دنیا میں غیر معمولی تباہی کیوں آئے گی؟

ظفری

لائبریرین
وہ بھی کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں کیسا سائنسی جواب آتا ہے۔ ابھی تک تو مذہبی جواب ہی سامنے آئے ہیں :)
صحیح طور پر واضع نہیں ہو رہا ہے کہ آپ پوچھنا کیا چاہ رہے ہیں ۔ دنیا کے اختیام کے حوالے سے آپ اگر یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ اس کی کوئی سائنسی وجہ ہونی چاہیئے تو بہت سی قدرتی آفات جو دنیا میں برپا ہوتیں رہتیں ہیں ۔ ان کی سائنسی وجوہات واضع ہیں ۔ اور سائنس یہ بتا دیتی ہے کہ ان آفات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے ۔ یعنی زلزلوں ، طوفانوں اور دیگر آفات کی سائنس پیشن گوئی بھی کردیتی ہے کہ کس قسم کے خطرات مستقبل میں لاحق ہوسکتے ہیں اور جو آفات نازل ہوچکیں ہوتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں سائنس بتا دیتی ہے کہ یہ کس طرح رونما ہوئے ۔ یعنی سائنس کے پاس اب تک جو علم ہے اس سے یہ بتانا کہ دنیا کا ماحول کس رخ پر جارہا ہے ۔ اوزان کی کیا حالت ہے ، گوبل وارمنگ کس درجے پر جا رہی ہے کہ جن سے گلشئیر کے پگھلنے سے کیا تباہی آسکتی ہے ، زمین کا درجہ حرارت تیزی بڑھ رہا ہے جس سے کتنے سالوں میں زمین کی بقا کو خطرہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ سائنس جتنی ترقی کرے گی وہ اس درجہ میں جا کر زمین کی عمر زمین کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر بتا دے گی کہ کہاں جا کر زمین کے وجود کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ یہ تو ایک سادہ سی بات ہے ۔ اور اس میں ایکوریسی کی شرح سائنس کی مذید ترقی پر منحصر ہے ۔

اصل سوال یہ ہونا چاہیئے تھا کہ آخر دنیا میں تباہی کیوں آئے گی ؟ ۔ اگر سائنس کی پیشن گوئیاں یہ ثابت کرتیں ہیں کہ اس دنیا کا اختیام مضمر ہے تو مادیت کا اس طرح خاتمہ کس بات کو ظاہر کرتا ہے ۔ دنیا اور اس میں رہنے والوں نے اپنے اپنے ارتقا کے جو منازل طے کیں ہیں ۔ اس کا سبب کیا تھا ۔ کوئی بھی مخلوق ترقی کی انتہا پر پہنچ جائے مگر وہ اپنے اختیام کا جواز صرف مادے کے فنا ہونے کی صورت میں تلاش کرے مگر ایسا کیوں ہوگا اس کا جواب دینے سے قاصر رہے تو پھر صرف مذہب ہی رہ جاتا ہے جو آپ کو بتا سکتا ہے کہ آپ کا وجود کن شرائط پر ظہور پذیر ہوا اور اس کا اختیام بھی کس شکل میں وقوع پذیر ہوگا ۔ کیونکہ سائنس آپ کو صرف وہ کچھ بتا سکتی ہے جو وہ دیکھ رہی ہے ۔ اس سے آگے کا اس کو علم نہیں کہ مادہ ان صورتوں میں فنا ہوسکتا ہے مگر کیوں ہوگا ۔ اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے ۔ چنانچہ جس طرح دنیا کے 95 فیصد لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح دنیا کی تباہی پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔ اور اس کی مذہبی توجہات ہیں ۔ اگر آپ چاہیں گے تو میں یہاں ان کا تذکرہ کردوں گا ۔
 

ظفری

لائبریرین
طوالت سے گریز کرتے ہوئے مختصراً مذہبی نکتہِ نظر کا بنیادی مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے تو آپ مذہب کی اصولی بات سمجھ لیں کہ یہ دنیا امتحان اور آزمائش کے لیئے بنائی گئی ہے ۔ یعنی یہاں خیر و شر کی کشمکش جاری رہے گی ۔ اللہ نے انسان میں ایک طرف عقلی اور اخلاقی وجود رکھا ( جو بہت ہی باشعور ہے ) اور دوسری طرف اس میں انسان کے اپنے مفادات بھی ہیں ، تعصبات ہیں ، قومیت ہے ، خواہشیں ہیں ، رغبتیں ہیں ، رشتہ داریاں ہیں ، تعلقات ہیں ۔ جس دن یہ سب ختم ہوجائیں گے اور انسان ان سے بالاتر ہوجائے گا تو امتحاں بھی ختم ہوجائے گا ۔یہ وہ اصولی بات ہے جس میں دنیا کی تخلیق اور فنا کا جواز موجود ہے ۔ دنیا میں صرف شر رہ گیا تو دنیا کا خاتمہ لازمی ہے اور اگر خیر ہی رہ گیا تو یہاں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوگا ۔ اصل میں دنیا انصاف و عدل کے اصول پر نہیں قائم کی گئی ۔ بلکہ امتحان کے اصول پر قائم کی گئی ہے ۔ انصاف کے اصول پر آنے والی دنیا قائم ہوگی ۔ جب خیر و شر کی کشمکش ختم ہوجائے گی تو امتحان اور آزمائش کا جواز بھی ختم ہوجائے گا ۔ اور دنیا فنا کر دی جائے گی ۔
 

زیک

مسافر
سائنس تباہی کیوں آئے گی کیسے بتا سکتی ہے؟ کیسے آئے گی کے بارے میں غور ہو سکتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
سائنس تباہی کیوں آئے گی کیسے بتا سکتی ہے؟ کیسے آئے گی کے بارے میں غور ہو سکتا ہے۔
زیک ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ساری بات کا پس منظر سمجھنے میں شاید غلطی لگی ہے ۔ عارف کا سوال بھی تقریباً یہی تھا جو آپ نے لکھا ہے ۔ میں نے آکر یہاں اوپر یہی وضاحت کی کہ سائنس یہ تو بتاسکتی ہے کہ کوئی بھی تباہی کیسے آئی گی اور مستقبل میں کس قسم کے خطرے لاحق ہوسکتے ہیں ۔ مگر چونکہ سائنس اپنے علم کے دائرے میں مقید ہے اس لیئے سائنس یہ بتانے سے قاصر ہے کہ دنیا فنا "کیوں" ہوگی ۔ اس لیئے سائنس کو ایک طرف رکھ کر کسی اور دلیل سے ثابت کیا جائے کہ قیامت کیوں آئے گی ۔ یہاں میرا استدلال تھا کہ صرف مذہب ہی بتا سکتا ہے کہ قیامت ، تباہی یا دنیا کا اختیام " کیوں " ہوگا ۔ اور اس کے لیئے میں نے مذہبی دلیل پیش کردی ہے ۔ لہذا " کیوں " کا لفظ سائنس کے لیئے نہیں بلکہ مختلف نکتہِ نظر اور استدلال کے لیئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اور میں نے اس " کیوں " کا جواب مذہبی اصطلاح میں ڈھونڈا اور پھر پیش کردیا ۔
 

زیک

مسافر
زیک ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ساری بات کا پس منظر سمجھنے میں شاید غلطی لگی ہے ۔ عارف کا سوال بھی تقریباً یہی تھا جو آپ نے لکھا ہے ۔

مگر عارف نے لکھا تھا:

براہ کرم مذہب و سائنس کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں:

آپکے نزدیک اس دنیا میں غیر معمولی تباہی کیوں آئے گی؟
 

نایاب

لائبریرین
براہ کرم مذہب و سائنس کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں:

آپکے نزدیک اس دنیا میں غیر معمولی تباہی کیوں آئے گی؟

میرا جواب: کیونکہ حضرت انسان نے عدل و انصاف کو ترک یا خاص علاقوں تک محدود کر رکھا ہے!

السلام علیکم
سدا خوش رہیں آپ سب آمین
سائنس ہو یا کہ مذہب
لفظ " تباہی " اساسی جز ہے ۔
کائنات کی تشکیل ہو
یا ایٹم کی تقسیم
تباہی سے ہی منسلک ۔
کائنات میں تغیر و تبدیلی اسی تباہی کی محتاج ہے ۔
ذکر چاہے قوم عاد و لوط و ثمود کا ہو
یا طوفان نوح کا ۔
اک اشارہ و علامت ہے تخریب برائے تعمیر کا ۔
" تباہی " عذاب " تخریب "
کسی شئے کی اصل حالت کسی سبب سے مسخ ہو کر معدوم ہوجانا۔
تباہی بنیاد ہے اک نئے شئے کے وجود پذیر ہونے کی ۔
اب وہ شئے چاہے اک بیج ہو یا پھر اک قوم ۔
اک بیج جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اسباب کے تحت تباہی سے دوچار ہوتا ہے ۔
اور اس تباہی کے نتیجے میں اک کونپل پھوٹتی ہے ۔
اور یہ کونپل گھاس کی ہو یا پھر برگد کے درخت کی ۔
تباہی فنا ہے ۔
اور کائنات کی ہر چیز کو فنا و تباہ ہونا ہے ۔
سوائے اک ذات پاک واحد و لاشریک کے ۔
سو اس سوال میں " کیوں " اضافی ہے ۔
(صاحبان علم و فضل میری اصلاح کیجئے گا )
نایاب
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
سدا خوش رہیں آپ سب آمین
سائنس ہو یا کہ مذہب
لفظ " تباہی " اساسی جز ہے ۔
کائنات کی تشکیل ہو
یا ایٹم کی تقسیم
تباہی سے ہی منسلک ۔
کائنات میں تغیر و تبدیلی اسی تباہی کی محتاج ہے ۔
ذکر چاہے قوم عاد و لوط و ثمود کا ہو
یا طوفان نوح کا ۔
اک اشارہ و علامت ہے تخریب برائے تعمیر کا ۔
" تباہی " عذاب " تخریب "
کسی شئے کی اصل حالت کسی سبب سے مسخ ہو کر معدوم ہوجانا۔
تباہی بنیاد ہے اک نئے شئے کے وجود پذیر ہونے کی ۔
اب وہ شئے چاہے اک بیج ہو یا پھر اک قوم ۔
اک بیج جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اسباب کے تحت تباہی سے دوچار ہوتا ہے ۔
اور اس تباہی کے نتیجے میں اک کونپل پھوٹتی ہے ۔
اور یہ کونپل گھاس کی ہو یا پھر برگد کے درخت کی ۔
تباہی فنا ہے ۔
اور کائنات کی ہر چیز کو فنا و تباہ ہونا ہے ۔
سوائے اک ذات پاک واحد و لاشریک کے ۔
سو اس سوال میں " کیوں " اضافی ہے ۔
(صاحبان علم و فضل میری اصلاح کیجئے گا )
نایاب

السلام علیکم نایاب صاحب ۔
ماشاء اللہ آپ نے بہت اچھا لکھا ۔ لیکن آخری لائن سے اختلاف کرنے کی گستاخی کروں گا ۔ امید ہے معیوب نہیں لگے گا ۔
بے شک مادے کا فنا ہوجانا ایک قدرتی امر ہے ۔ مگر اللہ نے جو کائنات تخلیق کی ہے ۔ اس کا کوئی جواز بھی ہوگا ۔ اگر کائنات کی تخلیق کسی پلان کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے تو پھر اس کا اختیام بھی اسی پلان کا لازمی جُز ہوگا ۔ اگر کائنات کے تخلیق کا مذہبی جواز موجود ہے تو پھر اس کے اختیام کی کوئی عقلی توجہیہ بھی ہوگی ۔ اور پھر یہ توجہیہ " کیوں" کی مقصدیت کو وضع کرسکے گی ۔
اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ مگر اس نے مادے کو تخلیق کیا اور پھر اس کو فنا کردینے کا اعادہ بھی کیا ہوا ہے ۔ تو سوال یہاں پھر یہ اٹھتا ہے کہ " کیوں " ۔ میں نہیں سمجھتا کہ " کیوں " ایک اضافی لفظ ہے ۔ کیونکہ اگر " کیوں " کو سارے قصے سے الگ کردیں تو پھر انسان کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے ۔ اور پھر ا سکو اپنے ایمان اور عمل کی صوابدید کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔ ؟
 

ظفری

لائبریرین
مگر عارف نے لکھا تھا:

میں نے جو مذہبی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس میں عارف کا یہ جملہ پیشِ نظر تھا ۔

بہت خوب ظفری۔۔۔ جی آپ بیشک یہاں مذہبی توجہات کا ذکر کر سکتے ہیں۔

لہذا میرا سارا استدلال اسی اقتباس کی موہونِ منت تھا ۔ لہذا میرا کہنا کہ " آپ نے ساری بات کا صحیح پس منظر نہیں دیکھا " تو میرا اشارہ عارف کے اس جملے کی طرف تھا ۔ کیونکہ آپ نے عارف کا جو یہ اقتباس کوٹ کیا ہے ۔ مجھے بھی یہی یقین تھا کہ آپ نے اسی کے تناظر میں سائنس اور مذہب کے درمیان " کیوں " اور " کیسے" کا اعتراض اٹھایا تھا ۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم نایاب صاحب ۔
ماشاء اللہ آپ نے بہت اچھا لکھا ۔ لیکن آخری لائن سے اختلاف کرنے کی گستاخی کروں گا ۔ امید ہے معیوب نہیں لگے گا ۔
بے شک مادے کا فنا ہوجانا ایک قدرتی امر ہے ۔ مگر اللہ نے جو کائنات تخلیق کی ہے ۔ اس کا کوئی جواز بھی ہوگا ۔ اگر کائنات کی تخلیق کسی پلان کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے تو پھر اس کا اختیام بھی اسی پلان کا لازمی جُز ہوگا ۔ اگر کائنات کے تخلیق کا مذہبی جواز موجود ہے تو پھر اس کے اختیام کی کوئی عقلی توجہیہ بھی ہوگی ۔ اور پھر یہ توجہیہ " کیوں" کی مقصدیت کو وضع کرسکے گی ۔
اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ مگر اس نے مادے کو تخلیق کیا اور پھر اس کو فنا کردینے کا اعادہ بھی کیا ہوا ہے ۔ تو سوال یہاں پھر یہ اٹھتا ہے کہ " کیوں " ۔ میں نہیں سمجھتا کہ " کیوں " ایک اضافی لفظ ہے ۔ کیونکہ اگر " کیوں " کو سارے قصے سے الگ کردیں تو پھر انسان کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے ۔ اور پھر ا سکو اپنے ایمان اور عمل کی صوابدید کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔ ؟

السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
آپ جیسی محترم ہستی جو میرے بمنزلہ استاد کے ہے ۔
میری تحریر کی تعریف کرے ،
سبحان اللہ
یہ میرے لیئے باعث افتخار ہے ۔
آپ نے میری جس غلطی کی نشاندھی کی ۔
میں اس کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں ۔
اک سوال کرنا چاہوں گا ۔
اور یقین رکھوں گا کہ آپ میری رہنمائی کریں گے ۔
"کیوں " اک سوال ہے ۔ جس سے کئی دوسرے سوال منسلک ہیں ۔
کیا یہ " کیوں " وہ سوال نہیں ہے جسے ہمارا تجسس ابھارتا ہے ۔
اور کیا قضاء و قدر کے فیصلوں میں تجسس کو ممنوع نہیں قرا دیا گیا ۔
کیا مادہ فنا ہونے کی بجائے اسباب کے تحت کسی دوسری شکل میں تبدیل نہیں ہو جاتا ۔
کیا لفظ " قیامت " بذات خود اپنی جگہ کسی تشریح کا محتاج ہے ۔
کیا قیامت اور وبائیں اور آفات اور حضرت انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والے حوادث اک ہی ہیں ۔
اللہ تعالی آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
نایاب
 

arifkarim

معطل
حیرت انگیز طور پر یہاں تعمیری بحث شروع ہو چکی ہے۔ ۔۔۔۔
نایاب جی نے بہت اچھے سوالات اُٹھائے ہیں جنکا تعلق سائنس و مذاہب ، دونوں سے ہے۔۔۔۔ بہر کچھ کا جواب دینا چاہوں گا:
کیا مادہ فنا ہونے کی بجائے اسباب کے تحت کسی دوسری شکل میں تبدیل نہیں ہو جاتا ۔
جواب: فیزکس کے قانون:
E=mc2 کے تحت مادہ اور توانائی ایک ہی چیز کی دو اشکال ہیں۔ آپ مادے سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہی توانائی واپس مادے میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق جب ہمارے موجودہ سورج کا خاتمہ ہوگا تو یہ پھول کر ہماری زمین کو بھی نگل جائے گا۔ ایسا اگلے کچھ عرب سالوں تک متوقع ہے، البتہ مخلوقات زمینی اس سے بہت پہلے ہی فنا ہو چکی ہوں گی!

کیا قیامت اور وبائیں اور آفات اور حضرت انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والے حوادث اک ہی ہیں ۔
ضروری نہیں کہ آفات اوربلائیں انسانی کاوشوں کی ہی محتاج ہوں۔
آثار قدیمہ سے پتا چلتا ہے کہ ہم سے پہلے بہت سی مخلوقات ’’قدرتی آفات‘‘ کی وجہ سے نابود ہو چکی ہیں۔ جن میں ڈائنوسارز کی مختلف نسلیں بھی شامل ہیں۔
خود حضرت انسان کی اول نسلیں حالات کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ناپید ہو گئی ہیں۔ اس لحاظ سے ڈارون کے نظریہ ارتقا کو تقویت ملی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
آپ جیسی محترم ہستی جو میرے بمنزلہ استاد کے ہے ۔
میری تحریر کی تعریف کرے ،
سبحان اللہ
یہ میرے لیئے باعث افتخار ہے ۔
آپ نے میری جس غلطی کی نشاندھی کی ۔
میں اس کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں ۔
اک سوال کرنا چاہوں گا ۔
اور یقین رکھوں گا کہ آپ میری رہنمائی کریں گے ۔
"کیوں " اک سوال ہے ۔ جس سے کئی دوسرے سوال منسلک ہیں ۔
کیا یہ " کیوں " وہ سوال نہیں ہے جسے ہمارا تجسس ابھارتا ہے ۔
اور کیا قضاء و قدر کے فیصلوں میں تجسس کو ممنوع نہیں قرا دیا گیا ۔
کیا مادہ فنا ہونے کی بجائے اسباب کے تحت کسی دوسری شکل میں تبدیل نہیں ہو جاتا ۔
کیا لفظ " قیامت " بذات خود اپنی جگہ کسی تشریح کا محتاج ہے ۔
کیا قیامت اور وبائیں اور آفات اور حضرت انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والے حوادث اک ہی ہیں ۔
اللہ تعالی آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
نایاب

کیا یہ " کیوں " وہ سوال نہیں ہے جسے ہمارا تجسس ابھارتا ہے

ًمحترم نایاب بھائی ۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ موضوع " کیوں " اور " کیسے " کے لفظی معنی کے گرداب میں پھنس گیا ہے ۔ اگر ساری گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ موضوع مختصراً سائنسی توجہیہ کی وضاحت کے بعد مذہبی توجیہات کے در پر آ کھڑا ہوا ہے ۔ لہذا اب گفتگو اسی پیرائے میں ہورہی ہے ۔ دنیا کے خاتمے کی سائنسی توجہیہ بڑی ہی سادہ ہے ۔ جس کا مختصراً ذکر کردیا گیا ۔ مگر جب ہم مذہبی توجہات کی طرف آتے ہیں تو بہت سے عقائد اور تصورات بھی ان توجہات کا احاطہ کیئے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ جن کے اختلافات سے اصل بات کا پس منظر غائب ہوجاتا ہے ۔
آپ نے " کیوں " پر جو نکتہ اعتراض اٹھایا ہے ۔ یہ دراصل وہ " کیوں " نہیں ہے جس کو کسی چلینج کا درجہ دیا جائے ۔ یہ بلکل ایسا ہے جسے آپ کسی بچےکو کہتے ہیں کہ عملِ صالح اختیار کرو ۔ عقلی اور فطری طور سے وہ پوچھےگا کہ " کیوں " ۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ اپنی عاقبت کے لیئے ، روزِ قیامت کے لیئے ۔ پھر اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ کہ قیامت " کیوں " آئے گی ۔ پھر آپ اس کے سامنے مذہبی توجیہات اور عقائد رکھتے ہوئے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس سے ایسا کوئی ایسا تاثر نہیں ابھرتا کہ وہ بچہ بغاوت پر آمادہ ہے ۔لہذا یہاں اسی " کیوں " پر بحث ہو رہی ہے ۔ اگر انسان کے پاس " کیوں " ، " کیسے " " کیا " پوچھنے کا حق نہ ہوتا تو اللہ کو دنیا کی طرف پغمبروں کو بھیج کر ہدایت و تلقین کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ وہ زبردستی کسی اور طریقے سے اپنے وجود اور عبادت کا جواز پیدا کردیتا ۔ اگر آپ میرا پچھلا مراسلہ پڑھیں تو میں نے اسی " کیوں " کا جواب مذہبی نکتہِ نظر سے دینے کی کوشش کی ہے ۔ دراصل یہ وہ " کیوں " نہیں ہے کہ جیسے آپ کسی سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کام کردو ۔ وہ کہتا ہے کہ میں " کیوں " کروں ۔ اس " کیوں " کا تعلق رعونیت اور تکبر سے ہے ۔ یہاں سرے سے یہ " کیوں " زیرِ بحث ہی نہیں ہے ۔ دراصل ہم سے غلطی تب ہوتی ہے جب ہم کسی بات کے صحیح پس منظر اور سیاق و سباق سے واقف نہیں ہوتے ۔ یہی غلطی ہم قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں بھی کرتے ہیں ۔ سوال بہت سادہ تھا کہ " دنیا تباہ کیوں ہوگی " ۔ اس کا بھی سادہ مذہبی اور سائنسی جواب دیدیا گیا کہ دنیا کی تباہی کے آثار اس طرح کی صورتحال سے مشروط ہیں ۔
اور کیا قضاء و قدر کے فیصلوں میں " تجسس " کو ممنوع نہیں قرا دیا گیا ۔

اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ہر بات کو واضع کردیا کہ قضا و قدر کیا چیز ہیں ۔ دراصل قرآن کا موضوع ہی انسان کی موت اور پھر اس کے بعد آنے والی زندگی ہے ۔ اس بات کو واضع کرنے کے لیئے قرآن نے جہاں ضرورت سمجھی وہاں تاریخ ، سائنس اور دیگر علوم کا بھی ذکر کردیا ہے ۔ تاکہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کے اصل " وجہ " کو سمجھے ۔ اگر تجسس اس درجہ میں ممنوع ہوتا جس کا آپ نے اظہار کیا ہے ۔ تو اللہ اپنی وحدانیت اور اطاعت کے لیئے انسانی ذہن کے خلفشار کو دور کرنے کے لیئے اتنی سائنسی اور تاریخی حوالے نہ پیش کرتا ۔ اگر اس تجسس کا تعلق مذہب سے ہو تو انسان مذہب کی اصل تعلیم سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا اور اگر اسی طرح یہ تجسس دنیاوی علوم سے متعلق ہو تو دنیا میں نئی نئی ایجادات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ تاثر قطعی طور پر غلط ہے کہ انسان کو " تجسس " سے منع کیا گیا ہے ۔ رہی بات کہ قضا و قدر کے فیصلوں میں " تجسس " کی تو اللہ نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے جگہ جگہ اپنے فیصلوں کی وجوہات بیان کردیں ہیں کہ " کیوں " ایسا ہوگا ۔ اگر کوئی اس بارے میں تجسس رکھتا ہے تو آپ اللہ کی کتاب سے اس کی رہنمائی کرسکتے ہیں ۔ ہاں البتہ کچھ موضوعات ایسے ہیں کہ جس پر قرآن خاموش ہے ۔ لہذا اگر کہیں کسی " کیوں " کا سوال اٹھتا ہے تو انسان اپنے عقلی شعور سے اس سمجھنے کی کوشش کرے اور پھر اس کے بعد وہ جو استدلال یا رائے قائم کرے گا اس کے صحیح یا غلط ہونے کا انحصار اس کی نیک نیتی پر منحصر ہوگا ۔

کیا لفظ " قیامت " بذات خود اپنی جگہ کسی تشریح کا محتاج ہے

شاید میرے اور آپ کے لیئے نہ ہو مگر دنیا میں بہت سے ایسے ہیں جو اس کی تشریح کے محتاج ہیں ۔ کیونکہ دین کی دعوت ہی ان تین بنیادی عقائد پر مبنی ہے جو تمام نبی اور پغمبر اس دنیا میں لیکر آئے ۔
اول : اللہ پر ایمان
دوم : نیک صالح اعمال
سوم : قیامت پر یقین
جب دین کی دعوت کہیں جائے گی تو دعوت ان تینوں عقائد کی تشریح کے بغیر بے معنی ہوگی ۔ لہذا اگر کسی کو ان تشریحات کی ضرورت ہے تو ان کی تشریح ضرور کرنی چاہیئے ۔
باقی دو سوالات کے جوابات عارف نے دیئے ہیں ۔ ان میں سے ایک حصے پر میرے کچھ خدشات ہیں ۔ جن پر میں بعد میں بحث کروں گا ۔
 

نایاب

لائبریرین
سوال بہت سادہ تھا کہ " دنیا تباہ کیوں ہوگی " ۔
quote]

السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
سدا خوش رہیں آمین
جزاک اللہ
مذہب ۔ تہذیب اور اخلاق کے نکتہ نظر سے آپ نے
بہت تفصیل اور سادہ سی زبان میں بات کو کھول کر بیان کر دیا ۔
آپ کی اس تحریر سے کہیں اختلاف نہیں کیا جا سکتا ۔
اصل میں سوال کہیں راستے میں اپنا روپ بدل گیا ۔
اور میں بنا دیکھے ہی اقتباس لیکر جواب لکھ دیا۔
سوال اتنا سادہ نہیں تھا ۔
اصل پيغام ارسال کردہ از: arifkarim
براہ کرم مذہب و سائنس سے ہٹ کر صرف اپنی رائے میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں:


آپکے نزدیک اس دنیا میں غیر معمولی عذاب کیوں آئے گا ۔؟

میرا جواب: کیونکہ حضرت انسان نے عدل و انصاف کو ترک یا خاص علاقوں تک محدود کر رکھا ہے!
۔


اب جو سوال نظر آ رہا ہے وہ ہے کہ ۔
" براہ کرم مذہب و سائنس کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں:
آپکے نزدیک اس دنیا میں غیر معمولی تباہی کیوں آئے گی؟ "

تو سائنس اور مذہب کی روسے اس کا جواب بہت سادہ ہے ۔
مذہب کی رو سے کسی بھی غیر معمولی تباہی کا سبب مذہب کے بنیادی اصولوں سے انحراف اور روگردانی ہے ۔
کہ جب کوئی قوم نافرمانی کی آخری حد پر پہنچ جاتی ہے تو عذاب الہی کی حقدار ہوتی ہے ۔
اور عذاب الہی غیر معمولی تباہی برپا کر دیتا ہے ۔
سائنس کی رو سے حضرت انسان کے تیار کردہ ہتھیار چاہے کیمیکلی ہوں چاہے بائیولوجیکلی یا پھر ایٹامک ۔
ان ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال میں ذرا سی غلطی اور لاپرواہی اک غیر معمولی تباہی کا سبب بن سکتی ہے ۔
میں مشکور ہوں آپ کا ۔
آپ نے اتنی توجہ سے نوازا ۔
اب تک کی آپ کی لکھی تحریر سے اک سوال پیدا ہو رہا ہے کہ
کیا " قیامت " قضا و قدر سے منسلک ہے ۔
اور کیا اسے " غیر معمولی تباہی " یا " عذاب " کا لقب دیا جا سکتا ہے ۔
جبکہ یہ تو یوم حساب ہے ۔
اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
نایاب
 

نایاب

لائبریرین
جواب: فیزکس کے قانون:
E=mc2 کے تحت مادہ اور توانائی ایک ہی چیز کی دو اشکال ہیں۔ آپ مادے سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہی توانائی واپس مادے میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق جب ہمارے موجودہ سورج کا خاتمہ ہوگا تو یہ پھول کر ہماری زمین کو بھی نگل جائے گا۔ ایسا اگلے کچھ عرب سالوں تک متوقع ہے، البتہ مخلوقات زمینی اس سے بہت پہلے ہی فنا ہو چکی ہوں گی!


ضروری نہیں کہ آفات اوربلائیں انسانی کاوشوں کی ہی محتاج ہوں۔
آثار قدیمہ سے پتا چلتا ہے کہ ہم سے پہلے بہت سی مخلوقات ’’قدرتی آفات‘‘ کی وجہ سے نابود ہو چکی ہیں۔ جن میں ڈائنوسارز کی مختلف نسلیں بھی شامل ہیں۔
خود حضرت انسان کی اول نسلیں حالات کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ناپید ہو گئی ہیں۔ اس لحاظ سے ڈارون کے نظریہ ارتقا کو تقویت ملی ہے۔

السلام علیکم
محترم عارف کریم جی
سدا خوش رہیں آمین
جانے کتنی غیر معمولی تباہیوں سے گزر چکی ہے یہ کائنات ۔
اور یہ غیر معمولی تباہیوں کا عمل جاری رہے گا قیامت کے برپا ہونے تک
میرا یہ سوال اس وضاحت کا متقاضی تھا کہ
کیا قیامت اور وبائیں اور آفات اور حضرت انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والے حوادث اک ہی ہیں ۔
قیامت اک اٹل اور اپنے وقت مقررہ قائم ہونے والا اللہ تعالی کا ایسا حکم جس یہ مکمل کائنات فنا ہو جائے گی ۔
وبائیں اور آفات جو بحکم الہی انسانوں پر نازل ہوتی ہیں ۔
اور اک مخصوص قطعہ ارض پر غیر معمولی تباہی کا باعث بنتی ہیں ۔
اور ان وباؤں اور آفات کے نزول کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔
لیکن
حضرت انسان کے ہاتھوں رونما ہونے حوادث
انسانی غلطی یا خود غرضی سے بھرپور انسانی مفاد کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔
نایاب
 

ظفری

لائبریرین
دراصل سوال کی نوعیت ایک ہے مگر الفاظوں کی تبدیلوں سے غلط فہمی پیدا ہورہی ہے ۔ میرا خیال ہے عارف کے سوال کا " مطلب " یہ ہے کہ قیامت کیوں آئے گی ۔ " یعنی دنیا کا حتمی خاتمہ کب اور کیوں ہوگا ۔ ؟ میں نے اسی تناظر میں اب تک گفتگو جاری رکھی ہے ۔ مذہبی نکتہ ِ نظر سے خیر یا شر میں سے کوئی ایک چیز دنیا میں رہ گئی تو " قیامت " برپا کردی جائے گی ۔ ( اس کی تفصیل میں بیان کرچکا ہوں ) سائنسی رُو سے کچھ ایسے عوامل رونما ہونگے کہ دنیا کی " تباہی " ممکن ہوجائے گی ۔ ( اس کی بھی وضاحت میں کرچکا ہوں ) ۔ یعنی سائنسی پیشن گوئی ایک دن جاکر مذہبی انتباہ سے منسلک ہوجائے گی اور قیامت برپا ہوجائے گی ۔ سائنسی نکتہِ نظر سے آپ اسے دنیا کی تباہی ، اختیام یا کوئی اور اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں ‌۔ اور مذہبی اصطلاح میں یہ " قیامت " ہوگی ۔ جسے "روز حساب " بھی کہتے ہیں ۔موضوع کے حساب سے یہ میرا استدلال تھا جسے میں نے بڑی وضاحت سے بیان کردیا ہے ۔ اب آتے ہیں آپ کی اسی پوسٹ کے مختلف سوالات پر جہاں سے دوسرے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ جن کی نوعیت زیرِ بحث موضوع سے قدرے مختلف ہے ۔

کیا " قیامت " قضا و قدر سے منسلک ہے ۔
اور کیا اسے " غیر معمولی تباہی " یا " عذاب " کا لقب دیا جا سکتا ہے ۔
جبکہ یہ تو یوم حساب ہے
نایاب
یہ ایک الگ موضوع بن گیا ہے ۔ چنانچہ اس موضوع کے مطابق پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ لفظ " عذاب " کے معنی کیا ہے ۔ لفظ " عذاب " ہم جب استعمال کریں گے جب اس میں سزا کا پہلو نکلے گا ۔ یعنی اگر کسی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اسے اس جرم کے ارتکاب پر سزا دی جا رہی ہے ۔ چنانچہ اگر آپ قرآن مجید کو دیکھیں تو بدکاری کی سزا پر بھی " عذاب " کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ جہاں کسی معاملے پر اللہ کی اس گرفت کا تعلق ہے کہ جس میں کسی کے اعمال پر اللہ تعالی اسکو پکڑ لیتے ہیں تو اصلاً یہ معاملہ قیامت سے متعلق ہے ۔ یعنی اللہ نے یہ دنیا سزا و جزا کے اصول پر نہیں بنائی بلکہ امتحان کے اصول پر مرتب کی ہے ۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ آپ یہاں کوئی جرم کریں گے تو فوراً آپ پر گرفت ہوجائے گی ۔ یہ طریقہ یہاں اختیار نہیں کیا گیا بلکہ اس کو مہلت کے اصول پر اختیار کیا گیا ہے ۔ آپ کو موقع دیا گیا ہے ۔ ارادہ دیا گیا ہے ۔ اختیار دیا گیا ہے ۔ آپ اس کا اطلاق کیسے کرتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا کہ میں قیامت برپا کروں گا اور وہاں تمہارے اعمال کا حساب لوں گا ۔ یہ تو ایک اصولی بات ہوگئی ۔ جسے آپ نے " یوم حساب " بھی کہا ۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے ایک دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ جب انسانوں نے بنیادی عقائد کا انکار کرنا شروع کردیا ۔ ( قرآن نے اس تاریخ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ لوگ ایک ہی نکتہ ِ نظر پر تھے ۔ حق ان پر واضع تھا ۔ ) اور پھر یہ انکار ، فراموشی اور فراموشی سرکشی میں بدل گئی ۔ اس سرکشی کے خاتمے کے لیئے اللہ نے اپنے پیغبر اتمام ِ حجت کے لیئے بھیجے ۔ اتمامِ حجت کو بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ حق کو اس درجہ میں واضع کردیا جائے کہ عذر کا کوئی راستہ نہ بچے ۔ چنانچہ اتمامِ حجت کے بعد مخلتف قوموں میں بھیجے گئے ہوئے نبیوں ، ہادیوں ، پیغمبروں اور رسولوں سے کہا گیا کہ جو لوگ حق پر ہیں ان کو لیکر ہجرت اختیار کی جائے ۔ ( جیسا کہ نوح علیہ السلام کا واقعہ ہے ) اور جو منکیرِ حق ہوتے ہیں ۔ ان پر عذاب نازل کردیا جاتا ہے ۔ یہ عذاب اس طرح برپا نہیں کیا جاتا کہ چھوٹے ، بڑے ، مرد و عورت پر برپا ہوگیا ۔ بلکہ یہ سزا ان پر نافذ کی جاتی ہے جو اللہ کے سامنے سرکشی پر اتر آتے ہیں ۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں کہ ہم کسی بھی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں اتارتے جب تک اس قوم میں کوئی نبی ، پیغمبر یا رسول بھیج کر اتماِم حجت واضع نہ کردی جائے ۔ چناچہ اس معاملے میں آخری بار اس قسم کا عذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تلواروں کی شکل میں منکیرِ حق پر اترا ۔

مذہب کی رو سے کسی بھی غیر معمولی تباہی کا سبب مذہب کے بنیادی اصولوں سے انحراف اور روگردانی ہے ۔
کہ جب کوئی قوم نافرمانی کی آخری حد پر پہنچ جاتی ہے تو عذاب الہی کی حقدار ہوتی ہے ۔
اور عذاب الہی غیر معمولی تباہی برپا کر دیتا ہے ۔
سائنس کی رو سے حضرت انسان کے تیار کردہ ہتھیار چاہے کیمیکلی ہوں چاہے بائیولوجیکلی یا پھر ایٹامک ۔
ان ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال میں ذرا سی غلطی اور لاپرواہی اک غیر معمولی تباہی کا سبب بن سکتی ہے

یہاں جس عذاب ِ الہی کا آپ نے مذہب کی رو سے ذکر کیا ہے اس کی نوعیت آپ کی سائنسی رو سے پیش کی جانے والی وضاحت سے مختلف ہے ۔ اور اس عذاب الہی کی وضاحت میں نے اوپر کردی ہے ۔
اب جتنی بھی سائنسی وضاحتیں جو " قدرتی آفات" کی اصطلاح میں شمار کی جاتی ہے ۔ مذہبی اصطلاح میں یہ تنبیہات ہیں ۔ جب ہم قدرتی آفات کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب دنیا سے ہوتا ہے جہاں اللہ نے دریا ، پہاڑ ، جھرنے ، جنگل ، پھول ، باغات پھیلا رکھے ہیں جو اللہ کی معرفت کا ذریعہ بنتے ہیں‌۔ اگر انسان ان چیزوں کا نظر انداز کرکے اللہ کی معرفت سے بے نیاز ہوجائے تو انہی چیزوں میں ہلچل پیدا کرکے سے اس کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ان کے علاوہ کچھ عناصر انسان کے اپنے ہاتھ سے بھی بنائے ہوئے ہیں ۔ ( جن کا آپ نے اوپر تذکرہ کیا ہے ) ۔ لہذا اس قسم کے قدرتی آفات انتباہ کے لیئے آتے ہیں ۔ اس کا ہم سزا یا عذاب سے موازنہ نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ ان آفات میں بہت سے معصوم بچے اور بیگناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں ۔ جن پر عذاب یا سزا کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
میں نے اپنی سعی کوشش کی ہے کہ یوم حساب میں سزا و جزا کا تصور واضع کرسکوں ۔ پھر ا سکے بعد مختلف قوموں سے لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور تک عذاب کی نوعیت کا فرق بیان کرسکوں اور پھر آج کے دور میں قدرتی آفات سے ہونے والی ہلاکتوں کا یوم ِ حساب اور منکیر ِ حق پر آنے والے سزا و جزا اور عذاب کے درمیان فرق کو واضع کرسکوں ۔ میں کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ احباب بتا سکیں گے ۔
 

arifkarim

معطل
شکریہ نایاب اور ظفری ، آپ دونوں‌کا۔۔۔ میرے خیال میں اب اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے!
 
Top