محمد وارث

لائبریرین
گہے بوسم بمستی پائے خُم گہہ دستِ پیمانہ
کنم دریوزۂ فیض از بزرگ و خردِ مے خانہ


مولانا عبدالرحمٰن جامی

مستی میں کبھی تو خُم کی پابوسی کرتا ہوں اور کبھی پیمانے کی دست بوسی، میں میخانے کے بزرگ و خرد، بڑے اور چھوٹے سب سے فیض کی بھیک حاصل کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تاجکستان میں افغانستان کے سفیر عبدالغفور آرزو کی ایک نظم سے اقتباس:

تاجیکستان
تاجیکستان
ای کهن منظومهٔ سبزِ خراسان
یادِ یارِ مهربانت جاودان بادا
بوی جوی مولیانت جاودان بادا
جاودان بادا سرودت
نغمه‌های چنگ و عودت
چشمه‌سارانت خروشان باد
کوه‌سارانت زرافشان باد
ای کهن منظومهٔ سبزِ خراسان
تاجیکستان!
(عبدالغفور آرزو)


ترجمہ:
تاجکستان
تاجکستان
اے خراسان کے سبز منظومۂ کہن
تمہارے یارِ مہرباں کی یاد جاوداں ہو
تمہاری جُوئے مولیاں کی بُو جاوداں ہو
جاوداں ہو تمہارا سُرود
اور تمہارے چنگ و عود کے نغمے
تمہارے چشمہ ساراں خروشاں ہوں
تمہارے کوہ ساراں زرافشاں ہوں
اے خراسان کے سبز منظومۂ کہن
تاجکستان!
یادِ یارِ مهربانت جاودان بادا
بوی جوی مولیانت جاودان بادا
'مولیان' بخارا میں بہنے والے دریا کا نام ہے، اور یہاں رودکی کے اس مشہور قصیدے کی جانب اشارہ ہے:
بوی جوی مولیان آید همی
یادِ یارِ مهربان آید همی
 
آخری تدوین:
دید مجنوں را یکے صحرا نَوَرد
در میانِ بادیہ بِنشَستہ فرد
کردہ صفحہ ریگ و انگشتاں قلم
مےزند با اشکِ خونیں ایں رقم
گفت اے مجنونِ شیدا، چیست ایں؟
مے نویسی نامہ بہرِ کیست ایں؟
گفت: مشقِ نامِ لیلیٰ مے کنم
خاطرِ خود را تسلی مے کنم
چوں میسر نیست من را کامِ او
عشق بازی مےکنم با نامِ اُو
(مولوی رومی)

ایک صحرا نورد نے مجنون کو تنہا صحرا میں بیٹھے دیکھا۔وہ ریت کو صفحہ بنائے اور انگلیوں کو قلم بنائے خونیں اشکوں سے خط لکھ رہا تھا۔صحرا نورد نے پوچھا کہ اے مجنونِ دیوانہ یہ کیا ہے؟ کس کے لئے خط لکھ رہے ہو؟
مجنون بولا کہ لیلیٰ کے نام کی مشق کررہا ہوں، اپنے دل کو تسلی دے رہا ہوں۔ مجھے چونکہ اس کا دیدار میسر نہیں، لہٰذا اس کے نام سے عشق کررہا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بہ تیغم بزنی با تو مرا خصمی نیست
خصم آنم کہ میانِ من و تیغت سپر است


شیخ سعدی شیرازی

اگر تُو مجھ پر تلوار چلائے تو تیرے ساتھ میری کچھ دشمنی نہیں ہے،میں تو اُس کا دشمن ہوں کہ جو میرے اور تیری تلوار کے درمیان سپر بنے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چند استغنا، چه کم گردد ز جاه و حشمتت
گر به چشمِ مرحمت سوی غریبان بنگری
(عبدالرحمٰن جامی)

(اے یار،) بے نیازی کب تک؟۔۔۔ اگر تم چشمِ مہربانی سے غریبوں کی جانب نگاہ کر لو تو تمہاری جاہ و حشمت میں سے کیا کم ہو جائے گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
چو بی لبِ تو دل اندیشهٔ شراب کند
ز سینه آه برآید که دل کباب کند
(عبدالله هاتفی)

جب تمہارے لب کے بغیر دل شراب کا خیال کرتا ہے تو سینے سے (ایک ایسی) آہ ابھرتی ہے جو دل کو کباب کر دیتی ہے۔

× یہ عبدالرحمٰن جامی کے خواہر زادے تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قصهٔ لیلی مخوان و غصهٔ مجنون
عهدِ تو منسوخ کرد ذکرِ اوایل
(سعدی شیرازی)

(اے یار،) لیلیٰ کا قصہ اور مجنوں کا غم مت پڑھو۔۔۔ تمہارے زمانے نے قُدَماء کا ذکر منسوخ کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
آن کس که لِوای عشق بر دوش آید
با نیستیِ ابد هم‌آغوش آید
گر صور دمند و گر مسیحا آرند
این کشته نه مستی‌ست که با هوش آید
(عرفی شیرازی)

جس شخص کے شانے پر عشق کا پرچم آتا ہے، وہ ابدی نیستی کے ساتھ ہم آغوش ہو جاتا ہے؛ خواہ صور پھونکا جائے یا خواہ مسیحا کو لایا جائے، یہ کشتہ وہ مست نہیں ہے کہ ہوش میں آ جائے۔
 
گفتم: چشمم... گفت: به راهش می‌دار
گفتم: جگرم... گفت: پر آهش می‌دار
گفتم که: دلم... گفت: چه داری در دل؟
گفتم: غم تو، گفت: نگاهش می‌دار!

میں نے کہا میرے آنکھیں اس نے کہا اپنا راستہ پہچان
میں نے کہا میرا جگر، اس نے کہا چیر پھینک
میں نے کہا میرا دل، کیا ہے تیرے دل میں، اس نے پوچھا
میں نے کہا تیرا درد، اس نے کہا پھر اس کی حفاظت کر
مولانا رومی
 

حسان خان

لائبریرین
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرچه گشتم به تیغِ هجر قتیل
لَیْسَ قلبی اِلیٰ سِواكَ یَمِیل
(عبدالرحمٰن جامی)

اگرچہ میں تیغِ ہجر سے قتیل ہو گیا ہوں، (پھر بھی) میرا دل تمہارے سوا کسی پر مائل نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:
مولانا رومی کی ایک غزل سے چند اشعار کا انتخاب، جو انہوں نے شمس تبریز کے بارے میں کہے تھے۔شمس تبریزی عوام کی طرف سے کفر کے جھوٹے الزام کے نتیجے میں دمشق چلے گئے تھے۔ یہ اشعار اس وقت کہے گئے تھے جب شمس تبریزی دمشق سے مولانا کے کہنے پر واپس آگئے تھے اور ان کا استقبال ایک شرمندہ ہجوم نے کیا تھا۔ (لیکن بعد میں وہ قتل کردیے گئے تھے)۔ یہ تفصیل اس ویڈیو سے لی گئی ہے۔

معشوقہ بہ سامان شد تا بادا چنیں بادا
کفرش ہمہ ایمان شد تا باد چنیں بادا
عید آمد و عید آمد یارے کہ رمید آمد
عیدانہ فراوان شد تا باد چنیں بادا
زاں طلعتِ شاہانہ زاں مشعلہِ خانہ
ہر گوشہ چوں میدان شد تا باد چنیں بادا


ان اشعار کا اردو میں بامحاورہ ترجمہ چاہیے۔
اس غزل کو مرحوم احمد ظاہر نے بےانتہا خوبصورتی سے گایا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معشوقہ بہ سامان شد تا بادا چنیں بادا
کفرش ہمہ ایمان شد تا باد چنیں بادا
عید آمد و عید آمد یارے کہ رمید آمد
عیدانہ فراوان شد تا باد چنیں بادا
زاں طلعتِ شاہانہ زاں مشعلہِ خانہ
ہر گوشہ چوں میدان شد تا باد چنیں بادا
معشوقہ آراستہ ہو گئی، جب تک رہے یوں ہی رہے
اُس کا سارا کفر ایمان ہو گیا، جب تک رہے یوں ہی رہے
عید آ گئی، عید آ گئی، جو یار دور بھاگ گیا تھا آ گیا
عیدی فراواں ہو گئی، جب تک رہے یوں ہی رہے
اُس طلعت شاہانہ سے اور اُس مشعلِ خانہ سے
ہر گوشہ میدان کی طرح ہو گیا، جب تک رہے یوں ہی رہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حیف آیدم که پای همی بر زمین نهی
کاین پای لایق است که بر چشمِ ما رود
(سعدی شیرازی)

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ تم زمین پر پیر رکھتے ہو کہ یہ پیر تو ہماری چشم پر چلنے کا لائق ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از بس خیالِ من شدہ لبریز جلوہ اش
ہر جا کہ سر بسجدہ نہم نقشِ پائے اُوست


غنیمت کنجاہی

چونکہ میرا (پیمانۂ) خیال اُس کے جلوؤں سے لبالب بھرا ہوا ہے سو جس جگہ بھی میں سجدے کے لیے سر رکھتا ہوں (جُھکنے کی وجہ سے چھلک کر) وہیں اُس کا نقشِ پا بن جاتا ہے۔
 
زندگانی بود از بس باعثِ آزارِ ما
گشت آسان در نظرہا مردنِ دشوارِ ما

(خواجہ میر درد)

یہاں مردنِ دشوار سے مراد تکلیف دہ موت ہے یا مرگ بعد از عمرِدراز ؟
 

حسان خان

لائبریرین
زندگانی بود از بس باعثِ آزارِ ما
گشت آسان در نظرہا مردنِ دشوارِ ما

(خواجہ میر درد)

یہاں مردنِ دشوار سے مراد تکلیف دہ موت ہے یا مرگ بعد از عمرِدراز ؟
دشوار موت یا موت کا دشوار مرحلہ۔
شعر کا ترجمہ: زندگی اس قدر ہمارے آزار کا باعث تھی کہ (ہماری) نظروں میں ہماری دشوار موت آسان ہو گئی۔
 

شفاعت شاہ

محفلین
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

(امیر خسرو)

تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
 

شفاعت شاہ

محفلین
کلام حضرت لال شہباز قلندر (رحمة الله عليه):

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کرتا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کرتا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ، کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں رسوائی کے سو سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کے لیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم

سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں، کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد رقص کرتا ہوں۔

مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم

اے ظاہر دیکھنے والے مدعی! مجھے طعنہ مت مار، میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار رقص کرتا ہوں۔

ز عشقِ دوست ہر ساعت درونِ نار می رقصم
گاہے بر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

دوست کے عشق میں ہر گھڑی آگ میں رقص کرتا ہوں، کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں، کبھی کانٹے پر رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی، شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔
 
Top