محمد وارث

لائبریرین
تو دل ندَاری و غم ھم نداری، امّا، من
خوشم از ایں کہ دلے دارم و غمے دارم


تو دل نہیں رکھتا اور غم بھی نہیں، لیکن میں خوش ہوں کہ دل بھی رکھتی ہوں اور غم بھی۔

ز سیلِ کینۂ دشمن چہ غم خورم سیمیں
کہ ھمچو کوہم و بُنیانِ محکمے دارم

اے سیمیں، میں دشمن کے کینہ کے سیلاب سے کیا غم کروں کہ میں پہاڑ کی طرح ہوں اور محکم بنیادیں رکھتی ہوں۔

(خانم سیمیں بہبہانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
تا منفعل ز رنجشِ بے جا نَبینَمَش
می آرم اعترافِ گناہ نبودہ را


تا کہ میں اُسے بے جا رنجش کی وجہ سے پشیمان نہ دیکھوں، میں ان گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں جو مجھ سے سرزد نہیں ہوئے۔

منظورِ یار گشت نظیری کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔

(محمد حسین نظیری نیشاپوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
دراں دلے کہ توئے یادِ دیگری کردَن
درونِ کعبہ پَرستیدن است عزّیٰ را


(مُلّا شیری)

اگر تُو نے اپنے دل میں کسی دوسرے کو یاد کیا (تو یہ ایسے ہی ہے جیسے) کعبہ کے اندر عزّیٰ (بت) کی پرستش کرنا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر سلیمانے کہ خود را کمتر از مورے ندید
عاقبت بر باد رفت و آں سلیمانی گذشت


(جمال خان ناصحی)

ہر اس سلیمان (فرمانروا) نے جس نے اپنے آپ کو ایک چیونٹی سے بھی کمتر نہ سمجھا (عاجزی کا اظہار نہ کیا اور غرور و تکبر کیا تو) اسکی عاقبت ہوا میں اڑ گئی اور سلیمانی (فرمانروائی کہ جس کا غرور تھا) وہ بھی گئی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دورِ گردوں گر دو روزے بر مرادِ ما نرفت
دائماً یکساں نباشد حالِ دوراں، غم مخور


آسمان کی گردش اگر دو روز ہماری مراد کے مطابق نہیں چلی (تو کیا ہوا کہ) زمانے کا حال ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، غم نہ کر!

حافظا در کنجِ فقر و خلوتِ شب ہائے تار
تا بُوَد وردت دعا و درسِ قرآں، غم مخور

اے حافظ فقر کے گوشے اور تاریک راتوں کی تنہائی میں، جب تک تیرا ورد دعا اور درسِ قرآن ہے (کسی بھی چیز کا) غم مت کھا۔

(حافظ شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
دِلَت اے سنگدل بر ما نسوجہ
عجب نبوہ اگر خارا نسوجہ
بسوجم تا بسوجونم دلت را
در آتش، چوبِ تر تنہا نسوجہ


(بابا طاہر عریاں)

اے سنگدل، تیرا دل ہماری خاطر نہیں جلتا، کچھ عجیب بات نہیں ہے اگر پتھّر نہ جلے، میں خود جلوں گا تا کہ تمھارے دل کو جلا سکوں، کیونکہ (تیرے دل جیسی) گیلی لکڑی آگ میں اکیلے نہیں جلتی۔

یوں تو ہر جگہ (ایران و افغانستان و پاکستان میں) اس کلام کو بابا طاہر عریاں کی رباعیات ہی کہا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ رباعی کے متعین اوزان میں نہیں ہیں سو واضح کرنے کیلیے ان کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بجہانِ درد منداں، تو بگو چہ کار داری؟
تب و تابِ ما شناشی؟ دلِ بے قرار داری؟


درد مندوں کے جہان سے تُو خود ہی کہہ کہ تجھے کیا کام ہے، کیا تو ہماری تب و تاب اور تڑپ کو پہچانتا ہے؟ کیا تو (ہماری طرح) بے قرار دل رکھتا ہے؟

چہ خبر ترا ز اشکے، کہ فرو چکَد ز چشمے
تو بہ برگِ گُل ز شبنم، دُرِ شاہوار داری


تجھے کیا خبر اس آنسو کی، جو کسی (درد مند) کی آنکھ سے ٹپکتا ہے، تُو تو پھول کی پتی پر شبنم کا شاہانہ موتی رکھتا ہے۔

چہ بگویَمَت ز جانے کہ نفَس نفَس شُمارَد
دمِ مستعار داری؟ غمِ روزگار داری؟


میں تجھ سے اپنی اُس جان کے متعلق کیا کہوں کہ جو ایک ایک سانس شمار کر کے گزر رہی ہے (تو اس کییفت کو کیا سمجھ سکے گا کہ) کیا تو (ہماری طرح) مستعار کی زندگی رکھتا ہے؟ کیا تُو جانتا ہے کہ غمِ روزگار کیا ہے؟

(اقبال لاھوری - زبورِ عجم)
 

مغزل

محفلین
چو محوِ عشق شدی رہنما چہ می جوئی
بہ بحر غوطہ زدی ناخدا چہ می جوئی
بہ ذوقِ دل نفسی طوفِ خویش کن بیدل
تو کعبہ در بغلی جا بجا چہ می جوئی

بیدل

(ترجمہ درکار ہے )
 

محمد وارث

لائبریرین
چو محوِ عشق شدی رہنما چہ می جوئی
بہ بحر غوطہ زدی ناخدا چہ می جوئی
بہ ذوقِ دل نفسی طوفِ خویش کن بیدل
تو کعبہ در بغلی جا بجا چہ می جوئی

بیدل

(ترجمہ درکار ہے )

جب تو عشق میں محو ہو گیا تو راہنما کیوں ڈھونڈتا ہے، جب سمندر میں غوطہ لگا دیا تو پھر ناخدا کی تلاش کیونکر، بیدل ذوقِ دل کے ساتھ اپنا ہی طواف کر، کہ کعبہ تو تیری بغل میں ہے تو جا بجا کیا ڈھونڈتا ہے!
 
ان اشعار کا مطلب اور شاعر کا نام کوئی مرحمت فرمادے تو نوازش ہوگی:

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری

نہ بہ جادہء قرارش، نہ بہ منزلے مقامش
دلِ من، مسافرِ من کہ خداش یار بادا
 
ان اشعار کا مطلب اور شاعر کا نام کوئی مرحمت فرمادے تو نوازش ہوگی:

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آیدیں آوازَ دوست

نہ بہ جادہء قرارش، نہ بہ منزلے مقامش
دلِ من، مسافرِ من کہ خداش یار بادا
 

کاشفی

محفلین
ذوقِ مُحبت کی خامی

فارسی
چو نبُودَ عشقِ عاشق را کمالے
نہ بند و جُز مُرداِ خود خیالے

طفیلِ خویش خواہد یارِ خُود را
بکامِ خویش ساز و کار خُود را

ببوئے یک گُل ازبستانِ معشوق
زند صد خارِ غم بر جانِ معشوق

(مُلاّ جامی رحمتہ اللہ علیہ - 1484ء)


انگریزی
When love is not perfect, with one sole thought-
Himself - is the heart of the lover fraught.
He looks on his love as a charming toy,
The spring and source of his selfish joy.
One rose he would pluck from his love, and leave
A hundred thorns her lorn heart to grieve.

(R.T.H. Griffith – 1888۔)


اُردو
خامیء ذوقِ محبت نے جہاں میں اکثر
حُسن کو رنج و مصیبت میں گرفتار کیا

جذبہء شوق کی تسکین کا ساماں چاہا
اُن سے جب پیار کیا اپنے لئے پیار کیا

"عشق خود کام" نے ایک لمحہء عشرت کے لئے
"حُسنِ معصوم" کو آزردہ و بیزار کیا

چَمنِ ناز سے اک گُل کی تمنا میں حفیظ
دلِ محبوب کو محنت کشِ صد خار کیا

(حفیظ ہوشیار پوری 1935ء)
 

محمد وارث

لائبریرین
سماعِ دُرد کشاں، صُوفیاں چہ می دانند
ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر


(نظیری نیشاپوری)

تلچھٹ (دُرد) پینے والوں کے سماع کو صُوفی کیا جانیں، آگ میں جل کر زندہ رہنے والے (سمندر) کے طریق کا آگ میں جل کر ختم ہو جانے والی حرمل کو کیا خبر۔
 
تیسری مرتبہ عرض کررہا ہوں۔ میری اس پوسٹ کو شرفِ پسندیدگی عطا کرنے کے بجائے ان اشعار کا مطلب اور شاعر کا نام کوئی مرحمت فرمادے تو نوازش ہوگی:

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آیدیں آوازَ دوست

نہ بہ جادہء قرارش، نہ بہ منزلے مقامش
دلِ من، مسافرِ من کہ خداش یار بادا
 

فرخ منظور

لائبریرین
تیسری مرتبہ عرض کررہا ہوں۔ میری اس پوسٹ کو شرفِ پسندیدگی عطا کرنے کے بجائے ان اشعار کا مطلب اور شاعر کا نام کوئی مرحمت فرمادے تو نوازش ہوگی:

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آیدیں آوازَ دوست

نہ بہ جادہء قرارش، نہ بہ منزلے مقامش
دلِ من، مسافرِ من کہ خداش یار بادا

میرا خیال ہے یہ مولانا روم کے اشعار ہیں۔ کیونکہ ایک شعر علامہ اقبال کی کتاب بالِ جبریل میں نظم "پیر و مرید" کے تحت ملتا ہے۔ ترجمہ بتانے سے قاصر ہوں شاید وارث صاحب یا شاکر القادری صاحب بہتر بتا سکیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تیسری مرتبہ عرض کررہا ہوں۔ میری اس پوسٹ کو شرفِ پسندیدگی عطا کرنے کے بجائے ان اشعار کا مطلب اور شاعر کا نام کوئی مرحمت فرمادے تو نوازش ہوگی:

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آیدیں آوازَ دوست

نہ بہ جادہء قرارش، نہ بہ منزلے مقامش
دلِ من، مسافرِ من کہ خداش یار بادا

آپ 'جن' سے استدعا کر رہے ہیں انہیں علم ہو تو ضرور بتانا چاہیئے، اگر آپ اس تھریڈ کا مطالعہ کریں یا اس تھریڈ میں تلاش کریں تو شاید پہلے دو اشعار کے متعلق معلومات مل جائیں، تیسرا شعر کن کا ہے معذرت کہ میں نہیں جانتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوبیتی

مُدامَم دل پُر آذر، دیدہ تر بی
خُمِ عیشم پُر از خونِ جگر بی
بَبُویَت زندگی یابَم پس از مرگ
ترا گر برسرِ خاکَم گذر بی


(بابا طاہر عریاں)

میرا دل ہمیشہ آگ سے پُر ہے، اور آنکھیں ہمیشہ اشکوں سے تر ہیں، میرا خمِ عیش میرے خونِ جگر سے پر ہے (تیرے بغیر دنیا میں کوئی راحت نہیں)، تری خوشبو سے مرنے کے بعد بھی میں زندگی پا لوں، اگر تیرا کبھی ہماری خاک کے اوپر سے گذر ہوا تو۔
 

شاہ حسین

محفلین
زبوی زلف تو مفتونم ای گل
زرنگ وری تو دلخونم ای گلُ
من عاشق زعشق بیقرارم
تو چون لیلی و من مجنونم ای گلُ

بابا طاھر عریان
 
Top