صائمہ شاہ

محفلین
ناصح سخنِ ساختہ ات پُر نمکین است
رحم است بزخمے کہ تو مرہم شدہ باشی


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

اے ناصح، تیری بنائی ہوئی باتیں تو نمک سے اَٹی پڑی ہیں، رحم اُس زخم پر کہ جس کا مرہم تُو بنا ہوگا۔
فیس بک پر شئیر کر رہی ہوں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
قصّۂ سوزِ دلِ پروانہ را از شمع پُرس
شرحِ ایں آتش نداند جز زبانے سوختہ


مولانا عبدالرحمٰن جامی

پروانے کے سوزِ دل کا قصہ شمع سے پُوچھ کہ اِس آگ (اور جلنے) کی شرح کسی جلے ہوئے کی زبان کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای جگرها داغ‌دارِ شوقِ پیکانِ شما
چاک‌هایِ دل نیامِ تیغِ مژگانِ شما
(بیدل دهلوی)

اے کہ آپ کے تیر کے شوق سے جگر داغ دار ہیں۔۔۔ [اور اے کہ] دلوں کے چاک آپ کی تیغِ مِژگاں کا نیام ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایوانِ دل ز داغِ حُسینم منقّش است
شنجرفِ سُوده‌اش بُوَد از خاکِ کربلا
(شوکت بخاری)
میرے دل کا ایوان حُسین کے داغ سے منقّش ہے، [اور] اُس [کی دیواروں] پر لیپا گیا شنگرف خاکِ کربلا سے ہے۔

× شَنْگَرْف/شَنْجَرْف = ایک سُرخ معدنی سنگ کا نام، جس کو پیس کر حاصل کیا ہوا سُرخ رنگ مصوّری و نقّاشی میں اور دیوار پر لیپنے وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بُوَد شوکت علاج از بادهٔ شیراز دردم را
که ساقی دیده از دیوانِ حافظ بارها فالم
(شوکت بخاری)
اے شوکت! میرے درد کا علاج بادۂ شیراز سے ہے، کہ ساقی نے دیوانِ حافظ سے بارہا میری فال دیکھی ہے۔
(یعنی ساقی نے دیوانِ حافظ سے بارہا میری فال دیکھ کر مجھے یہ بتایا ہے کہ میرے درد کا علاج بادۂ شیراز سے ہو گا۔ یا یہ کہ چونکہ ساقی نے بارہا دیوانِ حافظ سے میری فال نکالی ہے، مجھے یقین ہو گیا ہے کہ بادۂ شیراز میرے درد کا علاج ہے۔)
 
تمہید
-----
میرے دادا جان
صدرالاولیاء حضرت معظم قاضی محمد صدر الدینؒ کی حیات طیبہ اور وفات پر والد گرامی حضرت قاضی عبد الدائم دائمؔ مُد ظلہ العالی نے فارسی زبان میں ”قصیدہ غزلیہ برنگ مرثیہ“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ یہ نظم اتنی پردرد اور پرتاثیر تھی کہ اس کو پڑھ کے ایران کے خانہٕ فرہنگ کے سابق ڈائریکٹر ”آقائے تسبیحی“ باوجود ایرانی ہونے کے دنگ رہ گئے اور بے ساختہ پکار اٹھے ” بخدا یادِ حافظ شیراز تازہ گشت“۔ اس نظم کے تین اشعار پیش کرنے سے قبل 2 باتیں بتاتا چلوں کہ دادا جان میرے والد گرامی کو پیار سے ” مِنّا “ کہا کرتے تھے جو کہ ہماری زبان میں برخوردار کے مترادف ہے اور دوسری بات یہ کہ والد گرامی ہر روز فجر کی نماز کے بعد حضرت معظمؒ کے مزار پر مراقبے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔

نمی یا بم ترا آقا! کجا ر فتی ؟ چرارفتی؟
بہجر تو دلم شد ریش وچشمم اشکبار آمد
سر بالیں بیا یکدم ، ببیں تو حال نزعم را
دو چشمم وا، جگر خستہ ، بدل ہم انتظار آمد
نمی بینم کسے راکو مرا ’’منَّا ‘‘ بفرماید
بشوق ایں ندایت ،خاک پایت بر مزار آمد


میرے آقا! اب میں آپ کو کہیں بھی نہیں پاتا (دیکھتا)۔ آپ کدھر چلے گئے ہیں اور کیوں چلے گئے ہیں۔
آپ کی جدائی میں دل پگھل گیا اور آنکھیں اشکبار ہیں۔
عالمِ نزع کے وقت آپ اچانک میرے سرہانے آ کے جلوہ گر ہو جائیے گا
(کیوں کہ اس وقت میں) ناتواں دل کے ساتھ اپنی آنکھیں کھولے آپکا منتظر رہوں گا۔
اب کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے ” میرا منا“ کہ کے پکارے۔
اِسی پکار کو سننے کے لئے ”آپکے پاؤں کی خاک“ آپکے مزار پر حاضر ہوتی ہے۔

محمد وارث ، حسان خان ، محمد خلیل الرحمٰن

اگر ترجمہ میں کوئی فرق لگے تو آگاہ کر دیجئے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سر بالیں بیا یکدم ، ببیں تو حال نزعم را
دو چشمم وا، جگر خستہ ، بدل ہم انتظار آمد
اِس بیت کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے:
ایک لمحے کے لیے سرِ بالیں آئیے اور میرا حالِ نزع دیکھیے: میری دو چشمیں کھلی ہوئی، جگر خستہ، جبکہ دل میں آپ کا انتظار ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شعله در جانی که خاکِ حسرتِ دیدار نیست
خاک در چشمی که نتْوان بود حیرانِ شما
(بیدل دهلوی)

اّس جان کو آتش لگ جائے جو [آپ کے] دیدار کی حسرت میں خاک نہ ہو چکی ہو! اُس چشم میں خاک ہو جو آپ [کی دید] سے حیران نہ ہو پاتی ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
دوش شوکت به رُخش از تهِ دل همچون شمع
نگهٔ گرم چنان کرد که مژگان را سوخت
(شوکت بخاری)

گذشتہ شب شوکت نے اُس کے رُخ کی جانب تہِ دل سے شمع کی مانند اِس طرح گرم نگاہ کی کہ [اپنی] مِژگاں (پلکوں) کو جلا ڈالا۔
 
شکرشکن شوند همه طوطیان هند
زین قند پارسی که به بنگاله می‌رود
(حافظ شیرازی)

تمام طوطیانِ ھند اس قندِ فارسی سے شیریں دہن ہو جائیں گی جو بنگال کی طرف جا رہی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از مزارم گَردبادِ سُرمه خیزد بعدِ مرگ
بسکه دارد گردشِ چشمِ تو سرگردان مرا
(شوکت بخاری)
تمہاری چشم کی گردش مجھے اِتنا زیادہ سرگرداں رکھتی ہے کہ [میری] موت کے بعد میرے مزار سے سُرمے کا گَردباد اُٹھے گا۔
× گَردباد = بگولا

× ایک جا مصرعِ اول یوں نظر آیا ہے:
از غُبارم گَردبادِ سرمه خیزد بعدِ مرگ
یعنی: موت کے بعد میرے غُبار سے سُرمے کا گَردباد اُٹھے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کوه‌کن را چه غم از تلخیِ هجر است که نیست
غنچهٔ لاله کم از لعلِ لبِ شیرینش
(شوکت بخاری)

کوہکَن (فرہاد) کو تلخیِ ہجر کا کیا غم؟ کہ غنچۂ لالہ [معشوق] کے لعلِ لبِ شیریں (یا اُس کی شیریں کے لعلِ لب) سے کم نہیں ہے۔

تشریح:
'شیریں' کا معنی 'میٹھا' بھی ہے اور یہ فرہادِ کوہکن کی محبوبہ کا نام بھی تھا۔ لہٰذا مصرعِ ثانی کا دو طریقوں سے ترجمہ کرنا ممکن ہے:
۱) غُنچۂ لالہ اُس کے (یعنی محبوبہ کے) لعلِ لبِ شیریں سے کم نہیں ہے۔
۲) غُنچۂ لالہ اُس کی [محبوبہ] شیریں کے لبِ لعل سے کم نہیں ہے۔

'لعل' ایک سُرخ رنگی قیمتی سنگ کا نام ہے، اِس لیے لبِ معشوق کو اِس سنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور چونکہ گُلِ لالہ کا غُنچہ بھی سُرخ رنگ کا ہوتا ہے اور دہنِ یار کی مانند تنگ ہوتا ہے، لہٰذا یہاں 'غُنچۂ لالہ' کو 'لعلِ لبِ شیریں' سے تشبیہ دی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ کوہوں پر اُگے غنچۂ لالہ کو دیکھ کر فرہادِ کوہکن اپنی تلخیِ ہجر فراموش کر دیتا ہے، کیونکہ اُسے لالہ کے گُلوں اور غُنچوں میں اپنی محبوبہ شیریں کے لب و دہن نظر آتے ہیں۔

فرہاد کو 'کوہکَن' یعنی کوہ کھودنے والا اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اُس سے پادشاہ نے وعدۂ دروغیں کیا تھا کہ اگر وہ کوہِ بیستوں کو کھود کر اُس سے جوئے شِیر نکال دے تو اُسے شیریں کا وصل نصیب ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عینک ز دیده دور چو شد بی‌بصیرتی‌ست
شوکت دمی ز مردُمِ بینا جدا مباش
(شوکت بخاری)

عینک جب چشم سے دُور ہو جائے تو بے بصیرتی [چها جاتی] ہے؛ اے شوکت! ایک لمحہ [بھی] مردُمِ بینا (یعنی صاحبِ بصیرت مردُم) سے جدا مت ہو!

× لفظِ 'بصیرت' مجازاً 'دانائی و زیرکی و روشن بینی' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افتادگی به شرطِ ادب جایِ عزت است
جایی که نقشِ سجده شوی نقشِ پا مباش
(شوکت بخاری)

اُفتادگی، شرطِ ادب کے ساتھ، عزّت کا مقام ہے۔۔۔ جس جا کہ تم نقشِ سجدہ بن جاؤ، وہاں نقشِ پا مت پنو۔

× ایک جگہ مصرعِ اول میں 'جایِ عزت' کی بجائے 'اوجِ عزت' نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای نشانِ پایت از چشمِ غزالان شوخ‌تر
سایهٔ مژگانت از مژگانِ خوبان شوخ‌تر
(شوکت بخاری)

اے کہ تمہارے قدم کا نشان غزالوں کی چشم سے شوخ تر ہے؛ [اور اے کہ] تمہاری مِژگاں کا سایہ خُوب رُویوں کی مژگاں سے شوخ تر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بیا به مُلکِ قناعت که کم‌تر است اینجا
سَوادِ مُلکِ سلیمان ز سایهٔ پرِ مور

(شوکت بخاری)
مُلکِ قناعت میں آؤ کہ یہاں سرزمینِ مملکتِ سلیمان چیونٹی کے پر کے سائے سے [بھی] کم تر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مورِ ما عزمِ رهِ مُکِ قناعت دارد
شاه‌راه است کفِ دستِ سلیمان ما را
(شوکت بخاری)

ہماری چیونٹی مُلکِ قناعت کی راہ کا عزم رکھتی ہے؛ کفِ دستِ سلیمان ہمارے لیے (یا ہمارے نزدیک) شاہراہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دعایِ خاکساران می‌کند امداد شاهان را
که بادِ شه‌پرِ موری کَشَد تختِ سلیمان را
(شوکت بخاری)

خاکساروں کی دعا شاہوں کی مدد کرتی ہے؛ کہ کسی چیونٹی کے شہپر کی ہوا تختِ سلیمان کو کھینچتی ہے۔
 
Top