں ہونے والے سرنڈر کو قبول کر لیا لیکن 18ء دسمبر کو اعلان کیا کہ باقی بچ جانے والے ملک میں ایک نیا آئین نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ اعلان کچھ آرمی افسران بالخصوص جونئیر افسران جو کہ مشرقی پاکستان میں شکست اور مغربی پاکستان میں ناقص جنگی منصوبہ بندی سے دلبرداشتہ تھے، پر گراں گذرا کہ یحییٰ ابھی تک جانے کو تیار نہیں۔ گوجرانولہ میں آرمڈ کور کی ایک ڈویژن تعینات تھی جس کا کمانڈر (جی او سی) ایک بنگالی میجر جنرل "بچو" کریم تھا۔ جنرل کریم سے اس کے ایک آفیسر بریگیڈیر علی نے کہا کہ ہمیں یہ منظور نہیں سو آپ کچھ کریں، جنرل کریم نے معذرت کر لی تو بریگیڈیر علی نے کہا کہ آپ ڈویژن کی کمانڈ مجھے سونپ دیں اور خود سائیڈ پر ہو جائیں۔ ان واقعات کی اطلاع جی ایچ کیو پنڈی میں برابر پہنچ رہی تھی۔

بریگیڈیر علی نے کمان سنبھالنے کے بعد اپنا ایک نمائندہ (کرنل آفریدی) ایک فہرست اور ایک پیغام کے ساتھ جی ایچ کیو پنڈی بھیجا۔ فہرست میں ان جرنیلوں کے نام تھے جن کو جنرل یحییٰ کے ساتھ فارغ کیا جانا تھا اور پیغام یہ تھا کہ 19 دسمبر رات آٹھ بجے تک جنرل یحییٰ مستغفی ہو جائے بصورت دیگر گوجرانولہ آرمڈ ڈویژن سے ٹینکوں کا ایک کالم پنڈی کے لیے روانہ ہو جائے گا اور پھر جو کچھ ہوگا اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہونگے۔

اس فہرست میں کس کس کا نام تھا یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے۔ میجر جنرل مٹھا کا خیال ہے کہ اس کا نام اس فہرست میں نہیں تھا بلکہ جنرل گل حسن نے اس کا نام بعد میں شامل کیا۔ جنرل مٹھا کا یہ بھی خیال ہے کہ جنرل گل حسن کو یقین تھا کہ اس کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے اس لیے جب کرنل آفریدی جی ایچ کیو پہنچا تو جنرل گل حسن اپنا دفتر سمیٹ رہا تھا۔

بہرحال اس فہرست میں جنرل گل حسن کا نام نہیں تھا۔ جنرل گل حسن نے کرنل کے ساتھ جنرل عبدالحمید سے ملاقات کی تو اس نے کہا کہ کچھ کرتے ہیں۔ آخری کوشش کے طور پر ان جرنیلوں نے جنرل مٹھا سے مدد کی درخواست کی، جنرل مٹھا نے ایس ایس جی کے کمانڈو تیار کیے تھے سو اس نے ایس ایس جی کے کمانڈر بریگیڈیر سے بات کی کہ ٹینک روکنے کے لیے کمانڈوز کی ایک کمپنی فراہم کرے جو ترکئی کے پاس (جہلم اور پنڈی کے درمیان) مجوزہ حملہ آور ٹینکوں کو روکے۔ ایس ایس جی کمانڈر نے یہ بات یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا کہ اول تو میرے پاس اضافی کمانڈوز نہیں ہیں اور دوم آپ ڈائریکٹ مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتے، آپ "تھرو پراپر چینل" یعنی جنرل گل حسن (چیف آف جنرل سٹاف) کے ذریعے آئیں۔

اس ناکامی کے بعد جنرل یحییٰ کے مستغفی ہونے کا اعلان کر دیا گیا کہ 20 دسمبر کو جنرل یحییٰ عہدہ چھوڑ دے گا۔ یحییٰ نے تین عہدے چھوڑنے تھے (صدر، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور آرمی چیف)۔ اب ان عہدوں کے لیے دوڑ شروع ہو گئی۔ یحییٰ کا نائب جنرل عبدالحمید تھا، اس نے کوشش کی افسران اس کو آرمی چیف کے طور پر قبول کر لیں، اس لیے 20 دسمبر کی صبح اس نے جی ایچ کیو میں آرمی افسران سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں کافی ہلڑ بازی ہوئی اور بالخصوص جونئیر افسران نے اس کی کوئی بات سننے سے انکار کر دیا اور جنرل عبدالحمید کو اپنا چیف ماننے سے انکار کر دیا۔ (کہتے ہیں اس میٹنگ کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جو بعد میں بھٹو نے بھی دیکھی تھی)۔

صدر اور سی ایم ایل اے کے لیے قرعہ فال بھٹو کے نام نکلا۔ بھٹو کے دو اہم ساتھی جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان اس کو پل پل سے آگاہ کیے ہوئے تھے اور جب بھٹو کو یقین ہو گیا کہ اس کے خلاف کچھ نہیں ہوگا تو وہ نیویارک سے واپس آنے کو تیار ہو گیا۔ بھٹو کی بروقت واپسی کے لیے ایئر مارشل نے خصوصی طیارے کا بندوبست کیا اور 20 دسمبر رات گئے بھٹو پاکستان پہنچا اور اسی وقت اس نے صدر اور سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا حلف اٹھا لیا۔ اور بھٹو نے آرمی کمانڈر ان چیف کا تاج جنرل گل حسن کے سر پر رکھ دیا۔

بھٹو نے جنرل یحییٰ اور دیگر سینئر جرنیلوں کے خلاف بغاوت کرنے والے گوجرانوالہ آرمڈ ڈویژن کے افسران کو بھی نہیں چھوڑا اور بریگیڈیر علی اور بریگیڈیر مہدی شاہ کے ساتھ ساتھ دیگر افسران کا کورٹ مارشل کر کے سزائیں سنائی گئیں۔

اس کہانی میں چونکہ آرمی کی سبکی ہوتی ہے اس لیے اس کی بہت سی تفصیلات کو پردہ راز میں رکھا جاتا ہے اور ابھی تک اس پر کھل کر بات نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:

احسن جاوید

محفلین
وہ ملک کو توڑنے میں تو کامیاب رہے مگر وہ مسلمان ملک کو اپنا حصہ نہ بنا سکے
اندرا گاندھی کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ بنگال کو انڈیا کا حصہ بنا لیا جائے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم پھر سے تحریک پاکستان والا کام نہیں چاہتے۔ اگر انڈیا چاہتا تو با آسانی اسے انیکس کر سکتا تھا اور بنگالی تو بالکل بھی ریزسٹیو نہیں تھے۔ بلکہ اگر انڈیا چاہتا تو تھوڑا سا زور لگا کر ویسٹ پاکستان کو بھی انیکس کرنے کی ہمت کر سکتا تھا کیونکہ اس وقت کے حالات ان کی فیور میں تھے۔
 

احسن جاوید

محفلین
بنگالی ہم سے بوجوہ بددِل ہو چُکے تھے مگر وُہ ہندوستان کا حِصہ نہیں بنے جو ثابت کرتا ہے کِہ یِہ جنگ اپنے حقوق حاصل کرنے کی تھی جِس میں وُہ کامیاب ہو گئے۔
ہندوستان کا حصہ تب بنتے اگر ہندوستان انہیں اپنے ساتھ ملانے کی حامی بھرتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
 

ثمین زارا

محفلین
اندرا گاندھی کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ بنگال کو انڈیا کا حصہ بنا لیا جائے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم پھر سے تحریک پاکستان والا کام نہیں چاہتے۔ اگر انڈیا چاہتا تو با آسانی اسے انیکس کر سکتا تھا اور بنگالی تو بالکل بھی ریزسٹیو نہیں تھے۔ بلکہ اگر انڈیا چاہتا تو تھوڑا سا زور لگا کر ویسٹ پاکستان کو بھی انیکس کرنے کی ہمت کر سکتا تھا کیونکہ اس وقت کے حالات ان کی فیور میں تھے۔
یہ آج تک میں نے تو کہیں نہیں پڑھا۔ انڈیا نے جب جب کوشش کی منہ کی کھائی۔ بس اتنا معلوم ہے ۔ بنگلہ دیش کا بننا بھی اپنوں کی وجہ سے تھا ۔ اکیلے وہ کبھی کچھ نہ کر سکتے تھے، نہ کر سکتے ہیں ۔ انشااللہ
 

ثمین زارا

محفلین
معذرت کے ساتھ ہم یہاں آپ سے اختلاف کی جرأت کریں گے ظہیرؔ بھائی۔ یحییٰ ایک الگ ہی لیول کا لیجنڈ تھا ۔۔۔ آپ سوچیے کہ سوشل میڈیا نہ ہوتے اور اخبارات و رسائل پر بدترین سینسرشپ کے ہوتے ہوئے بھی جس شخص کے قبیح کارناموں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہو ۔۔۔ اس نے خلوتوں میں اور کیا کیا گل نہ کھلائے ہوں گے!
یحیٰ خان کی اولاد اگر مورثیت کو قائم کرتے ہوئے آج تک فوج یا حکومت میں ہوتی تو لوگ ان کی عظمت کے گن گاتے۔ اس وقت ان کی ہی قبیل کے لوگوں کے لوگ مسلط تھے مگر ان کی اولادیں سیاست میں ہیں تو کسی کو کوئی جرات نہیں ۔۔۔ نہ کتاہیں لکھنے کی، نہ لڑیاں بنانے کی اور نہ ہی تبصرے کرنے کی ۔
 
آخری تدوین:

ثمین زارا

محفلین
ہندوستان کا حصہ تب بنتے اگر ہندوستان انہیں اپنے ساتھ ملانے کی حامی بھرتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
لوگوں نے تو سالہا سال جنگیں لڑیں کہ تاریخ بدل دیں ۔ آپ تو مزے سے قلم سے منٹوں سیکنڈوں میں بدل دیتے ہیں ۔ آپ کی کیا بات ہے۔
 

احسن جاوید

محفلین
کوئی کتابی دلِیل، بیان، حوالہ مُجھ کور مغز کو عطا ہو تاکہ اپنی غلط فہمی دُور کر سکوں۔
جی ضرور، ابھی ایگزکٹ سورس میری یاداشت کے کسی کونے میں نہیں ہے لیکن جیسے ہی میری نظر سے دوبارہ گزرا یا یاد آیا تو میں شیئر کر دوں گا۔
 

احسن جاوید

محفلین
لوگوں نے تو سالہا سال جنگیں لڑیں کہ تاریخ بدل دیں ۔ آپ تو مزے سے قلم سے منٹوں سیکنڈوں میں بدل دیتے ہیں ۔ آپ کی کیا بات ہے۔
تاریخ تو میرے لکھنے سے پہلے ہی اتنی ڈسٹورٹڈ ہے میری بھلا کیا مجال۔ میری تو صرف رائے ہے جو خود مختلف تاریخ کی کتابوں سے اخذ شدہ ہے۔ یہاں کوئی ایسی دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ یہی صحیح ہے یا یہی تاریخ ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ ذات پہ تنقید کرنے کی بجائے خیالات پہ تنقید کی جائے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معذرت کے ساتھ ہم یہاں آپ سے اختلاف کی جرأت کریں گے ظہیرؔ بھائی۔ یحییٰ ایک الگ ہی لیول کا لیجنڈ تھا ۔۔۔ آپ سوچیے کہ سوشل میڈیا نہ ہوتے اور اخبارات و رسائل پر بدترین سینسرشپ کے ہوتے ہوئے بھی جس شخص کے قبیح کارناموں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہو ۔۔۔ اس نے خلوتوں میں اور کیا کیا گل نہ کھلائے ہوں گے!
ویسے ایک دائمی ٹُن آج کل لندن میں بھی ہوتا ہے ۔ وہ بھی اپنی طرز کا ایک لیجنڈ ہی ہے ۔ ایک پوری نسل اور دو شہروں کو تباہ کرکے اب جناح صاحب اور پاکستان کے خلاف خرافات بکتا رہتا ہے ۔
 
ویسے ایک دائمی ٹُن آج کل لندن میں بھی ہوتا ہے ۔ وہ بھی اپنی طرز کا ایک لیجنڈ ہی ہے ۔ ایک پوری نسل اور دو شہروں کو تباہ کرکے اب جناح صاحب اور پاکستان کے خلاف خرافات بکتا رہتا ہے ۔
ہاہاہا ... صبح میں نے کچھ اسی قسم کے خیالات ایک اور شخصیت کے بارے میں ظاہر کیے تھے... "پالیسی برد" ہوگئے .... دیکھئے آپ کے مراسلے پر کب قینچی چلتی ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
صدر اور سی ایم ایل اے کے لیے قرعہ فال بھٹو کے نام نکلا۔ بھٹو کے دو اہم ساتھی جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان اس کو پل پل سے آگاہ کیے ہوئے تھے اور جب بھٹو کو یقین ہو گیا کہ اس کے خلاف کچھ نہیں ہوگا تو وہ نیویارک سے واپس آنے کو تیار ہو گیا۔ بھٹو کی بروقت واپسی کے لیے ایئر مارشل نے خصوصی طیارے کا بندوبست کیا اور 20 دسمبر رات گئے بھٹو پاکستان پہنچا اور اسی وقت اس نے صدر اور سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا حلف اٹھا لیا۔ اور بھٹو نے آرمی کمانڈر ان چیف کا تاج جنرل گل حسن کے سر پر رکھ دیا۔
ہاں جی تو پھر آج کس کس کو عمران خان انوکھا سلیکٹڈ لگ رہا ہے؟ بغض عمران کی بھی کوئی حد تو ہوتی ہوگی؟ جرنیلوں کا کیا کام کہ جمہوری انقلابی بھٹو کو سلیکٹ کر کے پاکستان لائیں اور صدر و چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سونپیں؟ خاص طور پر جب وہ خود سقوط ڈھاکہ کا ملزم بھی ہو؟
 

جاسم محمد

محفلین
بھٹو نے جنرل یحییٰ اور دیگر سینئر جرنیلوں کے خلاف بغاوت کرنے والے گوجرانوالہ آرمڈ ڈویژن کے افسران کو بھی نہیں چھوڑا اور بریگیڈیر علی اور بریگیڈیر مہدی شاہ کے ساتھ ساتھ دیگر افسران کا کورٹ مارشل کر کے سزائیں سنائی گئیں۔
جمہوری انقلابی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کو بھی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کوئی سزا وغیرہ دی تھی یا معاملہ وہیں دفن کر دیا؟
 

بابا-جی

محفلین
جمہوری انقلابی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کو بھی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کوئی سزا وغیرہ دی تھی یا معاملہ وہیں دفن کر دیا؟
رپورٹ کی روشنی اور روشنائی مدہم پڑ گئی اور ایک اور سولہ دسمبر گُزر گیا، اِس لیے مٹی پاؤ ڈار صاحب۔
 

سیما علی

لائبریرین
رپورٹ کی روشنی اور روشنائی مدہم پڑ گئی اور ایک اور سولہ دسمبر گُزر گیا، اِس لیے مٹی پاؤ ڈار صاحب۔
اسکے باوجود دکھ اپنی جگہ اور جرم اپنی جگہ باقی رہتا ہے جناب:
لال مسجد کا واقعہ ہوا۔ مٹی پاﺅ
پی آئی اے کے حادثوں پر۔ مٹی پاﺅ
بولی والی کمیٹیوں کا فراڈ۔ مٹی پاﺅ
بینظیر قتل کیس۔ مٹی پاﺅ
مصحف علی میر طیارہ حادثہ۔ مٹی پاﺅ
کوآپریٹو فراڈ۔ مٹی پاﺅ
فاریکس سکینڈل۔ مٹی پاﺅ
بینکوں سے غیرقانونی قرضوں کی معافی۔ مٹی پاﺅ
میڈیا کے جھوٹ پر جھوٹ۔ مٹی پاﺅ
15 کلو ہیروئن برآمدگی کا کیس۔ مٹی پاﺅ
بڑے بڑوں کے مالیاتی سکینڈل۔ مٹی پاﺅ
لینڈ مافیا کی توسیع پسندی۔ مٹی پاﺅ
اتنی زیادہ مٹی پڑنے کے بعد کیس کھودنے مشکل ہو جائیں گے کیونکہ ابھی تک جو کیس سامنے آئے ہیں ان میں سے بھی کچھ نہیں نکلا اور سب کچھ مٹی پاﺅ کے تحت ہی چل رہا ہے۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اندرا گاندھی کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ بنگال کو انڈیا کا حصہ بنا لیا جائے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم پھر سے تحریک پاکستان والا کام نہیں چاہتے۔ اگر انڈیا چاہتا تو با آسانی اسے انیکس کر سکتا تھا اور بنگالی تو بالکل بھی ریزسٹیو نہیں تھے۔ بلکہ اگر انڈیا چاہتا تو تھوڑا سا زور لگا کر ویسٹ پاکستان کو بھی انیکس کرنے کی ہمت کر سکتا تھا کیونکہ اس وقت کے حالات ان کی فیور میں تھے۔
مغربی پاکستان کو 'انیکس' کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا اور نہ ہے۔ یہ اگر ہو سکتا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا۔

مغربی پاکستان کو انیکس کرنا تو دور کی بات ہے، انڈیا مشرقی پاکستان میں بھی جنگ کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھا۔ آپ فیلڈ مارشل سیم مانک شا کے انٹرویوز دیکھیے، اندرا گاندھی نے مارچ 1971ء میں ہی انڈین فوج کو ایکشن کے لیے کہہ دیا تھا لیکن فیلڈ مارشل نے آپریشن کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ ہم ابھی تیار نہیں اور اُس نے اپنی تیاری کے لیے اپنا پورا وقت لیا اور آٹھ دس مہینے کے بعد آپریشن شروع ہوا۔ مزید برآں، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ پاکستانی فوج کا وہاں لڑنے کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، انڈیا نے چاروں طرف سے حملہ کر رکھا تھا اور ایک اور پندرہ کی بری عددی برتری حاصل تھی۔ فضائی اور بحری مکمل برتری حاصل تھی اسکے باوجود وہ رطب السان ہے کہ پاکستانی فوجی جس حد تک لڑ سکتے تھے لڑے۔

دوسری طرف پاکستان میں یہ شکوہ ہے وہ فوجی زندہ کیوں بچ گئے، انہوں نے سرنڈر کیوں کیا وہ مر کیوں نہیں گئے۔ نوے ہزار فوجی تھے، قید کیوں ہوئے، لڑتے ہوئے مر جاتے (یہ بھی ایک مِتھ ہے، اصل فوجی اس میں صرف چالیس پچاس ہزار کے قریب تھے، باقی سولین اور دوسرے کام کرنے والے افراد تھے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سقوط ڈھاکہ کی جڑیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اسی وقت لگا آئے تھے جب انہوں نے صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا۔ اور اس پالیسی سے انحراف کرنے والوں کو ملک دشمن کہا تھا۔ اسی سخت پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے اگلے صوبائی اور قومی الیکشنز میں پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ مشرقی پاکستان سے الیکشن ہارتی چلی گئی اور اس کی جگہ بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ نے لے لی:
03-D3799-D-2790-4-DCE-AE27-E4300135-BA00.jpg

Bengali language movement - Wikipedia

باقی ۱۹۷۰ کے انتخابات صدر یحیی کے ایل ایف او آرڈر کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ جس میں انتقال اقتدار الیکشن جیتنے والے مجیب الرحمان کو ہی ہونا تھا۔ یوں وہ اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ مغربی پاکستان کو خاطر میں لائے بغیر ملک کا نیا آئین بنا سکتے تھے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عین ممکن ہے کچھ سال بعد آزادی کی تحریک مغربی پاکستان میں چل رہی ہوتی :)
Legal Framework Order, 1970 - Wikipedia
آپ ہر جگہ اس "لسانی مسئلے" کو گھسیڑ دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ بیان کرتے ہیں۔

آخر بنگالی کس بنیاد پر بنگالی کو "قومی" زبان بنانا چاہتے تھے؟ کیا اردو پنجابیوں کی زبان تھی یا سندھیوں، پختونوں، بلوچیوں کی؟ اردو صرف چند ملین مہاجروں کی مادری زبان تھی اور یا پھر رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ کیا بنگالی اپنی عددی برتری کی بنا پر بنگالی کو سرکاری زبان بنانا چاہتے تھے؟

آپ کو یوں سمجھ نہیں آئے گی، موجودہ دور کی مثال سے سمجھاتا ہوں۔ بنگالی، کل پاکستان میں قریب 54 فیصد تھے، جب کہ اس وقت پنجابی کل پاکستان میں قریب 60 فیصد ہیں یعنی ہر دس پاکستانیوں میں 6 پنجابی ہیں اور باقی 4 میں سندھی، پختون، بلوچی و دیگر۔ چھوٹے گروپوں کے مقابلے میں یہ ایک کثیر برتری ہے تو کیا پنجابی اس عددی برتری کی بنیاد پر یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ پنجابی کو سرکاری اور قومی زبان کا درجہ دیا جائے؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس مطالبے سے ملک میں کس حد تک طوفانِ بدتمیزی اٹھے گا، اور ملک کا کوئی بھی عقلمند لیڈر اس مطالبے کے جواب میں کیا کہے گا؟

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں بھی انگریزی اصل سرکاری زبان تھی اور اب بھی ہے، لیکن الزامات کے لیے تب بھی اردو نشانہ تھی اور اب بھی ہے!
 
آخری تدوین:
Top