سید عاطف علی

لائبریرین
اس ویبسائٹ کے مطابق، یہ شعر صائب یا بیدل کا نہیں بلکہ افغانستانی شاعر مولانا حسرت کا ہے، جس کا آخری مصرع یوں ہے:

ممکن ہے ۔۔۔ ایک جگہ دو اشعار ایک ہی تخیل کے ملے ۔ صائب کے نام سے ۔ واللہ اعلم ۔
1614195922086-jpeg.10336
 
انٹرنیٹ پر تو شعراء سے منسوب بہت سا الحاقی کلام مل جاتا ہے۔ گنجور پر صائب کا ایسا کوئی شعر مجھے نہیں ملا۔ جبکہ مولانا حسرت کی وہ پوری غزل میری درج کردہ ویبسائٹ پر موجود ہے، جس میں یہ شعر موجود ہے۔
 
(رباعی)
یک روز به اتفاق صحرا من و تو
از شهر برون شویم تنها من و تو
دانی که من و تو کی به‌هم خوش باشیم؟
آن‌وقت که کس نباشد الا من و تو

(سعدی شیرازی)
ایک روز اتفاق سے صحرا میں مَیں اور تم ہوں، شہر سے باہر میں اور تم تنہا ہوں۔ تم جانتے ہو کہ میں اور تم باہم کب خوش ہوتے ہیں؟اُس وقت جب کوئی نہ ہو سوائے میرے اور تیرے۔

 
آدمی نیست که عاشق نشود وقتِ بهار
هر گیاهی که به نوروز نجنبد حطب است
(سعدی شیرازی)
وہ آدمی نہیں ہے جو بہار کے وقت عاشق نہ ہو۔ہر وہ گیاہ (گھاس) جو نوروز میں نہ ہلے، وہ درحقیقت ہیزم (ایندھن) ہے۔
 
دل نیست کبوتر که چو برخاست نشیند
از گوشهٔ بامی که پریدیم ، پریدیم
(وحشی بافقی)
دل (کوئی) کبوتر نہیں ہے کہ جب (کسی چھت سے ) اڑ گیا تو واپس آکر وہیں پر بیٹھ جائے۔جس گوشہء بام سے ہم اڑ گئے تو پھر اڑ گئے (اب واپسی کی کوئی راہ نہیں ہے)۔
 
آخری تدوین:
دندانِ مار گرچه به‌افسون توان کشید
از زلفِ او جدا نتوان کرد شانه را
(غنی کشمیری)
مار (سانپ) کے دانت (اس کے منہ سے) افسون (منتر) کے ذریعے نکالے جاسکتے ہیں (لیکن) اس (محبوب) کے زلف سے شانہ (کنگھی) جدا نہیں کی جاسکتی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ز نور ناصيه ات ماه گر ضيا گيرد
به آفتاب دهد نسخه سنين و شهور

عرفی

اگر ماہ تیری جبین سے نور لے لے تو
وہ آفتاب کو ماہ سال کا حساب سکھانے لگے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در دل ما غم دنيا غم معشوق بود
باده گر خام بود پخته کند شيشه ما
عرفی

ہمارے دل میں غم دنیا غم جاناں بن کاتا ہے ۔ یہ وہ شیشہ ہے جہاں بادہ خام بادہ پختہ ہو جاتی ہے
 
در شبِ ہجراں مرا پروانۂ وصلے فرست
ورنہ از آہے جہانے را بسوزانم چو شمع


حافظ شیرازی

شبِ ہجر میں میرے پاس وصل کا کوئی پروانہ بھیج ورنہ شمع کی طرح (اپنی) آہوں سے میں جہان کو جلا ڈالوں گا۔
السلام وعلیکم محمد وارث صاحب
اس شعر کی کیا معنی ہے اور یہ کس کا شعر ہے
من از بیگانگان ہر گز ننالم
که با من هر چه کرد آن آشنا کرد
 
هر که را گم شده‌ست یوسفِ دل
گو ببین در چهِ زنخدانت

(سعدی شیرازی)
جس کا بھی یوسفِ دل گم ہو گیا ہے [اُس سے] کہو کہ وہ تمہارے چاہِ زنخداں میں دیکھے۔
× چاہ = کنواں، گڑھا ؛ زَنَخدان = ٹھوڑی، ذقن، چانہ
السلام وعلیکم حسان خان
اس شعر کے کیا معنی ہے اور یہ کس کا شعر ہے
من از بیگانگان ہر گز ننالم
که با من هر چه کرد آن آشنا کرد
 

سید عاطف علی

لائبریرین
السلام وعلیکم حسان خان
اس شعر کے کیا معنی ہے اور یہ کس کا شعر ہے
من از بیگانگان ہر گز ننالم
که با من هر چه کرد آن آشنا کرد
میں غیروں کی شکایت اور فغاں بالکل نہیں کرتا
کیوں کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا اپنے نے کیاہے ۔
 
گر مُدّعیان نقش ببینند پری را
دانند که دیوانه چرا جامه دریده‌ست
(سعدی شیرازی)
اگر دعویٰ کرنے والے [بدخواہ] افراد [اُس] پری کا نقش دیکھ لیں تو جان جائیں گے کہ دیوانے نے کیوں [اپنا] جامہ پھاڑا ہے۔
السلام وعلیکم حسان خان
اس شعر کی معنی کیا ہے اور شاعر کا اگر بتا دے مہربانی ہو گی
چشم من در چشم تو چشمان تو جایی دیگر
من تماشای تو دارم تو تماشای دیگر
 
کارِ دنیا کن و اندیشه‌یِ عقبی مَگُذار
تا به عقبی نرسی، دامنِ دنیا مَگُذار
(صایب تبریزی)
دنیا کا کام کر اور آخرت کا خیال (یا خوف بھی) مت چھوڑ۔ جب تک تو آخرت میں نہ پہنچے (یعنی جب تک دنیاوی زندگی کو تو خیرباد نہ کہے) تب تک دنیا کا دامن مت چھوڑ!
 
سنگِ راهِ تو شود بار به‌هر دل که نهی
تا به منزل برسی، بار به دل‌ها مگذار!
(صائب تبریزی)
جس دل پر تم بوجھ رکھتے ہو (یعنی جس کسی کو بھی تم آزردہ و رنجیدہ کرتے ہو)، وہ تمہارے راستے کا پتھر بن جاتا ہے۔ دلوں پر بوجھ مت رکھو تاکہ تم منزل تک پہنچ جاؤ۔
 
کارِ دنیا کن و اندیشه‌یِ عقبی مَگُذار
تا به عقبی نرسی، دامنِ دنیا مَگُذار
(صایب تبریزی)
دنیا کا کام کر اور آخرت کا خیال (یا خوف بھی) مت چھوڑ۔ جب تک تو آخرت میں نہ پہنچے (یعنی جب تک دنیاوی زندگی کو تو خیرباد نہ کہے) تب تک دنیا کا دامن مت چھوڑ!
السلام وعلیکم حسان خان
اس شعر کی معنی کیا ہے اور شاعر کا اگر بتا دے مہربانی ہو گی
چشم من در چشم تو چشمان تو جایی دیگر
من تماشای تو دارم تو تماشای دیگر
 
السلام وعلیکم حسان خان
اس شعر کی معنی کیا ہے اور شاعر کا اگر بتا دے مہربانی ہو گی
چشم من در چشم تو چشمان تو جایی دیگر
من تماشای تو دارم تو تماشای دیگر
شاعر معلوم نہیں کون ہے۔مجھے بوجوہ کوئی ہندوستانی شاعر لگتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
میری آنکھ تمہاری آنکھ کی طرف جبکہ تمہاری آنکھیں کسی اور جگہ کی طرف ہیں۔ میں تمہارے نظارے میں مشغول ہوں جبکہ تو کسی اور چیز کے تماشے میں مشغول ہے۔
 
شاعر معلوم نہیں کون ہے۔مجھے بوجوہ کوئی ہندوستانی شاعر لگتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
میری آنکھ تمہاری آنکھ کی طرف جبکہ تمہاری آنکھیں کسی اور جگہ کی طرف ہیں۔ میں تمہارے نظارے میں مشغول ہوں جبکہ تو کسی اور چیز کے تماشے میں مشغول ہے۔
جزاک اللہ آغا صاحب
اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ کریں۔آمین
 
ز افتادگی به مسندِ عزت رسیده است
یوسف کند چگونه فراموش چاه را؟
(صائب تبریزی)
یوسُف کیسے چاہ (کنواں) کو فراموش کرے جبکہ وہ تواضع ہی کی بدولت مسندِ عزت پر پہنچا ہے؟
 
پاکستانی شاعر سید صفی حیدر رضوی 'دانش' اپنی نظم 'خطاب به برادرانِ ایرانی' میں کہتے ہیں:
رومی و فردوسی و خیّام و عطّار و کلیم

قسمتِ ما شد چه گُل‌ها از گلستانِ شما
(سید صفی حیدر رضوی 'دانش')
رومی و فردوسی و خیّام و عطّار و کلیم ۔۔۔ آپ کے گلستان میں سے کیسے کیسے گُل ہمارے نصیب میں آئے ہیں۔
بزبان هر که جز من برود حدیث عشقت
چو معامله ندارد سخن آشنا نباشد
حسان صاحب حافظ کے اس شعر کیا معنی ہے؟
 
Top