امجد اسلام امجد درو دیوار میں ،مکان نہیں

سارہ خان

محفلین
درو دیوار میں ،مکان نہیں
واقعہ ہے ،یہ داستان نہیں

وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل
زیست مکتب ہے امتحان نہیں

ہر قدم پر اک نئی منزل
راستوں کا کہیں نشان نہیں

رنگ بھی زندگی کے مظہر ہیں
صرف آنسو ہی ترجمان نہیں

دل سے نکلی ہوئی سدا کے لیے
کچھ بہت دُور آسمان نہیں

کل کو ممکن ہے اک حقیقت ہو
آج جس بات کا گمان نہیں

شور کرتے ہیں ٹوٹتے رشتے
ہم کو گھر چاہیے مکان نہیں

خواب ، ماضی! سراب، مستقبل!
اور " جوہے" وہ میری جان"نہیں"

اتنے تارے تھے رات لگتا تھا
کوئی میلہ ہے آسمان نہیں


شاخ سدرہ کو چھو کے لوٹ آیا
اس سے آگے میری اُڑان نہیں

یوں جو بیٹھے ہو بے تعلق سے
کیا سمجھتے ہو میری زبان نہیں

کوئی دیکھے تو موت سے بہتر
زیست کا کوئی پاسبان نہیں

اک طرف میں ہوں اک طرف تم ہو
سلسلہ کوئی درمیان نہیں

( امجد اسلام امجد )
 

مغزل

محفلین
اب غزل پر بات :

درو دیوار میں ،مکان نہیں -
واقعہ ہے ،یہ داستان نہیں

محض بیان ہے وہ بھی ایسا جیسے مجھ ایسا ’’ نومشقہ ‘‘ کہتا ہو ۔
اسے کہتے ہیں ’’’ اونچی دکان پھیکا پکوان ‘‘

یہ کون سامکان ہے جس کے دیوار در میں نہ ہونے کا رنج ہے

وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل
زیست مکتب ہے امتحان نہیں

’’ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ‘‘سے مستعارا گیا ۔ شاعری سے شاعری بنانے والی بات،
پھر یہ کہ زیست کو مکتب کہہ دیا تو ’’ امتحان گاہ ‘‘ ہونا تھا ناں یا ۔۔ امتحان کہہ دینے سے بات ہوگئی ، سطحی شاعری کی مثال


ہر قدم پر ہے اک نئی منزل ------- (یہاں شاید ’’ ہے ‘‘ رہ گیا ہے تحریر میں)
راستوں کا کہیں نشان نہیں

اسے کہتے ہیں معانی بہ بطنِ شاعر، ویسے جب منزل قدم قدم پر ہے تو شاعر کون سا راستہ چاہتا ہے۔
جہاں پاؤں پڑے منزل ۔ بات کو الٹنے کی (تضاد) کی ناکام کوشش ۔


رنگ بھی زندگی کے مظہر ہیں
صرف آنسو ہی ترجمان نہیں

گونج کا شکار شعرہے ۔
’’ مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے ‘‘
کون سا شعر ، شعر ہے فیصلہ آسان ہے ۔۔


دل سے نکلی ہوئی سدا کے لیے
کچھ بہت دُور آسمان نہیں

اچھی بات ہے ۔ویسے اس پر بھی شعر یاد آتا ہے۔
’’ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے ‘‘

حیرت ہے ۔۔ پھر یہی لوگ اردو ادب کو روبہ زوال لکھتے ہیں اور رسم الخط پر اعتراض کرتے ہیں ۔


کل کو ممکن ہے اک حقیقت ہو
آج جس بات کا گمان نہیں

محض بیان ہے ، شعریت مفقود

شور کرتے ہیں ٹوٹتے رشتے
ہم کو گھر چاہیے مکان نہیں

گھر اور مکان کی بحث میں سیکڑوں شعر موجود ہیں

خواب ، ماضی! سراب، مستقبل!
اور " جوہے" وہ میری جان"نہیں"

ذاتی واردات ضرور ہے مگر عامیانہ اور سطحی ہے

اتنے تارے تھے رات لگتا تھا
کوئی میلہ ہے آسمان نہیں

مناسب ہے ۔

شاخ سدرہ کو چھو کے لوٹ آیا
اس سے آگے میری اُڑان نہیں

شعر اپنی ہی بنت کاشکار ہے ، مراد اگر جبریل سے ہے تو ،وہ اس مقام پر نہیں پہنچے ،
اگر مراد ذاتِ گرامی (محمد صل اللہ علیہ وسلم ) سے ہے ۔۔ تو بہتان ہے اور تکفیر کے زمرے میں ہے ۔


یوں جو بیٹھے ہو بے تعلق سے
کیا سمجھتے ہو میری زبان نہیں

سطحی شعر، -------
’’ بے تعلق سے لگ رہے ہیں آپ
جوں سمجھتے مری زبان نہیں ‘‘

( شاعر کا نام اس وقت ذہن میں نہیں) -- شاید قمر جلالوی
کون سا شعر بہتر ہے ۔ ؟؟


کوئی دیکھے تو موت سے بہتر
زیست کا کوئی پاسبان نہیں

پھر وہی اونچی دکان پھیکا پکوان ، ہزار بار برتا گیا موضوع ، اکہرے پن کا شکاراور عامیانہ بیان

اک طرف میں ہوں اک طرف تم ہو
سلسلہ کوئی درمیان نہیں

اک طرف تو ہے تیرا سب کچھ ہے
اس طرف میں ہوں اور ادھر نہیں کچھ


؟؟؟

یہ میری رائے ہے اور اختلاف آپ کا حق۔ :battingeyelashes:
 

احسان قمی

محفلین
غزل بہت خوبصورت ہے اور بہت خوبصورتی سے دامن غزل بھی تار تار کیا گیا ہے
شاخ سدرہ کو چھو کے لوٹ آنے میں کیا کفر اور بہتان ہے اس وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا
 
Top