محمد بلال اعظم
لائبریرین
نو کمنٹس
آبی بھائی، یہ تقریری بیان تھا اور یہ بیان ایک نہیں بلکہ تین چار جگہوں پر دیا گیا۔ اے آر وائی کی براہِ راست انتخابی نشریات یعنی لائیو الیکشن ٹرانسمیشن میں کاشف عباسی سے بات کرتے ہوئے ابرارالحق نے یہ کہا، پھر سٹی فورٹی ٹو کے کسی پروگرام میں یہی بات کی، بعدازاں ڈیفنس لاہور والے دھرنے میں یہی بات کہی گئی۔ اگر آپ چند روز پہلے کے روزنامہ جنگ لاہور کے اندرونی صفحات دیکھیں تو آپ کو پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن اور پنجاب ٹیچرز یونین کے اس بیان کے خلاف احتجاج کی اکّا دکّا خبریں بھی مل جائیں گی۔ نصرت جاوید سے میری چار روز پہلے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی اپنے پروگرام میں اس بیان کو موضوعِ بحث بنایا تھا۔ابرا الحق کا وہ بیان کہاں ہے ؟؟؟ آیا تحریری ہے یا تقریری ؟؟؟اگر وہ سامنے ہوتو تب ہی حتمی رائے دی جاسکتی ہے اسکا سیاق و سباق دیکھ کر، باقی جہان تک بات ہے دھاندلی کی تو اس پر میں اپنا مؤقف دو ٹوک انداز میں بارہا بیان کرچکا ہوں دھاندلی ہوئی ہے جیسا کہ پاکستان الیکشنز کی تاریخ ہے لہذا جس کا جہاں جہاں بس اور زور چلا اس نے کی
بہت شکریہ انعام بھائیبہت خوب عاطف، آپ ذرا بھی دھاندلی اور کرپشن پر ملتفت نہ ہوئے۔
ویسے زیادہ مزیدار صورت حال تو کراچی میں تھی میرے کئی جانے والے کالج کے مظلوم لیکچرار و اسسٹنٹ پروفیسرز کی طبیعت اس دفعہ صاف تھی الیکشن ڈیوٹی کے حوالے سے کچھ تو یہاں تک گھبرائے کہ دو دنوں کے لیے ہسپتالوں میں داخل ہوگئے ( کہ خالی میڈٰکل سے کام نہیں چل رہا تھا)۔ایک صاحب جنھوں نے پولنگ اسٹیشن پر ذرا جراءت دکھانے کی کوشش کی وہ پٹتے پٹتے بچے کہ باہر رینجرز موجود تھی لیکن دھمکیوں کے باعث ابھی تک حالت ان کی پتلی ہے کہ ان کے کالج میں وہ تنظیم کافی اسٹرانگ ہے۔
انیس بھائی، بہت شکریہ آپ کی محبت کے لئے۔اتنی جراءت اور بہادری پر میری طرف سے آپ کو سلیوٹ۔ آج یہ سب پڑھ کر مجھ کو بالکل اسی طرح خوشی محسوس ہوئی جسطرح ہماری محفل کے ایک اور رکن خرم زکی صاحب نے قمر الزمان کائرہ کو وزیر اعظم کے سامنے ڈانٹا تھا تب ہوئی تھی ماشاللہ ہماری محفل میں ایسے ایسے نڈر افراد موجود ہیں بلاشبہ ہم سب کو آپ پر فخر کرنا چاہیئے۔ اللہ آپ کی جراءت اور بہادری مین اور زیادہ اضافہ کرے۔
جی بالکل۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایک نئی جہت اور سمت دینے والوں کے رویے اور لہجے میں بھی روایتی سیاسی رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے اور اس رنگ کے لئے دلیل اور تاویل ہمیشہ عوامی مزاج سے ڈھونڈ کر لائی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کرتا دھرتا پڑھے لکھے اور سلجھے لوگوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ایک معاملے میں کافی حد تک وہی روایتی ذہن رکھتے ہیں کہ جتنا زیادہ اونچا اور رُوڈ لہجہ رکھا جائے گا ، مخالف بھی دباؤ میں آ جائے گا اور لوگ بھی آپ کو درست سمجھنے لگیں گے۔ اس کا ثبوت ان کی الیکشن مہم کے لئے اختیار کیا گیا لہجہ ہے جس کے لئے ان کے پاس یہ دلیل ہے کہ لوگ ایسی باتیں سننا چاہتے ہیں۔
یہی کہ یہ اپنے عاطف بٹ صاحب کے بارے میں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی لاہور کے مضافات میں ایک کالج میں پڑھاتے ہیں۔ بٹ بھی ہیں۔ اور اصولی بھیوہ بھلا کیا؟؟؟؟
غلط سمجھے ہو بھئی حسیب۔ ایک بٹ عاطف بٹ اور ایک جٹ یعنی ابرارالحق ایک دوسرے کے مقابل ہیں یہاںبٹ جی چھاگئے او تُسی
اے ہوئی نا جٹّاں او سوری بٹّاں والی گل
جٹاں توں حسیب نذیر گِل نے اے امید کینویں لا لئی!غلط سمجھے ہو بھئی حسیب۔ ایک بٹ عاطف بٹ اور ایک جٹ یعنی ابرارالحق ایک دوسرے کے مقابل ہیں یہاں
کیوں جٹ بہادر نئیں ہُندے؟؟؟؟؟جٹاں توں حسیب نذیر گِل نے اے امید کینویں لا لئی!
ابرار بھی ہوتے ہیں نا!کیوں جٹ بہادر نئیں ہُندے؟؟؟؟؟